وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ : تیسری صفت یہ کہ وہ اپنے رب کے ساتھ نہ بڑا شرک کرتے ہیں، نہ چھوٹا، نہ جلی، نہ خفی، نہ کسی غیر کی پرستش کرتے ہیں اور نہ کوئی عمل ریا (دکھلاوے) کے لیے کرتے ہیں اور نہ سمعہ (شہرت) کے لیے، بلکہ ان کا ہر عمل اپنے رب کے لیے خالص ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ صفت ایمان میں شامل تھی مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ بھی ذکر فرمایا۔
وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ ٥٩ۙ- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
آیت ٥٩ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ ) ” - شرک کے ردّ اور ابطال کے ضمن میں قرآن حکیم میں بہت تکرار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے کو بار بار سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شرک کی اہم اور واضح صورتوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں اور اجتناب بھی کرتے ہیں ‘ لیکن اس کی بہت سی مخفی صورتیں بھی ہیں جو ہر دور میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں ۔ لہٰذا ایک بندۂ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرک کی مہلک بیماری کے بارے میں اپنے اندر باریک بینی اور دقت نظری کی ایسی صلاحیت پیدا کرلے جس کا اظہار اس شعر میں کیا گیا ہے : - بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش - من انداز قدت را می شناسم - (تو جس انداز کا چاہے لباس زیب تن کرلے ‘ میں تجھے تمہارے قد کے انداز سے پہچان لیتا ہوں۔ )- یعنی شرک جب بھی اس کے سامنے آئے ‘ وہ جس روپ اور جس بھیس میں بھی ہو وہ اس کو پہچان لے ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :53 اگرچہ آیات پر ایمان سے خود ہی یہ لازم آتا ہے کہ انسان توحید کا قائل و معتقد ہو ، لیکن اس کے باوجود شرک نہ کرنے کا ذکر الگ اس لیے کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان آیات کو مان کر بھی کسی نہ کسی طور کے شرک میں مبتلا رہتا ہے ۔ مثلاً ریا ، کہ وہ بھی ایک طرح کا شرک ہے ۔ یا انبیاء اور اولیاء کی تعلیم میں ایسا مبالغہ جو شرک تک پہنچا دے ۔ یا غیر اللہ سے دعا اور استعانت ۔ یا برضا و رغبت اربابٌ مِن دون اللہ کی بندگی و اطاعت اور غیر الہٰی قوانین کا اتباع ۔ پس ایمان بآیات اللہ کے بعد شرک کی نفی کا الگ ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اپنی بندگی ، اطاعت ، اور عبودیت کو بالکل خالص کر لیتے ہیں ، اس کے ساتھ کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک لگا نہیں رکھتے ۔