قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا : ” شِقْوَۃٌ“ بدبختی۔ ” الصحیح المسبور “ میں ہے کہ آدم بن ابی ایاس نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد کا قول نقل فرمایا ہے کہ آیت : (غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ) کا معنی ہے : ” اَلَّتِيْ کَتَبْتَ عَلَیْنَا “ یعنی ہم پر ہماری وہ بدبختی غالب آگئی جو تو نے ہم پر لکھی تھی۔ طبری نے بھی یہ قول نقل فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ ظالم اپنا عذر پیش کرتے ہوئے بھی سارا الزام اللہ تعالیٰ پر رکھیں گے، جیسا کہ شیطان نے بھی اپنی گمراہی کا الزام اللہ تعالیٰ کو دیا تھا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٦) ۔- وَكُنَّا قَوْمًا ضَاۗلِّيْنَ : ابن کثیر نے فرمایا : ” یعنی ہم پر حجت قائم ہوئی (اور ہم تک ہدایت کی بات پہنچی) لیکن ہم اس سے کہیں زیادہ بدبخت تھے کہ اس کے تابع ہوتے اور اس کی پیروی کرتے، سو ہم اس سے بھٹک گئے اور ہمیں ہدایت حاصل نہ ہوسکی۔ “
قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَاۗلِّيْنَ ١٠٦- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - شقي - الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ،- . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] - ( ش ق و ) اشقاوۃ - ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
(١٠٦) کفار دوزخ ہی میں عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار واقعی ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا جو ہمارے بارے میں لکھی جا چکی تھی سو ہم اپنے ارادہ سے ایمان نہیں لائے اور واقعی ہم کافر تھے۔