3 4 1وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کرلو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہوسکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہوجاتا ہے۔
[٤٠] حالانکہ وہ خود بھی ایک عام انسان ہی تھے۔ اور عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ عوام کے مطاع بنے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ عوام ان کی اطاعت کریں۔ ان کا یہ پروپیگنڈا اس لئے نہ تھا کہ انسان مطاع نہیں بن سکتا۔ بلکہ صرف اس لئے تھا کہ کہیں لوگ نبی کی دعوت قبول کرکے ہماری اطاعت کو ترک کرکے اس کی اطاعت نہ کرنے لگ جائیں۔ گویا اصل خطرہ انھیں سرداروں کا تھا اور ان کے لئے تو یہ واقعی خسارہ کی بات تھی۔ لیکن لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ نبی کی اطاعت کرکے تم خسارہ میں رہو گے۔ گویا بشر ہونے کے باوجود ان کی اپنی اطاعت میں خسارے کی بات ان کے نزدیک خارج از بحث تھی۔
وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ ۔۔ : سورة قمر میں اسی قوم کے صالح (علیہ السلام) کے متعلق تحقیر سے بھرے ہوئے الفاظ ملاحظہ کریں، کہا : (فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ 24 ءَاُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ) [ القمر : ٢٤، ٢٥ ] ” پس انھوں نے کہا کیا ایک آدمی جو ہمیں سے ہے اکیلا، ہم اس کے پیچھے لگ جائیں ؟ یقیناً ہم تو اس وقت بڑی گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ کیا یہ نصیحت ہمارے درمیان میں سے اسی پر نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ بہت جھوٹا ہے، متکبر ہے۔ “ اپنے مال و جاہ پر مغرور سرداروں نے سرداری خطرے میں دیکھ کر دنیا اور آخرت کی ذلت قبول کرلی، مگر بیشمار نشان دیکھنے کے باوجود رسول پر ایمان لا کر تابع ہونا قبول نہ کیا۔ سرداری کی آفات میں سے یہ سب سے بڑی آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے رکھے۔
وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ ٠ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ٣٤ۙ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(٣٤) اور اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کا کہا مان لو تو واقعی تم بیوقوف اور خسارے میں ہو،
آیت ٣٤ (وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ) ” - ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :36 بعض لوگوں نے یہ غلط سمجھا ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے ۔ نہیں یہ خطاب دراصل عوام الناس سے تھا ۔ سرداران قوم کو جب خطرہ ہوا کہ عوام پیغمبر کی پاکیزہ شخصیت اور دل لگتی باتوں سے متاثر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے متاثر ہو جانے کے بعد ہماری سرداری پھر کس پر چلے گی ، تو انہوں نے یہ تقریریں کر کر کے عام لوگوں کو بہکانا شروع کیا ۔ یہ اسی معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے جو اوپر سرداران قوم نوح کے ذکر میں بیان ہوا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبری ویغمبری کچھ نہیں ہے ، محض اقتدار کی بھوک ہے جو اس شخص سے یہ باتیں کرا رہی ہے ۔ یہ فرماتے ہیں کہ بھائیو ، ذرا غور تو کرو کہ آخر یہ شخص تم سے کس چیز میں مختلف ہے ۔ ویسا ہی گوشت پوست کا آدمی ہے جیسے تم ہو ۔ کوئی فرق اس میں اور تم میں نہیں ہے ۔ پھر کیوں یہ بڑا بنے اور تم اس کے فرمان کی اطاعت کرو؟ ان تقریروں میں یہ بات گویا بلا نزاع تسلیم شدہ تھی کہ ہم جو تمہارے سردار ہیں تو ہمیں تو ہونا ہی چاہیے ، ہمارے گوشت پوست اور کھانے پینے کی نوعیت کی طرف دیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ زیر بحث ہماری سرداری نہیں ہے ، کیونکہ وہ تو آپ سے آپ قائم اور مسلم ہے ، البتہ زیر بحث یہ نئی سرداری ہے جو اب قائم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کی بات سرداران قوم نوح کی بات سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جن کے نزدیک قابل الزام اگر کوئی چیز تھی تو وہ اقتدار کی بھوک تھی جو کسی نئے آنے والے کے اندر محسوس ہو یا جس کے ہونے کا شبہ کیا جا سکے ۔ رہا ان کا اپنا پیٹ ، تو وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار بہرحال اس کی فطری خوراک ہے جس سے اگر وہ بد ہضمی کی حد تک بھی بھر جائے تو قابل اعتراض نہیں ۔