مدبر کائنات نور ہی نور ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ اللہ ہادی ہے ، آسمان والوں اور زمین والوں کا ۔ وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ کا نور ہدایت ہے ۔ ابن جریر اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔ اولا اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال بلکہ حضرت ابی اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت ( مثل نور من امن بہ ) ابن عباس کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے آیت ( کذالک نور من امن باللہ ) بعض کی قرأت میں اللہ نور ہے یعنی اس نے آسمان وزمین کو نورانی بنا دیا ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان وزمین روشن ہیں ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ جس دن اہل طائف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ نے اپنی دعا میں فرمایا تھا دعا ( اعوذ بنور وجہک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان یحل بی غضبک او ینزل بی سخطک لک العتبی حتی ترضی ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) اس دعا میں ہے کہ تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آرہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کر دیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے الخ ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تب یہ فرماتے کہ اللہ تیرے ہی لئے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نورہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں ، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے ۔ نورہ کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مومن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے اور بعض کے نزدیک مومن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مومن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی دلیل اور ساتھ ہی شہادت لئے ہوئے ہے پس مومن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے ۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ ۔ یہودیوں نے اعتراضا کہا تھا کہ اللہ کانور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی ۔ پس فرمایا کہ اللہ آسمان زمین کا نور ہے ۔ مشک ۃ کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نور فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور سوراخ وغیرہ نہ ہو ۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے ۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ ۔ چنانچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے ۔ پس مصباح سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے ۔ سدی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں چراغ مراد ہے پھر فرمایا یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے ، یہ صاف قندیل میں ہے ، یہ مومن کے دل کی مثال ہے ۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ ۔ اس کی دوسری قرأت درءی اور دراءی بھی ہے ۔ یہ ماخوذ ہے در سے جس کے معنی دفع کے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب دراری کہتے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو ۔ پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو ۔ زیتونتہ کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے ۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آجائے ۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے ۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے ۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف ، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت ، پہاڑ ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمک دار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی ۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچا ہوا ہوتا ہے ، اسی طرح مومن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے ( ١ ) بات میں سچ ( ٢ ) حکم میں عدل ( ٣ ) بلا پر صبر ( ٤ ) نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو ۔ حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الہٰی کی مثال ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی ۔ ان سب اقول میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بےروک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا ۔ اسی لئے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے ۔ نور پر نور ہے ۔ یعنی ایمان کانور پھر اس پر نیک اعمال کا نور ۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہو جاتے ہیں اس کا کلام نور ہے اس کا عمل نورہے ۔ اس کا آنا نور اس کا جانا نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانا نورہے یعنی جنت ۔ کعب رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپ کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہوجائے ۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے ۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا ۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی ۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہو جاتے ہیں اور مومن کا دل روشن ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے ، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا ۔ اس لئے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا ۔ ( مسند وغیرہ ) اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے لگ لئے بیان فرما رہا ہے ، اسکے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں ، وہ ہدایت وضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے دلوں کی چار قسمیں ہیں ایک تو صاف اور روشن ، ایک غلاف دار اور بندھا ہوا ، ایک یلٹا اور اور اوندھا ، ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا ۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے ۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہوگیا ۔ پہچان لیا پھر منکر ہوگیا ۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے ۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے ۔ اب ان میں سے جو غالب آگیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے ۔
3 5 1یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔ 3 5 2نور سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔ 3 5 3جس طرح اللہ نے مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔
[٥٩] قرآن میں عموماً جہاں کہیں بھی آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر آیا ہے وہاں اس سے مراد پوری کائنات ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہے یا پوری کائنات کو روشن کرنے والا ہے۔- نور تین قسم کا ہوتا ہے (١) روشن چیزوں کا نور مثلاً سورج، چاند، ستاروں اور چراغ یا برقی قمقموں کا نور۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ایسے نور کے بغیر انسان ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ (٢) آنکھ کا نور جس کی عدم موجودگی میں روشن چیزوں کا نور بےکار ہوتا ہے۔ سورج نکلا ہوا ہو تب بھی آنکھ کے اندھے کو کوئی چیز نہیں آتی۔ (٣) وحی یا علم دین کا نور جس کی عدم موجودگی میں انسان ہدایت کے نور سے استفادہ نہیں کرسکتا جس طرح ایک اندھا سورج کی روشنی میں بھی ظاہری اشیاء کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح دل کے اندھے کے لئے تعلیمات الٰہیہ بےکار ثابت ہوتی ہیں۔- ان دیکھئے آنکھ کا نور بھی خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ اس کی ماہیت کیا ہے ؟ یہ بات سمجھنا غالباً انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نور بصارت چھین لے تو کوئی طاقت اسے واپس نہیں لاسکتی۔ اور اسی آنکھ کے نور سے ہم کائنات کی اشیاء کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہذا اصل منبع نور خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی اور اسی کے نور سے کائنات کی ایک ایک چیز کی نمود ہے۔- اور دوسری طرف دل کا نور بھی خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور اسی نور سے انسان آیات انفس و آفاق میں فکر و تدبیر کرتا ہے اور وحی الٰہی سے فیض یاب ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کو نور و ہدایت حاصل ہوا یا جس مقدار میں حاصل ہوا سب کچھ اسی منبع نور سے حاصل ہوا ہے۔ بعض علماء نے یہاں نور کے معنی منور کیا ہے۔ اس لحاظ سے پہلی توجیہہ فٹ بیٹھتی ہے لیکن نور کا لفظ منور سے زیادہ ابلغ ہے۔ پھر نور کا لفظ ہر دو توجیہات کے مطابق ہے۔ لہذا ہمارے خیال میں نور کا معنی نور یا روشنی ہی سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔- [٦٠] اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نور کی جو مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کی مندرجہ بالا دو توجیہات کے مطابق دو صورتیں ہیں۔ پہلی توجیہہ کے مطابق یہ پوری کائنات ایک اطاق کی مانند ہے۔ اور اس میں جس چراغ کی روشنی کی مثال پیش کی گئی ہے۔ وہ اللہ کا نور ہے۔ باقی جو باتیں مذکور ہیں وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ایک انسان زیادہ سے زیادہ اور صاف شفاف روشنی کا جو تصور اس دور میں کرسکتا تھا وہ پیش کیا گیا ہے مثلاً ایک یہ ہے کہ وہ چراغ ایک اطاق میں ہے جس کا مطلب یہ ہے روشنی کے پھیلاؤ کا دائرہ وسیع نہیں بلکہ بہت محدود حصہ میں ہے تاکہ اطاق میں پڑی ہوئی ہر چیز بڑی واضح اور نمایاں نظر آسکے۔ دوسرے یہ کہ اس چراغ میں جلنے والا تیل زیتوں کا تیل ہے۔ جو دوسرے تمام قسم کے تیلوں سے زیادہ اور صاف روشنی دیتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ زیتوں کا دخت ہر وقت دھوپ میں رہتا ہے۔ مشرقی اور مغربی رخ کے سائے اس درخت پر نہیں پڑتے اور ایسے ہمیشہ دھوپ میں رہنے والے درخت کا تیل عام درختوں کے تیل سے زیادہ لطیف ہوتا ہے نیز اس میں یہ خاصیت ہے کہ آگ لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آگ نزدیک ہونے سے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ جیسا کہ آج کل پٹرول میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اس چراغ کے گردا گرد نہایت صاف شفاف شیشہ یا فانوس ہے۔ اور ایسے فانوس سے جس قدر روشنی میں اضافہ ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ کسی لالٹین سے اس کی شیشہ کی چمنی اتار کرسکتے ہیں۔ گویا چراغ کی روشنی کو سربالا یا نور علی نور کرنے والی تیا چیزیں ہوئیں۔ ایک تیل کی اعلیٰ کو الٹی، دوسرے صاف شفاف فانوس اور تیسرے روشنی کا دائرہ بہت محدود ہونا اور مثال کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ایسی روشنی سے کائنات کی ایک ایک چیز کو منور کر رہا ہے۔- اور دوسری صورت میں چراغ اور اس کے تیل سے مراد نور بصیرت یا نور ایمان ہے۔ فانوس سے مراد انسان کا دل ہے۔ جس میں یہ نور بصیرت واقع ہوتا ہے اور اطاق سے مراد اس کا جسم ہے۔ پھر جب ہدایت یا آیات الٰہی پہنچتی ہیں تو ایسے شخص کی بصیرت اس کو قبول کرنے کے لئے پہلے ہی بےتاب ہوتی ہے۔ اب اگر کسی کے دل میں نور بصیرت ہوگا۔ جس کا منبع خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تو ایسے ہی شخص کو یہ آیات فوراً اپیل کرتی اور نظر آنے لگتی ہیں۔ بےبصیرت کو نظر نہیں آتیں۔ یہ دوسری توجیہہ کتاب و سنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اکثر آسمانی کتب کے لئے بھی نور کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور علم وحی اور ہدایت کے لئے بھی۔ اور اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی کے دل میں نور بصیرت کا عطیہ موجود ہوتا ہے وہ احکام الٰہی اور وحی الٰہی کو قبول کرنے کے لئے اس قدر بےتاب ہوتا ہے جیسے پٹرول آگ پکڑنے کے لئے بےتاب ہوتا ہے۔- [٦١] جس طرح آنکھ کا نور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو فطری طور پر عطا کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر شخص کو نور بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا ایک دوسرا قانون یہ ہے کہ جس عضو یا قوت سے انسان کام لینا چھوڑ دے وہ قوت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب انہی لوگوں کو ہوتی ہے جو خود بھی اس سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو شخص نور ہدایت کا طالب ہی نہ ہو اور اللہ زبردستی سے کسی کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : ” اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے “ یعنی آسمان و زمین جو روشن ہیں تو اللہ کے نور ہی سے روشن ہیں۔ وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہو۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین اور آسمان کی۔ اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہوجائیں۔ “ یاد رہے، یہاں اللہ کے آسمان و زمین کا نور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور آسمان و زمین کا نور ہے اور اسے روشن کرنے والا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور نور کی مثال بیان کی گئی ہے، جب کہ اللہ کی کوئی مثال ہے ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ “ دوسری دلیل یہ کہ اس آیت میں اس نور کا ذکر ہے جس سے آسمان و زمین روشن ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور حجاب کے پیچھے ہے۔ ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ وَلَا یَنْبَغِيْ لَہُ أَنْ یَّنَامَ ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَ یَرْفَعُہُ ، یُرْفَعُ إِلَیْہِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّھَارِ وَ عَمَلُ النَّھَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ ، حِجَابُہُ النُّوْرُ ، لَوْ کَشَفَہُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہِ مَا انْتَھَی إِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ ) [ مسلم، الإیمان، باب في قولہ (علیہ السلام) ”إن اللہ لا ینام “ ۔۔ : ١٧٩ ] ” اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق ہی نہیں کہ وہ سوئے، وہ ترازو کو نیچا کرتا ہے اور اسے اونچا کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے اور اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں اس کی مخلوق میں سے ہر اس چیز کو جلا دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔ “ - 3 اس آیت میں ” نُور “ کا معنی ” ذُوْ نُوْرٍ “ ہے، یعنی روشن کرنے والا، جیسا کہ ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ کا معنی یہ نہیں کہ زید عدل و انصاف ہے، بلکہ اس کا معنی ہے کہ زید عدل و انصاف والا ہے۔ بعض مفسرین نے یہی مفہوم ان الفاظ میں ادا فرمایا : ( َللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) یعنی اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو روشن فرمایا۔ (نقلہ ابن کثیر عن ضحاک) آسمانوں اور زمین سے سارا جہان مراد ہے، یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ نور سے روشن ہے۔ یہ نور حسی بھی ہے اور معنوی بھی۔ - حسی کی کئی قسمیں ہیں، ایک وہ نور جو خود روشن ہے اور دوسروں کو روشن کرتا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، بجلی، آگ، ہر قسم کے چراغ، جگنو اور ہر وہ حیوان یا درخت جس سے روشنی نکلتی ہے، یہ سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ ایک وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے حسن یا توانائی کی کسی نہ کسی شکل میں کائنات کے ہر ذرّے میں ودیعت کر رکھا ہے، مثلاً چہرے کا حسن چہرے کا نور کہلاتا ہے، گھر کے افراد گھر کا نور ہوتے ہیں، گلے کا نور آواز کی صورت میں روشنی بکھیرتا ہے، زبان کا نور بولنے سے ظاہر ہوتا ہے، ہر عضو کی توانائی اس کا نور ہے۔ سمندر، پہاڑ، درخت، صحرا غرض ہر چیز کا حسن و جمال اور ان کے منافع اللہ کا نور ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ نور کی ایک قسم ہر عضو کی وہ استعداد ہے جس سے حیوان یا انسان کائنات میں پھیلے ہوئے نور کا ادراک کرتا ہے، مثلاً آنکھ میں بینائی کا نور ہے، یہ نہ ہو تو نہ سورج چاند یا کوئی روشنی نظر آئے، نہ اس سے روشن کائنات کے ذرّے ذرّے میں پھیلا ہوا حسن نظر آئے، اس لیے نابینے آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں نور نہیں۔ کان کا نور اس کے سننے کی قوت ہے۔ اسی طرح چھونے، چکھنے، سونگھنے کی قوتیں ان اعضا کا نور ہیں جن میں یہ رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح بھوک پیاس، جنسی اشتہا، غرض بیشمار استعدادات ہیں جو اپنے اپنے متعلقہ عضو کا نور ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) نے کیا خوب خلاصہ نکالا ہے جو اوپر گزرا کہ اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین و آسمان کی، اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہوجائیں۔- معنوی نور کی بھی کئی قسمیں ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جس سے ضلالت کے اندھیرے ختم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا یہ نور پیغمبروں کے ذریعے سے نازل فرمایا، اللہ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ) [ النساء : ١٧٤ ] ” اے لوگو بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے۔ “ اور فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) [ الحدید : ٩ ] ” وہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات اتارتا ہے، تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر یقیناً بیحد نرمی کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ “ اور فرمایا : (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) [ البقرۃ : ٢٥٧ ] ” اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ “ اور فرمایا : (قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ ) [ المائدۃ : ١٥ ] ” بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ “ مزید دیکھے سورة انعام (١٢٢) اور سورة شوریٰ (٥٢) ۔ - اس معنوی نور کی دوسری قسم حق کو پہچاننے اور قبول کرنے کی وہ استعداد ہے جو مومن کے دل میں ہوتی ہے، جو شروع ہی سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں رکھ دی ہے، مگر بعض اوقات وہ ماحول کے اثر یا اپنی بدعملی کی وجہ سے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃُ بَھِیْمَۃً جَمْعَاءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْھَا مِنْ جَدْعَاءَ ؟ ) [ بخاري، تفسیر سورة الروم، باب لا تبدیل لخلق اللہ : ٤٧٧٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں، یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے چوپایہ پیدا ہوتا ہے تو پورے اعضا والا ہوتا ہے، کیا تم ان میں سے کوئی کان کٹا یا ناک کٹا دیکھتے ہو (یعنی اس کا کان یا ناک بعد میں لوگ کاٹتے ہیں) ۔ “ ہدایت کا یہ نور اگر کسی دل میں نہ ہو تو جتنے بھی انبیاء آجائیں یا جتنی بھی آیات الٰہی نازل ہوں دل کے اندھے کو ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر یہ نور آنکھوں یا کانوں میں نہ ہو تو تمام معجزے اور ہر وعظ و نصیحت بےکار ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ) [ الأعراف : ١٧٩ ] ” ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں۔ “ - مطلب ساری آیت کا یہ ہے کہ کائنات کی ساری رونق اور آبادی اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہے، وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہ رہ جائے، نور کے تمام ذرائع مثلاً سورج چاند وغیرہ، ان سے روشن ہونے والی کائنات اور ان کا ادراک کرنے والا نور اسی کا پیدا کردہ ہے، اسی طرح ایمان کا نور بھی اسی کا عطا کردہ ہے، اسی نے وحی بھیجی، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور دلوں میں انھیں قبول کرنے کا نور رکھا۔ - اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ میں اگرچہ حسی و معنوی تمام نور داخل ہیں اور سب ہی اللہ کے عطا کردہ ہیں، مگر زیر تفسیر آیت میں مراد ہدایت کا نور ہے کہ وہ صرف اللہ کی عطا ہے، اس کا ایک قرینہ اس سے پہلی آیت ہے، جس میں ” اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ “- اور گزشتہ اقوام کے کچھ حالات اور متقین کے لیے نصیحت نازل کرنے کا ذکر ہے اور ایک قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ ” يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ “ اور تیسرا قرینہ اس سلسلہ کلام کی آخری آیت کا اختتام ہے، فرمایا : ( وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ ) [ النور : ٤٠ ] ” اور وہ شخص جس کے لیے اللہ کوئی نور نہ بنائے تو اس کے لیے کوئی بھی نور نہیں۔ “ اس لیے ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس (رض) سے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ یہ تفسیر آئی ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”(اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ) یَقُوْلُ : اللّٰہُ سُبْحَانَہُ ھَادِيْ أَھْلِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ “ [ طبري : ٢٦٢٩٢ ]” اللہ تعالیٰ کے فرمان ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ“ کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ آسمانوں اور زمین والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ “ - شیخ المفسرین طبری نے یہی تفسیر اختیار کی ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہ تفسیر ذکر کرکے اسے قائم رکھا ہے، مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ تفسیر نور کی دوسری انواع کو اس کی تفسیر میں داخل کرنے سے مانع نہیں ہے۔ (تفسیر سورة النور از ابن تیمیہ) ابن کثیر نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسے فرمایا : (اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ) [ الزمر : ٢٢ ] ” تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے سو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے۔ “- مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۔۔ : ” مِشْکَاۃٌ“ دیوار میں طاق جو دیوار کے آر پار نہ ہو، ” زُجَاجَةٍ “ شیشے کا فانوس۔ ” دُرِّيٌّ“ ” دُرٌّ“ کے ساتھ یاء نسبت لگانے سے ” دُرِّيٌّ“ بن گیا، موتی کی طرح چمکتا ہوا۔ ” لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ “ کے الفاظ سے زیتون کے اس تیل کی عمدگی اور شفافیت بیان کرنا مقصود ہے۔ اہل علم سے اس کی دو تفسیریں آئی ہیں، ایک یہ کہ وہ تیل زیتون کے ایسے درخت سے حاصل ہوا ہے جو نہ مشرقی ہے کہ اس کے مغرب میں کوئی پہاڑ یا اوٹ ہو، جس کی وجہ سے اس پر صرف دن کے پہلے پہر کی دھوپ پڑتی ہو اور نہ مغربی ہے کہ اس کے مشرق میں کوئی پہاڑ یا اوٹ ہو جس کی وجہ سے اس پر صرف دن کے پچھلے پہر کی دھوپ پڑتی ہو، بلکہ وہ درخت کھلی جگہ میں ہے جس پر سارا دن سورج کی دھوپ پڑتی ہے، ایسے درخت کا تیل زیادہ صاف اور عمدہ ہوتا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت نہ مشرق کی جانب ہے نہ مغرب کی طرف، بلکہ دوسرے درختوں کے عین درمیان واقع ہے، جس پر صرف جنوب کی طرف سے سورج کی دھوپ پڑتی ہے۔ درختوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وہ سورج کی مسلسل تپش سے محفوظ رہتا ہے، جس سے اس کے پھل کی رطوبت پوری طرح محفوظ رہتی ہے۔ دونوں تفسیریں سلف سے مروی ہیں، دوسری تفسیر ابی بن کعب (رض) سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” اور زیتون نہ شرق کا نہ غرب کا، یعنی باغ کے بیچ کا، نہ صبح کی دھوپ کھاوے نہ شام کی، خوب ہرا اور چکنا رہے۔ “- مَثَلُ نُوْرِهٖ “ یعنی ” اس کے نور کی مثال “ سے مراد کس کے نور کی مثال ہے اور مثال کس طرح ہے ؟ میں نے جتنی تفسیریں دیکھی ہیں سب سے واضح تفسیر ترجمان القرآن ابن عباس (رض) کی ہے، جو طبری نے علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس (رض) کی معتبر سند کے ساتھ نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ( ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ ) قَالَ مَثَلُ ھَدَاہُ فِيْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ کَمَا یَکَاد الزَّیْتُ الصَّافِيْ یُضِيْءُ قَبْلَ أَنْ تَمَسَّہُ النَّارُ فَإِذَا مَسَّتْہُ النَّارُ ازْدَادَ ضَوْءًا عَلٰی ضَوْءٍ کَذٰلِکَ یَکُوْنُ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ یَعْمَلُ بالْھُدٰی قَبْلَ أَنْ یَّأْتِیَہُ الْعِلْمُ فَإِذَا جَاءَ ہُ الْعِلْمُ ازْدَادَ ھُدًی عَلٰی ھُدًی وَ نُوْرًا عَلٰی نُوْرٍ ) [ طبري : ٢٦٣١٣ ] ” اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے “ فرمایا : ” مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی مثال اس طرح ہے جیسے صاف زیتون کا تیل، قریب ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ہی روشن ہوجائے کہ اسے آگ چھوئے، پھر جب اسے آگ چھوتی ہے تو وہ روشنی پر روشنی میں بڑھ جاتا ہے، ایسے ہی مومن کا دل ہے کہ اس سے پہلے ہی ہدایت پر عمل کرنے والا ہوتا ہے کہ اس کے پاس علم آئے، پھر جب اس کے پاس علم آتا ہے تو وہ ہدایت پر ہدایت میں بڑھ جاتا ہے اور نور پر نور میں بڑھ جاتا ہے۔ “- 3 آیت میں مومن کے دل میں اللہ کی ہدایت کے نور کو مثال دے کر زیادہ سے زیادہ روشن بیان کرنا مقصود ہے، اس کے لیے اسے ایسے چراغ کی روشنی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو آیت کے نزول کے وقت رات کے اندھیرے میں روشنی کے لیے انسانی استعمال میں آنے والی سب سے روشن چیز تھی اور اس کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے جو اسباب و ذرائع ہوسکتے تھے وہ بھی ساتھ ذکر فرمائے۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ چراغ ایک طاق میں ہے، طاق میں ہونے کی وجہ سے اس کی شعائیں مجتمع ہو کر زیادہ روشنی کا باعث بنتی ہیں، اگر وہ کسی کھلی جگہ میں ہوتا تو اس کی شعائیں بکھر جاتیں۔ دوسری چیز اس کی روشنی کو بڑھانے والی یہ ہے کہ وہ چراغ شیشے کے ایک فانوس میں ہے، جس سے وہ ہوا کے تھپیڑوں سے محفوظ ہے اور فانوس کی وجہ سے اس کی روشنی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ تیسری چیز یہ کہ وہ فانوس عام شیشے کا بنا ہوا نہیں کہ روشنی میں معمولی اضافے کا باعث ہو، بلکہ اتنا شفاف اور چمک دار ہے جیسے کوئی چمکتا ہوا تارا ہو۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ چراغ کسی عام تیل سے روشن نہیں کیا جا رہا، بلکہ تیل کی تمام قسموں میں سے جو تیل سب سے شفاف، سب سے زیادہ روشنی دینے والا اور سب سے کم دھواں دینے والا ہے وہ اس کے ساتھ روشن کیا جا رہا ہے، جو روغن زیتون ہے۔ پانچویں چیز یہ ہے کہ زیتون کا وہ تیل ردی یا خراب قسم کا نہیں کہ ایسے پھلوں سے نکالا گیا ہو جو نکمے اور خشک ہوں، بلکہ ایسے درخت کے پھلوں سے نکالا گیا ہے جو نہایت سرسبز و شاداب ہے اور جس کے پھل صاف روغن سے بھرپور ہیں۔ چھٹی چیز یہ کہ وہ تیل اتنا شفاف ہے کہ آگ لگائے بغیر بھی ایسے دکھائی دیتا ہے کہ ابھی اس سے روشنی پھوٹنے لگے گی۔ نور پر نور یعنی نور کو جس طرح بھی بڑھایا جاسکتا ہے اسی طرح اسے زیادہ سے زیادہ روشن کیا گیا ہے۔ اس میں جس کو تشبیہ دی گئی ہے وہ مومن کے دل میں اللہ کی ہدایت کا نور ہے اور جس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے وہ ایسے چراغ کی روشنی ہے جس میں ہر اس طریقے سے اضافہ کیا گیا ہے جس سے اضافہ ہوسکتا ہے، یعنی تشبیہ ایک چیز سے نہیں بلکہ اس چراغ کی مجموعی صورت سے ہے، اسے تشبیہ تمثیل کہتے ہیں۔ اس میں مشبّہ کی ایک ایک چیز کی تشبیہ مشبّہ بہ کی ایک ایک چیز کے ساتھ نہیں دی جاتی، بلکہ مشبّہ کی مجموعی صورت کی تشبیہ مشبّہ بہ کی مجموعی صورت کے ساتھ دی جاتی ہے۔ ابن عباس (رض) کی تفسیر کا انداز یہی ہے، البتہ بعض اہل علم نے مشبّہ کے اجزا کو مشبّہ بہ کے ایک ایک جز سے تشبیہ دی ہے۔ چناچہ طبری (٢٦٣١٠) نے معتبر سند کے ساتھ ابو العالیہ سے ابی بن کعب (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے، ان کے مطابق طاق سے مراد مومن کا سینہ ہے، فانوس سے مراد مومن کا دل ہے، چراغ وہ ایمان اور قرآن ہے جو مومن کے دل میں ہے۔ ستارے کی طرح چراغ کے روشن ہونے سے مراد مومن کے دل کا نور ایمان سے منور ہونا ہے۔ شجرہ مبارکہ سے اس چراغ کے روشن ہونے سے مراد اس کا اللہ وحدہ کے لیے اخلاص اور اس کی عبادت سے روشن ہونا ہے۔ ” لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ “ سے مراد ایسے درخت سے تشبیہ ہے جو گھنے درختوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، چناچہ وہ نہایت سبز اور چکنا ہے، اسے شدید دھوپ نہیں پہنچتی، نہ سورج کے طلوع ہوتے وقت نہ غروب ہوتے وقت، اسی طرح مومن کا دل اس سے محفوظ ہے کہ اسے مختلف حالات نقصان پہنچائیں، اگر وہ ایسے انقلابات کی زد میں آتا بھی ہے تو اللہ اسے ثابت رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک جلیل القدر صحابی کی تفسیر ہے، جو سید القراء تھے۔ ” نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ“ یعنی وہ نور تہ بہ تہ ہے اور اسے قوت دینے والی اور زیادہ روشن کرنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہی جس نے اسے مزید روشن نہ کیا ہو۔ - يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب اللہ کے نور ہدایت سے آسمان و زمین روشن ہیں، تو کافر اس سے کیوں محروم ہیں اور عائشہ صدیقہ (رض) کی اظہر من الشمس براءت کے باوجود ان پر بہتان لگانے والے اس سے اندھے کیوں رہے ؟ فرمایا، اللہ اس نور کا مالک ہے، وہ اپنی چیز جسے چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، اگر وہ کسی کو بھی نہ دے تو ظالم نہیں، مگر یہ اس کا کرم ہے کہ جو ہدایت کے قابل ہو اسے ضرور ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) [ القصص : ٥٦ ] ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ “- وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَال للنَّاسِ : یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے حسب حال مثالیں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید میں تقریباً ہر اہم مسئلے کے ساتھ کوئی نہ کوئی مثال بیان ہوئی ہے، کیوں کہ اس سے بات خوب ذہن نشین ہوجاتی ہے۔ - وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، جس میں سے یہ بھی ہے کہ کس بات کے لیے کون سی مثال موزوں ہے اور ہدایت کے لائق کون ہے اور کون نہیں۔
معارف و مسائل - آیت مذکورہ کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں کیونکہ اس میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیلی مثال سے سمجھایا گیا۔- نور کی تعریف :- امام غزالی نے یہ فرمائی الظاہر بنفسہ والمظھر لغیرہ، یعنی خود اپنی ذات سے ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر و روشن کرنے والا ہو۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کی کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں جیسے آفتاب اور چاند کی شعاعیں ان کے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑ کر اول اس چیز کو روشن کردیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہو کر دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ لفظ نور کا اپنے لغوی اور عرفی معنے کے اعتبار سے حق تعالیٰ جل شانہ کی ذات پر اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات سب سے بری اور وراء الوری ہے اس لئے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کے لئے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنے باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر صیغہ مبالغہ کی طرح صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا جیسے صاحب کرم کو کرم اور صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے۔ اور معنے آیت کے وہ ہیں جو خلاصہ تفسیر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نور بخشنے والے ہیں آسمان و زمین کو اور اس میں بسنے والی سب مخلوق کو اور مراد اس نور سے نور ہدایت ہے۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ اللہ ھادی اھل السموات والارض۔- نور مومن :- مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ الایتہ اللہ تعالیٰ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں آتا ہے۔ یہ اس کی ایک عجیب مثال ہے جیسا کہ ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ھو المومن الذی جعل اللہ الایمان والقران فی صدرہ فضرب اللہ مثلہ فقال اللہ نور السموت والارض فبداء بنور نفسہ ثم ذکر نور للمومن فقال مثل نور من اٰمن بہ فکان ابی بن کعب یقراءھا مثل نور من امن بہ (ابن کثیر)- یعنی یہ مثال اس مومن کی ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور قرآن کا نور ہدایت ڈال دیا ہے اس آیت میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نور کا ذکر فرمایا اللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ پھر قلب مومن کے نور کا ذکر فرمایا مَثَلُ نُوْرِهٖ اور اس آیت کی قرات بھی حضرت ابی ابن کعب کی مثل نورہ کے بجائے مثل نور من امن بہ کی ہے اور سعید بن جبیر نے یہی قراءت اور آیت کا یہی مفہوم حضرت ابن عباس سے بھی روایت کیا ہے ابن کثیر نے یہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مثل نورہ کی ضمیر کے متعلق ائمہ تفسیر کے دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں فطرة رکھا گیا ہے اس کی مثال یہ ہے كَمِشْكٰوةٍ الخ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ضمیر ہی مومن کی طرف راجع ہو جس پر سیاق کلام دلالت کر رہا ہے۔ اس لئے حاصل اس مثال کا یہ ہے کہ مومن کا سینہ ایک طاق کی مثال ہے اس میں اس کا دل ایک قندیل کی مثال ہے اس میں نہایت شفاف روغن زیتون فطری نور ہدایت کی مثال ہے جو مومن کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے۔ جس کا خاصہ خود بخود بھی قبول حق کا ہے پھر جس طرح روغن زیتون آگ کے شعلہ سے روشن ہو کر دوسروں کو روشن کرنے لگتا ہے اسی طرح فطری نور ہدایت جو قلب مومن میں رکھا گیا ہے جب وحی الٰہی اور علم الٰہی کے ساتھ اس کا اتصال ہوجاتا ہے تو روشن ہو کر عالم کو روشن کرنے لگتا ہے اور حضرات صحابہ و تابعیین نے جو اس مثال کو قلب مومن کے ساتھ مخصوص فرمایا وہ بھی غالباً اس لئے ہے کہ فائدہ اس نور کا صرف مومن ہی اٹھاتا ہے۔ ورنہ وہ فطری نور ہدایت جو ابتداء تخلیق کے وقت انسان کے قلب میں رکھا جاتا ہے وہ مومن کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت اور جبلت میں وہ نور ہدایت رکھا جائے اسی کا یہ اثر دنیا کی ہر قوم ہر خطہ ہر مذہب و مشرب کے لوگوں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے وجود کو اور اس کی عظیم قدرت کو فطرة مانتا ہے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کے تصور اور تعبیر میں خواہ کیسی ہی غلطیاں کرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ کے نفس و وجود کا ہر انسان فطرة قائل ہوتا ہے بجز چند مادہ پرست افراد کے جن کی فطرت مسخ ہوگئی ہے کہ وہ خدا ہی کے وجود کے منکر ہیں۔- ایک صحیح حدیث سے اس عموم کی تائید ہوتی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کل مولود یولد علی الفطرة یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو فطرت کے تقاضوں سے ہٹا کر غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اس فطرت سے مراد ہدایت ایمان ہے۔ یہ ہدایت ایمان اور اس کا نور ہر انسان کی پیدائش کے وقت اس میں رکھا جاتا ہے اور اسی نور ہدایت کی وجہ سے اس میں قبول حق کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب انبیاء اور ان کے نائبوں کے ذریعے وحی الٰہی کا علم ان کو پہنچتا ہے تو وہ اس کو بسہولت قبول کرلیتے ہیں بجز ان ممسوخ الفطرت لوگوں کے جنہوں نے اس فطری نور کو اپنی حرکتوں سے مٹا ہی ڈالا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں تو عطاء نور کو عام بیان فرمایا ہے جو تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو شامل ہے مومن کافر کی بھی کوئی تخصیص نہیں اور آخر آیت میں یہ فرمایا يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے ہدایت کردیتا ہے یہاں مشیت الہی کی قید اس نور فطرت کے لئے نہیں جو ہر انسان میں رکھا ہے بلکہ نور قرآن کے لئے جو ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا بجز اس خوش نصیب کے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب ہو۔ ورنہ انسان کی کوشش بھی بلا توفیق الہی بیکار بلکہ بعض اوقات مضر بھی پڑجاتی ہے۔- اذالم یکن عون من اللہ للفتی فاول مایجنی علیہ اجتھادہ - یعنی اگر اللہ کی طرف سے بندہ کی مدد نہ ہو تو اس کی کوشش ہی اس کو الٹا نقصان پہنچا دیتی ہے۔- نور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :- اور امام بغوی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس نے کعب احبار سے پوچھا کہ اس آیت کی تفسیر میں آپ کیا کہتے ہیں مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ الآیتہ کعب احبار جو تورات و انجیل کے بڑے عالم مسلمان تھے انہوں نے فرمایا کہ یہ مثال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کی بیان کی گئی ہے۔ مشکوة آپ کا سینہ اور زجاجہ (قندیل) آپ کا قلب مبارک، اور مصباح (چراغ) نبوت ہے اور اس نور نبوت کا خاصہ یہ ہے کہ نبوت کے اظہار و اعلان سے پہلے ہی اس میں لوگوں کے لئے روشنی کا سامان ہے پھر وحی الہی اور اس کے اعلان کا اس کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے تو یہ ایسا نور ہوتا ہے کہ سارے عالم کو روشن کرنے لگتا ہے۔- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اظہار نبوت و بعثت بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے جو بہت سے عجیب و غریب واقعات عالم میں ایسے پیش آئے جو آپ کی نبوت کی بشارت دینے والے تھے جن کو اصطلاح محدثین میں ارہاصات کہا جاتا ہے کیونکہ معجزات کا لفظ تو اس قسم کے ان واقعات کے لئے مخصوص ہے جو دعوائی نبوت کی تصدیق کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پیغمبر کے ہاتھ پر جاری کئے جاتے ہیں۔ اور دعوائی نبوت سے پہلے جو اس قسم کے واقعات دنیا میں ظاہر ہوں ان کو ارہاصات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات عجیبیہ صحیح روایات سے ثابت ہیں جن کو شیخ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ نے خصائص کبری میں اور ابو نعیم نے دلائل النبوة میں اور دوسرے علماء نے بھی اپنی مستقل کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ اس کا ایک کافی حصہ اس جگہ تفسیر مظہری میں بھی نقل کردیا ہے۔- روغن زیتون کی برکات :- شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ اس سے زیتون اور اس کے درخت کا مبارک اور نافع و مفید ہونا ثابت ہوتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بیشمار منافع اور فوائد رکھے ہیں اس کو چراغوں میں روشنی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی ہر تیل کی روشنی سے زیادہ صاف شفاف ہوتی ہے اس کو روٹی کے ساتھ سالن کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پھل کو بطور تفکہ کے کھایا بھی جاتا ہے اور یہ ایسا تیل ہے جس کے نکالنے کے لئے کسی مشین یا چرخی وغیرہ کی ضرورت نہیں خود بخود اس کے پھل سے نکل آتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ روغن زیتون کو کھاؤ بھی اور بدن پر مالش بھی کرو کیونکہ یہ شجرہ مبارکہ ہے۔ (رواہ البغوی والترمذی عن عمر مرفوعاً مظہری)
اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ مَثَلُ نُوْرِہٖ كَمِشْكٰوۃٍ فِيْہَا مِصْبَاحٌ ٠ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَۃٍ ٠ۭ اَلزُّجَاجَۃُ كَاَنَّہَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ زَيْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِيَّۃٍ وَّلَا غَرْبِيَّۃٍ ٠ۙ يَّكَادُ زَيْتُہَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ٠ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ٠ۭ يَہْدِي اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ٠ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٣٥ۙ- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - مِشْكَاةُ :- كوّة غير نافذة . قال تعالی: كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ [ النور 35] ، وذلک مثل القلب، والمصباح مثل نور اللہ فيه .- المشکوۃ طاق جو آر پار نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ [ النور 35] گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہو ۔ تو مشکوۃ سے مراد مومن کا دل اور مصباح سے نور الٰہی مراد ہے ۔- صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ «2» .- ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- زج - الزُّجَاجُ : حجر شفّاف، الواحدة زُجَاجَةٌ ، قال : فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌ- [ النور 35] ، والزُّجُّ : حدیدة أسفل الرّمح، جمعه زِجَاجٌ ، وزَجَجْتُ الرّجل : طعنته بالزّجّ ، وأَزْجَجْتُ الرّمح : جعلت له زُجّاً ، وأَزْجَجْتُهُ : نزعت زُجَّهُ. والزَّجَجُ : دقّة في الحاجبین مشبّه بالزّجّ ، وظلیم أَزَجُّ ، ونعامة زَجَّاءُ : للطّويلة الرّجل .- ( ز ج ج ) الزجاج ایک قسم کا شفاف پتھر ( شیشہ ) اس کا مفرد زجاجۃ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌ [ النور 35] ایک شیشہ میں ہے ( اور ) شیشہ گویا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ الزج ۔ نیزہ کی پچھلی طرف لگا ہوا لوہا ۔ جمع زجاج اور زججت الرجل کے معنی ہیں میں نے اسے نیزہ کی نوک سے مارا ۔ ازججت الرمح میں نے نیزہ میں زج لگائی یا اس سے زج کو نکال لیا ۔ الزجج ابرو کی درازی اور باریکی ۔ جو نیزہ کی انیٰ کے مشابہ ہو ۔ ظلیم ازج و نعامۃ زجاء دراز گام شتر مرغ ۔- كب - الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ- [ النمل 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] - والکَبْكَبَةُ :- تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر .- والکَوَاكِبُ :- النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید .- ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلحہ کی چمک - دری۔ درخشندہ۔ چمکتا ہوا۔ ی نسبتی ہے در کی طرف منسوب ہے جس کے معنی موتی کے ہیں۔ یعنی موتی کی طرح چمکدار۔- وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- زيت - زَيْتُونٌ ، وزَيْتُونَةٌ ، نحو : شجر وشجرة، قال تعالی: زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، والزَّيْتُ : عصارة الزّيتون، قال : يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، وقد زَاتَ طعامَهُ ، نحو سمنه، وزَاتَ رأسَهُ ، نحو دهنه به، وازْدَاتَ : ادّهن .- ( ز ی ت ) زیت - وزیتونہ مثل شجر وشجرۃ ایک مشہور درخت کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے ۔ جو نہ شر قی ہے اور نہ غر بی الزبت زیتون کے تیل کو بھی کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی کرے ۔ اور زات طعامہ کے معنی ہیں اس نے طعام میں زیتون کا تیل ڈالا جیسے سمنھ اور دھنہ بہ کیطرح ذات راسہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل ڈالا جیسے سمنہ اور دجنہ بھ کیطرح ذات راء سہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل لگایا اور از دات بمعنی اذھب کے ہیں ۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق .- والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔- غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - ضوأ - الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ- [ الأنبیاء 48] .- ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،
قول باری ہے : اللہ نور السموات والارض۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت کے مطابق اور حضرت انس (رض) کے قول کے مطابق اللہ آسمانوں اور زمین پر رہنے والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور ابولعالیہ نیز حسن سے مروی ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کو ستاروں اور شمس وقمر کے ذریعے روشن کرنے والا ہے۔- قول باری ہے : (مثل نورہ) اس کے نور کی مثال حضرت ابی بن کعب (رض) اور ضحاک سے مروی ہے کہ (نورہ) میں ضمیر مومن کی طرف راجع ہے۔ اور معنی یہ ہیں کہ ” اللہ کی ہدایت کی وجہ سے مومن کے دل کے نور کی مثال یہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ضمیر اللہ کے نام کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ ” اللہ کے اس نور کی مثال جس کے ذریعے اس نے مومن کو ہدایت بخشی یہ ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے کہ نور سے مراد اللہ کی طاعت ہے۔- قول باری ہے : کمشکوۃ فیھا مصباح (اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور ابن جریج کا قول ہے کہ مشکوٰۃ اس طاق کو کہتے ہیں جس میں کوئی سوراخ نہ ہو۔ ایک قول کے مطابق مشکوٰۃ قندیل کے اس عمودی حصے کو کہتے ہیں جس میں قتیلہ ہوتا ہے اور وہ بھی طاق کی طرح ہوتا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آیت مومن کے دل کے لئے ضرب المثل ہے۔ مشکوٰۃ اس کا سینہ ، مصباح قرآن اور زجاجہ یعنی فانوس اس کا دل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مومن کے اندر چار باتیں ہوتی ہیں۔ اگر اسے کچھ عطا ہو تو شکر کرتا ہے، اگر آزمائش میں مبتلا ہو تو صبر کرتا ہے۔ اگر فیصلہ کرتا ہے تو انصاف کرتا ہے اور اگر زبان سے کچھ بولتا ہے تو سچ بولتا ہے۔ قول باری : (نور علی نور) اسی طرح روشنی پر روشنی کی تفسیر میں انہوں نے کہا کہ مومن پانچ روشنیوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔ اس کا کلام نور ہے، اس کا عمل نور ہے، اس کا مدخل نور ہے اس کا مخرج نور ہے اور قیامت کے دن لوٹنا بھی نور یعنی جنت کی طرف ہوگا ۔ قول باری (نور علیٰ نور) کی تفسیر میں ایک قول ہے۔ اللہ کی توحید کی طرف ہدایت پانے کی روشنی جو قرآن کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت کی روشنی پر ہوتی ہے۔ قرآن اللہ کے پاس سے یہ روشنی لے کر آیا ہے۔ “ زید بن اسلم نے (نور علیٰ نور ) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس کے اجزاء ایک دوسرے کو روشن کرتے ہیں۔
(٣٥) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین والوں کو ہدایت دینے والا ہے اور ہدایت منجانب اللہ دو قسم کی ہوتی ہے تعریف اور بتیان یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ستاروں کے ساتھ اور زمین کو نباتات اور پانی کے ذریعے مزین کرنے والا اور رونق دینے والا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین والوں میں سے مسلمانوں کے دلوں کو روشن ومنور کرنے والا ہے، مسلمانوں کے اس نور یا یہ کہ مسلمان کے دل میں جو نور خداوندی ہے اس کی حالت عجیبہ ایسی ہے جیسے فرض کرو کہ ایک طاق ہے اور اس میں ایک چراغ رکھا ہے اور وہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں ہے اور وہ قندیل طاق میں رکھا ہے اور وہ ایسا شفاف ہے جیسا ان پانچ ستاروں یعنی عطارد، زہری، مشتری، بہرام، زحل میں سے ایک چمکدار ستارہ ہو اور اس قندیل میں ایک نہایت سفید درخت کا تیل دیا جاتا ہو اور وہ زیتون کا درخت جو جنگل میں بلندی پر ہے نہ اسے شرقی سایہ پہنچتا ہے اور نہ غربی سایہ یا یہ کہ ایسے مکان پر ہے کہ نہ سورج کے نکلنے کے وقت اس پر دھوپ پڑتی ہے اور نہ سورج کے غروب کے وقت اور اس درخت کا تیل اس قدر صاف ہے کہ اگر اس کو آگ بھی نہ چھوئے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود جل اٹھے گا اور اگر آگ لگ بھی گئی تو ” نور علی نور “ ہے یعنی ایک تو خود چراغ میں روشنی ہے اور پھر قندیل اس قدر نورانی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زیتون کا تیل خود صاف اور روشن ہے چناچہ جس میں اس چیز کی صلاحیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے اس نور معرفت کے ساتھ یا یہ کہ اپنے دین کے ساتھ سرفرازی عطا فرماتا ہے۔- یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکت کا نور ہے جو اپنے آباء کی اصلاب میں ودیعت تھا اخیر تک اسی وصف کے ساتھ۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی ذات میں مسلم حنیف کی صورت میں ظاہر ہوا اور زیتون سے مراد وہ دین حنیف ہے کہ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی یعنی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور رہا یہ کہ اس کا تیل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود جل اٹھے گا یہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اعمال صالحہ کی حالت ہے کہ اسی وصف کے ساتھ ان کے آباء کی پشت میں منور ہونے کو ہیں اور وہ چراغ ایک نہایت سفید درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے یہ حالت عجیبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کی ہے اور اگر اس کو آگ بھی نہ چھوئے یعنی اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ سرفراز نہ کیا جاتا تب بھی ان میں یہ نور ودیعت تھا یا یہ مطلب ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مقرب نہ بناتا تب ان میں اس نور کو ودیعت نہ فرماتا یا یہ مطلب ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندہ کو اس نور ہدایت کے ساتھ سرفراز نہ فرماتا تو اس میں یہ نور ہی نہ ہوتا۔- اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے معرفت خدا ندوی کی حقیقت بیان فرماتا رہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نعمت کے ساتھ سرفراز فرمانے میں بخوبی واقف ہے، یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی ایک عجیب کیفیت بیان فرمائی اور ساتھ ساتھ اس کے منافع اور خوبیوں کا بھی تذکرہ فرمایا تاکہ انسان اس کا شکر ادا کریں۔- یعنی جیسا کہ چراغ کی روشنی سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے اسی طرح معرفت خداوندی بھی ایک نور ہے جس کے ذریعے سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے اور جیسا کہ قندیل ایک نور ہے کہ جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح معرفت بھی ہدایت حاصل کرنے کے لیے نور ہے اور جس طرح چمک دار اور روشن ستاروں سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح معرفت خداوندی سے بھی کفر وشرک کی تاریکیوں میں نجات حاصل کی جاتی ہے اور جیسا کہ قندیل میں تیل صاف سفید زیتون کے درخت سے پہنچایا جاتا ہے اسی طرح بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔- اور جیسا کہ زیتون درخت نہ شرقی ہے اور نہ غربی اسی طرح مومن کا دین بھی حنفی ہے نہ یہودی ہے اور نہ نصرانی اور جیسا کہ زیتون کا تیل خود بخود جل اٹھے گا اگرچہ ابھی تک اس کو آگ بھی نہ چھوئے، اسی طرح مومنین کے ایمان کے جو احکامات ہیں خود بخود ہی تعریف کے قابل ہیں، اگرچہ اس کے ساتھ اور دیگر فضائل نہ ہوں۔- اور جیسا کہ چراغ قندیل اور طاق یہ سب نور علی نور ہے، اسی طرح معرفت خداوندی بھی نور اور قلب مومن بھی نور اور اس کا سینہ بھی نور اور داخلہ کی جگہ بھی نور اس کے نکلنے کی جگہ بھی نور اور مومن نور علی نور ہے اور جو اس چیز کے لائق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے اس نور کے ساتھ سرفراز فرماتا ہے، غرض کہ اللہ تعالیٰ نے معرفت خداوندی کی یہ عجیب کیفیت بیان فرمائی ہے۔
یہ اس سورت کا پانچواں رکوع ہے جو اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے دوسرے حصے میں ایمان کی بحث کے ضمن میں ایک اہم درس (درس ٧) اس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس رکوع کی پہلی آیت (آیت ٣٥) قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورة الاحزاب اور سورة النور کا آپس میں جوڑا ہونے کا تعلق ہے۔ ان دونوں سورتوں کے درمیان بہت سی دوسری مناسبتوں اور مشابہتوں کے علاوہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت ٣٥ بھی اسی موضوع پر ہے ‘ یعنی ایمان اور اسلام کی کیفیات کے حوالے سے یہ دونوں آیات قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔- اس رکوع میں ایمان کے حوالے سے انسانوں کی تین اقسام زیر بحث آئی ہیں۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی دعوت حق کے رد عمل کے حوالے سے تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ دراصل دین کی دعوت اور اسلامی تحریک کے جواب میں کسی بھی معاشرے کے اندر عام طور پر تین طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ تو نتائج و عواقب سے بےپروا ہو کر اس دعوت پر دل و جان سے لبیک کہتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے اپنے ایمان اور دعویٰ کی سچائی ثابت بھی کردکھاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ لوگ دوسری انتہا پر ہوتے ہیں۔ وہ تعصبّ ‘ حسد ‘ ضد اور تکبر کی وجہ سے انکار اور مخالفت پر کمر کس لیتے ہیں اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ معاشرے میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ پورے یقین اور خلوص کے ساتھ اس دعوت کو قبول بھی نہیں کرتے اور کچھ دنیوی مفادات اور متفرق وجوہات کے پیش نظر مکمل طور پر اسے رد بھی نہیں کرتے۔ جب حالات کچھ ساز گار ہوں تو اہل حق کا ساتھ دینے کے لیے تیار بھی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن جونہی کوئی آزمائش آتی ہے یا قربانی کا تقاضا سامنے آتا ہے تو فوراً اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دلی کیفیات اور کردار کا نقشہ سورة الحج کی آیت ١١ میں یوں کھینچا گیا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ ناطْمَاَنَّ بِہٖج وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر ‘ تو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل الٹا پھرجائے۔ یہ خسارہ ہے دنیا اور آخرت کا ‘ یہ بہت ہی بڑی تباہی ہے۔ “- زیر مطالعہ آیات میں ایک دوسرے زاویے سے معاشرے کے تین کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں پہلی قسم ایسے سلیم الفطرت انسانوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ کی معرفت فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ پھر جب وحی کے پیغام تک ان کی رسائی ہوتی ہے تو وہ اس کے فیوض و برکات سے بھی بہترین انداز میں مستفیض ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا باطن ایمان حقیقی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اس کیفیت کو یہاں ” نورٌ علٰی نُور “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جن کے دل نور ایمان سے محروم ہیں۔ وہ خالص دنیا پرست انسان ہیں جن کے دامن جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں۔ ان کے دلوں میں زندگی بھر نفسانی خواہشات کے علاوہ کسی اور خیال اور جذبے کا گزر تک نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی اس کیفیت کا نقشہ ” ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ “ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک تیسرا کردار بھی ہے ‘ جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اس کردار کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دل اگرچہ حقیقی ایمان سے محروم ہیں ‘ لیکن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے یا دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے نیکی کے کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نیک اعمال کو یہاں سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔- (مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ ) ” - نور سے مراد یہاں نور ایمان ہے ‘ یعنی اللہ پر ایمان کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے :- (فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط) ” - وہ چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا گیا ہے ‘ جیسے پچھلے زمانے میں شیشے کی چمنیوں میں چراغ رکھے جاتے تھے۔- (اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ) ” - اس مثال میں انسانی سینے کو طاق اور دل کو چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ انسانی پسلیوں کا ڈھانچہ ‘ جسے ہم سینہ کہتے ہیں ‘ یہ نیچے سے چوڑا اور اوپر سے تنگ ہونے کی وجہ سے پرانے زمانے کے طاق سے مشابہت رکھتا ہے۔ ڈایا فرام ( ) جو نچلے دھڑ کے اندرونی حصے ( ) کو سینے کے اندرونی حصے ( ) سے علیحدہ کرتا ہے اس طاق کا گویا فرش ہے جس کے اوپر یہ چراغ یعنی دل رکھا گیا ہے۔ یہ دل ایک بندۂ مؤمن کا دل ہے جو نور ایمان سے جگمگا رہا ہے۔ یہ نور ایمان مجموعہ ہے نور فطرت (جو اس کی روح کے اندر پہلے سے موجود تھا) اور نوروحی کا۔ - (یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍلا) ” - کسی درخت پر جس سمت سے دھوپ پڑتی ہو ‘ اسی سمت کے حوالے سے وہ شرقی یا غربی کہلاتا ہے۔ اگر کوئی درخت کسی اوٹ میں ہو یا درختوں کے ُ جھنڈ کے اندر ہو تو اس پر صرف ایک سمت سے ہی دھوپ پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ایسا درخت یا شرقی ہوگا یا غربی۔ لیکن یہاں ایک مثالی درخت کی مثال دی جا رہی ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ وہ نہ تو کسی اوٹ میں ہے اور نہ ہی درختوں کے جھنڈ میں ‘ بلکہ وہ کھلے میدان میں بالکل یکہ و تنہا کھڑا ہے اور پورے دن کی دھوپ مسلسل اس پر پڑتی ہے۔ اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت جس پر زیادہ سے زیادہ دھوپ پڑتی ہو اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں سے پڑتی ہو ‘ اس کے پھلوں کا روغن بہت صاف ‘ شفاف اور اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔- (یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط) ” - گویا وہ آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھنے کے لیے تیار ہے۔- (نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط) ” - یعنی جب اسے آگ دکھائی جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور نورٌ علیٰ نور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔- یہ خوبصورت مثال ایمان کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے اور میں نے مختلف مواقع پر اس مثال کی وضاحت بہت تفصیل سے کی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت یا اس پر ایمان کی کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے یہ معرفت ماحول اور حالات کے منفی اثرات کے باعث عام طور پر غفلت اور مادیت کے پردوں میں چھپ کر شعور سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس حد تک سلیم الفطرت ہوتے ہیں کہ ان کے اندر معرفت خداوندی خارجی حالات کے تمام تر منفی اثرات کے باوجود بھی مسلسل اجاگر اور فعال رہتی ہے۔ - فطری معرفت کی اس روشنی کے بعد انسانی ہدایت کا دوسرا بڑا ذریعہ یا منبع وحی الٰہی ہے۔ وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت بنیادی طور پر انسانی فطرت کے اندر پہلے سے موجود غیر فعال اور خوابیدہ ( ) ایمان اور معرفت خداوندی کو بیدار اور فعال ( ) کرنے میں مدد دیتی ہے۔ چناچہ جب وحی کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے تو اس پر ہر انسان کا رد عمل اس کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کی فطرت میں تکدر ہے تو وہ وحی کے اس پیغام کی طرف فوری طور پر متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کی فطرت کی کثافت کو دور کرنے اور اس کے اندر فطری طور پر موجود معرفت خداوندی کو غفلت کے پردوں سے نکال کر شعور کی سطح پر لانے کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک سلیم الفطرت انسان وحی کے پیغام کو پہچاننے میں ذرہ بھر تأمل و تاخیر نہیں کرتا۔ فطری معرفت اس کے اندر چونکہ پہلے سے شعوری سطح پر موجود ہوتی ہے اس لیے نور وحی جونہی اس کے سامنے آتا ہے اس کے دل کا آئینہ جگمگا اٹھتا ہے اور وہ فوراً اس پیغام کی تصدیق کردیتا ہے۔ ایسے لوگ پیغام وحی کی فوری تصدیق کی وجہ سے ِ ” صدیقین “ ّ کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ : ” میں نے جس کسی کو بھی ایمان کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف یا تردّد ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر (رض) کے ‘ جنہوں نے ایک لمحے کا بھی توقف نہیں کیا “۔ سورة التوبہ کی آیت ١٠٠ میں جن خوش نصیب لوگوں کو : (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ) کا خطاب ملا ‘ یہ وہی لوگ تھے جن کی فطرت کے آئینے غیر معمولی طور پر شفاف تھے۔ دوسری طرف اسی ماحول میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی فطرت کے تکدرّ کو دور کرنے کے لیے اضافی وقت اور محنت کی ضرورت پڑی۔ ایسے لوگ بعد میں اپنی اپنی طبیعت کی کیفیت اور استطاعت کے مطابق ” سابقون الاولون “ کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوتے رہے۔ ان لوگوں کا ذکر اسی آیت میں (وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍا) کے الفاظ میں ہوا ہے۔- آیت زیر مطالعہ میں دی گئی مثال کو سمجھنے کے لیے تیل کی مختلف اقسام کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پرانے زمانے میں تیل کے دیے جلائے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ان میں سرسوں کا تیل جلایا جاتا تھا جسے کڑوا تیل کہا جاتا تھا۔ یہ تیل زیادہ کثیف ہونے کی وجہ سے دیا سلائی دکھانے پر بھی آگ نہیں پکڑ سکتا۔ چناچہ اسے کپڑے یا روئی کے فتیلے (بتی) کی مدد سے جلایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پٹرول بھی ایک تیل ہے جو جلنے کے لیے ہر وقت بیتاب رہتا ہے اور چھوٹی سی چنگاری بھی اگر اس کے قریب آجائے تو بھڑک اٹھتا ہے۔ جلنے کے اعتبار سے جس طرح کڑوے تیل اور پٹرول میں فرق ہے اسی نوعیت کا فرق انسانی طبائع میں بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ مذکورہ مثال میں اعلیٰ قسم کے زیتون سے حاصل شدہ انتہائی شفاف تیل گویا ” صدیقین “ کی فطرت سلیم ہے جو وحی الٰہی کے نور سے مستفیض ہونے اور ” نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ “ کی کیفیت کو پانے کے لیے ہر وقت بےتاب و بےچین رہتی ہے۔ گویا انسانی روح ایک نورانی یا ملکوتی چیز ہے۔ اس ملکوتی روح سے جب وحی یا قرآن کے نور کا اتصال ہوتا ہے تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍکی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کیفیت سے نور ایمان وجود میں آتا ہے ‘ جس سے بندۂ مؤمن کا دل منور ہوتا ہے۔ - (وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) ” - یہ مثال لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کی گئی ہے ‘ کیونکہ انسانی ذہن ایسے لطیف حقائق کو براہ راست نہیں سمجھ سکتا۔۔ اب آئندہ آیات میں ان لوگوں کے کردار و عمل کی جھلک دکھائی جا رہی ہے جن کے دل نور ایمان سے منور ہوتے ہیں۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :61 یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام ، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کافر دشمن سرگرم تھے ۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے ، مسلمانوں میں شامل تھے ، مسلمانوں کے ساتھ ، اور خصوصاً انصار کے ساتھ ، رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے ، اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا ، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی ۔ لیکن درحقیقت ان کی دنیا پرستی نے ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعواے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا ۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں ۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور بھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں ور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے ، اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشتیبانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو ۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے تقاضے پورے کریں ۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں ۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہاں وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :62 آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم کائنات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے ۔ نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے ، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے ۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے ۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے ، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ نور کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے ، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے ۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے ، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جو اس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے ۔ مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے ۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے ۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں ۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے ۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے ۔ اسی طرح نور کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے ، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل سبب ظہور ہے ، باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں ، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں ۔ نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے ۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :63 مبارک ، یعنی کثیر المنافع ، بہت سے فائدوں کا حامل ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :64 یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو ، جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو ۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے ۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے ۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :65 اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے ، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے ۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں ، شدت ظہور کا پردہ ہے ۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں ، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں ، جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں ۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں ، جو کبھی زائل نہیں ہوتا ، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے ، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے ۔ رہا یہ مضمون کہ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے ۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتوں کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی ، اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو ۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات ، جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے ، کسی اور چیز سے طاقت ( ) حاصل کر رہی ہے ، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہے ۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ نور بنا رکھا ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے ۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو ۔ یہ تینوں چیزیں ، یعنی زیتون ، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا ، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا ، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزائے تمثیل تین ہیں ، چراغ ، طاق ، اور فانوسِ شفاف ۔ آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو نور کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس نور ہونا ہے ۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم ، صاحب قدرت ، صاحب حکمت وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے ۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہہ دیا جائے ، یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :66 یعنی اگرچہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے ، مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔ اس کے ادراک کی توفیق ، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں ، اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا ۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے ۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا ، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی ۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں ۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :67 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے ۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو ، اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے ۔
29: اس جملے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات کو ہدایت کا نور پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ امام غزالی نے اس آیت کی تشریح میں ایک مستقبل مقالہ لکھا ہے جس میں اس فقرے کا مطلب بڑے لطیف فلسفیانہ انداز میں سمجھایا ہے، ان کی یہ پوری بحث امام رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت نقل فرمائی ہے جو اہل علم کے لیے قابل دید ہے۔ 30: امام رازی فرماتے ہیں کہ اگرچہ سورج کی روشنی ایک چراغ کی روشنی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کی مثال سورج کے بجائے چراغ سے اس لیے دی گئی ہے کہ یہاں مقصود اس ہدایت کی مثال دینا ہے جو گمراہی کے اندھیروں کے عین درمیان راستہ دکھائے، اور چراغ ہمیشہ اندھیرے کے بیچوں بیچ روشنی پیدا کرتا ہے، اس کے برعکس سورج کی موجودگی میں کوئی اندھیرا باقی نہیں رہتا، اس لیے اندھیرے سے اس کا تقابل ساتھ ساتھ ظاہر نہیں ہوتا (تفسیر کبیر) 31: یعنی سورج چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں، اس کی دھوپ اس درخت کو ہرحال میں پہنچتی ہو۔ ایسے درخت کا پھل اچھی طرح پکتا ہے، اور اس کا تیل بھی زیادہ شفاف ہوتا ہے۔ 32: پکے ہوئے زیتون کا تیل اگر خالص ہو تو خود اس میں اتنی چمک ہوتی ہے کہ وہ دور سے روشن معلوم ہوتا ہے۔