برائی کے بدلے اچھائی سختیوں کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں پر عذاب لائے اور میں ان میں موجود ہوں ۔ تو مجھے ان عذابوں سے بچا لینا ۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا کہ اے اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے ، تو مجھے فتنہ میں ڈالنے سے پہلے اٹھالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں ۔ جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں ۔ پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں کی دوا ، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے ۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے ۔ جیسے ایک اور آیت میں بھی ہے کہ بھلائی سے دفع کر تو جانی دشمن ، دلی دوست بن جائے گا ۔ لیکن یہ کام انہیں سے ہوسکتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں ۔ یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں سے ہوسکتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کو برداشت کرلینے کے عادی ہوجائیں ۔ اور گو وہ برائی کریں لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں ۔ یہ وصف انہی لوگوں کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں ۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں ہو ۔ شیطان سے بچنے کی دعائیں انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے ۔ اس لئے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں ۔ وہ سلوک واحسان سے بس میں نہیں آنے کے استعاذہ کے بیان میں ہم لکھ آئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا ( اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم ) من ہمزہ ونفخہ ونفشہ پڑھا کرتے تھے ۔ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے ۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور علیہ السلام کی ایک دعا یہ بھی تھی ۔ ( اللہم انی اعوذبک من الھرم و اعوذ من الھدم ومن الغرق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عندالموت ) ۔ اے اللہ میں تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہوجانے کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم سوتے وقت پڑھا کریں ۔ دعا ( بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامتہ من غضبہ وعقابہ ومن شر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں سے جو ہوشیار ہو تے انہیں یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کرسکتے ان کے گلے میں اس دعا کو لکھ کر لٹکا دیتے ۔ ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔
قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ : ” اِمَّا “ ”إِنْ “ کی تاکید ” مَا “ کے ساتھ کی گئی ہے، اس لیے ترجمہ ” اگر کبھی “ کیا گیا ہے اور ” تُرِیَنَّ “ میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔ مفسر بقاعی نے لکھا ہے : ” أَيْ إِنْ کَانَ وَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ تُرِیَنِّيْ قَبْلَ مَوْتِيْ “ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ” اگر تو کبھی مجھے ضرور ہی وہ (عذاب) دکھائے۔ “- 3 یعنی جب اللہ تعالیٰ کی جناب میں اولاد یا شریک بنانے کی سخت گستاخی کی جاتی ہے تو یقیناً کوئی سخت آفت آ کر رہے گی، اس لیے ہر مومن کو حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر یہ دعا مانگے۔- 3 آیت کے اولین مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، ان کے ساتھ امت کا ہر فرد بھی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں عذاب نہ لانے کا وعدہ فرمایا ہے، فرمایا : (وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) [ الأنفال : ٣٣ ] ” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ “ اس کے باوجود اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذاب سے بچنے کی دعا کا حکم دیا، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے عذاب سے سخت خوف زدہ رہتے تھے اور اس سے بچنے کی دعا کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے، اس کے باوجود آپ کو استغفار کا حکم دیا، فرمایا : (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ) [ النصر : ٣ ] ” تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اللہ تعالیٰ سے خشیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بادل یا آندھی دیکھتے تو آپ کے چہرے پر اس کے اثرات پہچانے جاتے۔ “ عائشہ (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عَاءِشَۃُ مَا یُؤْمِنِّيْ أَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ عَذَابٌ ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بالرِّیْحِ وَقَدْ رَأَی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( فلما رأوہ عارضا۔۔ ) : ٤٨٢٩ ] ” اے عائشہ کیا ضمانت ہے کہ اس میں کوئی عذاب نہ ہو ؟ ایک قوم (عاد) پر آندھی کا عذاب آیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے، یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔ “ - 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ پروردگار تو مجھے عفو اور عافیت عطا فرما اور اگر تو نے کچھ لوگوں کو عذاب دینے کا ارادہ کر ہی لیا ہو تو مجھے ان ظالموں میں شامل نہ کرنا۔ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دعا نقل فرمائی ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ وَ تَرْحَمَنِيْ وَ إِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃً فِيْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِيْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ ، وَ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ حُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ ) ” اے اللہ میں تجھ سے نیکیاں کرنے، برائیاں چھوڑنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس بات کا بھی کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی قوم کے فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں ڈالے بغیر قبض کرلے۔ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت کا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب کر دے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّھَا حَقٌّ فَادْرُسُوْھَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْھَا ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة صٓ : ٣٢٣٥، قال الترمذي حسن صحیح و قال الألباني صحیح ] ” یہ کلمات حق ہیں انھیں پڑھو، پھر انھیں اچھی طرح سیکھ لو۔ “ - 3 اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا سکھائی تاکہ مشرکین پر عذاب آئے تو آپ اس وقت ان کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ ان سے الگ ہوں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کی توفیق عطا فرما کر آپ کو کافروں سے الگ کردیا اور قحط اور جنگوں کی صورت میں ان پر جو عذاب آئے آپ کو ان سے محفوظ رکھا۔
خلاصہ تفسیر - آپ (حق تعالیٰ سے) دعا کیجئے کہ اے میرے رب جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے (جیسا اوپر اِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ سے بھی معلوم ہوا) اگر آپ مجھ کو دکھا دیں (مثلاً یہ کہ وہ عذاب ان پر میری زندگی میں اس طور سے آوے کہ میں بھی دیکھوں کیونکہ اس عذاب موعود کا کوئی وقت خاص نہیں بتلایا گیا ہے چناچہ آیت مذکورہ بھی مبہم ہے جس میں یہ احتمال مذکور بھی ہے غرض اگر ایسا ہوا) تو اے میرے رب مجھ کو ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجئے اور ہم اس بات پر کہ جو ان سے وعدہ کر رہے ہیں آپ کو بھی دکھلا دیں قادر ہیں (باقی جب تک ان پر عذاب نہ آوے) آپ (ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھئے کہ) ان کی بدی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کردیا کیجئے جو بہت ہی اچھا (اور نرم) ہو (اور اپنی ذات کے لئے بدلہ نہ لیجئے بلکہ ہمارے حوالہ کردیا کیجئے) ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ (آپ کی نسبت) کہا کرتے ہیں اور (اگر آپ بمقتضائے بشریت غیظ آ جایا کرے تو) آپ یوں دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے (جو مفضی ہوجاویں کسی ایسے امر کی طرف جو خلاف مصلحت ہو گو خلاف شریعت نہ ہو) اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس بھی آویں (اور وسوسہ ڈالنا تو درکنار پس اس سے وہ غیظ جاتا رہے گا۔ یہ کفار اپنے کفر و انکار معاد سے باز نہیں آتے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی (کے سر) پر موت آ (کھڑی) ہوتی ہے (اور آخرت کا معائنہ ہونے لگتا ہے) اس وقت (آنکھیں کھلتی ہیں اور اپنے جہل و کفر پر نادم ہو کر) کہتا ہے کہ اے میرے رب (مجھ سے موت کو ٹال دیجئے اور) مجھ کو (دنیا میں) پھر واپس بھیج دیجئے تاکہ جس (دنیا) کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں (پھر جا کر) نیک کام کروں (یعنی تصدیق و اطاعت حق تعالیٰ اس درخواست کو رد فرماتے ہیں کہ) ہرگز (ایسا) نہیں (ہوگا) یہ (اس کی) ایک بات ہی بات ہے جس کو یہ کہے جا رہا ہے (اور پوری ہونے والی نہیں) اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان لوگوں کے آگے ایک (چیز) آڑ (کی آنے والی) ہے (کہ جس کا آنا ضروری ہے اور وہی دنیا میں واپس آنے سے مانع ہے مراد اس سے موت ہے کہ اس کا وقوع بھی وقت مقدر پر ضروری ہے وَلَنْ يُّؤ َخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا اور موت کے بعد دنیا میں لوٹ کر آنا بھی) قیامت کے دن تک (قانون الٰہی کے خلاف ہے)
قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ ٩٣ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔
(٩٣۔ ٩٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دعا کیجیے کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے اگر آپ مجھ کو دکھادیں تو بدر کے دن ان کافروں کے ساتھ مجھ کو شامل نہ کیجیے۔