Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اکثریت ہمشہ بدکاروں کی رہی ان کے بعد بھی بہت سی امتیں اور مخلوق آئی جو ہماری پیدا کردہ تھی ۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی اجل جوقدرت نے مقرر کی تھی ، اسے اس نے پورا کیا نہ تقدیم ہوئی نہ تاخیر ۔ پھر ہم نے پے درپے لگاتار رسول بھیجے ۔ ہر امت میں پیغمبر آیا اس نے لوگوں کو پیغام الٰہی پہنچایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے ماسوا کسی کی پوجا نہ کرو ۔ بعض راہ راست پر آگئے اور بعض پر کلمہ عذاب راست آگیا ۔ تمام امتوں کی اکثریت نبیوں کی منکر رہی جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا آیت ( يٰحَسْرَةً عَلَي الْعِبَادِ ڱ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ 30؀ ) 36-يس:30 ) افسوس ہے بندوں پر ان کے پاس جو رسول آیا انہوں نے اسے مذاق میں اڑایا ۔ ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو غارت اور فناکردیا آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ ۭوَكَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا 17؀ ) 17- الإسراء:17 ) نوح علیہ السلام کے بعد بھی ہم نے کئی ایک بستیاں تباہ کردیں ۔ انہیں ہم نے پرانے افسانے بنادیا وہ نیست ونابود ہوگئے اور قصے ان کے باقی رہ گئے ۔ بے ایمانوں کے لئے رحمت سے دوری ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

421اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کی قومیں ہیں، کیونکہ سورة اعراف اور سورة ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔ قرون، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِيْنَ : یعنی قوم ثمود کے بعد ہم نے کئی اور دور پیدا کیے۔ (طبری)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر ان (عاد یا ثمود) کے (ہلاک ہونے کے) بعد ہم نے اور امتوں کو پیدا کیا (جو کہ تکذیب رسول کے سبب وہ بھی ہلاک ہوئے اور ان کے ہلاک ہونے کی جو مدت علم الٰہی میں مقرر تھی) کوئی امت (ان امتوں میں سے) اپنی (اس) مدت معینہ سے (ہلاک ہونے میں نہ پیش دستی کرسکتی تھی اور نہ (اس مدت سے) وہ لوگ پیچھے ہٹ سکتے تھے (بلکہ عین وقت پر ہلاک کئے گئے غرض وہ امتیں اول پیدا کی گئیں) پھر (ان کے پاس) ہم نے اپنے پیغمبروں کو یکے بعد دیگرے (ہدایت کے لئے) بھیجا (جس طرح وہ امتیں یکے بعد دیگرے پیدا ہوئیں مگر ان کی حالت یہ ہوئی کہ) جب کبھی کسی امت کے پاس اس امت کا (خاص) رسول (خدا کے احکام لے کر) آیا انہوں نے اس کو جھٹلایا سو ہم نے (بھی ہلاک کرنے میں) ایک کے بعد ایک کا تار باندھ دیا اور ہم نے ان کی کہانیاں بنادیں (یعنی وہ ایسے نیست و نابود ہوئے کہ بجز کہانیوں کے ان کا کچھ نام و نشان نہ رہا) سو خدا کی مار ان لوگوں پر جو (انبیاء کے سمجھانے پر بھی) ایمان نہ لاتے تھے۔ پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنے احکام اور کھلی دلیل (یعنی معجزہ صریحہ کہ دلیل نبوت ہے) دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (بھی پیغمبر بنا کر) بھیجا اور (بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونا بھی معلوم ہے) سو ان لوگوں نے (ان کی تصدیق و اطاعت سے) تکبر کیا اور وہ لوگ تھے ہی متکبر (یعنی پہلے ہی سے ان کا دماغ سڑا ہوا تھا) چناچہ وہ (باہم) کہنے لگے کہ کیا ہم ایسے دو شخصوں پر جو ہماری طرح کے آدمی ہیں (ان میں کوئی بات امتیاز کی نہیں) ایمان لے آویں (اور ان کے فرمانبردار بن جاویں) حالانکہ ان کی قوم کے لوگ (تو خود) ہمارے زیر حکم ہیں (یعنی ہم کو تو خود ان کی قوم پر ریاست حاصل ہے پھر ان دونوں کے اقتدار اور ریاست کو ہم کیسے تسلیم کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے ریاست دینیہ کو ریاست دنیویہ پر قیاس کیا کہ ہم کو ایک قسم کی ریاست یعنی دنیوی حاصل ہے تو دوسری قسم کے بھی ہم ہی مستحق ہیں اور جب ان کو دنیوی ریاست نہیں ملی تو دینی کیسے مل سکتی ہے اور فساد اس قیاس کا ظاہر ہے) غرض وہ لوگ ان دونوں کی تکذیب ہی کرتے رہے پس (اس تکذیب کی وجہ سے) ہلاک کئے گئے اور (ان کے ہلاک ہونے کے بعد) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (یعنی توراة) عطا فرمائی تاکہ (اس کے ذریعہ سے) وہ لوگ (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل) ہدایت پائیں اور ہم نے (اپنی قدرت و توحید پر دلالت کے لئے اور نیز بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے) مریم کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کو ان کی ماں (حضرت مریم علیہا السلام) کو بڑی نشانی (اپنی قدرت کی اور ان کے صدق کی) بنایا (کہ بےباپ تولد ہونا دونوں کے متعلق آیت عظیمہ ہے) اور (چونکہ ان کو نبی بنانا منظور تھا اور ایک ظالم بادشاہ بچپن ہی میں ان کے درپئے قتل ہوگیا تھا اس لئے) ہم نے (اس سے بچا کر) ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لیجا کر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور (بوجہ نہر جاری ہونے کے) شاداب جگہ تھی (یہاں تک کہ امن وامان سے جوان ہوئے اور نبوت عطا ہوئی تو توحید و دعویٰ رسالت میں ان کی تصدیق ضروری تھی مگر بعض نے نہ کی) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِيْنَ۝ ٤٢ۭ- نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی - [ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي :- يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اور پھر ہم نے ان کی ہلاکت کے بعد اور امتوں کو پیدا کیا، ایک امت کے بعد دوسری امت ان کے زمانہ سے لے کر اٹھارہ سال تک تک اور اٹھارہ سال کے عرصے کو ایک قرن کہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani