Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

371یعنی شدت خوف اور ہولناکی کی وجہ سے جس طرح دوسرے مقام پر ہے ان کو قیامت والے دن سے ڈراؤ، جس دن دل، گلوں کے پاس آجائیں گے، غم بھرے ہوئے ۔ ابتداً دلوں کی یہ کیفیت سب کی ہی ہوگی، مومن کی بھی اور کافر کی بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] ان ہدایت یافتہ لوگوں کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھروں کے اندر بھی اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور گھروں سے باہر بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ اپنے کام کاج یا کاروبار کرتے وقت بھی اللہ کی یاد ان کے دلوں میں موجود رہتی ہے جو انھیں اللہ کی نافرمانی والے ہر کام سے باز رکھتی ہے۔ وہ صرف اس چند روزہ زندگی کے فائدوں کی ہی طلب گار نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی رہتی ہے اور اللہ کے حضور وہ اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ دن ہی اتنا سخت اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کا دل بھی بےقرار ہوگا اور آنکھیں بھی بےقرار ہوں گی۔ اور ان ہدایت یافتہ لوگوں کا بھی یہ حال ہوگا۔ کہ کبھی وہ اللہ کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے اور اللہ کے عذاب سے اور اس کی گرفت سے ڈرنے لگیں گے۔ یہی حال آنکھوں کا ہوگا کبھی وہ دائیں طرف دیکھیں گی اور کبھی بائیں طرف تاکہ یہ دیکھیں کس جانب ان کا نامہ اعمال ان کے حوالہ کیا جاتا ہے۔- [٦٤] وہ لوگ اس توقع پر یہ سارے کام کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اپنے ان عملوں کا بہتر بدلہ ملے۔ جو یقیناً انھیں مل جائے گا۔ اللہ صرف ان کے اعمال کا بہتر بدلہ ہی نہ دے گا بلکہ اس کے علاوہ انھیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازے گا جو اس وقت ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس شخص پر راضی اور خوش ہوجائے تو اللہ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے جو اسے نہ دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ ۔۔ : ” رِجَالٌ“ پر تنوین تفخیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی شان والے مرد “ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ” تجارت “ کے بعد ” بیع “ کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ بیع بھی تجارت ہی ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تجارت ایک وسیع عمل ہے، جس میں مختلف اشیاء خریدنے کے لیے سفر کرنا، انھیں مناسب مقام سے مناسب وقت پر مناسب قیمت کے ساتھ خریدنا، انھیں محفوظ کرکے رکھنا، پھر بیچنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہنا، اس کے لیے دکان پر بیٹھنا، گاہک کا انتظار کرنا اور مناسب وقت پر فروخت کردینا سب کچھ شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ ان عظیم مردوں کو اللہ کے ذکر اور اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ سے تجارت میں درکار کوئی عمل غافل نہیں کرتا، تجارت کے تمام کاموں میں سے خاص اس کام کا ذکر فرمایا جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور وہ ہے بیع، یہ لفظ بیچنے اور خریدنے دونوں پر بولا جاتا ہے، یعنی اللہ کے ان بندوں کو تجارت میں درکار کوئی کام اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، حتیٰ کہ خریدو فروخت کا عمل، جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور جس سے نفع حاصل ہوتا ہے، وہ بھی انھیں اللہ کے ذکر سے نہیں روکتا۔ اذان ہونے پر خواہ کوئی چیز بک رہی ہو یا خریدی جا رہی ہو اور خواہ کتنا نفع حاصل ہو رہا ہو وہ دنیا کے اس نفع کو لات مار کر اللہ کے گھر میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ - عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے مراد دل میں اسے یاد رکھنا اور زبان سے اس کا ذکر دونوں مراد ہیں، یعنی وہ تجارت کے کسی موقع پر حتیٰ کہ خریدو فروخت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے، نہ کسی سودے میں ایسا کام کرتے ہیں جس سے اس نے منع فرما دیا ہے اور ان کی زبان پر ہر وقت اللہ کا ذکر ہی رہتا ہے۔ وہ بات بات پر الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کہتے ہیں اور خاموشی کی حالت میں بھی ان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی ہے، وہ اس حکم پر کاربند رہتے ہیں : ( لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في فضل الذکر : ٣٣٧٥ ] ” تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم : ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا) [ الأحزاب : ٤١ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا۔ “- وَاِقَام الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ : نماز کی اقامت میں اسے وقت پر ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا سب کچھ شامل ہے، یعنی کوئی تجارت یا خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ میں ان کے لیے غفلت کا باعث نہیں بنتی۔- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ دنیا کا کاروبار چھوڑ کر اللہ اللہ کرتے رہو، یہ تو رہبانیت ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے نہیں دی۔ اللہ کے تمام جلیل القدر پیغمبر محنت کے ساتھ کمائی کرتے تھے، آدم (علیہ السلام) مویشی پالنے، کھیتی باڑی، صنعت و حرفت اور ضرورت کے سارے کام خود کرتے تھے۔ زکریا (علیہ السلام) نجار تھے، داؤد (علیہ السلام) زرہیں بناتے تھے۔ تمام پیغمبروں نے بکریاں چرائی ہیں، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پہلے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں، تجارت بھی کی ہے، آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا رزق آپ کے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا تھا۔ صحابہ کرام (رض) کا بھی یہی حال تھا، کوئی مویشی پالتا تھا، کوئی کاشت کار تھا، کوئی صنعت کار، کوئی تجارت کرتا تھا، کوئی مزدوری، البتہ جہاد میں سبھی شامل تھے، جو رزق کا سب سے باعزت ذریعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایتائے زکوٰۃ (زکوٰۃ دینے) کے حکم میں بھی کسب حلال کی ترغیب ہے کہ مال نہیں کمائے گا تو زکوٰۃ کس سے دے گا۔ اسی لیے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقے کی اپیل کرتے تو بعض صحابہ بوجھ اٹھا کر اور بعض رات بھر ڈول کھینچ کر جو کچھ کماتے پیش کردیتے۔ دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٧٩) کی تفسیر۔ - امت مسلمہ کی بدنصیبی کا آغاز اس دن سے ہوا جب ان لوگوں کو اولیاء اللہ قرار دے دیا گیا جنھوں نے جہاد کرنا تو دور، حلال کمانا بھی چھوڑ دیا اور اللہ پر توکّل کے نام پر لوگوں کے لقموں پر پلنا شروع کردیا۔ ان کے ترک دنیا اور خود ساختہ زہد سے متاثر ہو کر لوگ ان پر اپنا مال نچھاور کرنے لگے کہ ان بزرگوں کے طفیل ہم بھی کچھ کیے کرائے بغیر بخشے جائیں گے۔ جب یہ حضرات لوگوں کی نظروں میں نیکی کا معیار بن گئے تو کفار کو مسلمانوں پر چڑھ دوڑنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کی نگاہوں میں ان اعلیٰ ترین لوگوں نے تجارت، صنعت، زراعت، حرب و ضرب سب کچھ چھوڑا تو عوام اور حکمرانوں کی نظر میں بھی یہ کام دنیا پرستی ٹھہرے۔ نتیجہ وہ غلامی ہے جس کا عذاب امت مسلمہ جھیل رہی ہے۔ جب تک یہ امت روزانہ ہزار ہزار رکعت پڑھنے والے، دنیا ترک کرکے مساجد کو چھوڑ کر خانقاہوں کو آباد کرنے والے، کسی معشوق یا شیخ کے تصور میں عمر گزارنے والے، دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے عزت مآب راہبوں کی حقیقت کو نہیں سمجھے گی اور خیر القرون کے صحابہ و تابعین کے عمل کی طرف نہیں پلٹے گی، تو کوئی طاقت انھیں ذلت و رسوائی سے نہیں نکال سکتی۔ - 3 اللہ تعالیٰ کو مطلوب یہ ہے کہ اس کے بندے دنیا کے سب جائز کام کریں، مگر وہ کام ان کے لیے اس کی یاد اور اس کے احکام کی بجا آوری میں رکاوٹ نہ بنیں۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَابُ الْبُیُوْعِ ، بَاب التِّجَارَۃِ فِي الْبَزِّ وَ غَیْرِہِ “ (کپڑے وغیرہ کی تجارت کے باب) میں آیت : (رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ) نقل فرمانے کے بعد جلیل القدر تابعی قتادہ کا قول نقل فرمایا ہے، جس میں انھوں نے صحابہ کرام (رض) کا حال بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں : ( کَانَ الْقَوْمُ یَتَبَایَعُوْنَ وَ یَتَّجِرُوْنَ وَلٰکِنَّھُمْ إِذَا نَابَھُمْ حَقٌّ مِنْ حُقُوْقِ اللّٰہِ لَمْ تُلْھِھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ حَتّٰی یُؤَدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ ) [ بخاري، بعد ح : ٢٠٥٩ ] ” وہ لوگ خریدو فروخت کرتے اور تجارت کرتے تھے، لیکن جب ان کے سامنے اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق آجاتا تو کوئی تجارت یا کوئی خریدو فروخت انھیں اللہ کے اس حق کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی تھی۔ “- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ کے گھروں میں تسبیح کرنے والوں میں سے یہاں صرف مردوں کا ذکر فرمایا، تو کیا عورتیں مسجد میں نہیں جا سکتیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی مردانگی کا ذکر ہے جو تجارت اور خریدو فروخت چھوڑ کر مسجدوں میں جماعت کے ساتھ آ ملتے ہیں اور ظاہر ہے یہ کام مردوں کا ہے، عورتوں کا نہیں۔ (رازی) رہا عورتوں کا مسجد میں آنا تو یہ بات معروف ہے کہ وہ مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ شریک ہوتی تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مسجدوں میں آنے کی اجازت دی اور روکنے سے منع فرمایا۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں : ” عمر (رض) کی ایک بیوی صبح اور عشاء کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھتی تھی (عمر (رض) اسے ناپسند کرتے اور غیرت کھاتے تھے) اسے کسی نے کہا : ” تم کیوں نکلتی ہو، جب کہ تمہیں معلوم ہے کہ عمر اسے ناپسند کرتے ہیں اور غیرت کھاتے ہیں ؟ “ اس نے کہا : ” انھیں کیا مانع ہے کہ مجھے (جانے سے) روک دیں ؟ “ تو اس نے کہا، انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان مانع ہے : ( لَا تَمْنَعُوْا إِمَاء اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ ) [ بخاري، الجمعۃ، باب : ٩٠٠ ] ” اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع مت کرو۔ “ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَمْنَعُوْا نِسَاءَ کُمُ الْمَسَاجِدَ وَ بُیُوْتُھُنَّ خَیْرٌ لَّھُنَّ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب ما جاء في خروج النساء إلی المسجد : ٥٦٧ ] ” اپنی عورتوں کو مسجدوں سے مت روکو اور ان کے گھر ان کے لیے زیادہ اچھے ہیں۔ “ - يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ : یعنی ان مردوں کا اللہ کے گھروں میں ذکر و تسبیح کرنا اس دن کے خوف کی وجہ سے ہے جب دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی، یعنی دل اور آنکھیں خوف اور گھبراہٹ کی شدت سے اپنی معمول کی جگہ چھوڑ دیں گی، جیسا کہ فرمایا : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ ) [ المؤمن : ١٨ ] ” اور انھیں قریب آنے والی گھڑی سے ڈرا جب دل گلوں کے پاس غم سے بھرے ہوں گے۔ “ اور فرمایا : (ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ ) [ إبراھیم : ٤٢ ] ” وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ، اس میں ان مومنین کی خاص صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے خاص مورد اور مسجدوں کو آباد رکھنے والے ہیں اس میں لفظ رجال کی تعبیر میں اس طرف اشارہ ہے کہ مساجد کی حاضری دراصل مردوں کے لئے ہے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل ہے۔- مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ام سلمہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، یعنی عورتوں کی بہترین مساجد ان کے گھروں تک تنگ و تاریک گوشے ہیں۔ اس آیت میں مومنین صالحین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ ان کو تجارت اور بیع کا مشغلہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا۔ لفظ تجارت میں چونکہ بیع بھی داخل ہے اس لئے بعض مفسرین نے مقابلہ کی وجہ سے اس جگہ تجارت سے مراد خریداری اور بیع سے مراد فروخت کرنا لیا ہے اور بعض نے تجارت کو اپنے مفہوم عام میں رکھا ہے یعنی لین دین خریدو فروخت کے معاملات، پھر بیع کو الگ کر کے بیان کرنے کی حکمت یہ بتلائی ہے کہ معاملات تجارت تو ایک وسیع مفہوم ہے جس کے فوائد و منافع کبھی مدتوں میں وصول ہوتے ہیں اور کسی چیز کو فروخت کردینے اور قیمت مع نفع کے نقد وصول کرلینے کا فائدہ فوری اور نقد ہے اس کو خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ اللہ کے ذکر اور نماز کے مقابلہ میں وہ کسی بڑے سے بڑے دنیوی فائدہ کا بھی خیال نہیں کرتے۔- حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ یہ آیت بازار والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت سالم فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عمر بازار سے گزرے تو نماز کا وقت ہوگیا تھا لوگوں کو دیکھا کہ دکانیں بند کر کے مسجد کی طرف جا رہے ہیں تو فرمایا کہ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہے رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ- اور عہد رسالت میں دو صحابی تھے ایک تجارت کرتے تھے دوسرے صنعت و حرفت یعنی لوہار کا کام کرتے اور تلواریں بنا کر بیچتے تھے۔ پہلے صحابی کی تجارت کا حال یہ تھا کہ اگر سودا تولنے کے وقت اذان کی آواز کان میں پڑجاتی تو وہیں ترازو کو پٹک کر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ دوسرے بزرگ کا یہ عالم تھا کہ اگر گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں اور کان میں آواز اذان کی آگئی تو اگر ہتھوڑا مونڈھے پر اٹھائے ہوئے ہیں تو وہیں مونڈھے کے پیچھے ہتھوڑا ڈال کر نماز کو چل دیتے تھے اٹھائے ہوئے ہتھوڑے کی ضرب سے کام لینا بھی گوارا نہ تھا ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی)- صحابہ کرام اکثر تجارت پیشہ تھے :- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام زیادہ تر تجارت پیشہ یا صنعت پیشہ تھے جو کام کہ بازاروں سے متعلق ہیں کیونکہ تجارت و بیع کا مانع از یاد خدا نہ ہونا انہی لوگوں کا وصف ہوسکتا ہے جن کا مشغلہ تجارت و بیع کا ہو ورنہ یہ کہنا فضول ہوگا (رواہ الطبرانی عن ابن عباس۔ روح) - يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ، یہ مومنین جن کا ذکر اوپر آیت میں آیا ہے ان کا آخری وصف ہے جس میں بتلایا ہے کہ یہ حضرات ہر وقت ذکر اللہ اور طاعات و عبادات میں مشغول ہونے کے باوجود بےفکر اور بےڈر بھی نہیں ہوجاتے بلکہ قیامت کے حساب کا خوف ان پر مسلط رہتا ہے اور یہ اس نور ہدایت کا کمال ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوا ہے جس کا ذکر اوپر آیت میں يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ میں فرمایا۔ آخر میں ایسے حضرات کی جزاء کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے عمل کی بہترین جزاء عطا فرما ویں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رِجَالٌ۝ ٠ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوۃِ۝ ٠۠ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۝ ٣٧ۤۙ- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - لهي - أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها .- الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کرامت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔- تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) جن کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا پانچویں نمازوں کے اوقات سے اور بالخصوص پانچوں کو کمال وضو، رکوع، اور سجود اور تمام آداب کے ساتھ ادائیگی سے اور اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرنے سے خرید وفروخت غفلت میں نہیں ڈالتی اور وہ ایسے دن یعنی قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جائیں گی کہ ایک حالت کے بعد دوسری حالت تبدیل ہوجائے گی ایک وقت کو پہچانیں گے اور دوسرے وقت کو نہیں پہچانیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: پچھلی آیت میں یہ بیان تھا کہ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، نور ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔ اب اُن لوگوں کی خصوصیات بیان فرمائی جا رہی ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے نور ہدایت تک پہنچایا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، یہ مسجدیں اور عبادت گاہیں ایسے گھر ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اُن کو بلند مرتبہ دے کر اُن کی تعظیم کی جائے۔ پھر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ان عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والے دُنیا کو بالکل چھوڑ کر نہیں بیٹھتے، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق معاشی کاروبار میں حصہ لے کر تجارت اور خرید و فروخت بھی کرتے ہیں، لیکن یہ تجارتی سرگرمیاں ان کو اﷲ تعالیٰ کی یاد اور اس کے اَحکام کی اطاعت سے غافل نہیں کرتیں۔ چنانچہ وہ اپنے وقت پر نماز بھی قائم کرتے ہیں، زکوٰۃبھی دیتے ہیں، اور کسی وقت اس حقیقت سے بے پروا نہیں ہوتے کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جس میں سارے اعمال کا حساب دینا ہوگا، اور وہ دن اتنا ہولناک ہوگا کہ اس میں لوگوں اور خاص طور پر نافرمانوں کے دل اُلٹ جائیں گے، اور آنکھیں پلٹ کر رہ جائیں گی۔