9 1آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون
[٩] ایمان لاکر کامیاب ہونے کی صفات کی ابتداء بھی نماز سے کی گئی اور اختتام بھی نماز پر ہوا۔ اس سے نماز کی دوسرے خصائل پر اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی۔ پہلی آیت میں نماز میں خشوع کا ذکر تھا۔ اور اس آخری آیت میں سب نمازوں کی حفاظت کا ذکر ہے۔ حفاظت سے مراد نمازوں کو مقررہ اوقات پر بروقت ادا کرنا اور ہمیشہ ادا کرنا۔ تسلی سے نماز ادا کرنا اس کے پورے ارکان بجا لانا یعنی جسم کا، کپڑوں کا اور جگہ کا پاک ہونا پھر وضو اور طہارت پوری طرح کرنا وغیرہ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْن : فلاح پانے والے مومنوں کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان فرمائی اور دوسرے اوصاف بیان کرنے کے بعد آخر میں پھر نماز ہی سے تعلق رکھنے والی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ اپنی نمازوں کی خوب حفاظت کیا کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی کس قدر اہمیت ہے۔- ” يُحَافِظُوْن “ باب مفاعلہ سے مبالغے کے لیے ہے، کیونکہ یہاں مقابلے کا معنی مراد نہیں ہوسکتا۔ ” یَحْفَظُوْنَ “ ” حفاظت کرتے ہیں “ اور ” يُحَافِظُوْن “ ” خوب حفاظت کرتے ہیں۔ “ محافظت سے مراد نماز ہمیشہ ادا کرنا اور ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ” یا رسول اللہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا ) ” نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ “ میں نے کہا : ” پھر کون سا عمل ؟ “ فرمایا : ” والدین سے حسن سلوک۔ “ میں نے کہا : ” پھر کون سا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جہاد فی سبیل اللہ۔ “ [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا : ٥٢٧۔ مسلم : ٨٥ ] مستدرک حاکم (١؍١٨٨، ح : ٦٧٤) میں ہے : ( اَلصَّلَاۃُ فِيْ أَوَّلِ وَقْتِھَا ) ” نماز اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔ “ حاکم نے فرمایا، یہ لفظ دو ثقہ راویوں بندار بن بشار اور حسن بن مکرم کی روایت سے ثابت ہیں، جو ان دونوں نے عثمان بن عمرو سے روایت کی ہے اور یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے، جب کہ شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔
ساتواں وصف نماز پر محافظت ہے والَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ ، نماز کی محافظت سے مراد اس کی پابندی کرنا اور ہر ایک نماز کو اس کے وقت مستحب میں ادا کرنا ہے۔ (کذا فسّرہ ابن مسعود، روح) یہاں صلوات کا لفظ جمع اس لئے لایا گیا ہے کہ مراد اس سے پانچ وقت کی نمازیں ہیں جن کو اپنے اپنے وقت مستحب میں پابندی سے ادا کرنا مقصود ہے اور شروع میں جہاں مقصود بالذکر خشوع تھا وہاں لفظ مفرد لایا گیا ہے کہ مطلقاً جنس نماز خواہ فرض ہو یا واجب، سنت ہو یا نفل سب کی روح خشوع ہے۔ غور کیا جائے تو ان سات اوصاف مذکورہ میں تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد اور ان سے متعلقہ احکام آجاتے ہیں جو شخص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہوجائے اور اس پر جما رہے وہ مومن کامل فلاح دنیا و آخرت کا مستحق ہے۔- یہ بات قابل نظر ہے کہ ان سات اوصاف کو شروع بھی نماز سے کیا گیا اور ختم بھی نماز پر کیا گیا اس میں اشارہ ہے کہ اگر نماز کو نماز کی طرح پابندی اور آداب نماز کے ساتھ ادا کیا جائے تو باقی اوصاف اس میں خود بخود پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ واللہ اعلم
وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَوٰتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ ٩ۘ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
نمازوں کی محافظت - قول باری ہے (والذین ھم علی صلوتھم یحافظون اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں) قول باری (یحافظون) کی تفسیر میں سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ نمازیں ان کے اوقات میں ادا کی جائیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لیس التفریط فی النوم انما) التفریط ان یترک الصلوۃ حتی یدخل وقت الاخری نماز کی ادائیگی میں کوتاہی نیند کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ کوتاہی کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نماز ادا نہ کرے اور بیٹھا رہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے) مسروق کا قول ہے کہ نماز کی محافظت کا مفہوم یہ ہے کہ نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کیا جائے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ نمازوں پر دوام کرتے ہیں یعنی ہمیشہ ان کی ادائیگی کرتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ نماز کے لئے وضو کی، نماز کے اوقات نیز رکوع وسجود کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نماز کی محافظت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی شرائط کی تکمیل کے ساتھ وقت پر اس کی ادائیگی کی پوری نگہداشت کی جائے۔ سلف سے محافظت کی جو صورتیں منقول ہیں وہ سب کی سب آیت میں مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کا دوبارہ ذکر کیا اس لئے کہ نمازی نماز کی محافظت کا اسی طرح پابند ہے جس طرح اس میں خشوع و خضوع کا ۔
آیت ٩ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ) ” - یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس مضمون کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے کیا گیا تھا اور اس کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر کیا جا رہا ہے۔ آیت ٢ میں کامیاب و بامراد مؤمنین کی پہلی صفت یہ بتائی گئی تھی : (الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ) کہ وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ یعنی اس مضمون کے آغاز میں نماز کی باطنی کیفیت کے حسن کا ذکر کیا گیا تھا ‘ جبکہ اختتام پر آیت زیر نظر میں نماز کے نظام کی بات کی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان نماز پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے تمام آداب و قوانین کوّ کماحقہ ملحوظ رکھتے ہیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :9 اوپر خشوع کے ذکر میں نماز فرمایا تھا اور یہاں نمازوں بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے ۔ دونوں میں فرق یہ ہے وہاں جنس نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے ۔ نمازوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز ، آداب نماز ، ارکان و اجزائے نماز ، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں ۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں ۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں ۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں ، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے ۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے ۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے ، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے ۔
7: نمازوں کی نگرانی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ نماز کی پوری پابندی کی جائے، اور یہ بھی کہ ان کو صحیح طریقے سے آداب اور شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔