بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ : یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضی کے اظہار کے لیے انھیں مخاطب کرنا چھوڑ کر ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کرنا شروع کردیا، گویا اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی انکار پر اڑے رہنے کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔ - 3 مرنے کے بعد زندگی کا انکار صرف قیامت کا انکار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار ہے اور شرک ہی کا شاخسانہ ہے۔ جو شخص رب تعالیٰ کو ایک مانتا ہو اور اس کی قدرت و حکمت پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی قیامت کا انکار نہیں کرسکتا۔- 3 یعنی ان لوگوں کے پاس اپنے آباء کی تقلید کے سوا قیامت کے انکار اور دوسرے غلط عقائد و اعمال کے لیے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے۔ - قَالُوْٓا ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۔۔ :” جب ہم مرجائیں گے “ ہی کافی تھا، مگر اس کے بعد ” اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے “ کے الفاظ کے ساتھ وہ اپنے خیال میں مرنے کے بعد زندگی کے عقل سے بعید ہونے کی بات بہت مدلل کر رہے ہیں اور ” ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ “ میں ”إِنَّ “ اور ” لام “ کے ساتھ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیامت کے عقیدے کو نہایت تاکید سے بیان کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ہمزہ استفہام کے ساتھ اس کا شدت سے انکار کر رہے ہیں کہ بھلا ایسا بھی کبھی ہوسکتا ہے ؟
بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ٨١- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔
(٨١۔ ٨٢) بلکہ یہ کفار مکہ بھی بعث بعد الموت کی اسی طرح تکذیب کرتے ہیں، جیسا کہ پہلے کافر لوگ تکذیب کرتے چلے آتے ہیں یعنی یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم جب مرجائیں گے اور ہم مٹی اور بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔