برائی کی تشہیر نہ کرو یہ تیسری تنبیہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات سنے ، اسے اس کا پھیلانا حرام ہے جو ایسی بری خبروں کو اڑاتے پھیرتے ہیں ۔ دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی اور اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے ، تم بےعلم ہو ، پس تمہیں اللہ کی طرف تمام امور لوٹانے چاہئیں ۔ حدیث شریف میں ہے بندگان اللہ کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ۔ ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا ۔ اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے ۔
1 9 ا فَاحِشَۃ، کے معنی بےحیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔
[٢٢] فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم صورت وہی ہے جس کا اس صورت میں ذکر ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت کو الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلاتحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے زنا (جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے) کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں۔ مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا اور ہماری شریعت میں لوطی کی سزا قتل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں۔ اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب من وقع علی البھیمہ) - چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کردیئے ہیں۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایکسا قد نپا لیتی ہیں یہ باکل خلاف شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع کیا اور فرمایا کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتبا شرا المراۃ المراۃ - اس حدیث کے الفاظ سے پپٹی لگانا بھی مراد لیا جاسکتا ہے (یعنی عورت کا عورت کے ساتھ لگ کر جنسی خواہش پوری کرنا) کیونکہ عربی زبان میں مجامعت کے لئے مباشرت کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے۔- پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بدفعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔- چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدارہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ المراۃ) - پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹیوی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وعیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل میں کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے۔ تاکہ کم ازکم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں۔ ورنہ انھیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔- [٢٣] یعنی یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور ان کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی سے یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے بدکار لوگوں کو بدکاری کے نئے نئے مراکز کیسے مہیا ہوتے ہیں۔ نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتداًء فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ ۔۔ : ” الْفَاحِشَةُ “ انتہائی برے کام کو کہتے ہیں، یہ لفظ زنا پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کی تہمت اور چرچے پر بھی۔ یعنی جو لوگ ایمان والوں میں بےحیائی اور بدکاری کا تذکرہ پھیلانا چاہتے ہیں اور پاک دامن مسلمانوں پر تہمتیں تراش کر مجلسوں میں ان کا چرچا کرتے ہیں، جس کے سننے سے زنا سے نفرت ختم ہوتی ہے، بلکہ ایسی باتوں میں دلچسپی کے نتیجے میں یہ برائی مزید پھیلتی ہے اور اس کا ذکر کرنے والے اور اسے خاموشی سے سن کر تہمت تراشنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، عفیف مسلمانوں کے گوشت سے لذت اٹھاتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا میں عذاب الیم ہے کہ تہمت لگانے والوں کو درّے پڑتے ہیں اور وہ مردود الشہادہ اور فاسق ٹھہرتے اور ان کا اور ان کے مجلس نشینوں کا نفاق اور فسق مسلمانوں کے سامنے بےنقاب ہوجاتا ہے، جس سے وہ مسلم معاشرے میں بےاعتبار ٹھہرتے ہیں اور آخرت کے عذاب کے المناک ہونے کی کوئی حد ہی نہیں۔- 3 آج کل تمام دنیا کے کفار اور ان کے مددگار مسلم حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، سکول و کالج کی تعلیم، غرض ہر طریقے سے مسلم معاشروں میں زنا اور اس کا تذکرہ عام ہو۔ ایک آدھ ملک کے سوا کسی ملک میں نہ زنا کی حد نافذ ہے نہ بہتان کی۔ نتیجہ اس کا دشمنوں کے خوف، قتل و غارت، بدامنی، وباؤں اور نئی سے نئی بیماریوں کے عذاب الیم کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور قیامت کا عذاب الیم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)- وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن : یعنی زنا کی حد اور بہتان کی حد جو اللہ نے مقرر فرمائی ہے اور ایمان والوں میں بےحیائی پھیلانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں جو عذاب الیم رکھا ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہر بات جانتا ہے “ ، اسے ان گناہوں کے خوفناک نتائج کا بھی علم ہے اور یہ بھی کہ انھیں کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ” اور تم نہیں جانتے “ لہٰذا تم اپنی عقل سے جو بھی قاعدہ و قانون مقرر کرو گے وہ تمہاری لاعلمی کی وجہ سے کبھی بھی مسلمانوں کی پاک دامنی اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا ضامن نہیں بن سکتا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ، اس آیت میں پھر ان لوگوں کی مذمت اور ان پر دنیا و آخرت کے عذاب کی وعید ہے۔ جنہوں نے اس تہمت میں کسی طرح کا حصہ لیا۔ اس آیت میں یہ بات زیادہ ہے کہ جو الگ ایسی خبریں مشہور کرتے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بدکاری اور فواحش پھیل جائیں۔- انسداد فواحش کا قرآنی نظام اور ایک اہم تدبیر جس کے نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج کل فواحش کی کثرت ہے :- قرآن حکیم نے فواحش کے انسداد کا یہ خاص نظام بنایا ہے کہ اول تو اس قسم کی خبر کہیں مشہور نہ ہونے پاوے اور شہرت ہو تو ثبوت شرعی کے ساتھ ہو تاکہ اس شہرت کے ساتھ ہی مجمع عام میں حد زنا اس پر جاری کر کے اس شہرت ہی کو سبب انسداد بنادیا جائے اور جہاں ثبوت شرعی نہ ہو وہاں اس طرح کی بےحیائی کی خبروں کو چلتا کردینا اور شہرت دینا جبکہ اس کے ساتھ کوئی سزا نہیں طبعی طور پر لوگوں کے دلوں سے بےحیائی اور فواحش کی نفرت کم کردینے اور جرائم پر اقدام کرنے اور شائع کرنے کا موجب ہوتی ہے جس کا مشاہدہ آج کل کے اخبارات میں روزانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز ہر اخبار میں نشتر ہوتی رہتی ہیں۔ نوجوان مرد اور عورتیں ان کو دیکھتے رہتے ہیں روزانہ ایسی خبروں کے سامنے آنے اور اس پر کسی خاص سزا کے مرتب نہ ہونے کا لازمی اور طبعی اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ فعل خبیث نظروں میں ہلکا نظر آنے لگتا ہے اور پھر نفس میں ہیجان پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے ایسی خبروں کی تشہیر کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے جبکہ وہ ثبوت شرعی کے ساتھ ہو اس کے نتیجہ میں خبر کے ساتھ ہی اس بےحیائی کی ہولناک پاداش بھی دیکھنے سننے والوں کے سامنے آجائے اور جہاں ثبوت اور سزا نہ ہو تو ایسی خبروں کی اشاعت کو قرآن نے مسلمانوں میں فواحش پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ کاش مسلمان اس پر غور کریں۔ اس آیت میں ایسی خبریں بلا ثبوت مشہور کرنے والوں پر دنیا و آخرت دونوں میں عذاب الیم ہونے کا ذکر ہے۔ آخرت کا عذاب تو ظاہر ہے کہ قیامت کے بعد ہوگا جس کا یہاں مشاہدہ نہیں ہوسکتا مگر دنیا کا عذاب تو مشاہدہ میں آنا چاہئے سو جن لوگوں پر حد قذف (تہمت کی سزا) جاری کردی گئی ان پر تو دنیا کا عذاب آ ہی گیا اور اگر کوئی شخص شرائط اجراء حد موجود نہ ہونے کی وجہ سے حد قذف سے بچ نکلا تو وہ دنیا میں بھی فی الجملہ مستحق عذاب تو ٹھہرا آیت کے مصداق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٠ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ١٩- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
فحش پھیلانے پر وعید - قول باری ہے : (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا) جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بات واضح کردی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی خیر وصلاح کا طلبگار ہونا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو اہل ایمان میں فحش پھیلانے کے خواہشمند ہوں انہیں جھوٹے الزامات میں ملوث کریں اور ان کے سامنے بدکلامی کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان حرکات کو کبائر شمار کیا ہے جن کا مرتکب عقاب کا مستحق گرداتا جاتا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے لئے دلوں میں نہ صرف پاکیزہ جذبات رکھنا واجب ہے بلکہ اپنی زبان اور دوسرے اعضاء کو ان کی ایذارسانی سے بچانا بھی ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپکا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔- مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے، نیز ارشاد ہے : (لیس بمومن من لا یا من جارہ بوائقہ) وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کی ایذارسانیوں سے محفوظ نہ ہو۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن عباس رازی نے، انہیں سہل بن عثمان نے، انہیں زیاد بن عبداللہ نے لیث سے، انہوں نے طلحہ سے، انہوں نے خثیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نے فرمایا : (من سرہ ان یزحزح عن النار وید خلی الجنۃ فلتاتہ منیتہ وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ ویحب ان یاتی الی الناس ما یحب ان یاتوا لیہ۔ ) جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اسے دوزخ کی آگ سے دور کرکے جنت میں داخل کردیا جائے تو پھر چاہیے کہ اس کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ کلمہ طیبہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کی گواہی دیتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک روارکھتا ہو جس کی وہ ان سے اپنے بارے میں متقوع ہو۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن ہاثم نے، انہیں ھدبہ نے، انہیں ہمام نے، انہیں قتادہ نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لا یومن العبد حتی یحب لا خیہ ما یعب لنفسہ من الخیر) ، ایک بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بھلائی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو۔
(١٩) جو لوگ یعنی عبداللہ بن ابی منافق یہ کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) میں بےحیائی کی بات کا چرچا ہو، ان سب کے لیے دنیا میں حد قذف ہے اور خاص طور پر عبداللہ بن ابی منافق کے لیے آخرت میں جہنم کی درد ناک سزا ہے۔- اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) پاک دامن وبری ہیں اور تم اس جرم کی سزا کو نہیں جانتے۔
آیت ١٩ (اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌلا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط) ” - یعنی وہ لوگ جو مختلف حربوں سے معاشرے میں بےحیائی کو عام کرتے ہیں۔ آیت کے الفاظ اشاعت فحش کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ آج کل اس کا بہت بڑا ذریعہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ کمرشل اشتہارات میں عورتوں کی نیم عریاں تصاویر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ برائی کی اشاعت یوں بھی ہو رہی ہے کہ ناجائز تعلقات کے سیکنڈلز کی تشہیر کی جاتی ہے اور بغیر کسی معقول اور مناسب تحقیق کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی کرامت سے ان کی خبریں دنیا بھر میں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں بھی ایسے بےہودہ سکینڈلز کو پڑھتے ‘ سنتے اور اس موضوع پر اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہر حال ایسے واقعات کو خبر بنا کر شائع کردینا بہت بڑا جرم ہے اور جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو حتی الوسع برائی کا چرچا نہ کیا جائے۔ لیکن اگر قانونی تقاضے پورے ہوتے ہوں تو مجرموں کو کٹہرے میں ضرور لایا جائے اور انہیں ایسی سزا دلوائی جائے کہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں کے لیے باعث عبرت ہو۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :16 موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں ۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں ۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار ، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں ۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے ۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے ۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا ، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :17 یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو ۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے ۔ دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے ۔