2 2 1یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔
وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ : ”ۙ وَعَلَيْهَا “ (ان پر) سے مراد اونٹ ہیں، جو صحرا کے جہاز ہیں۔ عرب میں سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اونٹ ہی استعمال ہوتے تھے اور اونٹوں کے لیے ” خشکی کے جہاز “ کا استعارہ قدیم زمانے سے معروف ہے۔ ذو الرُّمّہ شاعر اپنی اونٹنی کے متعلق کہتا ہے - طُرُوْقًا وَجُلْبُ الرَّحْلِ مَشْدُوْدَۃٌ بِھَا - سَفِیْنَۃُ بَرٍّ تَحْتَ خَدِّيْ زِمَامُھَا - ” رات کا وقت تھا اور ” جُلْبُ الرَّحْلِ “ (پالان کی لکڑیوں) کے ساتھ خشکی کا جہاز بندھا ہوا تھا، جس کی مہار میرے رخسار کے نیچے تھی۔ “ (اضواء البیان) - خشکی کے جہازوں کی مناسبت سے بحری جہازوں کی نعمت کا ذکر بھی فرما دیا ہے۔ ” سوار ہوتے ہو “ کے بجائے ” سوار کیے جاتے ہو “ کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ (اور ہاتھی) جیسے عظیم الجثّہ جانوروں پر سوار ہونا اور انھیں اپنا تابع فرمان بنانا تمہارے بس کی بات نہیں، بلکہ ان پر سوار کرنا اور انھیں تمہارے تابع فرمان بنادینا ہمارا کام ہے، یقین نہ ہو تو ان سے بدرجہا چھوٹے جانوروں، مثلاً ہرن، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور چیتے وغیرہ کو ان کی طرح مانوس کرکے دکھاؤ۔ اسی طرح ہماری عظیم الشان مخلوق سمندر کہ جس کے مقابلے میں تم اتنے بھی نہیں جتنا صحرا کے مقابلے میں ریت کا ذرہ، اس پر سوار ہونا اور اس کا تمہیں اپنے سینے پر اٹھائے رکھنا تمہارے بس کی بات نہیں، یہ تو ہم ہیں جو تمہیں کشتیوں میں سوار کرکے اسے تمہارے تابع کردیتے ہیں، اگر یقین نہ ہو تو ان طوفانوں کو یاد کرو جن کی بلاخیزی سے پہاڑوں جیسے جہاز آنکھ جھپکنے میں اس کی آغوش میں ڈوب جاتے ہیں۔
وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ ، فلک یعنی کشتیوں ہی کے حکم میں وہ تمام سواریاں بھی ہیں جو پہیوں کے ذریعہ چلنے والی ہیں۔
وَعَلَيْہَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ ٢٢ۧ- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔
آیت ٢٢ (وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ ) ” - چنانچہ ان سب چیزوں اور نعمتوں میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :23 مویشیوں اور کشتیوں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اونٹ استعمال کرتے تھے ، اور اونٹوں کے لیے خشکی کے جہاز کا استعارہ بہت پرانا ہے ۔ جاہلیت کا شاعر ذوالرُّمَّہ کہتا ہے : ؏ سفینۃ برٍّ تحت خدی زمامھا