عادوثمود کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی امتیں آئیں جیسے عاد جو ان کے بعد آئی یا ثمود قوم جن پر چیخ کا عذاب آیا تھا ۔ جیسے کہ اس آیت میں ہے ان میں بھی اللہ کے رسول علیہ السلام آئے اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی تعلیم دی ۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا ، مخالفت کی ، اتباع سے انکار کیا ۔ محض اس بناپر کے یہ انسان ہیں ۔ قیامت کو بھی نہ مانا ، جسمانی حشرکے منکر بن گئے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل دور از قیاس ہے ۔ بعثت ونشر ، حشر و قیامت کوئی چیز نہیں ۔ اس شخص نے یہ سب باتیں از خود گھڑلی ہیں ہم ایسی فضول باتوں کے مانے والے نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ان پر مدد طلب کی ۔ اسی وقت جواب ملاکہ تیری ناموافقت ابھی ابھی ان پر عذاب بن کر برسے گی اور یہ آٹھ آٹھ آنسو روئیں گے ۔ آخر ایک زبردست چیخ اور بےپناہ چنگھاڑ کے ساتھ سب تلف کردئیے گئے اور وہ مستحق بھی اسی کے تھے ۔ تیزوتند آندھی اور پوری طاقتور ہوا کے ساتھ ہی فرشتے کی دل دہلانے والی خوف ناک آواز نے انہیں پارہ پارہ کردیا وہ ہلاک اور تباہ ہوگئے ۔ بھوسہ بن کر اڑگئے ۔ صرف مکانات کے کھنڈر ان گئے گزرے ہوئے لوگوں کی نشاندہی کے لئے رہ گئے وہ کوڑے کرکٹ کی طرح ناچیز محض ہوگئے ۔ ایسے ظالموں کے لئے دوری ہے ۔ ان پر رب نے ظلم نہیں کیا بلکہ انہی کا کیا ہوا تھا جو ان کے سامنے آیا پس اے لوگو تمہیں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہے ۔
3 1 1اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیونکہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ : اس سے مراد اکثر مفسرین نے قوم عاد لی ہے، کیونکہ قوم نوح کے جانشین یہی لوگ بنے تھے۔ ہود (علیہ السلام) نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : (وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ) [ الأعراف : ٦٩ ] ” اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔ “ مگر بہت سے مفسرین نے اس سے مراد صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود لی ہے، کیونکہ یہاں ” اَلصَّیْحَةً “ (چیخ) کا ذکر ہے اور ” صیحہ “ یعنی چیخ سے ہلاک ہونے والے ثمود تھے۔ اس کے علاوہ اہل عرب کی نصیحت کے لیے قوم ثمود کا تذکرہ زیادہ موزوں تھا، کیونکہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے بنائے ہوئے مکانات مقام حجر میں ان کے سامنے موجود تھے۔ امام طبری، ابن عاشور اور مفسر سعدی وغیرہم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کسی قوم کا نام نہیں لیا، کیونکہ مراد تاریخ کا بیان یا قصہ گوئی نہیں بلکہ عبرت ہے کہ بعد میں آنے والوں نے بھی پہلوں کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہ کیا، آخر اللہ کی گرفت کا نشانہ بنے۔
خلاصہ تفسیر - پھر (قوم نوح کے بعد) ہم نے دوسرا گروہ پیدا کیا (مراد عاد ہے یا ثمود) پھر ہم نے ان میں ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان ہی میں کے تھے (مراد ہود (علیہ السلام) یا صالح علیہ السلام) ہیں، ان پیغمبر نے کہا کہ) تم لوگ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود (حقیقی) نہیں، کیا تم (شرک سے) ڈرتے نہیں ہو، اور (ان پیغمبر کی یہ بات سن کر) ان کی قوم میں سے جو رئیس تھے جنہوں نے (خدا اور رسول کے ساتھ) کفر کیا تھا اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو دنیوی زندگانی میں عیش بھی دیا تھا کہنے لگے کہ بس یہ تو تمہاری طرح ایک (معمولی) آدمی ہیں (چنانچہ) یہ وہی کھاتے ہیں جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتے ہیں جو تم پیتے ہو اور (جب یہ تمہارے ہی جیسے بشر ہیں تو) اگر تم اپنے جیسے ایک (معمولی) آدمی کے کہنے پر چلنے لگو تو بیشک تم (عقل کے) گھاٹے میں ہو (یعنی بڑی بےوقوفی ہے) کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور (مر کر) مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے (چنانچہ جب اجزاء لحمیہ خاک ہوجاتے ہیں تو ہڈیاں بےگوشت رہ جاتی ہیں پھر بعد چندے وہ بھی خاک ہوجاتی ہیں تو یہ شخص کہتا ہے کہ جب اس حالت پر پہنچ جاؤ گے) تو (پھر دوبارہ زندہ کر کے زمین سے) نکالے جاؤ گے (تو بھلا ایسا شخص کہیں قابل اطاعت و اتباع ہوسکتا ہے اور) بہت ہی بعید اور بہت ہی بعید ہے جو بات تم سے کہی جاتی ہے بس زندگی تو یہی ہماری دنیوی زندگی ہے کہ ہم میں کوئی مرتا ہے اور کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم دوبارہ زندہ نہ کئے جاویں گے بس یہ ایک ایسا شخص ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے (کہ اس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور کوئی دوسرا معبود نہیں اور قیامت آوے گی) اور ہم تو ہرگز اس کو سچا نہ سمجھیں گے۔ پیغمبر نے دعا کی کہ اے میرے رب میرا بدلہ لے اس وجہ سے کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا، ارشاد ہوا کہ یہ لوگ عنقریب پشیمان ہوں گے چناچہ ان کو ایک سخت آواز نے (یا سخت عذاب نے) موافق وعدہ برحق کے (کہ لَّيُصْبِحُنَّ نٰدِمِيْنَ ) آپکڑا (جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے) پھر (ہلاک کرنے کے بعد) ہم نے ان کو خس و خاشاک (کی طرح پامال) کردیا سو خدا کی مار کافر لوگوں پر۔- معارف و مسائل - اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بسلسلہ ہدایت ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالا بغیر نام متعین کئے ذکر کیا گیا ہے۔ آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد امتوں سے عاد یا ثمود یا دونوں ہیں۔ عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا اور ثمود کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) تھے۔ اس قصہ میں ان قوموں کا ہلاک ہونا ایک صیحہ یعنی غیبی سخت آواز کے ذریعہ بیان فرمایا ہے اور صیحہ کے ذریعہ ہلاک ہونا دوسری آیات میں قوم ثمود کا بیان ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے فرمایا کہ ان آیات میں قَرْنًا اٰخَرِيْنَ سے مراد ثمود ہیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صیحہ کا لفظ اس جگہ مطلق عذاب کے معنے میں لیا گیا ہو تو پھر یہ قوم عاد کے ساتھ بھی لگ سکتا ہے۔ واللہ اعلم
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ ٣١ۚ- نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی - [ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي :- يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں
(٣١۔ ٣٢) پھر ہم نے قوم نوح (علیہ السلام) کی ہلاکت کے بعد دوسرا گروہ پیدا کیا اور ان کی طرف ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان ہی میں سے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرلو اور جس خدائے وحدہ لا شریک پر میں تمہیں کو ایمان لانے کے لیے کہتا ہوں اس کے علاوہ اور کوئی اللہ نہیں کیا تم پھر غیر اللہ کی عبادت سے ڈرتے نہیں ہو۔
آیت ٣١ (ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ ) ” - اس سے مراد قوم عاد یا قوم ثمود ہے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :34 بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے ، کیونکہ آگے چل کر ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صیحہ کے عذاب سے تباہ کی گئی ، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود وہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا ، ( ہود ، 67 ۔ الحجر ، 83 ۔ القمر ، 31 ) ۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے قوم نوح کے بعد یہی قوم اٹھائی گئی تھی ، وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ( اعراف ۔ آیت 69 ) ۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ قوم نوح کے بعد کا اشارہ اسی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ رہا صَیْحَہ ( چیخ ، آواز ، شور ، ہنگامہ عظیم ) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اس آوازہ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کی موجب ہو ، اسی طرح اس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سبب ہلاکت کچھ ہی ہو ۔