Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] امانتوں سے مراد ہر وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا معاشرہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے کسی شخص کے سپرد کی گئی ہو۔ خواہ یہ امانت منصوبوں سے تعلق رکھتی ہو یا اقوال سے یا اموال سے ان سب کی پوری پوری نگہداشت ضروری ہے۔ یہی صورت مال، عہد اور معاہدات کی ہے۔ خواہ کوئی عہد اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے بندوں سے لیا ہو۔ خواہ یہ آپس کا قول وقرار ہو اور خواہ یہ معاہدہ بیع یا نکاح سے متفق ہو۔ ان کو وفا کرنا ضروری ہے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی دونوں ایسے جرم ہیں جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافق کی علامتیں قرار دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامہ ن المنافق)- ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک اسے چھوڑ نہ دے جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو بےوفائی کرے۔ اور جب جھگڑا کرے تو بکواس یا ناحق کی طرف چلے (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامہ ن المنافق)- اب دیکھئے پہلی حدیث میں صرف تین علامتیں مذکور ہیں جن میں دو یہی ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں اور دوسری میں جو چار علامتیں مذکور ہیں ان میں سے دو یہی باتیں ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْن : عفت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی امانت ہے، اس کے ذکر کے بعد عام امانتوں کی حفاظت کا ذکر فرمایا۔ عہد بھی ایک امانت ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا الگ ذکر فرمایا۔ ” رٰعُوْن “ ” رَعٰی یَرْعٰی “ (ف) سے اسم فاعل ہے۔ فعل مضارع کے بجائے اسم فاعل لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہ ان کی عادت ہے۔ منافقوں کی طرح نہیں کہ جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَ إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ) [ بخاري، الإیمان، باب علامات المنافق : ٣٣ ] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچواں وصف امانت کا حق ادا کرنا والَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ لفظ امانت کے لغوی معنے ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسہ کیا گیا ہو۔ اس کی قسمیں چونکہ بیشمار ہیں اسی لئے باوجود مصدر ہونے کے اس کو بصیغہ جمع لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف و مشہور ہے کہ کسی شخص نے کسی کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا یہ اس کی امانت ہے اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی وہ بھی اس کی امانت ہے بغیر اذن شرعی کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ مزدور، ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لئے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہوگیا اس میں اس کام کو پورا کرنے کا حق ادا کرنا اور مزدوری ملازمت کے لئے جتنا وقت مقرر ہے اس کو اسی کام میں لگانا بھی امانت ہے کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا بڑا جامع لفظ ہے۔ سب مذکورہ تفصیلات اس میں داخل ہیں۔- چھٹا وصف عہد پورا کرنا ہے۔ عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملے کے سلسلے میں لازم قرار دیا جائے اس کا پورا کرنا فرض اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے جو حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں یعنی یکطرفہ صورت سے کوئی شخص کسی شخص سے کسی چیز کے دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلے۔ اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہوجاتا ہے۔ حدیث میں ہے العدة دین یعنی وعدہ ایک قسم کا قرض ہے۔ جیسے قرض کی ادائیگی واجب ہے ایسے ہی وعدہ کا پورا کرنا واجب ہے۔ بلا عذر شرعی اس کے خلاف کرنا گناہ ہے۔ فرق دونوں قسموں میں یہ ہے کہ پہلی قسم کے پورا کرنے پر دوسرا آدمی اس کو بذریعہ عدالت بھی مجبور کرسکتا ہے یکطرفہ وعدہ کو پورا کرنے کے لئے بذریعہ عدالت مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دیانةً اس کا پورا کرنا بھی واجب اور بلا عذر شرعی خلاف کرنا گناہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝ ٨ۙ- أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- رعی - الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال :- رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» «5» قال الشاعر :- ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي - «6» وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا - [ البقرة 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه .- ( ر ع ی ) الرعی - ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ١١) اور جو لوگ اپنی امانتوں کو جو شرعا ان کے سپرد کی گئی ہیں جیسا کہ روزہ، وضو، غسل، جنابت اور امانت کا مال اور اپنے عہد کا خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ہو یا حقوق العباد میں سے ہو پورا کرنے کا پورا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کو ان کے اوقات پر ادا کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں اور یہی جنت کے وارث ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اصل مقام ہے اور یہ لوگ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ یہ لوگ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ ) ” - اس آیت میں دو وصف بیان ہوئے ہیں۔ یعنی پانچواں وصف امانتوں کی پاسداری اور چھٹا وصف ایفائے عہد۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :8 امانات کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے ، یا معاشرے نے ، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں ۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان ، یا انسان اور انسان کے درمیان ، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں ۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا ، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا ، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا ( بیہقی فی شعب الایمان ) ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے ۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو توڑ دے ۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو ( اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani