[٥٣] اس آیت سے پہلی آیت کے حاشیہ میں ذکر ہوچکا ہے کہ جو جوان مرد نکاح اور خانہ داری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا تمہارے عفیف اور پاکیزہ رہنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی فیط نفس اور عفت کی برکت سے انھیں نکاح کا بہترین موقع مہیا فرما دے اور انھیں غنی بھی کردے۔ کہ معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود تو غنی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے رشتہ کے سلسلہ میں ایسا جوڑ چاہتے ہیں۔ جو شریف، نیک اور پاکیزہ سیرت انسان ہو۔ اور وہ اپنی بیٹی کی غربت کا خیال اس لئے نہیں کرتے کہ اس جوڑے کی غربت کا علاج ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کے فضل کی بیشمار راہیں ہیں۔ انسان کو بس اس کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہئے۔- [٥٤] واضح رہے کہ عہ نبوی میں معاشرہ کا ایک کثیر حصہ غلاموں اور لونڈیوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ معاشرہ کا جزولاینفک بن چکا تھا۔ کسی شخص کی دولت کا معیار ہی یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے پاس کتنے غلام ہیں۔ گویا یہ غلام ان آزاد لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بنتے تھے۔ منڈیوں میں غلاموں کا آزادانہ خریدو فروخت ہوتی تھی۔ جیسے ہمارے ہاں بھیڑوں اور گائے بھینسوں کی ہوتی ہے۔ اسلام نے اس اس غلام کے رواج کو سخت ناپسندیدہ سمجھا۔ غلاموں کی آزادی کے لئے ہر ممکن صورت اختیار کی لیکن شراب اور سود کی طرح اس کا کلی استیصال نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ تاقیامت جنگیں ہوتی رہیں گی اور قیدی بنتے رہیں گے۔ ایسے مواقع پر ایک غیر مسلم حکومت کے فوجی مفتوح قوم کی عورتیں پر جس طرح کی دست درازیاں کرتے اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسلام ایسی فحاشی اور ایسے مظالم کو حرام قرار دیتا ہے اور اس کے بجائے ملک یمین کی حلال راہیں کھولتا ہے۔ اسی اعلیٰ اخلاقی قدر کی بنا پر اسلام نے جنگی قدیوں اور ملک یمین کا مکمل طور پر استیصال نہیں کیا۔ اسلام نے غلام کے رواج کی حوصلہ شکنی کے لئے بہت سے گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا۔ زکوٰۃ کے معارف میں سے ایک مصرف یہ بھی فرمایا۔ مسلمانوں کو بہت بڑے اجر کا وعدہ فرما کر غلاموں کو آزاد کرنے اور کرانے کی ترغیب دی۔ غرض یہ باب بھی بڑا طویل ہے۔ ایسے ہی ذرائع میں سے مکاتبت بھی غلاموں کی آزادی کا ایک ذریعہ ہے۔ مکاتیب کا لغوی معنی تو باہمی تحریر یا لکھا پڑھی ہے۔ اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ (تحریری یا زبانی) معاہدہ ہے جو غلاموں کی آزادی کے سلسلہ میں مالک اور غلاموں کے درمیان باہمی رضا مندی سے طے ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ غلام یہ وعدہ کرکے کہ میں اتنی رقم اتنی مدت کے بعد یا مدت کے اندر یکمشت یا بالاقساط ادا کروں گا اگر کوئی غلام اپنے مالک سے ایسی درخواست کرے تو مالک کو ایسی درخواست قبول کرلینا چاہئے۔ اس معاہدہ پر مزید کسی شرط کے اضافہ کی مالک کے لئے گنجائش نہیں ہوتی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- عمر بن عبدالرحمن کہتی ہیں کہ : بریرہ لونڈی حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئی وہ اپنی کتابت کے سلسلہ میں حضرت عائشہ (رض) سے مدد چاہتی تھی۔ انہوں نے کہا : اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکوں کو رقم ادا کردیتی ہوں مگر ولاء (تیرا ترکہ) میرا ہوگا اور اس کے مالکوں نے اسے کہا : اگر تو چاہے کتابت کی بقایا رقم دے دے پھر خواہ وہ مجھے آزاد کردیں۔ مگر۔۔ ترکہ ہم ہی لیں گے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب آپ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : تم بریرہ کو خرید کر آزاد کردو۔ اور ترکہ تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرے پھر آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔ اور ایسی شرطیں جو اللہ کی کتاب میں نہ ہوں۔ خواہ کوئی سو شرطیں لگائے اسے کچھ بھی نہ ملے گا (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ذکر البیع والشراء فی المسجد) - اور مالک کے لئے یہ امر وجوب کے لئے ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ مالک اگر چاہے تو غلام کی مکاتبت کی درخواست کو قبول کرے اور چاہے تو نہ کرے اور مالک مکاتبت رضا مند نہ ہو تو اسے اسلام حکومت کی طرف سے ایسے معاہدہ کے لئے مجبور کیا جائے۔ البتہ ایسی مکاتبت کے لئے ایک شرط اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتلا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مالک اپنی دیانتداری کے ساتھ اپنے لالچ کے بغیر یہ سمجھے کہ یہ آزادی فی الواقع غلام یا لونڈی کے حق میں بہتر نہ ہوگی۔ قید غلامی سے رہا ہو کر وہ چوری، بدکاری یا اور طرح طرح کی بدمعاشیاں نہ کرتا پھرے۔ اگر یہ اطمینان ہو تو اسے ضرور آزاد کردینا چاہئے۔ کہ وہ آزاد ہو کر معاشرہ میں اپنا مقام پیدا کرسکے اور اگر نکاح کرنا چاہے تو اپنے اختیار سے کرسکے۔ نیز کسی بھی میدان میں غلامی کی وجہ سے اس کے لئے میدان تنگ نہ ہو۔ یا پھر خیر کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے اس عہد کو نباہ بھی سکتا ہے یا نہیں یعنی اپنے معاوضہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔- [٥٥] اس جملہ کے مخاطب عام افراد معاشرہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ مکاتبت کرنے والے غلام کی رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں اس کی مالی امداد کریں۔ غلاموں کے مالک بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ طے شدہ رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دیں اور اسلامی حکومت بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے شخص سے زکوٰۃ فنڈ میں سے مالی تعاون کرے۔- [٥٦] غلام اور لونڈیوں کو اہل عرب اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جتنے کسی کے پاس زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار ہوتا جاتا تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے آج کل ایک کارخانہ میں دس مزدور کام کرتے ہیں اور دوسرے میں پچاس۔ تو پچاس مزدوروں والے کارخانہ کا مالک یقیناً پہلے سے بہت زیادہ مالدار ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں بعض بدباطن اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنی لونڈیوں سے پیشہ بھی کرواتے تھے۔ اور عبداللہ بن ابی منافق رئیس المنافقین اس سلسلہ میں بہت مشہور تھا۔ اس کی بعض لونڈیاں مسلمان ہوگئیں تو انہوں نے پیشہ کرنے سے انکار کردیا جس پر وہ ملعون انھیں زدوکوب کرتا تھا۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم۔ کتاب التفسیر عن جابر)- زنا بذات خود ہی ایک حرام اور مذموم فعل ہے۔ اس میں دو جملوں نے زنا کی قباحت میں مزید اضافہ کرکے ایسی حرکت کو شدید ترین جرم بنادیا ہے۔ یعنی اگر رنڈیاں پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو بھی زنا حرام اور مذموم ہے اور اگر وہ پاک دامن بھی رہنا چاہتی ہوں پھر۔۔ ان سے یہ کام کروایا جائے تو یہ شدید جرم بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرد کسی لالچ کے بغیر زنا کرتا ہے یا کرواتا ہے تو بھی اس کی حرمت اور مذمت بدستور قائم ہے۔ پھر یہ کام جب محض دنیا کے حقیر فائدے کے خاطر کرایا جائے تو اس جرم کی شدت اور۔۔ مزید بڑھ جاتی ہے۔- [٥٧] یعنی جس کو بدکاری پر مجبور کردیا گیا ہو۔ اللہ اسے اس کا یہ گناہ معاف فرمائے گا۔ جبکہ اس کا یہ گناہ جبر کرنے والے کے گناہ میں شامل کردیا جائے گا۔ اور ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث پہلے گزر چکا ہے کہ جس عورت سے بالجبر زنا کیا گیا تھا اس سے حد زنا ساقط کردی گئی تھی۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا : ” عَفَّ یَعِفُّ عَفَافًا وَ عِفَّۃً “ اس چیز سے باز رہنا جو حلال نہ ہو یا جمیل نہ ہو۔ ” اِسْتَعَفَّ “ اور ” تَعَفَّفَ “ کا بھی یہی معنی ہے۔ (القاموس) ” وَلْيَسْتَعْفِفِ “ میں حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور حرام سے بہت بچیں۔ “ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے نکاح نہ کرسکیں، مثلاً رشتہ نہ ملے، یا مہر میسر نہ ہو، یا غلام کو اس کا مالک نکاح کی اجازت نہ دے، یا کسی اور وجہ سے حالات سازگار نہ ہوں تو وہ حرام سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش کریں، یعنی زنا، قوم لوط کے عمل اور استمنا بالید وغیرہ سے باز رہیں۔ اس کوشش میں نگاہ نیچی رکھنا، بلا اجازت دوسروں کے گھروں میں نہ جانا اور خیالات کو پاکیزہ رکھنا وغیرہ آداب شامل ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسان کی اس منہ زور قوت یعنی شہوت کی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے نکاح کا حکم دیا اور جسے نکاح میسر نہ ہو اسے زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا : ” یہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہوگا۔ “ [ دیکھیے بخاري : ١٩٠٥ ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہوت کو روزے کے ساتھ کچلنے کا حکم دیا، کیونکہ اس سے شہوت کمزور ہونے کے علاوہ ضبط نفس کی عادت بھی پڑتی ہے۔ بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ روزے سے تو شہوت قوی ہوئی ہے، یہ خیال فرض روزوں یا کبھی کبھار روزے کی حد تک تو صحیح ہے، کیونکہ جب صحت بہتر ہوتی ہے تو ہر قوت مضبوط ہوتی ہے، مگر مسلسل روزے رکھنے کا نتیجہ وہی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا اور آپ کے تجویز کردہ نسخے میں ضبط نفس کی عادت بھی ہے اور کوئی نقصان بھی نہیں، کیونکہ روزے چھوڑنے سے وہ قوت پھر بحال ہوجائے گی جو افزائش نسل اور زمین کی رونق کا ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص مسلسل دھنیا، یا کافور، یا پوٹاشیم برومائید، یا ایسی دوائیں استعمال کرے جن سے شہوت ختم ہوجائے تو اس کا نتیجہ نہایت نقصان دہ نکلتا ہے، کیونکہ دوائیں چھوڑنے کے باوجود بعض اوقات وہ قوت دوبارہ بحال ہی نہیں ہوتی، یہ ایک قسم کا خصی ہونا ہے، جو حرام ہے ۔- حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : اس میں پاک دامن رہنے والوں کے لیے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں غنی کرے گا اور ان کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ مومن کا اللہ کے وعدے پر یقین اس کے لیے انتظار کی مشقت کو آسان بنا دیتا ہے۔ (سعدی) - عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال - صد سال می تو اں بتمنا گریستن - ” عرفی اگر رونے سے وصل کی دولت میسر ہوسکتی تو تمنا میں سو سال بھی رویا جاسکتا ہے۔ “- وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ ۔۔ : ” الْكِتٰبَ “ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، جیسے ” قَاتَلَ یُقَاتِلُ مُقَاتَلَۃً وَ قِتَالًا “ ہے، یعنی غلام اور اس کے مالک کے درمیان آزادی کی تحریر کہ غلام اتنی رقم قسطوں میں فلاں مدت تک ادا کرے گا تو اسے آزادی مل جائے گی، اسے ” اَلْکِتَابُ “ ، ” اَلْکِتَابَۃُ “ یا ” اَلْمُکَاتَبَۃُ “ کہتے ہیں۔ پچھلی آیت میں مالکوں کو اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرنے کا حکم دیا۔ ان کے نکاح میں دو بڑی رکاوٹیں ہوسکتی تھیں، ایک یہ کہ مالک انھیں نکاح کی اجازت نہ دے، دوسری یہ کہ وہ خود نکاح سے اجتناب کریں، کیونکہ غلام ہوتے ہوئے ان کے جتنے بچے پیدا ہوں گے، وہ ان کی طرح ان کے مالک کے غلام ہوں گے۔ ان دونوں رکاوٹوں کا حل یہ تھا کہ وہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے مالک کے ساتھ مکاتبت کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے مالکوں کو مکاتبت کا تقاضا کرنے والے لونڈی اور غلاموں کے ساتھ مکاتبت کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکاتبت کا تقاضا کرنے والے غلاموں کے ساتھ مکاتبت سے انکار جائز نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے، اگر اس کے خلاف کوئی قرینہ نہ ہو۔ امام بخاری (رض) نے صحیح بخاری میں یہی آیت : ( وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ ۔۔ ) درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء (تابعی کبیر) سے کہا : ” کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اپنے غلام سے مکاتبت کروں، جب مجھے معلوم ہو کہ اس کے پاس مال ہے ؟ “ تو انھوں نے فرمایا : ” میں تو اسے واجب ہی سمجھتا ہوں۔ “ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا : ” کیا آپ یہ بات کسی سے نقل کرتے ہیں ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” نہیں۔ “ پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ (مشہور امام محمد بن سیرین کے والد) سیرین نے انس (رض) سے مکاتبت کا تقاضا کیا اور وہ بہت مال والا تھا، انس (رض) نے انکار کردیا تو سیرین، عمر (رض) کے پاس چلا گیا، انھوں نے فرمایا : ” اس سے مکاتبت کرو۔ “ انس (رض) نے انکار کردیا تو عمر (رض) نے یہ آیت پڑھتے ہوئے انھیں درّے کے ساتھ مارا : (فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا ) تو انس (رض) نے اس سے مکاتبت کرلی۔ [ بخاري، المکاتب، باب المکاتب و نجومہ ۔۔ ، قبل ح : ٢٥٦٠ ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مالک غلام کے ساتھ مکاتبت کرنے سے انکار کر دے تو غلام عدالت میں جاسکتا ہے اور حاکم مالک کو مکاتبت پر مجبور کرے گا، جیسا کہ عمر (رض) کے درّے کے ساتھ مارنے سے ثابت ہوتا ہے۔ - اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا : بعض اہل علم نے خیر سے مراد مال لیا ہے، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت میں ”إِنْ عَلِمْتُمْ لَھُمْ خَیْرًا “ ہونا چاہیے تھا، یعنی اگر تم ان کے پاس خیر کا علم رکھتے ہو، جبکہ یہاں الفاظ یہ ہیں کہ اگر تم ان میں خیر کا علم رکھتے ہو۔ اس لیے خیر کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنی استعداد اور قوت و امانت ہو کہ وہ کمائی کرکے اپنی قیمت ادا کرسکتے ہوں، مکاتبت کو کچھ عرصہ کام سے جان چھڑانے کا بہانہ نہ بنا رہے ہوں اور آزاد ہونے کے بعد چوری یا خیانت کے بغیر اپنی روزی کما سکتے ہوں، تاکہ آزاد ہو کر گدائی نہ کرتے پھریں اور مسلم معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔ خیر میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نیک اور پاک باز ہوں، تاکہ آزاد ہو کر بدکاری اور چوری ڈاکے کا ارتکاب نہ کرتے پھریں۔- بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ مالک کے لیے مکاتبت کا تقاضا قبول کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ اس میں خیر ہے یا نہیں، پھر غلام اس کا مال ہے جو زبردستی اس سے لینا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے مکاتبت قبول کرنے کا حکم دیا ہے تو اس غلام کا حکم عام مال والا نہیں ہوسکتا اور غلام کو حق حاصل ہے کہ اگر مالک خواہ مخواہ اس میں خیر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر مکاتبت سے انکار کرتا ہے تو وہ اسلامی عدالت میں چلا جائے، جو سارے حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی کہ مالک کی بات درست ہے یا محض بہانہ ہے، جیسا کہ سیرین (رض) کے عمر (رض) کے پاس جانے سے ظاہر ہے۔ - وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : یہ حکم مکاتب کے مالک کو بھی ہے کہ وہ طے شدہ رقم کا ایک حصہ اسے چھوڑ دے، یا جو کچھ اس سے لیا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ واپس کر دے اور عام مسلمانوں کو بھی کہ ایسے غلاموں کو مال دے کر انھیں آزادی حاصل کرنے میں تعاون کریں۔ تعاون کی ترغیب کے لیے ارشاد ہے کہ تم جو مال انھیں دو گے وہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دے رہا ہے کہ اس کے دیے ہوئے مال میں سے انھیں دو ، کیونکہ ایسے غلاموں کی مدد اس نے اپنے آپ پر حق قرار دی ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثَۃٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُھُمُ الْمُکَاتَبُ الَّذِيْ یُرِیْدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاکِحُ الَّذِيْ یُرِیْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاھِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) [ نساءي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : ٣٢٢٠۔ ترمذي : ١٦٥٥، قال الترمذي والألباني حسن ] ” تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے، وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ۔ “ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف میں غلاموں کی آزادی کو باقاعدہ ایک مصرف مقرر فرمایا ہے، فرمایا : (وَفِی الرِّقَابِ ) [ التوبۃ : ٦٠ ] یعنی گردنوں کو غلامی سے آزاد کرانے میں زکوٰۃ خرچ کی جائے۔ اس لیے اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المال میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے رقم خرچ کرے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ” فَکُّ رَقَبَةٍ “ (گردن چھڑانا) عمل صالح کی دشوار گھاٹی کو عبور کرنے کا حصہ ہے۔ دیکھیے سورة بلد (١٣) ۔- مکاتب اپنی رہائی کے لیے لوگوں اور حکومت سے مالی امداد کی درخواست کرسکتا ہے، جیسا کہ بریرہ (رض) نے اپنی مکاتبت میں امداد کے لیے ام المومنین عائشہ (رض) سے درخواست کی اور انھوں نے پوری رقم یک مشت ادا کرکے انھیں خرید لیا اور آزاد کردیا۔ [ دیکھیے بخاري : ٢١٦٨ ]- 3 یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عہد نبوی میں غلام تین قسم کے تھے، ایک وہ جو اصل میں آزاد تھے، لیکن کسی نے اغوا کر کے یا زبردستی غلام بنا لیا، دوسرے وہ جو نسل در نسل غلام چلے آتے تھے اور تیسرے وہ جو جنگ میں گرفتار کرکے لونڈی یا غلام بنائے جاتے تھے۔ ان غلاموں کی خریدو فروخت ہوتی تھی اور مالک ان کی محنت کو اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے وہ اتنا ہی صاحب حیثیت سمجھا جاتا۔ اسلام نے جو غلام موجود تھے ان کی آزادی کے لیے ہر ممکن صورت اختیار فرمائی، مگر غلامی کو اس طرح ممنوع قرار نہیں دیا جس طرح شراب یا سود کو ممنوع قرار دیا اور نہ تمام غلام آزاد کرنے کا جبری حکم صادر فرمایا، بلکہ غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی، اس کا ثواب بیان فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے : ( مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً مُؤْمِنَۃً أَعْتَقَ اللّٰہُ بِکُلِّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ حَتّٰی یُعْتِقَ فَرْجَہُ بِفَرْجِہِ ) [ ترمذي، النذور و الأیمان، باب ما جاء في ثواب من أعتق رقبۃ : ١٥٤١، قال الترمذي حسن صحیح وقال الألباني صحیح ] ” جو شخص کوئی مومن گردن آزاد کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کا ایک عضو آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس کی شرم گاہ کے بدلے اس کی شرم گاہ کو آزاد کرے گا۔ “ کئی کاموں کا کفارہ گردن آزاد کرنا مقرر فرمایا، مثلاً قسم، ظہار، قتل خطا اور فرض روزے کی حالت میں جماع کے کفارے میں ترجیح غلام آزاد کرنے کو دی۔ اس کے باوجود غلامی کو ممنوع اس لیے قرار نہیں دیا کہ قیامت تک جنگیں ہوتی رہیں گی اور قیدی بنتے رہیں گے۔ ایسے مواقع پر ایک غیر مسلم حکومت کے فوجی مفتوح قوم کی عورتوں پر جس طرح کی دست درازیاں کرتے اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ گزشتہ دونوں عالمگیر جنگوں میں بےبس قیدی عورتوں میں سے ایک ایک عورت سے جس طرح کئی کئی فوجیوں نے اپنی ہوس پوری کی اور جس درندگی کا ثبوت دیا وہ ان نام نہاد مہذب بھیڑیوں کے ماتھے پر لعنت کا بدترین داغ ہے۔ ان بیچاریوں کی صحت یا عزت یا اولاد کا ذمہ دار بننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا، جب کہ ہر ایک اپنی ہوس پوری کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے۔ اسلام نے ایسی فحاشی اور درندگی کو حرام قرار دیا اور لونڈیاں بنانے کی پاکیزہ راہ کھولی، جس میں اسیر عورت ایک شخص کی لونڈی ہوتی ہے، صرف اس کے لیے اس سے بیوی کی طرح فائدہ اٹھانا جائز ہوتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اولاد بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد کی طرح باپ کی وارث ہوتی ہے اور بچوں کی ماں بن جانے کی صورت میں وہ مالک کی وفات کے بعد خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔ اس کے وارث اسے آزاد کروانا چاہیں تو کسی حکومت سے معاملہ کرنے کے بجائے اس کے مالک سے لین دین کرکے آسانی کے ساتھ آزاد کروا سکتے ہیں۔ غرض اسلام کا غلامی کی اجازت دینا مردوں اور عورتوں کی پاکیزگی اور عفت کا ضامن ہے۔ کفار نے غلامی کو سرے سے ممنوع قرار دے کر قیدی بننے والے مردوں اور عورتوں پر کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ ظلم و ستم اور بدکاری و درندگی کا دروازہ کھولا ہے اور یہی کفر کا نتیجہ ہے، جب کہ اسلام عدل، رحم، پاکیزگی اور پاک دامنی کا ضامن ہے اور غلاموں اور لونڈیوں کی سہولت اور آسائش کا اہتمام کرتا ہے اور ہر ممکن طریقے سے انھیں آزادی دلانے کے راستے کھولتا ہے۔- وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ ۔۔ : ” الْبِغَاۗءِ “ کا معنی زنا ہے، مگر یہ لفظ صرف عورت کے زنا پر بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے : ” بَغَتْ ، تَبْغِيْ بِغَاءً ، فَھِيَ بَغِيٌّ وَ لِلْجَمَاعَۃِ بَغَایَا۔ “ ” فَتَیَاتٌ“ ” فَتَاۃٌ“ کی جمع ہے، معنی اس کا جوان لڑکی ہے، جیسا کہ ” فَتًی “ کا معنی جوان لڑکا ہے۔ عام طور پر غلام اور لونڈی پر ” عَبْدٌ“ اور ” أَمَۃٌ“ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ ) اس لیے غلام اور لونڈی پر ” عَبْدٌ“ اور ” أَمَۃٌ“ کا لفظ بولنا جائز ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ غلام کے لیے ” فَتًی “ اور لونڈی کے لیے ” فَتَاۃٌ“ کا لفظ بولا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَقُلْ أَحَدُکُمْ عَبْدِيْ وَلَا أَمَتِيْ ، وَلْیَقُلْ فَتَايَ وَفَتَاتِيْ وَغُلاَمِيْ ) [ بخاری، العتق، باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق : ٢٥٥٢، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” تم میں سے کوئی شخص ” عَبْدِيْ “ اور ” أَمَتِيْ “ نہ کہے، بلکہ ” فَتَايَ “ ، ” فَتَاتِيْ “ اور ” غُلَامِيْ “ کہے۔ “ یہاں لونڈیوں کے لیے ”إِمَاءَکُمْ “ کے بجائے ” فَتَيٰتِكُمْ “ کا لفظ استعمال کرنے میں ان لونڈیوں کی فتوت (جواں مردی) کا بیان مقصود ہے کہ وہ لونڈیاں ہو کر بھی پاک دامن رہنا چاہتی ہیں۔ (بقاعی) یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں۔ “ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو انھیں بدکاری پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اہل علم نے اس کا دو طرح سے جواب دیا ہے، ایک یہ کہ بدکاری پر مجبور اسی کو کیا جاتا ہے جو پاک دامن رہنا چاہے، جو پاک دامن رہنا ہی نہ چاہے اسے بدکاری پر مجبور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کہا جائے اسے بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ لفظ ” اِنْ “ (اگر) یہاں شرط کے لیے نہیں بلکہ اس واقعہ کے بیان کے لیے ہے جس پر یہ آیت اتری۔ واقعہ یہ تھا کہ عبداللہ بن ابی اور اس قسم کے بدقماش اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے، جب کہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی تھیں۔ چناچہ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی ایک لونڈی کا نام مسیکہ تھا اور دوسری کا نام امیمہ تھا، وہ انھیں بدکاری پر مجبور کرتا تھا، ان دونوں نے اس کی شکایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَمَنْ يُّكْرِھْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) [ مسلم، التفسیر، باب في قولہ تعالیٰ : ( ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ) : ٢٧؍٣٠٢٩ ] اس کی ایک مثال یہ آیت ہے : (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) [ النساء : ١٠١ ] ” اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کرلو، اگر ڈرو کہ تمہیں وہ لوگ فتنے میں ڈال دیں گے جنھوں نے کفر کیا۔ “ یہاں خوف کا ذکر شرط کے لیے نہیں بلکہ اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے جس موقع پر یہ آیت اتری تھی۔ یہ دوسرا جواب پہلے کی بہ نسبت زیادہ صحیح ہے، کیونکہ لونڈیاں پاک دامن نہ بھی رہنا چاہیں تو ضروری نہیں کہ وہ اس شخص سے زنا پر بھی راضی ہوں جس پر ان کا مالک انھیں مجبور کر رہا ہے۔ - لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر دنیا کا مال طلب کرنا مقصود نہ ہو تو لونڈیوں سے زنا کروایا جاسکتا ہے، بلکہ یہ بھی بیان واقعہ کے لیے ہے کہ یہ کام کرنے والوں کا مقصد دنیا کے سازو سامان کی طلب تھا۔ چناچہ صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن ابی اپنی ایک لونڈی سے کہا کرتا تھا کہ جاؤ اور ہمارے لیے کچھ تلاش کرکے لاؤ، تو اس پر یہ آیت اتری۔ [ دیکھیے مسلم : ٣٠٢٩ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کی بدکاری کی کمائی سے منع فرمایا، ابومسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت، زانیہ کی آمدنی اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ “ [ بخاري، البیوع، باب ثمن الکلب : ٢٢٣٧ ] ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَحِلُّ ثَمَنُ الْکَلْبِ وَلَا حُلْوَانُ الْکَاھِنِ وَلَا مَھْرُ الْبَغِيِّ ) [ نساءي، الصید والذبائح، باب النھي عن ثمن الکلب : ٤٢٩٨ ] ” نہ کتے کی قیمت حلال ہے، نہ کاہن کی شیرینی اور نہ زانیہ کی آمدنی۔ “ - وَمَنْ يُّكْرِھْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : زنا ایک ایسا فعل ہے کہ مجبور ہو کر کرنے سے بھی نفس کی لذت کا دخل اس میں ہو ہی جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لونڈیوں کو مجبور کیے جانے کے بعد ان کی گناہ میں شرکت پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے غفور و رحیم ہے، ان کا گناہ مجبور کرنے والوں پر ہے۔ علی بن ابی طلحہ کی روایت سے ابن عباس (رض) کی تفسیر یہی ہے اور یہی ظاہر بھی ہے اور راجح بھی۔ تفسیر سعدی میں ہے : ” اس آیت میں لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنے والوں کو توبہ کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ بھی اگر توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کرنے کے گناہ کے بعد بھی غفور و رحیم ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ اللہ کی جناب میں توبہ کریں اور آئندہ اس جرم سے باز آجائیں۔ “ اس آیت کے علاوہ اللہ کی رحمت کی ایک جھلک اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ) [ البروج : ١٠ ] ” یقیناً وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالا، پھر انھوں نے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔ “ کوئی حد ہے اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت و رحمت کی کہ اس کے دوستوں کو آگ میں جلا کر تماشا دیکھنے والوں کے لیے بھی جہنم کے عذاب کی وعید تب ہے جب انھوں نے توبہ نہ کی ہو۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی جو لوگ مال و اسباب کے لحاظ سے نکاح پر قدرت نہیں رکھتے اور نکاح کرنے میں یہ خطرہ ہے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوجائیں گے ان کو چاہئے کہ عفت اور صبر کے ساتھ اس کا انتظار کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے اور اس صبر کے لئے ایک تدبیر بھی حدیث میں یہ بتلا دی گئی ہے کہ کثرت سے روزے رکھا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اتنے مالی وسائل عطا فرمائیں گے جن سے نکاح پر قدرت ہوجائے۔- خلاصہ تفسیر - اور تمہارے مملوکوں میں سے (غلام ہوں یا لونڈیاں) جو مکاتب ہونے کے خواہاں ہوں تو (بہتر ہے کہ) ان کو مکاتب بنادیا کرو اگر ان میں بہتری (کے آثار) پاؤ اور اللہ کے (دیئے ہوئے) اس مال میں سے ان کو بھی دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے (تاکہ جلدی آزاد ہو سکیں) اور اپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرنے پر مجبور نہ کرو (بالخصوص) جب وہ پاکدامن رہنا چاہیں (اور تمہاری یہ ذلیل حرکت) محض اس لئے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فائدہ (یعنی مال) تم کو حاصل ہوجائے اور جو شخص ان کو مجبور کرے گا (اور وہ بچنا چاہیں گی) تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد (ان کے لئے) بخشنے والا مہربان ہے۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں مملوک غلاموں اور لونڈیوں کو اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہو تو آقاؤں کو ہدایت کی گئی تھی کہ ان کو نکاح کی اجازت دیدینا چاہئے اپنی مصلحت کے لئے ان کے طبعی مصالح کو مؤ خر نہ کریں یہ ان کے لئے فاضل اور بہتر ہے۔ خلاصہ اس ہدایت کا اپنے مملوک غلاموں لونڈیوں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کو تکلیف سے بچانا ہے اس کی مناسبت سے آیت مذکورہ میں ایک دوسری ہدایت ان کے آقاؤں کے لئے یہ دی گئی ہے کہ اگر یہ مملوک غلام یا لونڈی آقاؤں سے معاملہ مکاتبت کا کرنا چاہیں تو ان کی اس خواہش کو پورا کردینا بھی آقاؤں کے لئے افضل اور مستحب موجب ثواب ہے۔ صاحب ہدایہ اور عامہ فقہاء نے اس حکم کو حکم استحباب ہی قرار دیا ہے یعنی آقا کے ذمہ واجب تو نہیں کہ اپنے مملوک کو مکاتب بنا دے لیکن مستحب اور افضل ہے اور معاملہ مکاتبت کی صورت یہ ہے کہ کوئی مملوک اپنے آقا سے کہے کہ آپ مجھ پر کچھ رقم مقرر کردیں کہ وہ رقم میں اپنی محنت و کسب سے حاصل کر کے آپ کو ادا کر دوں تو میں آزاد ہوجاؤں اور آقا اس کو قبول کرے، یا معاملہ برعکس ہو کہ آقا چاہے کہ اس کا غلام کچھ معینہ رقم اس کو دیدے تو آزاد ہوجائے اور غلام اس کو قبول کرے۔ اگر آقا اور مملوک کے درمیان ایجاب و قبول کے ذریعہ یہ معاملہ مکاتبت کا طے ہوجاتا ہے تو وہ شرعاً لازم ہوجاتا ہے آقا کو اس کے فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہتا جس وقت بھی غلام معینہ رقم کما کر اس کو دیدے گا خود بخود آزاد ہوجائے گا۔- یہ رقم جو بدل کتابت کہلاتی ہیں شریعت نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی خواہ غلام کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے کم یا زیادہ جس پر فریقین میں بات طے ہوجائے وہ بدل کتابت ٹھہرے گا۔ اپنے مملوک غلام یا لونڈی کو مکاتب بنا دینے کی ہدایت اور اس کو مستحب اور افضل قرار دینا شریعت اسلام کے ان ہی احکام میں سے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلام کا مقتضی یہ ہے کہ جو لوگ شرعی حیثیت سے غلام ہیں ان کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ راستے کھولے جائیں۔ تمام کفارات میں ان کے آزاد کرنے کے احکام دیئے گئے ہیں۔ ویسے بھی غلام آزاد کرنے میں بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہے مکاتبت کا معاملہ بھی اسی کا ایک راستہ ہے اس لئے اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی کہ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا یعنی مکاتب بنانا جب درست ہوگا جبکہ تم ان میں بہتری کے آثار دیکھو۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور اکثر حضرات ائمہ نے اس بہتری سے مراد قوت کسب بتلائی ہے یعنی جس شخص میں یہ دیکھو کہ اگر اس کو مکاتب بنادیا تو کما کر معینہ رقم جمع کرلے گا اس کو مکاتب بناؤ ورنہ جو اس قابل نہ ہو اس کو مکاتب بنا دینے سے غلام کی محنت بھی ضائع ہوگی آقا کا نقصان بھی ہوگا اور صاحب ہدایہ نے فرمایا کہ خیر اور بہتری سے مراد اس جگہ یہ ہے کہ اس کے آزاد ہونے سے مسلمانوں کو کسی نقصان کے پہنچنے کا خطرہ نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ کافر ہو اور اپنے کافر بھائیوں کی مدد کرتا ہو اور صحیح بات یہ ہے کہ لفظ خیر اس جگہ دونوں چیزوں پر حاوی ہے کہ غلام میں قوت کسب بھی ہو اور اس کی آزادی سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ بھی نہ ہو۔ (مظہری)- وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ ، یعنی بخشش کرو ان پر اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کو عموماً اور آقاؤں کو خصوصاً کیا گیا ہے کہ جب اس غلام کی آزادی ایک معینہ رقم جمع کر کے آقا کو دینے پر موقوف ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ اس میں اس کی مدد کریں زکوة کا مال بھی ان کو دے سکتے ہیں اور آقاؤں کو اس کی ترغیب ہے کہ خود بھی ان کی مالی امداد کریں یا بدل کتابت میں سے کچھ کردیں۔ صحابہ کرام کا معمول اسی لئے یہ رہا ہے کہ بدل کتابت میں جو رقم اس پر لگائی جاتی تھی اس میں سے تہائی چوتھائی یا اس سے کم حسب استطاعت کم کردیا کرتے تھے۔ (مظہری)- فن معاشیات کا ایک اہم مسئلہ اور اس میں قرآنی فیصلہ :- آج کل دنیا میں مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ ساری دنیا معاد و آخرت کو بھلا کر صرف معاش کے جال میں پھنس گئی ہے ان کی علمی تحقیقات اور غور و فکر کا دائرہ صرف معاشیات ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اس میں بحث و تحقیق کے زور نے ایک ایک معمولی مسئلہ کو ایک مستقل فن بنادیا ہے۔ ان فنون میں سب سے بڑا فن معاشیات کا ہے۔- اس معاملہ میں آج کل عقلاء دنیا کے دو نظریئے زیادہ معروف و مشہور ہیں اور دونوں ہی باہم متصادم ہیں ان کے تصادم نے اقوام دنیا میں تصادم اور جنگ وجدال کے ایسے دروازے کھول دیئے ہیں کہ ساری دنیا امن و اطمینان سے محروم ہوگئی۔- ایک نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو اصطلاح میں کیپٹل ازم کہا جاتا ہے۔ دوسرا نظام اشتراکیت کا ہے جس کو کمیونزم یا سوشل ازم کہا جاتا ہے۔ اتنی بات تو مشاہدہ کی ہے جس کا دونوں نظاموں میں سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اس دنیا میں انسان اپنی محنت اور کوشش سے جو کچھ کماتا اور پیدا کرتا ہے اس سب کی اصل بنیاد قدرتی وسائل پیداوار زمین، پانی اور معاون میں پیدا ہونے والی قدرتی اشیاء پر ہے۔ انسان اپنے غور و فکر اور محنت و مشقت کے ذریعہ انہیں وسائل پیداوار میں جوڑ توڑ اور تحلیل و ترکیب کے ذریعہ اپنی ضرورت کی لاکھوں اشیاء پیدا کرتا اور بناتا ہے۔ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ دونوں نظام پہلے یہ سوچتے کہ یہ قدرتی وسائل خود تو پیدا نہیں ہوگئے ان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کا اصل مالک بھی وہی ہوگا جو ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ ہم ان وسائل پر قبضہ کرنے اور ان کے مالک بننے یا اسعتمال کرنے میں آزاد نہیں بلکہ اصل مالک و خالق نے اگر کچھ ہدایات دی ہیں تو ان کے تابع چلنا ہمارا فرض ہے۔ مگر مادہ پرستی کے جنون نے ان سبھی کو اصل خالق ومالک کے تصور ہی سے غافل کردیا۔ ان کے نزدیک اب بحث صرف یہ رہ گئی کہ وسائل پیداوار پر قبضہ کر کے ان سے ضروریات زندگی پیدا کرنے والا ان سب چیزوں کا خود بخود آزاد مالک و مختار ہوجاتا ہے، یا یہ سب چیزیں وقف عام اور مشترک ہیں ہر ایک کو ان سے نفع اٹھانے کا یکساں حق حاصل ہے ؟- پہلا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جو انسان کو ان چیزوں پر آزاد ملکیت کا حق دیتا ہے کہ جس طرح چاہے اس کو حاصل کرے اور جہاں چاہے اس کو خرچ کرے اس میں اس پر کوئی روک ٹوک برداشت نہیں۔ یہی نظریہ قدیم زمانے کے مشرکین و کفار کا تھا جنہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) پر یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ مال ہمارے ہیں ہم ان کے مالک ہیں آپ کو کیا حق ہے کہ ہم پر پابندی لگائیں کہ فلاں کام میں خرچ کرنا جائز اور فلاں میں حرام ہے۔ آیت قرآن اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤ ُ ا کا یہی مطلب ہے۔ اور دوسرا نظریہ اشتراکیت کا ہے جو کسی کو کسی چیز پر ملکیت کا حق نہیں دیتا بلکہ ہر چیز کو تمام انسانوں میں مشترک اور سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کا یکساں حقدار قرار دیتا ہے اور اصل نظریہ اشتراکیت کی بنیاد یہی ہے۔ مگر پھر جب دیکھا کہ یہ ناقابل عمل تصور ہے اس پر کوئی نظام نہیں چلایا جاسکتا تو پھر کچھ اشیاء کو ملکیت کے لئے مستثنی بھی کردیا ہے۔- قرآن کریم نے ان دونوں بیہودہ نظریوں پر رد کر کے اصول یہ بنایا کہ کائنات کی ہر چیز دراصل اللہ تعالیٰ کی ملک ہے جو ان کا خالق ہے۔ پھر اس نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو ایک خاص قانون کے تحت ملکیت عطا فرمائی ہے جن چیزوں کا اس قانون کی رو سے وہ مالک بنادیا گیا ہے اس میں دوسروں کے تصرف کو بغیر اس کی اجازت کے حرام قرار دیا مگر مالک بننے کے بعد بھی اس کو آزاد ملکیت نہیں دی کہ جس طرح چاہے کمائے اور جس طرح چاہے خرچ کرے بلکہ دونوں طرف ایک عادلانہ اور حکیمانہ قانون رکھا ہے کہ فلاں طریقہ کمانے کا حلال ہے فلاں حرام اور فلاں جگہ خرچ کرنا حلال ہے اور فلاں حرام اور یہ کہ جو چیز اس کی ملکیت میں دی ہے اس میں کچھ اور لوگوں کے حقوق بھی لگا دیئے ہیں جن کو ادا کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔- آیت مذکورہ اگرچہ ایک اور مضمون کے لئے آئی ہے مگر اس کے ضمن میں اسی اہم معاشی مسئلہ کے چند اصول بھی آگئے ہیں، الفاظ آیت پر نظر کیجئے وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ یعنی دو ان حاجتمند لوگوں کو اللہ کے اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں دے دیا ہے اس میں تین باتیں ثابت ہوئیں۔ اول یہ کہ اصل مالک مال اور ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہے دوسرے یہ کہ اسی نے اپنے فضل سے اس کے ایک حصہ کا تمہیں مالک بنادیا ہے تیسرے یہ کہ جس چیز کا تم کو مالک بنایا ہے اس پر کچھ پابندیاں بھی اس نے لگائی ہیں بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو ممنوع قرار دیا اور بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو لازم و واجب اور بعض میں مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم - دوسرا حکم اس آیت میں ایک جاہلیت کی رسم مٹانے اور زنا و فواحش کے انسداد کے لئے یہ دیا گیا ہے وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ یعنی اپنی لونڈیوں کو اس پر مجبور نہ کرو کہ وہ زنا کاری کے ذریعہ مال کما کر تمہیں دیا کریں۔ جاہلیت میں بہت سے لوگ لونڈیوں کو اسی کام کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اسلام نے جب زنا پر سخت سزائیں جاری کیں، آزاد اور غلام سب کو اس کا پابند کیا تو ضروری تھا کہ جاہلیت کی اس رسم کو مٹانے کے لئے خاص احکام دے۔- اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا، یعنی جبکہ وہ لونڈیاں زنا سے بچنے اور پاکدامن رہنے کا ارادہ کریں تو تمہارا ان کو مجبور کرنا بڑی بےحیائی اور بےغیرتی کی بات ہے۔ یہ الفاظ اگرچہ بصورت شرط آئے ہیں مگر باجماع امت درحقیقت مراد ان سے شرط نہیں کہ لونڈیاں زنا سے بچنا چاہیں تو ان کو زنا پر مجبور نہ کیا جائے ورنہ مجبور کرنا جائز ہے بلکہ بتلانا یہ ہے کہ عام عرف و عادت کے اعتبار سے لونڈیوں میں حیا اور پاکدامنی زمانہ جاہلیت میں نابود تھی۔ اسلام کے احکام کے بعد انہوں نے توبہ کی۔ ان کے آقاؤں نے مجبور کرنا چاہا تو اس پر یہ احکام آئے کہ جب وہ زنا سے بچنا چاہتی ہیں تو تم مجبور نہ کرو۔ اس میں ان کے آقاؤں کو زجر و تنبیہ اور تشنیع کرنا ہے کہ بڑی بےغیرتی اور بےحیائی کی بات ہے کہ لونڈیاں تو پاک رہنے کا ارادہ کریں اور تم انہیں زنا پر مجبور کرو۔ - فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنا حرام ہے۔ اگر کسی نے ایسا کیا اور وہ آقا کے جبر واکراہ سے مغلوب ہو کر زنا میں مبتلا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے اور اس کا سارا گناہ مجبور کرنے والے پر ہوگا۔ (مظہری) واللہ اعلم
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ٠ۭ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْہِمْ خَيْرًا ٠ ۤۖ وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللہِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ ٠ۭ وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ٠ۭ وَمَنْ يُّكْرِھْہُّنَّ فَاِنَّ اللہَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٣٣- عف - العِفَّةُ : حصول حالة للنّفس تمتنع بها عن غلبة الشّهوة، والمُتَعَفِّفُ : المتعاطي لذلک بضرب من الممارسة والقهر، وأصله : الاقتصار علی تناول الشیء القلیل الجاري مجری العُفَافَة، والعُفَّة، أي : البقيّة من الشیء، أو مجری العفعف، وهو ثمر الأراك، والاستعفاف : طلب العفّة . قال تعالی: وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ، وقال : وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور 33] .- ( ع ف ف ) العفۃ نفس میں ایسی حالت کا پیدا ہوجاناجسکے ذریعے وہ غلبہ شہوت سے محفوظ رہے المتعفف زبر دستی سے اپنے اندد ایسی حالت پیدا کرنے والا اصل میں اس کے معنی تھوڑی سی چیز پر قناعت کرنے کے ہیں ۔ جو بمنزلہ عفافۃ یا عفۃ یعنی بچی کھچی چیز کے ہو یا بمنزلہ عفعف یعنی پہلوں کے ہو الا ستعفاف عفت طلب کرنا کیس چیز سے پر ہز کرنا قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] اور جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ( ایسے مال سے قطعی طور پر ) پر پرہیز رکھنا چاہیئے ۔ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور 33] اور جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیئے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- کتابَةُ العَبْدِ- : ابتیاع نفسه من سيّده بما يؤدّيه من کسبه، قال : وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ فَكاتِبُوهُمْ [ النور 33] واشتقاقها يصحّ أن يكون من الکتابة التي هي الإيجاب، وأن يكون من الکتب الذي هو النّظم والإنسان يفعل ذلك .- کتابۃ العبد کے معنی غلام کے خواہ کو اپنے آقا سے اس ( مقررہ ) مال کے عوض خرید لینے کے ہیں ۔ جو وہ کما کر اسے بالا قساط ادا کرے گا ۔ چناچہ آیت کر یمہ : ۔ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ فَكاتِبُوهُمْ [ النور 33] اور جو غلام تم میں سے مکاتبت چاہیں ۔۔۔۔۔۔ تو ان سے مکاتبت کرلو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کاتبوھم کتابت بمعنی ایجاب سے مشتق ہو اور یہ بھی کہ الکتب بمعنی نظم یعنی تحریر سے ہو کیونکہ ان دونوں کی نسبت انسان کی طرف ہوسکتی ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔- اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
مکاتبت کا بیان - قول باری ہے : (والذین یبتغون الکتاب مما ملکت ایمانکم فکا تبوھم ان علمتم فیھم خیرا۔ ) اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے۔ عطاء سے مروی ہے کہ اس حکم میں وجوب مراد ہے عمروبن دینار کا یہی قول ہے۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت انس (رض) کو حکم دیا تھا کہ وہ محمد بن سیرین کے والد سیرین کو مکاتب بنالیں لیکن ان کے انکار پر حضرت عمر (رض) ان پر درہ لے کر پل پڑے تھے اور کہا تھا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ حضرت عمر (رض) کا ارشاد درج بالا آیت کے مضمون کی طرف تھا۔ پھر آپ نے قسم کھائی تھی کہ انس (رض) انہیں ضرور بالضرور مکاتب بنائیں گے۔ ضحاک کا قول ہے کہ اگر مملوک کے پاس کوئی مال ہو تو اس صورت میں آقا پر اسے مکاتب بنانا لازم ہوجائے گا۔ - حجاج نے عطا سے روایت کی ہے کہ اگر آقا چاہے تو اسے مکاتب بناسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو نہیں بنائے گا۔ آیت میں وجوب نہیں ہے بلکہ تلقین ہے۔ شعبی کا بھی یہی قول ہے ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عامہ اہل علم کے نزدیک یہ حکم ترغیب و تلقین پر محمول ہے۔ ایجاب پر محمول نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لا یحل مال امری مسلم الا لطیبۃ من نفسہ) کسی مسلمان کا مال اسکی خوشدلی اور رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا۔ سیرین کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت عمر (رض) سے منقول جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی اس پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ اگر حضرت انس (رض) پر مکاتبت واجب ہوتی تو حضرت عمر (رض) اس کا حکم صادر فرماتے اور اس سلسلے میں انہیں حضرت انس (رض) پر قسم کھانے کی ضرورت پیش نہ آتی نیز حضرت انس (رض) کسی ایسے کام سے ہرگز باز نہ رہتے جسے وہ اپنے اوپر واجب سمجھتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر (رض) اگر اسے واجب نہ سمجھتے تو درہ لے کر حضرت انس (رض) پر پل نہ پڑتے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت عمر (رض) نے یہ طرز عمل اس لئے اختیار کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق شفیق باپ اور اولاد کا سا تھا۔ اس جہت سے آپ انہیں ان باتوں کا بھی حکم دیتے تھے جن کی بنا پر ان کی دینداری میں اضافہ ہو۔ اگرچہ وہ باتیں ان پر واجب نہ ہوتیں ۔ حضرت عمر (رض) کا یہ طرز عمل لوگوں کی تعلیم وتادیب اور ان کے اپنے مفاد پر مبنی تھا۔ آیت میں کتابت کا حکم وجوب پر محمول نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے آقا کی رائے اور اس کے غالب ظن پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی آقا اگر اپنی رائے کے مطابق ان میں بھلائی دیکھے گا تو ان سے مکاتبت کرلے گا۔ اس لئے جس حکم کا تعلق آقا کی اپنی صوابدید اور رائے کے ساتھ ہو اس پر اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قول باری (ان علمتم فیھم خیرا) کی تفسیر کے سلسلے میں عکرمہ بن عمار نے یحییٰ بن کثیر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ ” اگر تم ان کے اندر کوئی ہنر مندی اور کاریگری دیکھو تو انہیں مکاتب بنالو، اگر ان میں ہنر مندی موجود نہ ہو تو انہیں لوگوں پر بوجھ بننے نہ دو ۔ “- ابن جریج نے عطاء سے روایت کی ہے کہ آیت میں لفظ خیر سے میرے نزدیک مال کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں ہے انہوں نے دلیل کے طور پر آیت (کتب علیکم اذا حضرا احدکم الموت ان ترک خیرا) جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اگر وہ کال چھوڑ رہا ہو تو اس پر فرض کردیا گیا ہے کہ ……۔ کی تلاوت کی اور کہا ہے کہ ہمارے خیال میں خیر سے مال مراد ہے نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول پہنچا ہے کہ انہوں نے خیر مال مراد لیا ہے۔ ابن سیرین نے عبیدہ سے روایت کی ہے کہ بھلائی نظر آنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اس سے وعدے کی وفا اور صداقت مراد ہے یعنی وہ مال کتابت کی ادائیگی کا جو وعدہ کررہا ہو اس میں تمہیں سچائی اور وفا نظر آجائے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مال مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے اندر دینی لحاظ سے بھلائی اور درستی موجود ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ خیر سے صلاح یعنی بھلائی اور درستی مراد ہے۔ اس میں صداقت ، امانت کی ادائیگی اور وعدہ پورا کرنے کے معانی خود بخود شامل ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ لوگوں کی عام بول چال سے یہی مفہوم اخذ کیا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ ” فلان فیہ خیر “ (فلاں شخص کے اندر خیر موجود ہے) تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کے اندر دینی لحاظ سے بھلائی اور درستی موجود ہے۔ اگر آیت میں مال مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ یہ ہوتے ” ان علمتم لھم خیرا۔ “ کیونکہ محاورہ میں ” لقلان مال “ کہا جاتا ہے۔ ” فی فلان مال “ نہیں کہا جاتا۔ نیز غلام کی ملکیت میں کوئی مال نہیں ہوتا اس لئے خیر سے مال مراد لینا درست نہیں ہے۔ عبیدہ سے ” اذ اصلی “ (جب غلام نمازی ہو) کی جو تفسیر منقول ہے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کیونکہ آیت کی بنا پر یہودی اور نصرانی غلام کو بھی مکاتب بنایا جاسکتا ہے اگرچہ ان کی کوئی نماز نہیں ہے۔- قول باری ہے : (واتوھم من قال اللہ الذی اتاکم) اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ آیا مکاتب کو یہ استحقاق ہے کہ اس کا آقا مکاتبت کی کچھ رقم معاف کردے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر آقا رقم کا کوئی حصہ معاف کردے تو بڑی اچھی بات ہوگی اور اسے اس کی ترغیب دی جائے گی لیکن اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس پر مجبور ہیں کیا جائے گا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ آیت کا حکم وجوب پر محمول ہے۔ ابن سیرین سے آیت زیر بحث کی تفسیر میں منقول ہے کہ لوگوں کو کتابت کی رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا بہت اچھا لگتا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابن سیرین کے قول میں لوگوں سے ظاہر ی طور پر صحابہ کرام مراد ہیں۔ اسی طرح ابراہیم نخعی کے قول ” کانوا یکرھون “ (لوگ ناپسند کرتے تھے) یا ” کانوا یقولون (لوگ کہا کرتے تھے) میں بھی صحابہ کرام مراد ہیں۔ تابعی اگر یہ فقرہ استعمال کرے تو اس سے ظاہری طور پر اس کا اشارہ صحابہ کرام کی طرف ہوتا ہے۔ اس لئے ابن سیرین کا درج بالا قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک کتابت کی رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا استحباب کے طور پر تھا ، ایجاب کے طور پر نہیں تھا اس لئے کہ ایجاب کے موقع پر ” کان یعجبھم “ (لوگوں کو یہ بات بہت پسند تھی) نہیں کہا جاتا۔ یونس نے اس آیت کی تفسیر میں حسن اور ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکاتب کے آقا نیز دوسرے لوگوں کو اس سلسلے میں ابھارا ہے اور انہیں ترغیب دی ہے۔ مسلم بن ابی مریم نے حضرت عثمان (رض) کے ایک غلام سے اس کا قول نقل کیا ہے کہ ” حضرت عثمان (رض) نے مجھے مکاتب بنادیا لیکن رقم کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ قول باری : (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) میں وہی معنی مراد ہوں جو آیت صدقات میں (وفی الرقاب ۔ اور گردن چھڑانے میں) مراد ہیں۔- روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : (اعتق النسمۃ وفک الرقبۃ۔ ) جان کو آزاد کرو اور گردن چھڑائو۔ یہ سن کر اس شخص نے عرض کیا کہ ” آیا یہ دونوں باتیں ایک نہیں ہیں ؟ “ آپ نے جواب دیا کہ پہلی بات سے مراد یہ کہ تم انفرادی طور پر کسی جان یعنی غلام یا لونڈی کی آزادی دے دو اور دوسری بات سے مراد یہ ہے کہ تم قیمت کی ادائیگی میں اس کی مدد کرو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (وفی الرقاب) مکاتب کی امداد کا مقتضی ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ قول باری : (وفی الرقاب) مکاتب کی امدادکا مقتضی ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ قول باری : (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) سے صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ حوالے کردینا مراد ہو اس سے مکاتب کو صدقہ یعنی زکوٰۃ دینے کا جواب معلوم ہوگیا خواہ اس کا آقا غنی کیوں نہ ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے مال میں سے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ مال اللہ کے الفاظ کا اطلاق مال زکوٰۃ پر ہوتا ہے جسے تقرب الٰہی حاصل کرنے کی راہوں میں صرف کیا جاتا ہے۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مال مراد لیا ہے جو دراصل ان لوگوں کی ملکیت ہوتا ہے جنہیں اسے دے دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگوں کے اموال میں واجب ہونے والا صدقہ ہوتا ہے۔- اس پر قول باری (من مال اللہ الذی اتاکم) دلالت کرتا ہے۔ یہ وہ مال ہے جس کی مالک کو درست ملکیت حاصل ہو اور اس کا ایک حصہ نکال دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو۔ دوسری طرف کتابت کی بنا پر عائد ہونے والا مال دین صحیح نہیں ہوتا کیونکہ وہ غلام پر عائد ہوتا ہے۔ اور آقا کی طرف سے اپنے غلام پر کوئی دین صحیح (حقیقی معنوں میں قرض) عائد نہیں ہوتا۔ جو حضرات مکاتبت کی بنا پر عائد ہونے والی رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دینے کے وجوب کے قائل ہیں ان کے قول کے مطابق عقد کتابت کے بعد یہ قدم اٹھانا چاہیے لیکن ایسا اقدام کئی وجہ سے آیت کے موجب ومقتضیٰ کے خلاف ہے اول یہ کہ جب مال کتابت کا ایک حصہ ساقط ہوجائے گا تو وہ اللہ کا مال نہیں بنے گا یہ اس کے آقا کا دیا ہوا مال ہوگا۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ آقا اسے جو مال دے گا یہ وہ مال ہوگا جو اس کے ہاتھوں میں پہنچ جانے والا ہو اور وہ اس میں تصرف کرسکتا ہو لیکن عقدکتابت کے بعد جو حصہ ساقط ہوجائے گا اس میں نہ تو وہ تصرف کرسکتا ہے اور نہ ہی حقیقتاً وہ مال اس کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے بلکہ اس مال کو اللہ کا مال کہنے میں بھی شاید کوئی حق بجانب قرار نہیں پائے گا۔ اگر مکاتب غلام کو آیت کے بموجب کچھ دینا واجب ہوتا تو اس وجوب کا تعلق عقد کتابت سے ہوتا۔ اس طرح عقد کتابت اس کا موجب بھی ہوجاتا اور اس کا مسقط بھی۔ جبکہ یہ بات محال ہے۔ اس لئے کہ عقد اگر اس کا موجب بھی ہو اور مسقط بھی تو اس کا وجوب ہی محال ہوجائے گا کیونکہ ایجاب اور اسقاط کے مابین منافات ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اصول کے اندر اس بات میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر آقا اپنی لونڈی کا اپنے غلام سے نکاح کرادے تو اس پر مہر واجب ہوجائے گا اور دوسرے مرحلے میں وہ ساقط ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ اس مثال میں مہر کو واجب کرنے والا سبب اسے ساقط کرنے والا نہیں ہوتا۔ ایجاب واسقاط کے اسباب الگ الگ ہوتے ہیں کیونکہ عقدنکاح اس کا موجب ہوتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اس پر آقا کی ملکیت کا حصول اس کا مسقط بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کا موجب اور ہے اور مسقط اور۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے غلام باپ کو خرید لیتا ہے اور خریداری کے ساتھ ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے۔ تو اس صورت میں خریداری اس پر ملکیت کی موجب اور چیز ہوگی اور اس کی مسقط کوئی اور چیز۔ امام شافعی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ کتابت تو واجب نہیں ہے لیکن کتابت کے بعد اتنا حصہ چھوڑ دینا واجب ہے جس پر کم سے کم حد میں حصہ کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو اگر رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینے سے پہلے آقا کی موت واقع ہوجائے تو حاکم اس کی طرف سے اتنا حصہ چھوڑ دے گا جس پر کم سے کم حد میں حصہ کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا واجب ہوتا تو اسے اس حصے کو چھوڑ دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ واجب مقدار خودبخود ساقط ہوجاتی۔- اس کی مثال یہ صورت ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرض ہو اور پھر قرض خواہ پر مقروض کی اتنی ہی رقم چڑھ جائے تو اس صورت میں مقروض کو قرض کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ قرض خواہ پر اس کی چڑھی ہوئی رقم اس کے قرض کا بدل بن جائے گی۔ اگر کتابت کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس صورت میں کتابت مجہول قرار پائے گی کیونکہ رقم سے ایک حصہ منہا ہوجانے کے بعد باقی ماندہ رقم مجہول ہوگی اور اس کی حیثیت اس شخص کی کتابت کی رقم کی طرح ہوجائے گی جس نے یہ کہا ہو ” کاتبت عبدی علی الف درھم الاشی “ (میں نے اپنے غلام کو ایک ہزار درہم پر مکاتبت بنایا مگر اس رقم سے کچھ منہا ہوجائے گا) یہ صورت درست نہیں ہے۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت کے بموجب اگر کتابت کی رقم میں سے غلام کو ایتاء یعنی کچھ دے دینا واجب ہوتا تو بدل کتابت سے یہ حصہ ساقط ہوجاتا پھر اس کی دوصورتیں ہوتیں۔ مذکورہ حصے کی مقدار یا تو معلوم ہوتی یا مجہول۔ پہلی صورت میں عقد کتابت باقی ماندہ رقم کے بدلے واقع ہوتا مثلاً چار ہزار درہم پر عقد کتابت ہوا ہو جس میں سے ایک ہزار درہم چھوڑ دیا گیا ہو اس صورت میں غلام تین ہزار درہم ادا کر کے آزاد ہوجائے گا لیکن یہ صورت دو وجوہ کی بنا پر فاسد ہے۔- پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چار ہزار درہم کے بدلے مکاتب بنانے کی گواہی درست نہیں ہوگی اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ایسی چیز کے ذکر کا کیا فائدہ جو ثابت ہی نہ ہوتی ہو۔ نیز غلام کو اس رقم سے کم پر آزادی مل جائے گی جس کی عقد کتابت میں شرط لگائی گئی ہے اور یہ فاسد ہے کیونکہ عقد کتابت میں مذکورہ رقم پوری ادائیگی کے ساتھ اس کی آزادی مشروط ہے اس لئے اس کے ایک حصے کی ادائیگی کی بنا پر غلام کو آزادی نہیں ملے گی۔ نیز امام شافعی کا قول ہے کہ مکاتب اس وقت تک غلام رہتا ہے جب تک اس کے ذمے بدل کتابت کا ایک درہم بھی باقی رہے۔ اس بنا پر پھر تو یہ واجب ہے کہ اس رقم کا کوئی حصہ ساقط نہ ہو۔ اگر آیت کی بنا پر کچھ حصہ چھوڑ دینا واجب قرار دیا جائے تو اس صورت میں رقم کے ایک حصے کا سقوط لازم آئے گا۔ اگر ایتاء یعنی چھوڑ دیا جانے والا حصہ مجہول ہوتا تو اس صورت میں اس حصے کا ساقط ہونا واجب ہوجاتا جس کے نتیجے میں مال مجہول کے بدلے عقد کتابت کا انعقاد لازم آتا جو کسی طرح درست نہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ عطاء بن السائب نے ابوعبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک غلام کو مکاتب بنایا تھا اور پھر بدل کتابت کا چوتھائی حصہ چھوڑ دیا تھا۔ اس موقعہ پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت علی (رض) ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی فرماتے تھے کہ قول باری ہے (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) مجاہد سے مروی ہے کہ تم اپنے مکاتب کے بدل کتابت کا چوتھائی حصہ فوری طور پر اپنے مال میں سے اسے دے دوگے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک یہ چیز واجب نہیں تھی بلکہ یہ بات استحباب پر محمول تھی۔ کیونکہ اگر واجب ہوتی تو عقد کتابت کے ساتھ ہی چوتھائی حصہ ساقط ہوجاتا کیونکہ مکاتب اس کا حصہ قرار پاتا اور آقا کو اسے کوئی حصہ عطا کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ مکاتب پر بدل کتابت موجل صورت میں واجب ہوا ہو اور مکاتب کو آقا پر یہ حق حاصل ہوگیا ہو کہ وہ اپنے مال میں سے بدل کتابت کی چوتھائی کی مقدار اسے ادا کردے تو ایسی صورت میں ادا ہونے والا مال قصاص یعنی بدلہ نہیں کہلائے گا۔ بلکہ اس کی فوری ادائیگی آقا پر لازم آئے گا اور مال کتابت کی ادائیگی اپنے وقت پر ہوگی۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوجاتی ہے۔ اگر ایک شخص کا دوسرے پر قرض ہو جس کی ادائیگی کے لئے مدت کا تعین ہو یعنی وہ موجل قرض ہو پھر قرض خواہ پر مقروض کی اتنی ہی رقم فوری طور پر چڑھ جائے تو اس صورت میں چڑھی ہوئی رقم اس کے قرض کا بدلہ قرار نہیں دی جائے گی۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے موجل اور معجل کتابت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اسی طرح سلف میں سے جن حضرات سے بدل کتابت میں چھوٹ کی روایت منقول ہے انہوں نے بھی موجل اور معجل کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہے کہ موجل کتابت کی ادائیگی کا وقت آگیا ہو یا ابھی نہ آیا ہو۔ ان حضرات نے بدل کتابت میں چھوٹ اور مکاتب کو کچھ دے دینے کا جو ذکر کیا ہے اس میں انہوں نے درج بالا دونوں باتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں ایجاب مراد نہیں ہے کیونکہ اسے اس صورت میں قصاص یعنی بدلہ قرار نہیں دیا گیا جب کتابت معجل ہو یا موجل ہونے کی صورت میں اس کی ادائیگی کا وقت آگیا ہو اور دونوں حالتوں میں ایتاء یعنی کچھ دے دینا واجب قرار دیا گیا ہو۔ ایتاء اعطاء کے معنوں میں ہے اس لئے جو چیز قصاص یعنی بدلہ قرار دی جائے اس پر اعطاء کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔- سنت کی جہت سے بھی ہماری بیان کردہ بات پر دلالت ہورہی ہے۔ یونس اور لیث نے زہری سے روایت کی ہے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ آئی اور کہنے لگی کہ ” میں نے اپنے اہل یعنی آقا سے مکاتبت کا عقد کرلیا ہے۔ یہ عقد کتابت نواقیہ پر ہوا ہے۔ میں ہر سال ایک اوقیہ ادا کروں گی، اس لئے میری مدد کرو۔ “ اس وقت بریرہ نے کچھ ادائیگی نہیں کی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) نے اس سے کہا کہ ” واپس جاکر ان سے کہو کہ اگر وہ پسند کریں تو ساری رقم میں ادا کردوں گی اور تمہاری ولا مجھے حاصل ہوجائے گی۔ “ ان لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) کی یہ بات نہیں مانی اور کہا کہ اگر حضرت عائشہ (رض) حسبتہً للہ ایسا کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔ اور تمہاری ولا ہمیں حاصل ہوگی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” تمہارے لئے اس بات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کردو، ولاء اس شخص کے لئے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ “ راوی نے حدیث کا باقی ماندہ حصہ بھی بیان کیا۔- امام مالک نے ہشام بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے ۔ جب بریرہ نے کتابت کی رقم کی کوئی ادائیگی نہیں کی، اور حضرت عائشہ (رض) نے اس کی طرف سے پوری رقم ادا کرنے کا ارادہ کرلیا ، پھر جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی، اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ اس کتابت کی کچھ رقم معاف ہوجائے گا یا یہ کہ اس کا آقا اپنے مال میں سے اسے کچھ دے دے گا۔- ان سب باتوں سے یہ چیز ثابت ہوگئی کہ کتابت کی رقم کا کچھ حصہ معاف کردینا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بات واجب ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر نکیر کرتے اور حضرت عائشہ (رض) سے فرماتے کہ تم انہیں وہ رقم کیوں دے رہی ہو جو بریرہ پر سرے سے ان کے حق میں واجب ہی نہیں ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے محمد بن اسحاق نے محمد بن جعفر بن الزبیر سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کہ جویریہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں ثابت بن قیس شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں۔ میں نے ان سے مکاتبت کا عقد کرلیا ہے۔ اب میں آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوئی ہوں کہ آپ میری کچھ مدد کردیجئے۔ “- یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کیا تمہارے لئے اس سے بہتر صورت نہیں ہوسکتی ؟ “ جویریہ نے عرض کیا۔” وہ کون سی صورت ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ صورت یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے مکاتبت کی رقم ادا کروں اور پھر تم سے نکاح کرلوں۔ “ جویریہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بات منظور کرلی۔ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے جویریہ کو کتابت کی پوری رقم اس کی طرف سے اس کے آقا کو ادا کردینے کی پیشکش کی۔ اگر کتابت کی رقم میں سے کچھ منہا کرنا واجب ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف سے جس رقم کی ادائیگی کا ارادہ فرما رہے تھے وہ اس کی کاتبت کی باقی ماندہ رقم ہوتی۔- حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور حضرت زبیر (رض) نیز سلف میں سے وہ حضرات جن کے اقوال ہم نے درج بالاسطور میں نقل کیے ہیں سب کا نقطہ نظر یہی تھا کہ مکاتبت کی رقم میں سے کچھ حصہ معاف کردینا واجب نہیں ہے۔ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس بارے میں حضرت علی (رض) سے جو روایت منقول ہے اس کے متعلق ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اسے مستحب سمجھتے تھے اسے واجب قرار ہیں دیتے تھے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن المثنیٰ نے ، انہیں عبدالصمد نے، انہیں ہمام نے، انہیں عباس الجریری نے عمر وبن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ایما عبد کاتب علی مائۃ اوقیہ فساداھا الاعشراواق نھوعبد، وایما عبد کاتب علی مائۃ دینار فاداھا الاعشرۃ دنا نیر فھو عبد) جس غلام نے سوا وقیہ چاندی پر مکاتبت کا عقد کرلیا اور پھر لوے اوقیہ ادا کردیے اور دس باقی رہ گئے تو وہ غلام ہی رہے گا۔ اسی طرح جس غلام نے سودنیار پر کتابت کا عقد کرلیا اور نوے دینار ادا کردیے اور دس باقی رہ گئے تو وہ غلام ہی رہے گا اگر مکاتبت کی رقم میں سے کچھ حصہ منہا کردینا واجب ہوتا تو آپ حدیث میں مذکورہ مقدار کے سقوط کا حکم لگا دیتے اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مکاتب اس بات کا حق دار نہیں کہ اس کی کتابت کی رقم میں سے کچھ نہ کچھ ضرور معاف کردیا جائے۔ واللہ اعلم - معجل کتابت کا بیان - قول باری ہے : (ولا تبوھم ان علمتم فیھم خیرا) ان سے مکاتبت کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے ۔ یہ کتابت معجل اور موجل دونوں کے جواز کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اجل یعنی مدت کی شرط کے بغیر اسے مطلق رکھا گیا ہے۔ کتابت کا اسم تعجیل اور تاجیل دونوں صورتوں میں اسے شامل ہے جس طرح بیع، اجارہ اور دوسرے تمام عقود کی کیفیت ہے اس لئے لفظ کے عموم کی بنا پر مکاتبت کی معجل صورت کا جواز بھی ضروری ہے۔ تاہم اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے، مکاتبت کی یہ صورت جائز ہے۔ اس لئے آقا کی طرف سے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ پر گروہ اس کی ادائیگی کردے گا تو فبہا ورنہ پھر غلامی میں واپس چلا جائے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ بان کیا ہے کہ اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میرے غلام کو ایک ہزار پر مکاتب بنادو، اور اس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں کرتا تو یہ رقم اس پر قسطوں کی صورت میں واجب کی جائے گی اور قسط مقرر کرتے وقت غلام کی حیثیت اور اس کی قوت وطاقت کا لحاظ رکھاجائے گا۔ ابن القاسم نے کہا ہے کہ لوگوں کے ہاں کاتبت کی رقم قسطوں کی صورت میں واجب ہوتی ہے ۔ اگر آقا اس سے انکار بھی کرے تو بھی یہ معجل نہیں ہوتی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ مکاتبت پر رقم کی ادائیگی قسطوں کی صورت میں اس کی سہولت کی خاطر واجب کی گئی ہے۔ اس میں آقا کی سہولت مدنظر نہیں ہے۔ المزنی نے امام شافعی کی طرف سے کہا ہے کہ دو قسطوں سے کم پر کتابت جائز نہیں ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ آیت معجل مکاتبت کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ نیز جب مکاتبت کی رقم غلام کی گردنکا بدل قرار پائی ہے تو اس کی حیثیت فروخت شدہ چیزوں کی قیمتوں جیسی ہوگی اس لئے یہ معجل بھی جائز ہوگی اور موجل بھی۔ نیز اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ معجل مال پر غلام آزاد کردینا جائز ہے۔ اس لئے مکاتبت کے سلسلے میں بھی یہی حکم واجب ہے کیونکہ یہ مال دونوں صورتوں میں آزادی کا بدل ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں آزادی ادائیگی کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے اور دوسری صورت میں یہ معجل ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بدل عاجل کی بنیاد پر ان دونوں کے جواز کے سلسلے میں ان کا حکم یکساں ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے عقد کتابت کے بعد اسے کچھ مدت درکار ہوگی جس میں وہ کام کاج کرکے پیسے کمائے گا اور پھر رقم ادا کردے گا اس بنا پر صرف کتابت موجل ہی جائز ہوسکتی ہے کیونکہ کتابت رقم کی ادائیگی کی مقتضی ہوتی ہے اور جب ادائیگی ممکن نہ ہو تو کتابت بھی درست نہیں ہوسکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ عقد کتابت غلام کے ذمہ آقا کے مال کے ثبوت کا موجب ہوتا ہے اور اس کے ذریعے مکاتب آقا کے قبضے سے نکل کر اپنی ذات کے قبضے میں چلا جاتا ہے یعنی وہ خود مختار ہوجاتا ہے اور اسے مال کمانے اور اس میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس مال کی حیثیت ان تمام دیون جیسی ہوجاتی ہے جو قرض لینے والوں کے ذمے ثابت ہوتے ہیں اور جن پر عقدکرناجائز ہوتا ہے۔- اگر معترض کی بیان کردہ علت درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آجاتا کہ معجل مال پر غلام کو آزاد کرنا درست نہ ہوتا کیونکہ عقد سے پہلے غلام فوری طور پر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ معجل مال پر غلام آزاد کردینا اس لئے درست ہے کہ وہ آزادی کے بعد آنے والے دنوں میں مال کا مالک بن جاتا ہے۔ یہی صورت مکاتب کی بھی ہے کہ عقد کتابت کی بنا پر اسے مال کمانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے ۔ اگر معترض کی بات درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آتا کہ ایک فقیر کا اپنے بیٹے کو فوری ادائیگی کی بنیاد پر خریدلینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ فقیر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ہے اور جب وہ اپنے بیٹے کا مالک ہوجاتا ہے اور اس ملکیت کی بنا پر بیٹا آزادہوجاتا ہے تو فقیر کو اس کی قیمت کی ادائیگی کی قدرت نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ فقیر کو اس مقصد کے لئے قرض لینے کا اختیار ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مکاتبت کے اندر بھی یہی صورت ہوسکتی ہے۔- ایسی مکاتبت کا بیان جس میں آزادی کا ذکر نہ ہو - امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک اور زفر کا قول ہے کہ اگر آقا اپنے غلام کو ایک ہزار درہم پر مکاتب بنالے اور اس سے یہ نہ کہے کہ اس رقم کی ادائیگی پر تم آزاد ہوجائو گے تو ایسی مکاتبت جائز ہوگی اور رقم کی ادائیگی پر وہ آزاد ہوجائے گا۔ المزنی نے امام شافعی کی طرف سے بیان کیا ہے کہ آقا اگر اپنے غلام کو سو دینار کے عوض دس سال کے اندر مقررہ قسطوں کی صورت میں ادائیگی پر مکاتب بنالے تو یہ مکاتبت درست ہوگی لیکن مکاتب کو آزادی صرف اسی صورت میں ملے گی جب عقدکتابت کے اندر آقا نے یہ کہہ دیا ہو کہ اس رقم کی ادائیگی پر تم آزاد ہوجائو گے، اس کے بعد آقا اس سے یہ بھی کہے کہ میں نے تمہیں مکاتب بنانے کی جو بات کہی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جب تم رقم کی ادائیگی کردوگے تو آزاد ہوجائو گے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری : (فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا) آزادی کی شرط کے بغیر مکاتبت کے جواز کا مقتضی ہے اور آزادی کی بات خود آیت کے مفہوم میں موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی نہیں فرمایا کہ ” انہیں آزادی کی شرط پر مکاتب بنائو۔ “ جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ لفظ آزادی کے مفہوم کو متضمن ہے جس طرح خلع کا لفظ طلاق کے مفہوم کو متضمن ہے۔ اسی طرح بیع کا لفظ تملیک کے مفہوم کو، اجارہ کا لفظ منافع کی تملیک کو نیز نکاح کا لفظ بیوی سے جنسی تلذذ کے مفہوم کو متضمن ہے۔ اس پر عمرو بن شعیب کی ورایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے کی ہے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (الما عبدکاتب علی مائۃ اوقیۃ فاداھا الاشعراواقی فھم رقیق۔ ) جس غلام نے سواوقیہ پر عقد کتابت کیا ہو اور پھر اس نے نوے اوقیہ کی ادائیگی کردی اور دس اوقیہ کی ادائیگی باقی رہتی ہو تو وہ غلام ہی رہے گا۔ آپ نے حریت کی شرط کے بغیر علی الاطلاق مکاتبت کو جائز قرار دیا۔ اور جب حریت کی شرط کے بغیر علی الاطلاق کتابت درست ہوگئی تو ادائیگی کے ساتھ ہی اسے آزادی مل جانا بھی واجب ہوگیا کیونکہ عقد کاتبت کی صحت کتابت کی رقم کی ادائیگی پر آزادی کی مقتضی ہوتی ہے۔- مکاتب کو آزای کب ملے گی ؟- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابو جعفر طحاوی نے بعض اہل علم سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک مکاتب عقد مکاتبت کے ساتھ ہی آزاد ہوجائے گا اور کتابت کی رقم اس پر دین کی صورت میں لازم رہے گی۔ ابو جعفر طحاوی نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے اس قول کی روایت کی کوئی سند ہمیں نہیں ملی اور نہ ہی کوئی ہمیں اس کا قائل ملا۔ طحاوی نے مزید کہا ہے کہ ایوب نے عکرمہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :( بودی المکاتب بحصۃ ماادی دیۃ حردما بقی علیہ دیۃ عبد۔ ) اگر کسی کاتب کی دیت ادا کرنی ہو تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس نے کتابت کی رقم کا جتنا حصہ ادا کردیا ہے اتنے حصے کی دیت آزاد مرد کی دیت کے حساب سے ادا کی جائے گی اور جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے اس کی ادائیگی غلام کی دیت کے حساب سے ہوگی۔- یحییٰ بن کثیر نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس (رض) سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) حضرت زید بن ثابت (رض) ، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) نیز ایک روایت کے مطابق حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ مکاتب پر جب تک ایک درہم بھی باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔ حضرت عمر (رض) سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ نصف رقم کی ادائیگی کے بعد غلامی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے سابق آقا کا مقروض متصور ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے کہ اگر تہائی یا چوتھائی رقم کی ادائیگی ہوجائے تو اس پر سے غلامی ختم ہوجاتی ہے اور وہ مقروض بن جاتا ہے۔ قاضی شریح کا بھی یہی قول ہے۔ ابراہیم نخعی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ اپنی گردن کی قیمت ادا کردیتا ہے تو وہ غریم یعنی مقروض بن جاتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں ہارون بن عبداللہ نے انہیں ابوبدر نے انہیں سلیمان بن سلیم نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (المکاتب عبدمابقی علیہ من مکاتبتہ درھم ) جب تک مکاتب پر اس کی مکاتبت کا ایک درہم بھی باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔- قیاس اور نظر کی جہت سے بھی اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آزادی کے لئے جب ادائیگی شرط تھی تو پھر پوری ادائیگی کے بعد ہی اسے آزادی ملنی چاہیے۔ جس طرح اگر کسی غلام کی آزادی کو کسی شرط پر معلق کردیاجائے تو مکمل طور پر شرط کے وجود پر ہی اسے آزادی مل سکے گی جس طرح کسی شخص نے غلام سے یہ کہا کہ ” اگر میں فلاں فلاں اشخاص سے گفتگو کرلوں تو تو آزاد ہے۔ “ اس صورت میں جب تک وہ دونوں اشخاص سے بات نہ کرلے گا اس وقت تک غلام کو آزادی نہیں ملے گی اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب مال کتابت آزادی کا بدل ہوتا ہے۔ تو پھر اس میں دو میں سے ایک بات ضرور پائی جاتی ہے یا تو اس مال کی وجہ سے عقد کتابت کے ساتھ ہی مکاتب کو آزادی مل جاتی ہے لیکن یہ کتاب وسنت کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے درج بالاسطور میں بیان کردیا ہے۔ یا یہ مال ادائیگی کے بعد اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس صورت میں اس کی حیثیت بیع وشرا کی ان تمام صورتوں کی طرح ہوگی جن میں پوری قیمت کی ادائیگی کے بعدہی فروخت شدہ چیز کی حوالگی لازم ہوتی ہے۔ جب عقد مکاتبت کے کے ساتھ آزادی کا مل جانا ثابت نہیں ہوسکا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتابت کی پوری رقم ادا کرنے کے بعد ہی آزادی حاصل ہوگی۔- اگر کو مکاتب مرجائے اور اتنی رقم چھوڑ جائے جس سی اس کی مکاتبت کی رقم ادا ہوسکتی ہو تو اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) اور حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) کا قول ہے کہ اس کی موت کے بعد باقی ماندہ رقم ادا کردی جائے گی اور اسے آزاد قرار دیا جائے گا امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، اور امام زفر نیز قاضی ابن ابی لیلیٰ ، قاضی ابن شیرمہ، عثمان البتی ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ ان حضرات نے یہ کہا ہے کہ اگر کتابت کی رقم ادا کرنے کے بعد مرحوم مکاتب کی چھوڑی ہوئی رقم میں سے کچھ بچ جائے گا تو وہ اس کے ورثہ کو مل جائے گا۔- اگر مکاتب اتنی رقم چھوڑ کر نہ مرے جس سے کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوجائے لیکن اس کی اولاد ہو جو اس کی مکاتبت کے دوران پیدا ہوئی ہو تو اس صورت میں اولاد اپنے مرحوم باپ کی باقی ماندہ اقساط ادا کرنے میں کوشاں ہوگی۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس کی اولاد بھی اس کے عقد کتابت میں داخل ہوگئی ہو تو اس کی موت کے بعد کتابت کی رقم کی ادائیگی کے لئے وہ دوڑ دھوپ کرے گی اور ادائیگی کے بعد مکاتب اور اس کی اولاد آزاد قرار دی جائے گی۔ اگر مکاتب کی اولاد عقد کتابت میں شامل نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں اسے غلامی کی حالت میں مرنے والا قرار دیاجائے گا اس کے چھوڑے ہوئے مال سے کتابت کی باقی ماندہ رقم ادا نہیں کی جائے گی بلکہ ساری رقم اس کے آقا کو مل جائے گی۔- امام شافعی کا قول ہے کہ مکاتب کی وفات اگر ایسی حالت میں ہوجائے کہ اس پر ایک درہم بھی باقی ہو تو اسے غلام ہی قرار دیاجائے گا۔ اس کا سارا مال اس کے آقا کو مل جائے گا اور اس مال سے اس کی کتابت کی باقی ماندہ رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ کتابت یا تو ان قسموں کے معنی میں ہوتی ہے جو شرطوں کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں اور اسے آقا یا غلام کی موت باطل کردیتی ہے مثلاً آقا یہ کہتا ہے۔” اگر میں گھر میں دخل ہوا تو تو آزاد ہے۔ “ پھر آقا یا غلام کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں قسم باطل ہوجائے گی اور غلام آزاد نہیں ہوگا۔ یا کتابت بیع وشراء کے عقود کے معنوں میں ہوگی جنہیں شرطیں باطل نہیں کرتی ہیں۔ جب آقا کی موت عقدکتابت کو باطل نہیں کرتی اور مکاتب اس کے ورثہ کو رقم کی ادائیگی کے بعد آزاد ہوجاتا ہے تو اس سے یہ بات بھی ضروری ہوگئی کہ غلام کی موت بھی اس عقد کتابت کو اس وقت تک باطل نہ کرسکے جب تک رقم ادائیگی ہوسکتی ہو، اس صورت میں رقم کی ادائیگی کردی جائے گی اور موت کے ساتھ ہی اسے آزادقرار دے دیا جائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ مردے کی آزادی درست نہیں ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کی موت غلامی کی حالت میں واقع ہوئی تھی کیونکر مکاتب پر جب تک عقد کتابت کا ایک درہم بھی باقی ہوتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مکاتب جب مرجائے اور اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑ جائے جس سے اس کی کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوسکتی ہو تو ایسی صورت میں اس کا حکم موقوف رہے گا اور اس پر حکم لگانے میں انتظار سے کام لیا جائے گا۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ اگر کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوجائے گی تو ہم اس کے متعلق یہ فیصلہ کردیں گے کہ وہ موت سے پہلے بلا فصل آزاد تھا جس طرح یہ بات ہے کہ مردہ شخص کی طرف سے موت کے بعد کسی کو آزادی نہیں دی جاسکتی لیکن آقا کی موت کی صورت میں مکاتب جب کتابت کی رقم ادا کردیتا ہے تو ہم یہ حکم لگا دیتے ہیں کہ اسے گویا مردہ آقا کی طرف سے آزادی دی گئی ہے اور پھر اس کی ولاء اسی مردہ آقا کے لئے ہوتی ہے۔ اصول شریعت میں اس بات کا نظائر کا وجود ممتنع نہیں ہے کہ ایک چیز پر حکم لگانے کے سلسلے میں کسی خاص بات کا انتظار کرلیا جائے اور جب وہ خاص بات وجود میں آجائے تو اس چیز پر اس کی پچھلی حالت اور پچھلی تاریخ میں حکم لگادیا جائے ۔- مثلاً کوئی شخص کسی کو زخمی کردے تو اب مجرم پر حکم لگانے کے بارے میں زخمی کے انجام کا انتظار کیا جائے گا۔ اگر اس دوران مجرم مرجائے اور اس کے بعد زخمی بھی ان زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے تو ہم مجرم پر قاتل ہونے کا حکم لگادیں گے حالانکہ اس کی موت کے بعد اس کی ذات سے قتل کا وقوعہ ناممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے مسلمانوں کے آنے جانے کے راستے میں کوئی کنواں کھود دیا ہو پھر اس کی وفات ہوگئی ہو اور اس کے بعد اس کنویں میں کسی انسان کا کوئی جانور گر کر مرگیا ہو تو اس جانور کا تاوان اس کنواں کھودنے والے مرحوم شخص پر عائد ہوجائے گا اور کئی وجوہ سے اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے اپنی موت سے پہلے ہی یہ جرم کیا تھا۔ اگر اس شخص نے غلام چھوڑ کر وفات پائی ہو اور ورثہ نے غلام کو آزاد کردیا ہو پھر اس کنویں میں کوئی جانور گر کر مرگیا ہو تو اس صورت میں ورثاء غلام کی قیمت کا تاوان بھریں گے اور ہم تاوان کے سلسلے میں یہ فیصلہ دیں گے کہ یہ جرم اس شخص کی وفات کے دن ہی وجود میں آگیا تھا۔ اگر کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی چھوڑ کرمرجائے اور اس کی موت کے دو سال بعد جس میں صرف ایک دن کم ہو بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو بچہ اس کا وارث قرار دیا جائے گا جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ بچہ اس کی موت کے وقت محض نطفہ تھا اور بچے کی شکل میں موجود نہیں تھا اور پھر جب یہ پیدا ہوا تو ہم نے اس پر ولد ہونے کا حکم لگادیا۔ اگر ایک شخص کی وفات ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کے دو بیٹے اور ایک ہزار درہم کی رقم رہ جانے اور اس پر ایک ہزار کا قرض بھی ہو تو اس صورت میں اس کے دونوں بیٹے اس کے وارث قرار نہیں دیئے جائیں گے لیکن اگر ایک بیٹے کی موت ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کا ایک بیٹارہ جائے پھر قرض خواہ اپنا قرض معاف کردے تو اس صورت میں اس ایک ہزار درہم سے پوتا اپنے باپ کی میراث کے طور پر حصہ لے لے گا حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ اس کے باپ کی جس دن وفات ہوئی تھی وہ اس رقم کا مالک نہیں تھا لیکن اسے مالک کے حکم میں قرار دے دیا گیا کیونکہ اس کا سبب پہلے سے موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح مکاتب پر بھی ادائیگی کی صورت میں اس کی موت سے قبل کسی فصل کے بغیر آزاد ہوجانے کا حکم لگادیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ وہ شخص جو خطاً قتل ہوجاتا ہے اس کی دیت موت کے بعد ہی واجب ہوتی ہے حالانکہ موت کے بعد وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، لیکن دیت کو اس چیز کے حکم میں کردیا جاتا ہے جس کا وہ موت سے قبل مالک ہوتا ہے اور اس طرح دیت اس کے ورثاء کی میراث بن جاتی ہے پھر اسی دیت سے اس کے قرضوں کی ادائیگی کی جاتی ہے اور اس کی وصیتیں پوری کی جاتی ہیں۔- لونڈی سے زنا بالجبر کروانے پر پابندی - قول باری ہے : ولا تکرھو ا فتیاتکم علی البغآء ان اردن تحصنا۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فوائد کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں ، اعمش نے ابوسفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنی لونڈی سے کہا کرتا تھا کہ جائو اور جاکر ہمارے لئے کچھ کما کر لائو۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم۔ ) اور جو کوئی انہیں مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لئے غفور و رحیم ہے۔ کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” ایسی مجبور لونڈیوں کے لئے ایک ذات ہے جو بہت غفور اور نہایت رحیم ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتائی ہے کہ زنا پر مجبور کی جانے والی لونڈی اگر بجرواکراہ اس فعل بد کی مرتکب ہوجائے تو اس کی بخشش ہوجائے گی جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کفر پر اکراہ اس صورت میں کفر کے حکم کو زائل کو دیتا ہے جب مکرہ شخص اپنی زبان سے کفر کا مجبوراً اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (ان اردن تحصنا) اس لئے فرمایا کہ اگر لونڈی زنا کا ارادہ کرچکی ہو اور پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہو پھر ظاہری طور پر اکراہ کے تحت وہ اس فعل کا ارتکاب کرلے تو اپنے اس ارادے کی بنا پر وہ گنہگار قرار پائے گی اور باطنی طور پر اکراہ کا حکم اس سے زائل ہوجائے گا اگرچہ ظاہری طور پر اکراہ کی صورت موجود بھی ہو۔- اسی طرح اس شخص کا حکم ہے جسے کفر پر مجبور کردیا گیا ہو اور وہ ظاہری طور پر اس سے انکار کررہا ہو مگر اس نے یہ حرکت اپنے ارادے سے کی ہو، اکراہ کی بنا پر نہ کی ہے تو وہ کافر قرار پائے گا۔ ہمارے اصحاب نے اس شخص کے متعلق بھی یہی کہا ہے جسے اس بات پر مجبور کردیا جائے کہ وہ اپنی زبان سے یہ اقرار کرے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔ یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے خلاف دریدہ دہنی پر مجبور کردیاجائے ۔ پھر اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ یہ بات کافروں کی نقل میں کہہ رہا ہے یا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے سوا کسی اور محمد نامی شخص کو شب وشتم کر رہا ہے۔ پھر وہ اپنی نیت اور ارادے کو اس چیز کی طرف نہ موڑے اور اپنی زبان سے وہی کلمات کہہ دے جس پر اسے مجبور کیا گیا ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔
(٣٣) اور ایسے لوگ جن کے پاس نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو زنا سے بچائیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولیستعفف الذین لایجدون “۔ (الخ)- اگلی آیت کریمہ جو یطب بن عبد العزی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کا ایک غلام تھا، اس نے ان سے مکاتب (غلام جس سے معاوضہ لے کر آزاد کیا جائے) ہونے کی درخواست کی تھی تو انہوں نے اس کو مکاتب نہیں کیا تھا۔- اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتب ہونے کے خواہاں ہوں ان کو مکاتب بنادیا کرو، اگر ان میں بہترائی اور وفا عہد کے آثار پاؤ اور اللہ تعالیٰ کے دیے مال میں سے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ان کو بھی دو ، تاکہ یہ بدل کتابت جلدی ادا کر کے آزاد ہوجائیں، یا یہ کہ اس آیت میں مالک کو بدل کتابت کا تہائی حصہ چھوڑنے کی ترغیب دی ہے۔- اگلی آیت عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان لوگوں کے پاس لونڈیاں تھیں یہ ان سے زبردستی زنا کراتے تھے تاکہ ان کی کمائی اور اولاد حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے اس کام کو منع فرما دیا اور اس کو حرام کردیا، چناچہ فرماتا ہے کہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا کرنے پر مجبور مت کرو، بالخصوص جب کہ وہ زنا سے پاک دامن رہنا چاہیں، محض اس لیے کہ ان کی کمائی اور اولاد تمہیں حاصل ہوجائے اور جو شخص ان باندیوں کو زنا پر مجبور کرے گا تو اللہ تعالیٰ مجبور کیے جانے اور ان کی توجہ کرنے کے بعد ان کی مغفرت فرمانے والے اور مرنے کے بعد ان پر رحمت فرمانے والا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولیستعفف الذین لا یجدون “۔ (الخ)- ابن السکن (رح) نے معرفۃ صحابہ میں عبداللہ بن صبیح (رح) سے ان کے والد کے ذریعے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں جو یطب بن عبد العزی کا غلام تھا میں نے ان سے مکاتب (وہ غلام جس سے معاوضہ لے کر آزاد کیا جائے) ہونے کی درخواست کی، انھوں نے مکاتب کرنے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو تم سے مکاتب ہونے کے خواہاں ہوں ان کو مکاتب کردیا کرو۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغآء “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) نے ابی سفیان کے طریق سے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق اپنی باندی سے کہتا تھا کہ جا اور زنا کرکے ہمارے لیے کچھ لا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- نیز امام مسلم (رح) نے اسی طریق سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی کے ایک باندی مسیکہ اور امیمہ نامی تھی، یہ ان دونوں باندیوں کو زنا کرنے پر مجبور کیا کرتا تھا ان دونوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر شکایت کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنی مملوکہ باندیوں کو زنا کرانے پر مجبور مت کیا کرو (الخ) ۔- اور امام حاکم (رح) نے ابی الزبیر (رح) کے طریق سے جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسیکہ نامی انصار میں سے کسی کی باندی تھی اس نے آکر عرض کیا کہ میرا آقا مجھے زنا کرانے پر مجبور کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور بزاررحمۃ اللہ علیہ اور طبرانی (رح) نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی کی ایک باندی تھی جو زمانہ جاہلیت میں زنا کیا کرتی تھی، جب اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کیا تو اس نے کہا اللہ کی قسم میں تو اب کبھی بھی زنا نہیں کروں گی اور ابن ابی نے اس کو مجبور کیا تب یہ آیت نازل ہوئی اور بزار نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت بن دینار (رح) کے واسطہ سے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کی مسیکہ اور معاذہ نامی دو باندیاں تھیں وہ ان کو زنا کرانے پر مجبور کرتا تھا تو ان میں سے ایک باندی کہنے لگی اگر یہ اچھی چیز ہے تو میں نے اس سے بہت فائدہ حاصل کرلیا اور اگر بری بات ہے تو مجھے اس کا چھوڑنا ضروری ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٣٣ (وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا) ” - جو لوگ نکاح کرنے کی بالکل استطاعت نہ رکھتے ہوں ‘ یعنی ان کے پاس نہ تو مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہو ‘ نہ نان نفقہ کے لیے کوئی ذریعہ معاش ہو اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے کسی قسم کی چھت کا بندوبست ‘ تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے رہیں اور اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھیں۔- (وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) ” - آقا اور غلام کے درمیان آزادی کے معاہدے کو مکاتبت کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ غلام کی خواہش اور آقا کی رضا مندی سے طے پاتا تھا کہ آقا اگر اپنے غلام کو آزاد کر دے تو وہ ایک مقررہ مدت تک طے شدہ رقم اپنے آقا کو معاوضے کے طور پر ادا کرے گا۔- (فَکَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًاق) ” - اگر تم میں سے کسی کو اپنے غلام پر اعتماد ہو کہ وہ اپنا معاہدہ پورا کرے گا اور بھاگنے کی کوشش نہیں کرے گا تو اسے ضرور ایسا معاہدہ کرلینا چاہیے۔ اس حکم سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن نے ہر اس اقدام کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ہر وہ راستہ کھولنے کا اہتمام کیا ہے جس سے تدریجاً غلاموں کو آزادی میسر آئے اور غلامی کا خاتمہ ہو سکے۔- (وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّال اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰٹکُمْ ط) ” - یعنی جن غلاموں نے مکاتبت کی ہو تم لوگ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ان کی زیادہ سے زیادہ مالی معاونت کیا کرو تاکہ وہ جلد از جلد مقررہ رقم ادا کر کے آزاد ہوسکیں۔- (وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا) ” - اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو مجبور کرنے کی اجازت ہے۔ ” اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا “ کی قید یہاں بطورشرط کے نہیں بلکہ صورت واقعہ کی تعبیر کے لیے ہے۔- (لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط) ” - عربوں کے ہاں یہ بھی رواج تھا کہ وہ اپنی باندیوں سے پیشہ کرواتے اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی خود کھاتے تھے۔ چناچہ اس حکم سے زمانہ جاہلیت کی اس شرمناک روایت کو بھی ختم کردیا گیا۔ اسی طرح قبل از اسلام عربوں میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ وہ اپنے باپ کی بیواؤں یعنی سوتیلی ماؤں سے بھی نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اس قبیح رسم کے خاتمے کا حکم سورة النساء کی آیت ٢٢ میں دیا گیا ہے۔ گویا قبل از اسلام عرب معاشرے میں جو معاشرتی برائیاں پائی جاتی تھیں ایک ایک کر کے ان کی اصلاح کردی گئی۔- (وَمَنْ یُّکْرِہْہُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ” - اگر کوئی اپنی باندی کو بدکاری پر مجبور کرے گا اور خود اس باندی کی مرضی اس میں شامل نہیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کی مجبوری کے باعث اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا اور اس گناہ کا وبال اس پر ہوگا جس نے اسے اس کام کے لیے مجبور کیا ہوگا۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :54 ان آیات کی بہترین تفسیر وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : یا معشر الشباب ، من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر و احصن للفرج و من لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء ، نوجوانو ، تم میں سے جو شخص شادی کر سکتا ہو اسے کر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بد نظری سے بچانے اور آدمی کی عفت قائم رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے ، کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : ثلٰثۃ حق علی اللہ عونہم ، الناکح یرید العفاف ، والمکاتب یرید الاداء ، والغازی فی سبیل اللہ ، تین آدمی ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہے ، ایک وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرے ، دوسرے وہ مکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھے ، تیسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ( ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، احمد ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، آیت 25 ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :55 مُکاتَبت کے لفظی معنی تو ہیں لکھا پڑھی ، مگر اصطلاح میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان شرائط کی لکھا پڑھی ہو جائے ۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو ۔ آقا کے لیے کوئی خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے ، بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں ۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے ۔ وہ اس کو مال کتابت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام اپنے ذمے کی رقم یا خدمت انجام دے دے وہ اس کو آزاد کردے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے مکاتبت کی اور مدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا ۔ مالکہ نے کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی ۔ غلام نے حضرت عمر سے شکایت کی ۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے ۔ پھر مالکہ کو کہلا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے ، اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے ( دار قطنی بروایت ابو سعید مقبری ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :56 اس آیت کا مطلب فقہاء کے ایک گروہ نے یہ لیا ہے کہ جب کوئی لونڈی یا غلام مکاتبت کی درخواست کرے تو آقا پر اس کا قبول کرنا واجب ہے ۔ یہ عطاء ، عمر و بن دینار ، ابن سیرین ، مسروق ، ضحاک ، عکرمہ ، ظاہریہ ، اور ابن جریر طبری کا مسلک ہے اور امام شافعی بھی پہلے اسی کے قائل تھے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب اور مندوب ہے ۔ اس گروہ میں شعبی ، مقاتل بن حیان ، حسن نصری ، عبد الرحمٰن بن زید ، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ اور مالک بن انس جیسے بزرگ شامل ہیں ، اور آخر میں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہو گئے تھے ۔ پہلے گروہ کے مسلک کی تائید دو چیزیں کرتی ہیں ۔ ایک یہ کہ آیت کے الفاظ ہیں کَاتِبُوْھُمْ ، ان سے مکاتبت کر لو ۔ یہ الفاظ صاف طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ دوسرے یہ کہ معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مشہور فقیہ ( محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس سے جب مکاتبت کی درخواست کی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیرین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے گئے ۔ انہوں نے واقعہ سنا تو درہ لے کر حضرت انس پر پل پڑے اور فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ مکاتبت کر لو ( بخاری ) ۔ اس واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا ذاتی فعل نہیں بلکہ صحابہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور کسی نے اس پر اظہار اختلاف نہیں کیا ، لہٰذا یہ اس آیت کی مستند تفسیر ہے ۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف فکاتبوھم نہیں فرمایا ہے بلکہ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا ارشاد فرمایا ہے ، یعنی ان سے مکاتبت کرلو اگر ان کے اندر بھلائی پاؤ یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے ، اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جانچ سکے ۔ قانونی احکام کی یہ شان نہیں ہوا کرتی ۔ اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں ۔ اور سیرین کی نظیر کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ایک غلام تو نہ تھا جس نے مکاتبت کی درخواست کی ہو ۔ ہزارہا غلام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں موجود تھے ، اور بکثرت غلاموں نے مکاتبت کی ہے ۔ سیرین والے واقعہ کے سوا کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ کسی آقا کو عدالتی حکم کے ذریعہ سے مکاتبت پر مجبور کیا گیا ہو ۔ لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو ایک عدالتی فعل سمجھنے کے بجائے ہم اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق باپ اور اولاد کا سا تھا ۔ بسا اوقات وہ بہت سے ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں ایک باپ تو دخل دے سکتا ہے مگر ایک حاکم عدالت دخل نہیں دے سکتا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :57 بھلائی سے مراد تین چیزیں ہیں : ایک یہ کہ غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو ، یعنی وہ کما کر یا محنت کر کے اپنی آزادی کا فدیہ ادا کر سکتا ہو ، جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان علمتم فیھم حرفۃ ولا ترسلوھم کلَّا علی الناس ، اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ کما سکتا ہے تو مکاتبت کرو ۔ یہ نہ ہو کہ اسے لوگوں سے بھیک مانگتے پھرنے کے لیے چھوڑ دو ۔ ( ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد ) دوسرے یہ کہ اس میں اتنی دیانت اور راست بازی موجود ہو کہ اس کے قول پر اعتماد کر کے معاہدہ کیا جا سکے ۔ ایسا نہ ہو مکاتبت کر کے وہ مالک کی خدمت سے چھٹی بھی پالے اور جو کچھ اس دوران میں کمائے اسے کھا پی کر برابر بھی کر دے ۔ تیسرے یہ کہ مالک اس میں ایسے برے اخلاقی رجحانات ، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے ایسے تلخ جذبات نہ پاتا ہو جن کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ اس کی آزادی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہو گی ۔ بالفاظ دیگر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ مسلم معاشرے کا ایک اچھا آزاد شہری بن سکے گا نہ کہ آستین کا سانپ بن کر رہے گا ۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ معاملہ جنگی قیدیوں کا بھی تھا جن کے بارے میں یہ احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت تھی ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :58 یہ عام حکم ہے جس کے مخاطب آقا بھی ہیں ، عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی ۔ آقاؤں کی ہدایت ہے کہ مال کتابت میں سے کچھ نہ کچھ معاف کر دو ، چنانچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتدبہ حصہ معاف کر دیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ حضرت علی نے تو ہمیشہ ¼ حصہ معاف کیا ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے ( ابن جریر ) ۔ عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ جو مکاتب بھی اپنا مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرے ، وہ دل کھول کر اس کی امداد کریں ۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک فی الرقاب بھی ہے ، یعنی گردنوں کو بند غلامی سے رہا کرانا ( سورہ توبہ ، آیت 60 ) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک فک رقبہ گردن کا بند کھولنا’ ’ایک بڑی نیکی کا کام ہے ( سورہ بلد آیت 13 ) ۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی ۔ غلام آزاد کر ، غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دے ، کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے ، اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر ۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا ، پیاسے کو پانی پلا ، بھلائی کی تلقین کر ، برائی سے منع کر ۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ ۔ کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے ( بیہقی فی شعب الایمان عن البرائ بن عازب ) ۔ اسلامی حکومت کو بھی ہدایت ہے کہ بیت المال میں جو زکوٰۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کریں ۔ اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے ۔ ایک جنگی قیدی ۔ دوسرے ، آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا ۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے ۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب ، دنیا بھر کا معاشرہ ان تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا ۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا کیا جائے ۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا کیا حل ہے ۔ پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر ایسے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا ، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا ، بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدرجہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہو سکا اور سیاہ فام لوگوں ( ) کی ذات کا مسئلہ بہرحال باقی رہ گیا ۔ اس احمقانہ طریق اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاق تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں ، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں ، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں ، اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 63 غلام آزاد کیے ۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی ۔ حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا ۔ حکیم بن جزام نے 100 ، عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار ، ذوالکلاع حمیری نے آٹھ ہزار ، اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی ۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے نام بہت ممتاز ہیں ۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے ۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے ، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے ۔ اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے ۔ البتہ جنگی قیدیوں کو صرف اس صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت ( حکم نہیں بلکہ اجازت ) دی جبکہ ان کی حکومت ہمارے جنگی قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے پر راضی نہ ہو ، اور وہ خود بھی اپنا فدیہ ادا نہ کریں ۔ پھر ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت کر کے رہائی حاصل کرلیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے حق میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے ، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے ، یا کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہی وہ آزاد ہو جائے گا ( جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں ) ، یا کوئی شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے ، اس صورت میں مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے ۔ جاہل معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں ، اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر کار اس امر واقعہ ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلام کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :59 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو قحبہ گری پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لونڈی خود اپنی مرضی سے بد کاری کی مرتکب ہو تو وہ اپنے جرم کی آپ ذمہ دار ہے ، قانون اس کے جرم پر اسی کو پکڑے گا ، لیکن اگر اس کا مالک جبر کر کے اس سے یہ پیشہ کرائے تو ذمہ داری مالک کی ہے اور وہی پکڑا جائے گا ۔ اور ظاہر ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جبکہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کیا جائے ۔ رہا دنیوی فائدوں کی خاطر کا فقرہ ، تو دراصل یہ ثبوت حکم کے لیے شرط اور قید کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے کہ اگر مالک اس کی کمائی نہ کھا رہا ہو تو لونڈی کو قحبہ گری پر مجبور کرنے میں وہ مجرم نہ ہو ، بلکہ اس سے مقصود اس کمائی کو بھی حرمت کے حکم میں شامل کرنا ہے جو اس ناجائز جبر کے ذریعہ حاصل کی گئی ہو ۔ لیکن اس حکم کا پورا مقصد محض اس کے الفاظ اور سیاق و سباق سے سمجھ میں نہیں آ سکتا ۔ اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں یہ نازل ہوا ہے ۔ اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں ۔ ایک خانگی کا پیشہ ۔ دوسرے باقاعدہ چکلہ ۔ خانگی کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈی ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا ، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے والا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا ۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہو جاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے ۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کر لیا جاتا تھا ۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلَّم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا نکاح سمجھتے تھے ۔ اسلام نے آ کر نکاح کے صرف اس معروف طریقے کو قانونی نکاح قرار دیا جس میں ایک عورت کا صرف ایک شوہر ہوتا ہے اور اس طرح باقی تمام صورتیں زنا میں شمار ہو کر آپ سے آپ جرم ہو گئیں ( ابو داؤد ، باب فی وجوہ النکاح التی کان یتناکح اہل الجاہلیہ ) ۔ دوسری صورت ، یعنی کھلی قحبہ گری ، تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی ۔ اس کے دو طریقے تھے ۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں پر ایک بھری رقم عائد کر دیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو ، اور وہ بے چاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پورا کرتی تھیں ، اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں ، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعہ سے یہ رقم لایا کرتی ہیں ، اور نہ جوان لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہو سکتی تھی ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہو جاتا تھا کہ حاجتمند آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے ۔ یہ عورتیں قلیقیات کہلاتی تھیں اور ان کے گھر مواخیر کے نام سے مشہور تھے ۔ بڑے بڑے معزز رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے ۔ خود عبد اللہ بن ابی ( رئیس المنافقین ، وہی صاحب جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کر چکے تھے ، اور وہی صاحب جو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں سب سے پیش پیش تھے ) مدینے میں ان کا ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں ۔ ان کے ذریعہ سے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی ان ہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فوج بھی بڑھاتے تھے ۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک ، جس کا نام مُعاذہ تھا ، مسلمان ہو گئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی ۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا ۔ اس نے جا کر حضرت ابو بکر سے شکایت کی ۔ انہوں نے معاملہ سرکار تک پہنچایا ، اور سرکار رسالت مآپ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے ( ابن جریر ، ج 18 ، ص 55 تا 58 ۔ 103 ۔ 104 ۔ الانتِیعاب لا بن عبد البر ، ج 2 ، ص 762 ۔ ابن کثیر ، ج3 ، 288 ۔ 289 ) ۔ یہی زمانہ تھا جب بارگاہ خداوندی سے یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل مقصود محض لونڈیوں کو جرم زنا پر مجبور کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ دولت اسلامیہ کے حدود میں قحبہ گری ( ) کے کاروبار کو بالکل خلاف قانون قرار دے دینا ہے ، اور ساتھ ساتھ ان عورتوں کے لیے اعلان معافی بھی ہے جو اس کاروبار میں جبراً استعمال کی گئی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ : لا مُسَاعاۃ فی الاسلام اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ( ابو داؤد بروایت ابن عباس ، باب فی ادعاء ولد الزنا ) دوسرا حکم جو آپ نے دیا وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ آپ نے مہر البغیِ یعنی زنا کے معاوضے کو خبیث اور شرّ المکاسب ، ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا ( ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ) ۔ ابو جُحَیفَہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب البغی ، یعنی پیشۂ زنا سے کمائی ہوئی آمدنی کو حرام ٹھہرایا ( بخاری ، مسلم ، احمد ) ۔ ابو مسعود بن عمرو کی روایت ہے کہ آپ نے مَھر البَغیِ کا لین دین ممنوع قرار دیا ( صحاح ستہ و احمد ۔ ) تیسرا حکم آپ نے یہ دیا کہ لونڈی سے جائز طور پر صرف ہاتھ پاؤں کی خدمت لی جا سکتی ہے اور مالک کوئی ایسی رقم اس پر عائد ، یا اس سے وصول نہیں کر سکتا جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رقم وہ کہاں سے اور کیا کر کے لاتی ہے ۔ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسْب الْاَمَۃ حتی یُعلَم من این ھو ، رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے لونڈی سے کوئی آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے ( ابو داؤد ، کتاب الاجارہ ) ۔ رافع بن رِفَاعَہ انصاری کی روایت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے کہ نھانا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کسب الامۃ الا ماعملت بیدھا و قال ھٰکذا باصابعہ نحو الخبز والغزل و النفش ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو لونڈی کی کمائی سے منع کیا بجز اس کے جو وہ ہاتھ کی محنت سے حاصل کرے ، اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یوں ، جیسے روٹی پکانا ، صوت کاتنا ، یا اون اور روئی دھنکنا ( مسند اھمد ، ابو داؤد ، و کتاب الجارہ ) ۔ اسی معنی میں ایک روایت ابو داؤد اور مسند احمد میں حضرت ابو ہُریرہ سے بھی مروی ہے جس میں کسب الاماء ( لونڈیوں کی کمائی ) اور مھر البغی ( زنا کی آمدنی وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں ۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ، عبد اللہ بن ابی کی لونڈی معاذہ کے معاملہ میں جو کچھ آپ نے فیصلہ فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی سے اس کا مالک جبراً پیشہ کرائے اس پر سے مالک کی ملکیت بھی ساقط ہو جاتی ہے ۔ یہ امام زُہری کی روایات ہے جسے ابن کثیر نے مسند عبدالرزاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :60 اس آیت کا تعلق صرف اوپر کی آخری آیت ہی سے نہیں ہے بلکہ اس پورے سلسلۂ بیان سے ہے جو آغاز سورہ سے یہاں تک چلا آ ٍرہا ہے ۔ صاف صاف ہدایتیں دینے والی آیات سے مراد وہ آیات ہیں جنمیں زنا اور قذف اور لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے ، بد کار مردوں اور عورتوں سے اہل ایمان کو شادی بیاہ کے معاملہ میں مقاطعہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، شریف لوگوں پر بے بنیاد تہمتیں لگانے اور معاشرے میں فواحش کی اشاعت کرنے سے روکا گیا ہے ، مردوں اور عورتوں کو غض بصر اور حفظ فروج کی تاکید کی گئی ہے ، عورتوں کے لیے پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں ، شادی کے قابل لوگوں کے مجرد بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے ، غلاموں کی آزادی کے لیے کتابت کی صورت تجویز کی گئی ہے ، اور معاشرے کو قحبہ گری کی لعنت سے پاک کرنے کا حکام دیا گیا ہے ۔ ان ارشادات کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے ڈر کر سیدھی راہ اختیار کر لینے والوں کو جس طرح تعلیم دی جاتی ہے وہ تو ہم نے دے دی ہے ، اب اگر تم اس تعلیم کے خلاف چلو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم ان قوموں کا سا انجام دیکھنا چاہتے ہو جن کی عبرتناک مثالیں خود اسی قرآن میں ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالباً ایک حکم نامے کے اختتام پر اس سے زیادہ سخت تنبیہ کے الفاظ اور کوئی نہیں ہو سکتے ۔ مگر آفرین ہے اس قوم پر جو ماشاء اللہ مومن بھی ہو اور اس حکم نامے کی تلاوت بھی کرے اور پھر ایسی سخت تنبیہ کے باوجود اس حکم نامے کی خلاف ورزی بھی کرتی رہے
26: جب غلاموں اور باندیوں کا رواج تھا، اُس وقت وہ اپنے آقاوں سے یہ معاملہ کرلیتے تھے کہ وہ ایک طے شدہ رقم کما کر اپنے آقاوں کو دیں گے جس کے بعد وہ آزاد ہوجائیں گے۔ یہ معاملہ ’’مکاتبت‘‘ کہلاتا ہے۔ اس آیت نے آقاوں کو یہ ترغیب دی ہے کہ جب اُن کے غلام یا باندیاں اُن سے یہ معاملہ کرنا چاہیں تو اُنہیں قبول کرلینا چاہئے، اور دوسرے مسلمانوں کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے غلاموں اور بندیوں کی مالی مدد کریں، تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔ 27 جاہلیت میں یہ بھی رواج تھا کہ لوگ اپنی کنیزوں سے عصمت فروشی کراتے، اور اِس طرح اُن کو بدکاری پر مجبور کر کے پیسہ کماتے تھے۔ اس آیت نے اس گھناونی رسم کو شدید گناہ قرار دے کر اُسے ختم کیا۔ 28: یعنی جس کنیز کو اُس کی مرضی کے خلاف بدکاری پر مجبور کیا گیا، اس کو مجبور ہونے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا، بشرطیکہ اُس نے بدکاری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہو، نیز اُسے بدکاری کی شرعی سزا بھی نہیں دی جائے گی، البتہ بدکاری کی سزا اُس کو ملے گی جس نے اُس سے بدکاری کی، نیز اُس آقا کو بھی تعزیری سزا ہوگی جس نے اسے عصمت فروشی پر مجبور کیا۔