[٨٣] یعنی انھیں خود اس بات کا اعتراف ہے کہ زمین اور اس میں جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ملکیت ہے وہ خود بھی جو زندہ ہیں اور اس زمین پر چل پھر رہے ہیں اور وہ بھی جو مر کر زمین کے اندر چلے گئے ہیں خواہ وہ مٹی میں مل کر مٹی ہی بن چکے ہوں سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت اور اس کی ملکیت میں ہیں۔ پھر وہ یہ بات کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ اس مٹی سے جس میں ان کا وجود مل چکا ہے انھیں دوبارہ پیدا کردے۔
سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ ٠ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ٨٥- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا
(٨٥۔ ٨٦) وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ کے ہیں تو آپ ان سے فرمائیے کہ پھر کیوں غور وفکر نہیں کرتے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور آپ ان سے یہ بھی فرمایئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ ان سات آسمانوں کا مالک اور عالی شان عرش کا مالک کون ہے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :78 یعنی کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ پھر اس کے سوا کوئی بندگی کا مستحق بھی نہیں ہے ، اور اس کے لیے زمین کی اس آبادی کو دوبارہ پیدا کر دینا بھی مشکل نہیں ہے ۔
28: کفار عرب مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے، اس کے باوجود مختلف خداؤں کے بھی قائل تھے۔