Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] اوپر اسی سورة کی آیت نمبر ١٠٩ میں ذکر ہوا ہے کہ جب میرے بندے مجھ سے مغفرت اور رحم کی دعا کرتے تو کافر ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا انجام بتلانے کے بعد پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ سے رحم اور مغفرت کی دعا مانگتے رہا کریں۔ اور اللہ چونکہ سب سے بڑھ کر اور سب سے رحم کرنے والا ہے لہذا تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ وہ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہاری تقصیرات اور خطاؤں کو معاف فرما دے گا۔- سورۃ النور

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سورت کی ابتدا ان لوگوں کے ذکر سے ہوئی تھی جو فلاح پانے والے ہیں اور اختتام ان لوگوں کے ذکر سے ہو رہا ہے جو فلاح نہیں پائیں گے۔ - وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ ۔۔ : اس سے پہلے آیت (١٠٩) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کامیاب ہونے والے بندوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ یہ دعا ” رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ کرتے ہیں اور سورت کے آخر میں انھی بندوں کی طرح کفار و مشرکین سے کٹ کر اپنے رب کی مغفرت اور رحمت کے دامن میں پناہ لینے کا حکم دیا۔ وہ تمام دعائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لفظ ” قُلْ “ کے ساتھ حکم دیا ہے، نہایت جامع دعائیں ہیں اور عجیب و غریب اسرار رکھتی ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرنے کا حکم ہے، جن کے پہلے پچھلے تمام گناہ اللہ نے معاف فرما دیے (دیکھیے فتح : ٢) تو امت کو تو بدرجۂ اولیٰ یہ دعا کرنے کا حکم ہے۔ - 3 ابن کثیر نے فرمایا : ” اَلْغَفْرُ “ کا لفظ جب مطلق آئے تو اس کا معنی گناہ کو مٹانا اور لوگوں کے سامنے اس پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے اور ” رحمت “ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اقوال و افعال میں سیدھا رکھے اور اپنی توفیق خاص سے نوازے۔- وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ : یہ مختصر جملہ ہے، مکمل جملہ یوں ہے : ” رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ فَأَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ وَ أَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ “ اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے آیت (١٠٩) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ سب رحم کرنے والوں سے بہتر اس لیے ہے کہ دوسرے سب رحم کرنے والے اسی کا عطا کردہ رحم کرتے ہیں اور وہ بھی اس کی رحمت کے سویں حصے میں سے اپنے حصے میں آنے والے رحم سے۔ - 3 ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ” مجھے ایسی دعا سکھائیں جو میں اپنی نماز میں کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، یوں کہو : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِيْ إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) [ بخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام : ٨٣٤ ] ” اے اللہ یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، بہت زیادہ ظلم اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا، سو مجھے بخش دے، عظیم بخشش اپنے پاس سے اور مجھ پر رحم کر، کیونکہ تو ہی غفور و رحیم ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ یہاں اغفر اور ارحم دونوں کا مفعول ذکر نہیں کیا گیا کہ کیا معاف کریں اور کس چیز پر رحم کریں اس سے اشارہ عموم کی طرف ہے کہ دعاء مغفرت شامل ہے ہر مضر اور تکلیف دہ چیز کے ازالہ کو اور دعا رحمت شامل ہے ہر مراد اور محبوب چیز کے حاصل ہونے کو۔ کیونکہ دفع مضرت اور جلب منفعت جو انسانی زندگی اور اس کے مقاصد کا خلاصہ ہیں دونوں اس میں شامل ہوگئے (مظھری) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا مغفرت و رحمت کی تلقین باوجودیکہ آپ معصوم اور مرحوم ہی ہیں دراصل امت کو سکھانے کیلئے ہے کہ تمہیں اس دعا کا کتنا اہتمام کرنا چاہئے (قرطبی)- اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ ، سورة مومنون کی ابتدا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ سے ہوئی تھی اور انتہا لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ پر کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ فلاح یعنی مکمل کامیابی مومنین ہی کا حصہ ہے کفار اس سے محروم ہیں۔- تمت سورة المومنون فی ثمانیة ایام من اول المحرم ١٣٩١ ھ وذلک فی یوم عاشوراء یوم الاثنین وللہ الحمد اولہ واخرہ وایاہ اسال التوفیق لاتمام الباقی کما یحب و یرضاہ وان یتقبل منی و یجعلہ ذخرا لاخرتی و ھو المستعان۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ۝ ١١٨ۧ- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٨) اور اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو یوں دعا کیا کیجیے کہ اے میرے پروردگار میری امت کی خطائیں معاف کر اور میری امت پر رحم فرما اور اس کو عذاب مت دے یقینا تو ہی ارحم الراحمین ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :107 یہاں اس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے ۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آچکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے ، تم ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ( اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں ۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani