Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] واضح احکام سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو ابتدائے سورة نور سے بیان ہو رہے ہیں یعنی زنا اور قذف کی حد۔ لعان کا طریقہ۔ معاشرہ کو فحاشی سے پاک رکھنے کے لئے احکام و ہدایات وغیرہ۔ اور پہلے لوگوں کی مثالی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ تم سے پہلے جن جن لوگوں کے اللہ کے احکامات سے سرتابی کی تو ایسی قوموں کا کیا حشر ہوا۔ اور ان کا یہ حشر بھی پہلے متعدد مقامات پر مذکور ہوچکا ہے۔ لہذا اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ان سابقہ نظائر میں بہت سے نصیحت آموز اسباب موجود ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ : ” مُّبَيِّنٰتٍ “ باب تفعیل سے اسم فاعل ” مُبَیِّنَۃٌ“ کی جمع ہے، یہ باب لازم و متعدی دونوں میں آتا ہے، یہاں دونوں معنی اکٹھے بھی مراد ہوسکتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات واضح اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کو خوب واضح کرنے والی بھی ہیں۔ ان آیات سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی تمام آیات ہیں، اگرچہ سب سے پہلے اس سورت میں مذکور آیات و احکام مراد ہیں، جیسا کہ فرمایا : (سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا وَاَنْزَلْنَا فِيْهَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ) [ النور : ١ ] ”(یہ) ایک عظیم سورت ہے، ہم نے اسے نازل کیا اور ہم نے اسے فرض کیا اور ہم نے اس میں واضح آیات اتاری ہیں، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “- وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۔ “ ” مَثَلًا “ کا معنی ہے ضرب المثل، وہ چیز جو دوسری چیز کے مشابہ ہو، کسی کا حال جو دوسرے کے حال سے ملتا جلتا ہو، کسی چیز کی صفت اور قصہ عجیبہ، یعنی ہم نے تمہاری طرف کھول کر بیان کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور پہلے لوگوں کے کچھ احوال نازل کیے ہیں جو تمہارے احوال سے ملتے جلتے ہیں۔ اس میں وہ احکام و حدود بھی شامل ہیں جو امت مسلمہ کی طرح پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، مثلاً زنا کی حد، قصاص، فحاشی کی اشاعت کی روک تھام وغیرہ اور پہلی امتوں کے وہ حالات و واقعات جو اس امت کے احوال سے ملتے جلتے ہیں، مثلاً عائشہ (رض) پر بہتان کا واقعہ اور مریم [ پر یہودیوں کے بہتان اور یوسف (علیہ السلام) پر عزیز مصر کی بیوی کے بہتان کا واقعہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ تینوں واقعات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی پاک دامنی قیامت تک کے لیے قرآن میں ثبت فرما دی اور بہتان لگانے والوں کا جھوٹ ہمیشہ کے لیے واضح کردیا۔ - وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ : ” أَيْ وَ أَنْزَلْنَا مَوْعِظَۃً “ یعنی ہم نے ڈرنے والوں اور نافرمانی سے بچنے والوں کے لیے عظیم نصیحت نازل فرمائی، کیونکہ جسے اللہ کا خوف نہیں اسے ان آیات سے کچھ حاصل نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے اس سورت میں یا قرآن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے) تمہارے پاس کھلے کھلے احکام (علمیہ و عملیہ) بھیجے ہیں اور جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کی (یا ان جیسے لوگوں کی) بعض حکایات اور (خدا سے) ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کی باتیں (بھیجی ہیں) اللہ تعالیٰ نور (ہدایت) دینے والا ہے آسمانوں (میں رہنے والوں) کا اور زمین (میں رہنے والوں) کا (یعنی اہل آسمان و زمین میں جن کو ہدایت ہوئی ہے ان سب کو اللہ ہی نے ہدایت دی ہے اور مراد آسمان و زمین سے کل عالم ہے پس جو مخلوقات آسمان و زمین سے باہر ہے وہ بھی داخل ہوگئی جیسے حاملان عرش) اس کے نور (ہدایت) کی حالت عجیبہ ایسی ہے جیسے (فرض کرو) ایک طاق ہے (اور) اس میں ایک چراغ (رکھا) ہے (اور) وہ چراغ (خود طاق میں نہیں رکھا بلکہ) ایک قندیل میں ہے (اور قندیل طاق میں رکھا ہے اور) وہ قندیل ایسا (صاف شفاف ہے جیسا کہ ایک چمکدار ستارہ ہو (اور) وہ چراغ ایک نہایت مفید درخت ( کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے جو زیتون (کا درخت) ہے جو (کسی آڑ کے) نہ پورب رخ ہے اور نہ (کسی آڑ کے) پچھم رخ ہے۔ (یعنی نہ اس کی جانب مشرقی میں کسی درخت یا پہاڑ کی آڑ ہے کہ شروع دن میں اس پر دھوپ نہ پڑے اور نہ اس کی جانب غربی میں کوئی آڑ پہاڑ ہے کہ آخر دن میں اس پر دھوپ نہ پڑے بلکہ کھلے میدان میں ہے جہاں تمام دن دھوپ رہتی ہے ایسے درخت کا روغن بہت لطیف اور صاف اور روشن ہوتا ہے اور) اس کا تیل (اس قدر صاف اور سلگنے والا ہے کہ) اگر اس کو آگ بھی نہ چھوئے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود جل اٹھے گا ( اور جب آگ بھی لگ گئی تب تو) نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ہے (یعنی ایک تو اس میں خود قابلیت نور کی اعلی درجہ کی تھی پھر اوپر سے فاعل یعنی آگ کے ساتھ اجتماع ہوگیا اور پھر اجتماع بھی ان کیفیات کے ساتھ کہ چراغ قندیل میں رکھا ہو جس سے بالمشاہدہ چمک بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ ایسے طاق میں رکھا ہو جو ایک طرف سے بند ہو ایسے موقع پر شعاعیں ایک جگہ سمٹ کر بہت تیز روشنی ہوتی ہے اور پھر تیل بھی زیتون کا جو صاف روشنی اور دھواں کم ہونے میں مشہور ہے تو اس قدر تیز روشنی ہوگی جیسے بہت سی روشنیاں جمع ہوگئی ہوں اس کو نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ فرمایا۔ یہاں مثال ختم ہوگئی پس اسی طرح مومن کے قلب میں اللہ تعالیٰ جب نور ہدایت ڈالتا ہے تو روز بروز اسی کا انشراح قبول حق کے لئے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر وقت احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ گو بالفعل بعض احکام کا علم بھی نہ ہوا ہو کیونکہ علم تدریجاً حاصل ہوتا ہے جیسے وہ روغن زیتون آگ لگنے سے پہلے ہی روشنی کے لئے مستعد تھا، مومن بھی علم احکام سے پہلے ہی ان پر عمل کے لئے مستعد ہوتا ہے اور جب اس کو علم حاصل ہوتا ہے تو نور عمل یعنی عمل کے پختہ ارادہ کے ساتھ نور علم بھی مل جاتا ہے جس سے وہ فوراً ہی قبول کرلیتا ہے پس عمل و علم جمع ہو کر نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ صادق آجاتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ علم احکام کے بعد اس کو کچھ تامل و تردد ہو کہ اگر موافق نفس کے پایا تو قبول کرلیا ورنہ رد کردیا۔ اسی انشراح اور نور کو دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ یعنی جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک نور پر ہوتا ہے اور ایک جگہ فرمایا فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۔ غرض نور ہدایت الہیہ کی یہ مثال ہے اور) اللہ تعالیٰ اپنے (اس) نور (ہدایت) تک جس کو چاہتا ہے راہ دیتا ہے (اور پہنچا دیتا ہے) اور (ہدایت کی جو یہ مثال دی گئی اسی طرح قرآن میں بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں تو اس سے بھی لوگوں کی ہدایت ہی مقصود ہے اس لئے) اللہ تعالیٰ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے (یہ مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ مضامین عقلیہ محسوس چیزوں کی طرح قریب الی الفہم ہوجاویں) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (اس لئے جو مثال افادہ مقصود کے لئے کافی ہو اور جس میں اغراض مثال کے پورے مرعی ہوں اسی کو اختیار کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ مثال نہایت مناسب ہوتی ہے تاکہ خوب ہدایت ہو۔ آگے اہل ہدایت کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) وہ ایسے گھروں میں (جاکر عبادت کرتے) ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کا ادب کیا جاوے اور ان میں اللہ کا نام لیا جاوے (مراد ان گھروں سے مسجدیں ہیں اور ان کا ادب یہ کہ ان میں جنب و حائض داخل نہ ہوں اور ان میں کوئی نجس چیز داخل نہ کی جاوے۔ وہاں غل نہ مچایا جاوے۔ دنیا کے کام اور باتیں کرنے کے لئے وہاں نہ بیٹھیں۔ بدبو کی چیز کھا کر ان میں نہ جاویں وغیرہ ذلک، غرض) ان (مسجدوں) میں ایسے لوگ صبح و شام اللہ کی پاکی (نمازوں میں) بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد (یعنی بجا آوری احکام) سے (جس وقت کے متعلق جو حکم ہو) اور (بالخصوص) نماز پڑھنے سے اور زکوة دینے سے (کہ یہ احکام فرعیہ میں سب سے اہم ہیں) نہ خرید غفلت میں ڈالنے پاتی ہے اور نہ فروخت (اور باوجود اطاعت و عبادت کے ان کی خشیت کا یہ حال ہے کہ) وہ ایسے دن (کی دارو گیر) سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں بہت سے دل اور آنکھیں الٹ جاویں گی (جیسا دوسری آیت میں ہے يُؤ ْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ یعنی یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اس کے باوجود ان کے دل قیامت کی باز پرس سے ڈرتے رہتے ہیں اور مقصود اس سے اہل نور ہدایت کے اوصاف و اعمال کا بیان فرمانا ہے اور آگے ان کے انجام کا ذکر ہے کہ) انجام (ان لوگوں کا) یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہت ہی اچھا بدلہ دے گا (یعنی جنت) اور (علاوہ جزا کے) ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ دے گا (جزا وہ جس کا وعد مفصل مذکور ہے اور زیادہ وہ جس کا مفصل وعدہ نہیں گو مجمل عنوانوں سے ہوا ہو۔ ) اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بیشمار (یعنی بہت کثرت سے) دے دیتا ہے (پس ان لوگوں کو جنت میں اسی طرح بیشمار دے گا۔ یہاں تک تو ہدایت اور اہل ہدایت کا بیان تھا آگے ضلالت اور اہل ضلالت کا ذکر ہے یعنی) اور جو لوگ کافر (اور اہل ضلال اور نور ہدایت سے دور) ہیں ان کے اعمال (بوجہ کافروں کی دو قسمیں ہونے کے دو مثالوں کے مشابہ ہیں کیونکہ ایک قسم تو وہ کفار ہیں جو آخرت اور قیامت کے قائل ہیں اور اپنے بعض اعمال پر یعنی جو ان کے گمان کے مطابق کار ثواب اور حسنات ہیں توقع جزائے آخرت کی رکھتے ہیں اور دوسری قسم وہ کفار ہیں جو آخرت اور قیامت کے منکر ہیں۔ قسم اول کفار کے اعمال تو) ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا (آدمی) اس کو (دور سے) پانی خیال کرتا ہے (اور اس کی طرف دڑوتا ہے) یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو (جو سمجھ رکھا تھا) کچھ بھی نہ پایا اور (غایت پیاس، پھر نہایت یاس سے جو جسمانی اور روحانی صدمہ پہنچا اور اس سے تڑپ تڑپ کر مرگیا تو یوں کہنا چاہئے کہ بجائے پانی کے) قضاء الٰہی یعنی موت کو پایا سو اللہ تعالیٰ نے اس (کی عمر) کا حساب اس کو برابر سرابر چکا دیا (اور بیباق کردیا یعنی عمر کا خاتمہ کردیا) اور اللہ تعالیٰ (جس چیز کی میعاد آجاتی ہے اس کا) دم بھر میں حساب (فیصل) کردیتا ہے (اس کو کچھ بکھیڑا نہیں کرنا پڑتا کہ دیر لگے اور میعاد سے کچھ بھی توقف ہوجاوے بس یہ مضمون ایسا ہے جیسا دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤ َخَّرُ وقولہ وَلَنْ يُّؤ َخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا حاصل اس مثال کا یہ ہوا کہ جیسے پیاسا ریت کو ظاہری چمک سے پانی سمجھا اسی طرح یہ کافر اپنے اعمال کو ظاہری صورت سے مقبول اور مثمر نافع آخرت سمجھا اور جیسا وہ پانی نہیں اسی طرح یہ اعمال شرط قبول یعنی ایمان نہ ہونے کے سبب مقبول اور نافع نہیں ہیں اور جب وہاں جا کر اس پیاسے کو حقیقت معلوم ہوئی اسی طرح اس کو آخرت میں پہنچ کر حقیقت معلوم ہوگی اور جس طرح یہ پیاسا اپنی توقع کے غلط ہونے سے حسرت و افسوس میں خائب ہو کر مر گیا اسی طرح یہ کافر بھی اپنی توقع کے غلط ہونے پر اس وقت حسرت میں اور ہلاکت ابدی یعنی عقاب جہنم میں مبتلا ہوگا۔ ایک قسم کی مثال تو یہ ہوئی۔ آگے دوسری قسم کے کافروں کے اعمال کی مثال ہے یعنی) یا وہ (اعمال باعتبار خصوصیت منکرین قیامت کے) ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے (جن کا ایک سبب دریا کی گہرائی ہے اور پھر یہ) کہ اس (سمندر کے اصلی سطح) کو ایک بڑی موج نے ڈھانک لیا ہو (پھر وہ موج بھی اکیلی نہیں بلکہ) اس (موج) کے اوپر دوسری موج (ہو پھر) اس کے اوپر بادل (ہو جس سے ستارہ وغیرہ کی روشنی بھی نہ پہنچتی ہو غرض) اوپر تلے بہت سے اندھیرے (ہی اندھیرے) ہیں کہ اگر (ایسی حالت میں کوئی آدمی دریا کی تہہ میں) اپنا ہاتھ نکالے (اور اس کو دیکھنا چاہے) تو (دیکھنا تو درکنار) دیکھنے کا احتمال بھی نہیں ( اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کافر جو آخرت اور قیامت کے اور اس میں جزاء و سزا ہی کے منکر ہیں ان کے پاس وہمی نور بھی نہیں جیسے قسم اول کے کافروں کے پاس ایک وہمی اور خیالی نور تھا کیونکہ انہوں نے بعض نیک اعمال کو اپنی آخرت کا سامان سمجھا تھا مگر وہ شرط ایمان نہ ہونے کے سبب حقیقی نور نہ تھا ایک وہمی نور تھا۔ یہ لوگ جو منکر آخرت ہیں انہوں نے اپنے اعتقاد و خیال کے مطابق بھی کوئی کام آخرت کے لئے کیا ہی نہیں جس کے نور کا ان کو وہم و خیال ہو۔ غرض ان کے پاس ظملت ہی ظلمت ہے نور کا وہم و خیال بھی نہیں ہوسکتا جیسا کہ تہہ دریا کی مثال میں ہے اور نظر نہ آنے میں ہاتھ کی تخصیص شاید اس لئے کہ انسانی اعضاء وجوارح میں ہاتھ نزدیک تر ہے پھر اس کو جتنا نزدیک کرنا چاہو نزدیک آجاتا ہے اور جب ہاتھ ہی نظر نہ آیا تو دوسرے اعضاء کا معاملہ ظاہر ہے) اور (آگے ان کفار کے اندھیرے میں ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ) جس کو اللہ ہی نور (ہدایت) نہ دے اس کو (کہیں سے بھی) نور نہیں (میسر آسکتا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ وَّمَثَلًا مِّنَ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ٣٤ۧ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) اور ہم نے تمہارے نبی کے پاس بذریعہ جبریل امین حلال و حرام اور اوامرو نواہی زنا و فواحش سے بچنے کے واضح احکامات بھیجے ہیں اور مسلمان اور کافروں میں سے جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کی بعض حکایات اور زنا اور فواحش سے بچنے والوں کے لیے نصیحت کی چیزیں بھیجی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّمَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ) ” - جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے تھے اور ان کے اندر جو جو معاشرتی برائیاں پائی جاتی تھیں ہم نے ان سب کی نشان دہی بھی اس کتاب میں کردی ہے۔- (وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ) ” - سورۂ یونس کی آیت ٥٧ میں بھی قرآن کو موعظہ (نصیحت) قرار دیا گیا ہے : (قَدْجَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ) ” آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani