Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومن کے دل سے مماثلت مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے ۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے ۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال وافعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ان ترفع کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر ، آبادی ، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں ، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لئے آئے گا ، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لئے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے ( تفسیر ابن ابی حاتم ) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں ، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ ( ابن ماجہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ( ترمذی شریف ) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں ۔ ( بخاری شریف ) ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا ، نقش ونگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے ( ابن ماجہ ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ آپ فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند وبالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ ابن عباس راوی حدیث فرماتے ہیں کہ تم یقینا مسجدوں کو مزین ، منقش اور رنگ دار کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا ( ابو داؤد ) فرماتے ہیں قیامت قارئم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخروغرور نہ کرنے لگیں ( ابوداؤد وغیرہ ) ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے ۔ آپ نے بددعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے ۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لئے بنائی گئی ہیں ، اسی کام کے لئے ہیں ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خریدوفروخت ، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرمادیا ہے ( احمد وغیرہ ) فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گم شدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ ( ترمذی ) بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں ، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے ، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے ، نہ یہاں حد ماری جائے ، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے ( ابن ماجہ ) فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو ، دیوانوں کو ، خیریدوفروخت کو ، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو ۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو ( ابن ماجہ ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزر گاہ بنانا مکروہ کہا ہے ۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے ، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں ۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لئے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ کچا گوشت لانا اس لئے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لئے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کردے ۔ بازار بنانا اس لئے منع ہے کہ وہ خریدوفروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں ۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا ، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کردیا تھا کہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں ، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو اس لئے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں ۔ چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے ۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے ۔ بیع وشرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے ۔ جھگڑوں کی مصالحتی مجلس منعقد کرنے سے اس لئے منع کر دیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لئے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا ۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا ، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مجھ سے فرمانے لگے ، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا ۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ تم کہاں کے ہو ؟ انہوں نے کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو ؟ ( بخاری ) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ۔ جانتا بھی ہے تو کہاں ہے ۔ ( نسائی ) اور مسجد کے دروازوں پر وضوکرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا ۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حصل کرتے تھے ۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دوکان پر پڑھی جائے ، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے ، یہ اس لئے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے ، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر ۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔ دار قطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی ۔ سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنادو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے یہ کہتے دعا ( اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم ) فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہوگیا ۔ مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے ( اللہم افتح لی ابو ابک رحمتک ) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر دعا ( اللہم افتح لی ابو اب رحمتک ) پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج کر دعا ( اللم اعصمنی من الشیطان الرجیم ) پڑھے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ جب آپ مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا ( اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک ) پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا ( اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب فضلک ) پڑھتے ۔ اس حدیث کی سند متصل نہیں ۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ اور آیت میں ہے تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو ۔ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں ۔ اس کا نام ان میں لیا جائے یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے ۔ صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آصال جمع ہے اصیل کی ، شام کے وقت کو اصیل کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جہاں کہیں قرآن میں تسبیح کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے ۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے ۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں ۔ ایک قرأت میں یسبح ہے اور اس قرأت پر آصال پر پورا وقف ہے اور رجال سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لئے ۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور یسبح کی قرأت پر رجال فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہئے ۔ کہتے ہیں رجال اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں ۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں ، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ 23؀ۙ ) 33- الأحزاب:23 ) ، یعنی مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا ۔ ہاں عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے ۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے ۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کر لیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ ہاں البتہ عورتوں کے لئے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے ۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں ۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ( بخاری مسلم وغیرہ ) ابو داؤد میں ہے کہ عورتوں کے لئے ان کے گھر افضل ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کر کے نہ نکلیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں ۔ ( بخاری مسلم ) ایسے لوگ جنہیں خرید و فروخت یاد الہٰی سے نہیں روکتی ۔ جیسے ارشاد ہے ایمان والو ، مال واولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے ۔ سورہ جمعہ میں ہے کہ جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو ۔ مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کر سکتی ، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لئے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ، اس کی محبت کو ، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ لوگ انہی میں سے ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا ۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہئے ، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ سالم بن عبداللہ نماز کے لئے جا رہے تھے ۔ دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دوکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دوکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے ۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا ۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے ۔ یہ اس لئے کہ دلوں میں خوف الہٰی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بیحد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی ، دل اڑ جائیں گے ، کلیجے دہل جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میرے نیک بندے میری محبت کی بناپر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے کھلا رہے ہیں ، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں ۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج وغم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے ۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت ، ہنسی خوشی اور راحت وآرام سے ملا دے گا ۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کی نیکیاں مقبول ہیں ، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا ۔ اور آیت میں ہے نیکی دس گناہ کر دی جاتی ہے ۔ اور آیت میں ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے گا ، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کر کے دے گا ۔ فرمان ہے آیت ( يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ٢٦١؁ ) 2- البقرة:261 ) وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لئے چاہے ۔ یہاں فرمان ہے وہ جسے چاہے بےحساب دیتا ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا ، آپ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے ۔ اس لئے آپ ہی کے پاس پھر برتن آیا ۔ آپ نے یہی آیت یخافون سے پڑھی اور پی لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے ، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا پس وہ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا ۔ آپ فرماتے ہیں ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الہٰی یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہوجائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

361جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان و ہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف اور شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد سنگ و خشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیر مناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنادینا مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زر و نگار اور زیادہ آراستہ و پیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں بتلایا گیا ہے۔ 362تسبیح سے مراد نماز ہے، یعنی اہل ایمان، جن کے دل میں ایمان اور ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح شام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] بعض علماء نے یہاں بیوت سے مراد مساجد لی ہیں اور ترفع سے مراد انھیں تعمیر کرنا لیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حق کے متلاشی رہتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو وہ انھیں تسلیم کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں ایسے لوگ مساجد میں پائے جاتے ہیں۔ انھیں دیکھنا ہو تو اللہ کی مساجد میں دیکھو جہاں ہر وقت اللہ کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اور صبح و شام وہاں ایسے لوگ نمازوں اور تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے ہیں۔- اگرچہ یہ توجیہہ بھی درست ہے مگر یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جس کی بنا پر بیوت کے لفظ کو صرف مساجد تک محدود کردیا جائے لہذا اکثر علماء کے نزدیک بیوت سے مراد سب مومنوں کے گھرانے ہیں۔ اور ہر گھر میں اللہ کا ذکر بھی ہوتے رہنا چاہئے اور تسبیح و تہلیل بھی۔ حتیٰ کہ فریضہ نمازوں (یعنی جو نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے جنہیں ہم اپنی زبان میں ہر نماز کی فرض رکعات کہتے ہیں) کے علاوہ نماز کا باقی حصہ سنت، نوافل وغیرہ) یا نفلی نمازیں بھی اپنے اپنے گھروں میں ادا کرنا بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص مساجد میں جانے سے معذور ہو تو وہ فرض نمازیں بھی گھر پر (اکیلے یا باجماعت) ادا کرسکتا ہے۔ جب کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :- ١۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں جب سے مجھے ہوش آیا میں نے اپنے والدین کو مسلمان ہی پایا۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن آپ ہمارے ہاں نہ آئے ہوں۔ صبح و شام آپ دو وقت تشریف لاتے پھر ابوبکر صدیق (رض) کے جی میں آیا تو انہوں نے اپنے صحن میں ایک مسجد بنائی وہ وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھتے۔ مشرکوں کی عورتیں کھڑی ہو کر سنا کرتیں ان کے بچے بھی سنتے اور تعجب کرتے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو دیکھتے رہتے ابوبکر صدیق (رض) ایک رونے والے آدمی تھے تو اپنی آنکھوں سے آنسو روک نہ سکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مشرکین قریش سٹ پٹاگئے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستقاء فی المسجد)- ٢۔ محمود بن ربیع الانصاری کہتے ہیں کہ عتبان بن مالک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا : یارسول اللہ میرے بینائی بگڑ گئی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برسے تو نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے۔ لہذا میں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا کہ ان کو نماز پڑھا سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تو اس جگہ کو مسجد بنا لوں آپ نے فرمایا : اچھا میں انشاء اللہ یہ کام کروں گا چ ٢ نانچہ (دوسرے دن) صبح آپ اور ابوبکر صدیق (رض) دونوں دن چڑھے میرے ہاں آئے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپ تشریف لائے اور بیٹھنے سے پہلے ہی پوچھا : اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں ؟ عتبان نے آپ کو گھر کا ایک کونا بتلایا۔ آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی آپ نے دو رکعت (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا۔ پھر ہم نے حلیم تیار کرکے آپ کو روک لیا۔ محلہ کے اور آدمی بھی گھر میں جمع ہوگئے۔ ان میں ایک آدمی کہنے لگے : مالک بن دخنیشن یا دخشن کہاں ہے ؟ کسی نے (عتبان) کہا : وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محنت نہیں رکھتا آپ نے فرمایا : ایسا مت کہو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ خالصتؤہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے عتبان کہنے لگے : اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اس کی توجہ اور ہمدردی منافقوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے آگ کو اس شخص پر حرام کردیا ہے جو خالصتؤہ اللہ کی رضا مندی کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب المساجد فی البیوت)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ : ” بُيُوْتٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” ان عظیم گھروں میں “ کیا گیا ہے۔ ” اَذِنَ “ کا لفظ اجازت اور حکم دونوں معنوں میں آتا ہے، یہاں مراد حکم ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ) [ النساء : ٦٤ ] ” اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔ “- ” فِيْ بُيُوْتٍ “ جار مجرور کس کے متعلق ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی آیت میں کئی الفاظ ہیں جن میں سے کسی کے بھی متعلق کردیں تو معنی درست ہوتا ہے، مثلاً ” نورٌ، کَمشکٰوۃ، مِصْباح، الزُّجاجۃ “ اور ” یوقد “ یعنی وہ نور ہدایت ایسے عظیم گھروں میں ملتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” جب اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی اور اس میں موجود علم اور ہدایت کی مثال ایسے چراغ کے ساتھ دی جو شفاف فانوس میں ہے اور نہایت عمدہ تیل کے ساتھ روشن کیا جا رہا ہے، تو اس کی جگہ بیان فرمائی کہ وہ جگہ زمین کے تمام قطعوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب قطعہ اللہ کی مسجدیں ہیں، جن میں اس کی عبادت ہوتی ہے اور اس کی توحید کا اعلان ہوتا ہے۔ “- ” اَنْ تُرْفَعَ “ کا لفظی معنی ہے ” کہ وہ (گھر) بلند کیے جائیں “ مگر یہاں بلند کرنے سے مراد یہ نہیں کہ ان کی عمارت زیادہ سے زیادہ اونچی بنائی جائے، کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) انھیں کھجور کے تنوں اور ٹہنیوں سے نہ بناتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ فرماتے : ( مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب في بناء المساجد : ٤٤٨، قال الألباني صحیح، عن ابن عباس (رض) ] ” مجھے مساجد کو اونچا بنانے یا چونا گچ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ “ اس سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ”(فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ ) وَھِيَ الْمَسَاجِدُ تُکْرَمُ وَ نُھِيَ عَنِ اللَّغْوِ فِیْھَا “ [ طبري : ٢٦٣٣٦ ] ” اس آیت میں ” بُيُوْتٍ “ سے مراد مساجد ہیں، ان کی تکریم و تعظیم کی جائے اور ان میں لغو کاموں سے منع کیا گیا۔ “ ابن عباس (رض) کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ” بُيُوْتٍ “ سے مراد مساجد ہیں اور انھیں بلند کرنے سے مراد ان کی تکریم اور ان میں لغو کاموں سے بچنا ہے۔ ” رفع مساجد “ یعنی مسجدوں کی تعظیم و تکریم میں انھیں ہر محلے میں بنانا، ان میں جھاڑو پھیرنا، انھیں نجاست اور گندگی سے پاک رکھنا، انھیں خوشبو دار رکھنا، تحیۃ المسجد پڑھے بغیر ان میں نہ بیٹھنا، ان میں تھوکنے سے، غلط اور شرکیہ اشعار پڑھنے سے، بےہودہ باتوں اور شوروغل سے بچنا، گم شدہ چیز کا ان میں اعلان نہ کرنا اور ان میں خریدو فروخت نہ کرنا، سب کچھ شامل ہے۔ علاوہ ازیں حائضہ اور جنبی کو مسجد میں داخلے سے ممانعت، بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت، مسجد کو راستے کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت اور مساجد میں حدود اللہ قائم کرنے سے ممانعت بھی ان کی نظافت اور تکریم ہی کی وجہ سے ہے۔ ان میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں اور نکلتے وقت بایاں پاؤں پہلے رکھنا ان کی تکریم کا حصہ ہے۔ اسی طرح ان میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ سے رحمت کی درخواست اور شیطان مردود سے پناہ کی طلب اور نکلتے وقت اللہ کے فضل کی درخواست واضح علامت ہے کہ بندہ کسی عام جگہ میں داخل یا اس سے خارج نہیں ہو رہا، بلکہ ایک نہایت عظمت والے مقام میں داخل ہو رہا ہے، یا اس سے نکل رہا ہے۔ ان تمام باتوں کی تفصیل آیات و احادیث میں موجود ہے اور تھوڑی سے توجہ سے بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں اس کا خاصا حصہ مذکور ہے۔ - وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ : مساجد میں اللہ کا نام یاد کرنے میں فرض اور نفل سب نمازیں شامل ہیں، اسی طرح اس میں قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کی تسبیح، اس کی حمد، لا الٰہ الا اللہ اور دوسرے تمام اذکار شامل ہیں۔ علم کا سیکھنا سکھانا، اس کا باہم مذاکرہ، اعتکاف اور دوسری تمام عبادات شامل ہیں جو مساجد میں ادا کی جاتی ہیں۔ - يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ : ” بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ “ کے لیے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (٢٠٥) یعنی ان مساجد میں بڑی شان والے مرد خلوص کے ساتھ اللہ کے لیے صبح و شام تسبیح بیان کرتے ہیں۔ تسبیح میں اگرچہ سب اذکار آجاتے ہیں اور عموماً اذکار روزانہ صبح و شام ہی کیے جاتے ہیں، مگر ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر فرض نماز کے ساتھ فرمائی ہے۔ چناچہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس (رض) کی تفسیر بیان فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ” رِجَالٌ“ کا مطلب یہ ہے کہ بڑی شان والے وہ مرد پہلے اور پچھلے پہر ان میں اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ ” غُدُوٌّ“ سے مراد صبح کی نماز ہے اور ” آصَالٌ“ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ یہ دونوں نمازیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے فرض فرمائیں، اس لیے اس نے پسند فرمایا کہ ان نمازوں کا ذکر کرے اور ان کے ساتھ اپنی عبادت کا ذکر کرے۔ “ - [ طبري : ٢٦٣٥١ ]- قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی تسبیح بول کر نماز مراد لی گئی ہے، دیکھیے سورة طٰہٰ (١٣٠) ، سورة ق (٣٩، ٤٠) اور سورة طور (٤٩) بعض مفسرین نے ” وَالْاٰصَال “ سے چاروں نمازیں مراد لی ہیں۔ بغوی نے فرمایا : ” کیونکہ ” وَالْاٰصَال “ میں وہ چاروں آجاتی ہیں۔ “ ” صَیْلٌ“ کا لفظ سورج ڈھلنے سے لے کر فجر سے پہلے تک بھی بولا جاتا ہے، اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے یہ تفسیر درست ہے، تاہم شان نزول کو مدنظر رکھیں تو ابن عباس (رض) کی تفسیر راجح ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَال الآیة سابقہ آیت میں حق تعالیٰ نے قلب مومن میں اپنا نور ہدایت ڈال دینے کی ایک خاص مثال بیان فرمائی تھی اور آخر میں یہ فرمایا تھا کہ اس نور سے فائدہ وہ ہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ چاہتا اور توفیق دیتا ہے۔ اس آیت میں ایسے مومنین کا مستقر اور محل بیان فرمایا گیا کہ ایسے مومنین کا اصل مقام و مستقر جہاں وہ اکثر اوقات خصوصاً پانچ نمازوں کے اوقات میں دیکھے جاتے ہیں وہ بیوت یعنی مکانات ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ ان کو بلند وبالا رکھا جائے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے اور ان بیوت و مکانات کی شان یہ ہے کہ ان میں اللہ کے نام کی تسبیح و تقدیس صبح شام یعنی تمام اوقات میں ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کی خاص صفات کا بیان آگے آتا ہے۔- اس تقریر کی بناء اس پر ہے کہ نحوی ترکیب میں فِيْ بُيُوْتٍ کا تعلق آیت کے جملہ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ کے ساتھ ہو (کما یستفاد من ابن کثیر وغیرہ من المفسرین) بعض حضرات نے اس کا تعلق لفظ یسبح محذوف کے ساتھ کیا ہے جس پر آگے آنے والا لفظ یسبح دلالت کرتا ہے مگر پہلا احتمال نسق کلام کے اعتبار سے بہتر معلوم ہوتا ہے اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مثال سابق میں اللہ تعالیٰ کے جس نور ہدایت کا ذکر ہوا ہے اس کے ملنے کی جگہ وہ بیوت و مکانات ہیں جہاں صبح شام اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ان بیوت سے مراد مساجد ہیں۔- مساجد اللہ کے گھر ہیں ان کی تعظیم واجب ہے :- قرطبی نے اسی کو ترجیح دی اور استدلال میں حضرت انس کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- من احب اللہ عزوجل فلیحبنی ومن احبنی فلیحب اصحابی ومن احب اصحابی فلیحب القران ومن احب القران فلیحب المساجد فانھا افنیۃ اللہ اذن اللہ فی رفعھا وبارک فیھا میمونۃ میمون اھلھا محفوظۃ محفوظ اھلھاھم فی صلاتھم واللہ عزوجل فی حوائجھم ھم فی المساجد واللہ من ورائھم (قرطبی)- جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ مجھ سے محبت کرے اور جو مجھ سے محبت رکھنا چاہے اس کو چاہئے کہ میرے صحابہ سے محبت کرے اور جو صحابہ سے محبت رکھنا چاہے اس کو چاہئے کہ قرآن سے محبت کرے اور جو قرآن سے محبت رکھنا چاہے اس کو چاہئے کہ مسجدوں سے محبت کرے کیونکہ وہ اللہ کے گھر ہیں، اللہ نے ان کی تعظیم کا حکم دیا ہے اور ان میں برکت رکھی ہے وہ بھی بابرکت ہیں اور ان کے رہنے والے بھی بابرکت۔ وہ بھی اللہ کی حفاظت میں ہیں اور ان کے رہنے والے بھی حفاظت میں۔ وہ لوگ اپنی نمازوں میں مشغول ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے کام بناتے اور حاجتیں پوری کرتے ہیں وہ مسجدوں میں ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے پیچھے ان کی چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (قرطبی)- رفع مساجد کے معنے :- اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ ، اَذِنَ اذن سے مشتق ہے جس کے معنی اجازت دینے کے ہیں اور ترفع، رفع سے مشتق ہے جس کے معنے بلند کرنے اور تعظیم کرنے کے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے مسجدوں کو بلند کرنے کی۔ اجازت دینے سے مراد اس کا حکم کرنا ہے اور بلند کرنے سے مراد ان کی تعظیم کرنا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ بلند کرنے کے حکم میں اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں لغو کام کرنے اور لغو کلام کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر)- عکرمہ و مجاہد امام تفسیر نے فرمایا کہ رفع سے مراد مسجد کا بنانا ہے جسے بناء کعبہ کے متعلق قرآن میں آیا ہے وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ کہ اس میں رفع قواعد سے مراد بناء قواعد ہے، اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ رفع مساجد سے مراد مساجد کی تعظیم و احترام اور ان کو نجاستوں اور گندی چیزوں سے پاک رکھنا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مسجد میں جب کوئی نجاست لائی جاوے تو مسجد اس سے اس طرح سمٹتی ہے جیسے انسان کی کھال آگ سے۔ حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے مسجد میں سے ناپاکی اور گندگی اور ایذا کی چیز کو نکال دیا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنادیں گے رواہ ابن ماجہ۔ اور حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے گھروں میں (بھی) مسجدیں (یعنی نماز پڑھنے کی مخصوص جگہیں) بنائیں اور ان کو پاک صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔ (قرطبی)- اور اصل بات یہ ہے کہ لفظ ترفع میں مسجدوں کا بنانا بھی داخل ہے اور ان کی تعظیم و تکریم اور پاک صاف رکھنا بھی۔ پاک صاف رکھنے میں یہ بھی داخل ہے کہ ہر نجاست اور گندگی سے پاک رکھیں اور یہ بھی داخل ہے کہ ان کو ہر بدبو کی چیز سے پاک رکھیں۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لہسن یا پیاز کھا کر بغیر منہ صاف کئے ہوئے مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے جو عام کتب حدیث میں معروف ہے۔ سگرٹ، حقہ، پان کا تمباکو کھا کر مسجد میں جانا بھی اسی حکم میں ہے۔ مسجد میں مٹی کا تیل جلانا جس میں بدبو ہوتی ہے وہ بھی اسی حکم میں ہے۔ - صحیح مسلم میں حضرت فاروق اعظم سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شخص کے منہ سے لہسن یا پیاز کی بدبو محسوس فرماتے تھے اس کو مسجد سے نکال کر بقیع میں بھیج دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس کو لہسن پیاز کھانا ہی ہو تو اس کو خوب اچھی طرح پکا کر کھائے کہ ان کی بدبو ماری جائے حضرات فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کر کے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی ایسی بیماری ہو کہ اس کے پاس کھڑے ہونے والوں کو اس سے تکلیف پہنچے اس کو بھی مسجد سے ہٹایا جاسکتا ہے اس کو خود چاہئے کہ جب تک ایسی بیماری میں ہے نماز گھر میں پڑھے۔- رفع مساجد : کا مفہوم جمہور صحابہ وتابعین کے نزدیک یہی ہے کہ مسجدیں بنائی جائیں اور ان کو ہر بری چیز سے پاک صاف رکھا جائے۔ بعض حضرات نے اس میں مسجدوں کی ظاہری شان و شوکت اور تعمیری بلندی کو بھی داخل قرار دیا ہے اور استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی نے مسجد نبوی کی تعمیر سال کی لکڑی سے شاندار بنائی تھی اور حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسجد نبوی میں نقش ونگار اور تعمیری خوبصورتی کا کافی اہتمام فرمایا تھا اور یہ زمانہ اجلہ صحابہ کا تھا کسی نے ان کے اس فعل پر انکار نہیں کیا اور بعد کے بادشاہوں نے تو مسجدوں کی تعمیرات میں بڑے اموال خرچ کئے ہیں۔ ولید بن عبدالملک نے اپنے زمانہ خلافت میں دمشق کی جامع مسجد کی تعمیر و تزئین پر پورے ملک شام کی سالانہ آمدنی سے تین گنا زیادہ مال خرچ کیا تھا ان کی بنائی ہوئی یہ مسجد آج تک قائم ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اگر نام و نمود اور شہرت کے لئے نہ ہو اللہ کے نام اور اللہ کے گھر کی تعظیم کی نیت سے کوئی شخص مسجد کی تعمیر شاندار بلندو مستحکم خوبصورت بنائے تو کوئی ممانعت نہیں بلکہ امید ثواب کی ہے۔- بعض فضائل مساجد :- ابو داؤد نے حضرت ابوامامہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لئے مسجد کی طرف نکلا اس کا ثواب اس شخص جیسا ہے جو احرام باندھ کر گھر سے حج کے لئے نکلا ہو اور جو شخص نماز اشراق کے لئے اپنے گھر سے وضو کر کے مسجد کی طرف چلا تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے جیسا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری بشرطیکہ ان دونوں کے درمیان کوئی کام یا کلام نہ کرے، علیین میں لکھی جاتی ہے۔ اور حضرت بریدہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ اندھیرے میں مساجد کو جاتے ہیں ان کو قیامت کے روز مکمل نور کی بشارت سنا دیجئے۔ (رواہ مسلم)- اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مرد کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا، گھر میں یا دکان میں نماز پڑھنے کی نسبت بیس سے زائد درجہ افضل ہے اور یہ اس لئے کہ جب کوئی شخص وضو کرے اور اچھی طرح (سنت کے مطابق) وضو کرے پھر مسجد کو صرف نماز کی نیت سے چلے اور کوئی غرض نہ ہو تو ہر قدم پر اس کا مرتبہ ایک درجہ بلند ہوجاتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جائے۔ پھر جب تک جماعت کے انتظار میں بیٹھا رہے گا اس کو نماز ہی کا ثواب ملتا رہے گا اور فرشتے اس کے لئے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ، اس پر رحمت نازل فرما اور اس کی مغفرت فرما، جب تک کہ وہ کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور اس کا وضو نہ ٹوٹے اور حضرت حکم بن عمیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں مہمانوں کی طرح رہو اور مسجدوں کو اپنا گھر بناؤ اور اپنے دلوں کو رقت کی عادت ڈالو (یعنی رقیق القلب نرم دل بنو) اور (للہ کی نعمتوں میں) کثرت سے تفکر و غور کیا کرو اور بکثرت (اللہ کے خوف سے) رویا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ خواشہات دنیا تمہیں اس حال سے مختلف کردیں کہ تم گھروں کی فضول تعمیرات میں لگ جاؤ جن میں رہنا بھی نہ ہو اور ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنے کی فکر میں لگ جاؤ اور مستقبل کے لئے ایسی فضول تمناؤں میں مبتلا ہوجاؤ جو پا نہ سکو۔ اور حضرت ابوالدرداء نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ تمہارا گھر مسجد ہونا چاہئے کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ مساجد متقی لوگوں کے گھر ہیں جس شخص نے مساجد کو (کثرت ذکر کے ذریعہ) اپنا گھر بنا لیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے راحت و سکون اور پل صراط پر آسانی سے گزرنے کا ضامن ہوگیا، اور ابو صادق ازدی نے شعیب بن الحجاب کو خط لکھا کہ مسجدوں کو لازم پکڑو کیونکہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ مساجد ہی انبیاء کی مجالس تھیں۔- اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو مسجدوں میں آ کر جگہ جگہ حلقے بنا کر بیٹھ جاویں گے اور وہاں دنیا ہی کی اور اس کی محبت کی باتیں کریں گے تم ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایسے مسجد میں آنے والوں کی ضرورت نہیں۔- اور حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں بیٹھا گویا وہ اپنے رب کی مجلس میں بیٹھا ہے اس لئے اس کے ذمہ ہے کہ زبان سے سوائے کلمہ خیر کے اور کوئی کلمہ نہ نکالے۔ (قرطبی)- مساجد کے پندرہ آداب :- علماء نے آداب مساجد میں پندرہ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اول یہ کہ مسجد میں پہنچنے پر اگر کچھ لوگوں کو بیٹھا دیکھے تو ان کو سلام کرے اور کوئی نہ ہو تو السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین کہے (لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ مسجد کے حاضرین نفلی نماز یا تلاوت و تسیح وغیرہ میں مشغول نہ ہوں ورنہ اس کو سلام کرنا درست نہیں۔ ) دوسرے یہ کہ مسجد میں داخل ہو کر بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیتہ المسجد کی پڑھے (یہ بھی جب ہے کہ اس وقت نماز پڑھنا مکروہ نہ ہو، مثلاً عین آفتاب کے طلوع یا غروب یا استواء نصف النہار کا وقت نہ ہو۔ ١٢ ش) تیسرے یہ کہ مسجد میں خریدو فروخت نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ وہاں تیر تلوار نہ نکالے۔ پانچویں یہ کہ مسجد میں اپنی گم شدہ چیز تلاش کرنے کا اعلان نہ کرے۔ چھٹے یہ کہ مسجد میں آواز بلند نہ کرے۔ نویں یہ کہ جہاں صف میں پوری جگہ نہ ہو وہاں گھس کر لوگوں پر تنگی پیدا نہ کرے۔ دسویں یہ کہ کسی نماز پڑھنے والے کے آگے سے نہ گزرے۔ گیارہویں یہ کہ مسجد میں تھوکنے ناک صاف کرنے سے پرہیز کرے۔ بارہویں اپنی انگلیاں نہ چٹخائے۔ تیرہویں یہ کہ اپنے بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرے۔ چودھویں نجاسات سے پاک صاف رہے اور کسی چھوٹے بچے یا مجنون کو ساتھ نہ لے جائے۔ پندرہویں یہ کہ وہاں کثرت سے ذکر اللہ میں مشغول رہے۔ قرطبی نے یہ پندرہ آداب لکھنے کے بعد فرمایا ہے کہ جس نے یہ کام کر لئے اس نے مسجد کا حق ادا کردیا اور مسجد اس کے لئے حرز وامان کی جگہ بن گئی۔- احقر نے مساجد کے آداب و احکام ایک مستقل رسالہ بنام آداب المساجد میں جمع کردیئے ہیں جن کو ضرورت ہو اس کا مطالعہ فرمائیں۔- جو مکانات، ذکر اللہ، تعلیم قرآن، تعلیم دین کے لئے مخصوص ہوں وہ بھی مساجد کے حکم میں ہیں :- تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے فرمایا کہ فی بیوت کا لفظ قرآن میں عام ہے جس طرح مساجد اس میں داخل ہیں اسی طرح وہ مکانات جو خاص تعلیم قرآن تعلیم دین یا وعظ و نصیحت یا ذکر و شغل کے لئے بنائے گئے ہوں جیسے مدارس اور خانقاہیں، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ان کا بھی ادب و احترام لازم ہے۔- اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ میں لفظ اذن کی خاص حکمت :- علماء تفسیر کا اتفاق ہے کہ اس جگہ اذن بمعنی امر و حکم ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر لفظ اذن کے اس جگہ لانے میں کیا مصلحت ہے روح المعانی میں ایک لطیف مصلحت یہ بیان کی ہے کہ اس میں مومنین صالحین کو اس ادب کی تعلیم و ترغیب دینا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی حاصل کرنے کے ہر کام کے لئے ایسے مستعد اور تیار ہونے چاہئیں کہ حکم کی ضرورت نہ پڑے صرف اس کے منتظر ہوں کہ کب ہمیں اس کام کی اجازت ملے تو ہم یہ سعادت حاصل کریں۔- يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ یہاں اللہ کا نام ذکر کرنے میں ہر قسم کا ذکر شامل ہے تسبیح وتحمید وغیرہ بھی نفلی، نماز بھی) تلاوت قرآن وعظ و نصیحت تعلیم علم دین، اور علوم دینیہ کے سب مشاغل اس میں داخل ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ۝ ٠ۙ يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝ ٣٦ۙ- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغراۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- أصل - وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی:- أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح 9] .- ( ا ص ل ) اصل - الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بلندی ذکر کی تشریح - قول باری ہے : (فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیح عن ذکراللہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ) اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے، ان میں ایسے لوگ صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز وادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کردیتی ۔ ایک قول کے مطابق آیت کے معنی ہیں ” وہ چراغ جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ ایک قول ہے کہ ” یہ چراغ ان گھروں میں روشن کیے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ان گھروں سے مراد مسجدیں ہیں۔ حسن اور مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ (ان ترفع۔ ) کا مفہوم یہ ہے کہ مسجدوں کی عمارتیں بلند بنائی جائیں۔ جس طرح یہ قول باری ہے : (واذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت واسماعیل) اور یہ کہ ابراہیم اور اسماعیل جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ (ان ترفع) کے معنی ہیں ” اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے ان کی عظمت بڑھائی جائے اس لئے کہ مساجد نمازوں کی جگہیں ہوتی ہیں اور ان میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔- ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے چاشت کی نماز کے متعلق پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا کہ اس کا ذکر اللہ کی کتاب میں موجود ہے لیکن اسے صرف وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو قرآن کے بحربے کنار کاشنا ور ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : (فی بیوت اذن اللہ ان ترفع) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ان ترفع) سے درج بالا دونوں باتیں مراد لینا جائز ہے یعنی مساجد کی عمارتیں بلند بنائی جائیں اور ان کی تعظیم کی جائے۔ اس لئے کہ ان کی تعمیر کا مقصد نماز کی ادائیگی اور اللہ کا ذکر ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مساجد کو دنیاوی کاموں سے پاک رکھنا واجب ہے۔ مثلاً وہاں بیٹھ کر خریدوفروخت کرنا یا چیزیں بنانا یا خوش گپیوں میں مصروف ہوجانا جو لغو اور بےفائدہ ہوتی ہیں یا احمقانہ حرکتیں کرنا یا اسی قسم کا کوئی اور کام کرتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ” اپنی مسجدوں کو بچوں اور دیوانوں سے، نیز شور وغل ، بیع وشراء اور حدود جاری کرنے سے بچا کے رکھو، جمعہ کے دنوں میں انہیں دھونی دیا کرو اور ان کے دروازوں پر پانی رکھا کرو۔ “ قول باری : (یسبح لہ فیھا بالغدو والا صال ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) اور ضحاک سے مروی ہے کہ ان میں اللہ کے لئے صبح وشام نمازیں پڑی جاتی ہیں۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ” قرآن میں مذکور ہر تسبیح سے نماز مراد ہے۔ “ قول باری : (رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا یبح عن ذکر اللہ) کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے ” بخدا لوگ بازاروں کے اندر خرید و فروخت میں مصروف رہتے ، جس اللہ کا حق آجاتا یعنی نماز کا وقت ہوجاتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کا حق ادا کرنے میں لگ جاتے، جب اس سے فارغ ہوجاتے تو پھر اپنے کاروبار کی طرف پلٹ آتے، عطاء سے منقول ہے کہ اس سے جماعت کے ساتھ فرض نماز ادا کرنا مراد ہے۔- مجاہد نے قول باری : عن ذکر اللہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے اوقات صلوٰۃ مراد ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مصروف دیکھا جب نماز کا وقت آیا تو سب کے سب نماز کے لئے چل دیے، یہ دیکھ کر انہوں نے فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے : (لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) اور وہ نور معرفت کی قندیلیں ایسے گھروں یعنی مساجد میں لٹکی ہوئی ہیں کہ جن کے بنانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی جاتی ہے اور ان مسجدوں میں ایسے لوگ صبح وشام نمازوں میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں یعنی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا) ” - ان گھروں سے مراد مساجد ہیں اور انہیں بلند کرنے کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ مساجد کی تعمیر اس انداز اور ایسی جگہوں پر کی جائے کہ وہ پوری آبادی میں بہت نمایاں اور مرکزی حیثیت کی حامل ہوں اور دوسرے یہ کہ ان کے معنوی ترفعّ کو یقینی بنایا جائے اور ہر قسم کی معنوی نجاست سے انہیں پاک رکھا جائے۔- (یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) ” - یہ صاحب ایمان لوگ جن کے دلوں میں نور ایمان کی قندیلیں روشن ہیں وہ اللہ کے ان گھروں میں صبح و شام اس کا ذکر اور اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :68 بعض مفسرین نے ان گھروں سے مراد مساجد لی ہیں ، اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے ۔ اور بعض دوسرے مفسرین ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لیتے ہیں اور انہیں بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انہیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے ۔ ان مین اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ، یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کے زیادہ مؤید نظر آتے ہیں ، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کے بھی اتنے ہی مؤید ہیں جتنے پہلی تفسیر کے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف معبدوں تک ہی محدود نہیں رکھتے جہاں کاہن یا پوجاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جا سکتے ، بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے ۔ چونکہ اس سورے میں تمام تر خانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ، اس لیے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اگرچہ پہلی تفسیر کو بھی رد کر دینے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہے ۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں ، دونوں ہی ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani