Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] ان لوگوں کے مقابلہ میں اب اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کی چند صفات بیان فرمائیں سب سے پہلی بات یہ کہ ان میں نیک کام کرتے رہنے کے باوجود ان میں نیکی کا غرور اور گھمنڈ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے یہ اعمال شاید اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے لائق تھے یا نہیں یا ان میں کچھ تقصیر تو نہیں ہوگئی۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ منزل من اللہ آیات پر ہی ایمان لاتے ہیں اور کائنات میں ہر طرف اللہ کی بکھری ہوئی آیات میں غور کرکے ان سے معرفت حاصل کرتے ہیں جن سے ان دلوں میں اللہ کی عظمت اور جلال کا سکہ بیٹھتا ہے تیسری صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی ہر چھوٹی بڑی قسم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور چوتھی صفت یہ کہ اپنے اموال اور دوسری اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے صدقہ و خیرات وغیرہ ادا کرنے کے باوجود اللہ کے حضور اعمال کی باز پرس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ - حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کے متعلق نبی اکرم سے پوچھا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، انھیں کس بات کا ڈرا لگا رہتا ہے ؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اور صدیق کی بیٹی یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں شاید ان کا قبول نہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙاُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ ۔۔ : یعنی یہ لوگ جن میں یہ چاروں خوبیاں ہیں یہی نیک کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ انھیں حاصل کرنے میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ (دیکھیے سورة واقعہ : ١٠ تا ٢٦) طبری نے ” وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ “ کے متعلق ابن عباس (رض) کا قول حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” سَبَقَتْ لَھُمُ السَّعَادَۃُ “ ” یعنی ان کی ان چاروں صفات کی وجہ سے (جو پہلے ہی اللہ کے علم میں ہیں) ان کے لیے پہلے ہی (جلدی بھلائیاں حاصل ہونے کی) سعادت طے ہوچکی ہے۔ “ گویا یہ اس آیت کے ہم معنی ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٠١ ] ” بیشک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہوچکی، وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ ، مسارعت فی الخیرات سے مراد یہ ہے کہ جیسے عام لوگ دنیا کے منافع کے پیچھے دوڑتے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے ہیں یہ حضرات دین کے فوائد میں ایسا ہی عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ دین کے کاموں میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ۝ ٦١- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (اولئک یسارعون فی الخیرات وھم لھا سابقون) یہی لوگ طاعات میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کی طرف لپک رہے ہیں) یہاں خیرات سے مراد طاعات ہیں جن کی طرف اللہ پر ایمان رکھنے والے لپکتے ہیں اور ان کی طرف سبقت کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں ان کی رغبت ہوتی ہے اور ان پر ملنے والی جزا کا انہیں علم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے قول باری (وھم لھا سابقون) کی تفسیر میں فرمایا۔ سعادت یعنی خوش بختی ان کی طرف سبقت کرگئی ہے۔ “ دوسرے حضرات کا قول ہے۔” یہ لوگ اہل طاعات ہیں اور جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ “ کچھ اور حضرات کا قول ہے۔ ” یہ لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (اُولٰٓءِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْْخَیْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ) ” - زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ نیکیوں اور بھلائیوں کے لیے ہوتی ہے اور اس میدان میں وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :54 ( الف ) واضح رہے کہ آیت ٦۱ کا ترجمہ آیات ۵۷ سے پہلے کیا جاچکا ہے ۔ یہاں سے آیت ٦۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani