Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ناکام آرزو کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں گے تو انہیں جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہوگے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمان ہوگا جو دوزخیوں کو ہر کھیل سے مایوس کردے گا اللہ ہمیں بچائے اے رحمتوں والے اللہ ہمیں اپنے رحم کے دامن میں چھپالے اپنی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے بچالے آمین حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائیں گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں پڑے رہو ۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہوگی نہ اللہ جل وعلا کے پاس ۔ پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہم اپنی گمراہی میں ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل وخوار ہو کر اسی دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہوجائیں گے اور گدھوں کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہے گے اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں گے صورتیں مسخ ہوجائیں گی یہاں تک کہ بعض مومن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں گے لیکن یہاں کسی کو نہیں پہچانیں گے جہنمی انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں لیکن یہ جواب دیں گے کہ غلط ہے ہم تمہیں نہیں پہچانتے ۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں گے اور وہ جواب پائیں گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور یہ وہیں سڑتے رہیں گے ۔ انہیں شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لئے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے بندوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کی دعاؤں پر دل لگی کرتے تھے وہ مومن اپنے رب سے بخشش ورحمت طلب کرتے تھے اسے رحمن الراحمین کہہ کر پکارتے تھے لیکن یہ اسے ہنسی میں اڑتے تھے اور ان کے بغض میں ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں اور دعاؤں پر ہنستے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ 29؀ڮ ) 83- المطففين:29 ) یعنی گنہگار ایمانداروں سے ہنستے تھے اور انہیں مذاق میں اڑاتے تھے ۔ اب ان سے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے ایماندار صبر گذار بندوں کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات و فلاح پاچکے ہیں اور پورے کامیاب ہوچکے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] خساء کا لفظ کتے اور سور کو دھتکارنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے ہم پنجابی زبان میں کتے کو دھتکارنے یا دفع کرنے کے لئے در در کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لئے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل سمجھ کر دفع ہونے یا نکل جانے کو کہا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی التجا کے جواب میں فرمائے گا کہ تم اس قدر ذلیل مخلوق ہو کہ تمہارا اس جہنم میں پڑے رہنا ہی مناسب ہے اور دیکھو آئندہ مجھ سے کوئی ایسی التجا نہ کرنا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْهَا ۔۔ :” خَسَأَ یَخْسَأُ (منع) أَيْ ذَلَّ ۔ “ ” اخْسَـُٔـوْا “ ذلیل رہو، دفع دور رہو۔ یہ لفظ کتے وغیرہ کو دھتکارنے کے لیے بولا جاتا ہے، پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لیے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل قرار دے کر دور دفع ہونے کے لیے کہا جائے، یعنی اللہ تعالیٰ انھیں دھتکارتے ہوئے فرمائیں گے کہ اسی جہنم میں ذلیل اور دور دفع رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ بعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور یہ ان کا آخری کلام ہوگا، مگر انھی آیات میں آگے ان کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو آرہی ہے : (قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ ١١٢؁ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّيْنَ ) [ المؤمنون : ١١٢، ١١٣ ] ” فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی کوئی روایت صحیح نہیں۔ البتہ آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی درخواست حقارت کے ساتھ رد کردی جائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَا تُكَلِّمُوْنِ ، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اہل جہنم کا یہ آخری کلام ہوگا جس کے جواب میں حکم ہوجائے گا کہ ہم سے کلام نہ کرو پھر وہ کسی سے کچھ کلام نہ کرسکیں گے جانوروں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بھونکیں گے۔ اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ قرآن میں اہل جہنم کی پانچ درخواستیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے چار کا جواب دیا گیا اور پانچویں کے جواب میں حکم ہوگیا لَا تُكَلِّمُوْنِ بس یہ ان کا آخری کلام ہوگا اس کے بعد کچھ نہ بول سکیں گے۔ (مظھری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝ ١٠٨- خسأ - خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] .- ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٨) ارشاد خداوندی ہوگا کہ اسی جہنم میں راندے ہوئے پڑے رہو اور یہاں سے نکلنے کے بارے میں مجھ سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :98 یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو ۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو ۔ یہ مطلب نہیں ہے ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہوگا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی ۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے ۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں ، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani