Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولا نکاح کا ۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اے نوجوانو تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو ، اسے نکاح کر لینا چاہئے ۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے ، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے ( بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ فرماتے ہیں زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی ۔ ایامی جمع ہے ایم کی ۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو ایم کہتے ہیں ، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا ۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو ، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے ۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے ۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو ۔ ( ترمذی وغیر ) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا ، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کر دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے ، اپنی بیوی کو یاد کرا دے ۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو ۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری ۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے ۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے ، فالحمد للہ ۔ پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کامقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوان لوگو تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں ، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا ، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کر لے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے ۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورہ نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت ( وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ 25؀ۧ ) 4- النسآء:25 ) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے ۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں ۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہو جائے گا ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے ۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کر دو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کر لے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کر لو ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا ، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا ، آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی ۔ ( بخاری ) عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں قول مروی ہیں ۔ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں ۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے ، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے ۔ یہی قول امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ وغیرہ کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے ۔ خیر سے مراد امانت داری ، سچائی ، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں ، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے اس کے بعد فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو ۔ یعنی جو رقم ٹھیر چکی ہے ، اس میں سے کچھ معاف کر دو ۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہو جائے ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے ۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے ۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کر دیتے ۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں ۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا ۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے ، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے ۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا ۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی ۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا ، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے ، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی ۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے ، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی ۔ آپ نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو ۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا ۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں ، جو ان سے بدکاری کراتے تھے ۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اس پر یہ آیت اتری ۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا ۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے ۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو ، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے کی اجرت ، بدکاری کی اجرت ، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا ۔ ایک اور روایت میں ہے زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا ۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآت میں رحیم کے بعد آیت ( واثمہن علی من اکرھھن ) ہے ۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے ۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا سے ، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں ، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے ۔ ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں ۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا ؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے ، قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں ۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں ۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے ۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا ، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کردو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کرلو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح امر کے صیغے سے بعض نے ثبوت کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ اسے جائز اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے بچنے کی سخت وعید ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس نے میری سنت سے انکار کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ 322یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں بعض نفرت کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (الیسر التفاسیر) 323یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت ورزق میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے1 نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے2 مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے3 اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] معاشرہ کے فواحش سے طہارت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی فرد خواہ وہ مرد ہو یا عورت بےزوج نہ رہے۔ ایسے سب افراد کے نکاح کردو۔ ایامیالم کی جمع ہے اور یہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ مرد بھی ہیں جن کی بیوی یا بیویاں فوت ہوچکی ہوں یا طلاق دے چکے ہوں اور مجرد رہتے ہوں اور وہ عورتیں بھی جو بیوہ ہوں یا مطلقہ ہوں اور مجرد رہتی ہوں۔ نیز ان میں وہ کنوارے مرد اور کنواری عورتیں بھی شامل ہیں جن کی بلوغت کے بعد تادیر شادی نہ ہوئی ہو۔ لہذا اس لفظ کا معنی مجرد رہنی ہی قریب الفہم ہے۔ ایسے ہی مجرد افراد کے اولیاء کو یہ حکم دیا جارہا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : علی تین کاموں میں دیر نہ کرنا، فرض نماز، جب اس کا وقت ہوجائے۔ جناچہ جب موجود تو اسے دفن کرنے میں اور رنڈی عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (۔۔ ہمسر) مل جائے (ترمذی۔ ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی الوقت الاول من الفض) - ہمارے معاشرے میں عام طور رنڈے مردوں یا رنڈی عورتوں کے نکاح کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ اور کوئی فرد ہمت کرکے نکاح کر بھی کرلے تو اسے طعن وتشنیع کی جاتی ہے یا کم از کم اس کے اس کام پر ناک بھون ضرور چڑھاتے ہیں۔ کہ اس کے ہاں اولاد موجود ہے تو اسے نکاح کی کیا ضرورت تھی ؟ انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا یہ رویہ آیات اللہ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس رواج کی کئی وجہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو مغربی تہذیب سے مرعوبیت ہے۔ جہاں یک زوجگی کا قانون رائج ہے۔ یا پھر خوشی اور حرام کی سب راہیں کھلی ہیں اور یہ لوگ یہاں بھی یہی کچھ چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اولاد اپنے رنڈے باپ یا بیوہ ماں کے نکاح میں آڑے آتی ہے۔ اور اس کا بڑا سبب عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر اولاد پیدا ہوئی تو وہ وراثت میں شریک بن جائے گی۔ یا پھر جھوٹی قسم کی غیرت ہوتی ہے اس کی تیسری وجہ خاندانی منصوبہ بندی والوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ اور اسی وجہ سے بلوغت کے بعد تادیر مجرد رہنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ سب وجوہ مل کر ایک ایسا ماحول بن گیا ہے۔ جس میں حرام کاموں کے لئے تو سب سہولتیں میسر ہیں۔ مگر حلال کاموں پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔- ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت خواہ کسی عمر کی ہو اس کا ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ اور یہ بات احادیث میں پوری وضاحت سے مذکور ہے۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کوئی بھی عورت جو ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب لانکاح الی بولی) لہذا اولیاء کو یہی حکم دیا جارہا ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کریں۔- اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امر کا صیغہ وجوب کے لئے نہیں ہے یعنی معاشرہ یا اسلامی حکومت یا اولیاء پر یہ واجب نہیں جو معاشرہ کا جو فرد بھی مجرد ہو اس کو پکڑ کر اس کا نکاح کرادے۔ بلکہ یہ امر استحیاب کے لوے ہے۔ کیونکہ نکاح میں کچھ رکاوٹیں بھی ہوسکتی ہیں مثلاً جوڑ کا رشتہ نہ ملنا یا تنگدستی وغیرہ۔ التبہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کے سلسلہ میں حتی الامکان تعاون کریں۔ اور جن لوگوں کے حالات نکاح کے لئے سازگار نہ ہوں انھیں آپ نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم کچھ جوان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتے تھے اور (نکاح کے لئے) ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ تو آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ اے نوجوانو تم میں سے جو کچھ خانہ داری کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس چاہئے کہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح نگاہ نیچے رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے خوب چیز ہے اور جو اس کی طاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے۔ روزے اس کی شہوت کو ٹھنڈا کردیں گے (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب من لم یستطع البارۃ فلیصم) - نیز سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن مظعون (رض) کو تبتل (مجرد یا عورت سے الگ تھلگ رہنے) کی اجازت نہ دی۔ اگر آپ اسے اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب مایکرہ من القبتل والحصائ) - [٥١] لونڈی اور غلاموں کے ذکر میں صالحین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو یہاں دو مطلب یہ ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ ان میں ازدواجی زندگی کو نباہنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسا نہ ہو کہ نکاح کے بعد وہ ڈھیلے پڑجائیں اور ان کا سارا بوجھ مالک پر پڑجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک ہوں اور پاک سیرت رہنا چاہتے ہوں اور فحاشی اور بدکاری سے بچنا چاہتے ہوں۔ جو بھی صورت ہو ان کے مالکوں کو چاہئے کہ ان کے نکاح کے لئے ممکن حد تک کوشش کریں۔- [٥٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مالدار اور غنی ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نظر ظاہری اسباب تک محدود رہتی ہے۔ اور وہ انھیں ظاہری اسباب کو سامنے رکھ کر حساب لگاتا ہے۔ جبکہ اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جن پر انسان مطلع نہیں ہوسکتا اور وہ اسباب خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ لہذا جو لوگ اس وجہ سے نکاح میں پس و پیش کرتے ہیں کہ نکاح کے بعد بیوی بچوں کا بوجھ کیسے برداشت کریں گے۔ انھیں سجھا دیا گیا کہ ایسے موہوم خطرات کی بنا پر نکاح سے مت رکو۔ تمہارا اور تمہارے بال بچوں کا رزق اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تم مجرد رہ کر غنی بن جاؤ گے یا نکاح کے بعد مفلس و قلاش ہوجاؤ گے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے کئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔ لہذا نہیں یقین رکھو کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے پر۔ لہذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہ کرنا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ : ” الْاَيَامٰى“ ” آمَ یَءِیْمُ أَیْمًا “ (بَاعَ یَبِیْعُ ) سے ” أَیِّمٌ“ (بروزن فَیْعِلٌ، کَسَیِّدٍ ) کی جمع ہے، یعنی وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، کنواری ہو یا بیوہ یا مطلقہ اور وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو، کنوارا ہو یا ثیب۔ زمخشری کے مطابق ” أَیَامٰی “ کا وزن ” أَفَاعِلُ “ ہے، کیونکہ یہ ” أَیِّمٌ“ کی جمع ہے، جو ” فَیْعِلٌ“ کے وزن پر ہے اور ” فَیْعِلٌ“ کی جمع ” فَعَالٰی “ نہیں آتی۔ اس لیے ” أَیَامٰی “ کا اصل ” أَیَایِمُ “ ہے، جس میں قلب کرکے میم کو یاء کی جگہ پہلے کردیا گیا، کیونکہ الف کے بعد یاء پڑھنے میں ثقل ہے، پھر میم کو تخفیف کے لیے فتحہ دے دیا گیا اور یاء کو الف سے بدل کر ” أَیَامٰی “ کردیا۔ ابن مالک اور کئی علماء کے مطابق یہ خلاف قیاس ” فَعَالٰی “ کے وزن پر ہے، سیبویہ کے کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔ (التحریر والتنویر)- 3 نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جنسی جبلت کو معطل کر دو اور ترک دنیا کرکے راہب اور جوگی بن جاؤ، کیونکہ یہ فطرت کا مقابلہ ہے اور جو شخص فطرت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا پادریوں اور ننوں (راہبات) کی طرح بری طرح شکست کھائے گا، بلکہ حکم دیا کہ اپنے مجرد مردوں اور عورتوں کا نکاح کرو اور حلال طریقے سے اپنی خواہش اور لذت کی تکمیل کرو، یہ تمہاری پاک دامنی اور نگاہ نیچی رکھنے کا ذریعہ ہے اور امت مسلمہ کی تعداد بڑھانے کا بھی۔ - ” الْاَيَامٰى مِنْكُمْ “ سے مراد مسلم آزاد مجرد مرد اور عورتیں ہیں، کیونکہ غلاموں کا ذکر بعد میں آ رہا ہے اور غیر مسلم ” مِنْكُمْ “ نہیں بلکہ ” مِنْ غَیْرِکُمْ “ ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ حکم کس کو ہے ؟ تو عورت کا نکاح اس کے اولیاء کی ذمہ داری ہے، ان کی اجازت کے بغیر عورت کو نکاح کی اجازت نہیں۔ اگر کسی عورت کا ولی نہ ہو یا وہ ولایت کا اہل نہ رہے کہ اس کا نکاح کرنے کے بجائے نکاح کی راہ میں کسی معقول وجہ کے بغیر رکاوٹ بنا رہے تو حاکم وقت اس کا ولی ہے اور اسے حکم ہے کہ اس کا نکاح کرے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیْھَا فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَإِنْ دَخَلَ بِھَا فَالْمَھْرُ لَھَا بِمَا أَصَابَ مِنْھَا فَإِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَہُ ) [أبوداوٗد، النکاح، باب في الولي : ٢٠٨٣ ] ” جو عورت اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ “ تین دفعہ فرمایا، پھر فرمایا : ” اگر شوہر اس عورت سے صحبت کرلے تو اسے مہر دینا پڑے گا، اس سے فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے اور اگر وہ اولیاء آپس میں جھگڑ پڑیں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو سلطان اس کا ولی ہے۔ “ - رہے مرد تو ان کا نکاح کسی ولی کی اجازت پر موقوف نہیں، مگر ظاہر ہے کہ بچے کے جوان ہونے پر اس کے والدین یا رشتہ دار جو اس کی کفالت کر رہے ہیں، اگر اس کے نکاح کی کوشش اور اس میں تعاون نہ کریں تو اس کے لیے نکاح بہت مشکل ہے، اس لیے انھیں حکم ہے کہ اپنے بچوں کا جوان ہونے پر جتنی جلدی ممکن ہو نکاح کردیں۔ ” وَاَنْكِحُوا “ (نکاح کر دو ) کا لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس کے مخاطب حکومت و عوام تمام مسلمان بھی ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے نکاح میں وہ جس قدر بھی تعاون کرسکتے ہوں ان کا نکاح کروا دیں۔ جب دوسروں کا نکاح کروانے کا حکم ہے تو خود اپنا نکاح کروانا تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تھے، جوان تھے اور کوئی چیز نہ پاتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ ) [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم : ٥٠٦٦، ٥٠٦٥ ] ” اے جوانو کی جماعت تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔ “ - وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ :” َالصّٰلِحِيْنَ “ سے مراد دین کی صلاحیت (نیکی) بھی ہوسکتی ہے، اس صورت میں غلام یا لونڈی میں سے صالح وہ ہوگا جو فاجر اور زانی نہ ہو۔ اس کے مالک کو اس کی نیکی کے انعام اور مزید نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے اس کا نکاح کردینا چاہیے۔ رہا زانی تو وہ کیونکہ صالح نہیں فاسد ہے، اس لیے اس کا نکاح جائز نہیں، جب تک توبہ کرکے صالح نہ بن جائے۔ گویا یہ سورت کے آغاز میں مذکور حکم ” اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ “ کی تائید ہے۔ غلاموں میں خاص طور پر یہ شرط لگانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکثر یہ بیماری اس طبقے میں ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس شرف سے محروم ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی آزاد مرد یا عورت کو اپنی عزت کی حفاظت پر مجبور کرتا ہے۔ (سعدی) اس لیے اہل علم نے یوسف (علیہ السلام) کے زنا سے بچنے کو عفت کا کمال قرار دیا ہے، کیونکہ دنیاوی لحاظ سے انھیں زنا سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس حرّیت بھی نہیں تھی۔ (تفصیل سورة یوسف میں ملاحظہ فرمائیں) ” َالصّٰلِحِيْنَ “ سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لونڈی یا غلام جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور انھیں اس کی ضرورت ہو۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر غلام یا لونڈی کو نکاح کی حاجت نہ ہو تو مالک کو اس کے نکاح کا حکم نہیں اور ” َالصّٰلِحِيْنَ “ کے دونوں معنی مراد لیے جائیں تو کچھ بعید نہیں۔ (سعدی)- اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : عام طور پر غربت کو مرد کے نکاح کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو بیوی کو کہاں سے کھلائے گا، اس لیے غریب کو کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ تم مجرد لوگوں کا نکاح کر دو ، اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں غنی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب سے غنی کردینے کا اختیار ہے اور اسباب کے لحاظ سے بھی بیوی آنے کے بعد وہ کمائی کے لیے زیادہ جدو جہد کرے گا۔ کھانا تو پہلے وہ خود بھی کھاتا ہے، اگر مزید کمائی نہ بھی کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ [ دیکھیے، بخاری : ٥٣٩٢ ] پہلے یہ اکیلا کمائی کرتا تھا، بیوی آنے کے بعد اس کی کمائی کی استعداد دو گنا ہی نہیں بلکہ مشہور عام قول کے مطابق گیارہ گنا ہوجائے گی۔ بیوی اس کا ہاتھ بٹائے گی، ہوسکتا ہے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ہنر عطا کر رکھا ہو، یا وہ بہتر مشورے دے کر خاوند کی بہترین مشیر ثابت ہو، یا بیوی کے رشتہ داروں کے تعاون سے حالت بدل جائے۔ علاوہ ازیں اولاد ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ اتنی کمائی کریں کہ پورا کنبہ ہی اغنیاء میں شامل ہوجائے۔ اس کے برعکس کسی غنی کو لڑکی دے تو ہوسکتا ہے کسی آزمائش میں وہ فقیر ہوجائے۔ اللہ نے فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 26؀ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ ۡ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ آل عمران : ٢٦، ٢٧ ] ” کہہ دے اے اللہ بادشاہی کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور تو مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔ “ یہ سب کچھ عام مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔ دولت دھوپ چھاؤں کی طرح آج یہاں ہے تو کل وہاں، بلکہ دولت کا معنی ہی گھومنا ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی کا نکاح بھی کردیا تھا جس کے پاس ایک چادر کے سوا کچھ نہیں تھا، حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی۔ (دیکھیے بخاری : ٥٠٢٩) یہ خیال ہی نہیں فرمایا کہ یہ بیوی کو کہاں سے کھلائے گا۔ اس لیے اہل علم نے دولت مند بننے کے اسباب میں سے نکاح کو بھی ایک سبب قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” بعض لوگ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فقیری میں بھی نکاح کیا کرو، اللہ تمہیں غنی کر دے گا۔ “ میری نگاہ سے تو یہ روایت نہیں گزری، نہ کسی قوی سند سے، نہ ضعیف سند سے اور نہ ہمیں اس مضمون کے لیے ایسی بےاصل روایت کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ قرآن کی یہ آیت اور (لوہے کی انگوٹھی تک نہ رکھنے والے سے نکاح والی) حدیث اس کے لیے کافی ہے۔ (وللہ الحمد) “ ( ابن کثیر)- ایسی ہی ایک روایت عام مشہور ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فقر کی شکایت لے کر آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نکاح کرلو۔ “ اس نے نکاح کرلیا مگر غربت بدستور مسلط رہی، وہ پھر شکایت لے کر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ اس نے دوسرا نکاح کرلیا، پھر بھی وہی حال رہا تو وہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ تیسرے نکاح پر بھی غربت دور نہ ہوئی تو اس نے پھر آ کر شکایت کی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوتھے نکاح کا حکم دیا، اس نے اس پر عمل کیا تو اس کی غربت دور ہوگئی۔ میں نے یہ روایت بہت تلاش کی مگر کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی اور نہ یہ روایت نقل کرنے والے کسی صاحب نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ ایسی باتوں کا بےسروپا ہونا خود اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے فقیر کو یکے بعد دیگرے چار بیویاں ملتے چلے جانے کی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔- وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ : واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عطف پہلے جملے پر ہے جو ” يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ “ سے خود بخود سمجھ میں آنے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے اور یہ اختصار قرآن کی بلاغت کا اعجاز ہے۔ گویا محذوف جملے کو ظاہر کیا جائے تو عبارت یوں ہوگی : ” أَنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ فَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ “ یہاں ” وَاسِعٌ“ اور ” عَلِيْمٌ“ صفات لانے کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ وسعت والا ہے، اس کے ہاں کوئی کمی نہیں، وہ جسے چاہے، خواہ وہ کتنا کنگال کیوں نہ ہو، اسے غنی کردیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے، اسے معلوم ہے کہ کسے غنی کرنا ہے اور کس طرح اور کن اسباب کے ذریعے سے غنی کرنا ہے۔ (بقاعی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (احرار میں سے) جو بےنکاح ہوں (خواہ مرد ہوں یا عورتیں) اور بےنکاح ہونا بھی عام ہے خواہ ابھی تک نکاح ہوا ہی نہ ہو یا ہونے کے بعد بیوی کی موت یا طلاق کے سبب بےنکاح رہ گئے) تم ان کا نکاح کردیا کرو اور (اسی طرح) تمہارے غلام اور لونڈیوں میں جو اس (نکاح) کے لائق ہوں (یعنی حقوق نکاح ادا کرسکتے ہوں) ان کا بھی (نکاح کردیا کرو محض اپنی مصلحت سے ان کی خواہش نکاح کی مصلحت کو فوت نہ کیا کرو اور احرار کے نکاح پیغام دینے والے کے فقر و افلاس پر نظر کر کے انکار نہ کردیا کرو جبکہ اس میں کسب معاش کی صلاحیت موجود ہو کیونکہ) اگر وہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ (اگر چاہے گا) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا (خلاصہ یہ ہے کہ نہ تو مالدار نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے انکار کرو اور نہ یہ خیال کرو کہ نکاح ہوگیا تو خرچ بڑھ جائے گا جو موجودہ حالت میں غنی و مالدار ہے وہ بھی نکاح کرنے سے محتاج و مفلس ہوجائے گا کیونکہ رزق کا مدار اصل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے وہ کسی مالدار کو بغیر نکاح کے بھی فقیر و محتاج کرسکتا ہے اور کسی غریب نکاح والے کو نکاح کے باوجود فقر و افلاس سے نکال سکتا ہے) اور اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے (جس کو چاہے مالدار کر دے اور سب کا حال) خوب جاننے والا ہے (جس کو غنی کرنا مقتضائے حکمت و مصلحت ہوگا اس کو غنی کردیا جاوے گا اور جس کے محتاج و فقیر رہنے ہی میں اس کی مصلحت ہے اس کو فقیر رکھا جائے گا) اور (اگر کسی کو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے نکاح کا سامان میسر نہ ہو تو) ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کا مقدور نہیں ان کو چاہئے کہ (اپنے نفس کو) قابو میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اگر چاہے تو) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے (اس وقت نکاح کرلیں۔ )- معارف و مسائل - بعض احکام نکاح :- پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق عفت و عصمت کی حفاظت اور فواحش و بےحیائی کی روک تھام سے ہے۔ اس سلسلہ میں زنا اور اس کے متعلقات کی شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا پھر استیذان کا، پھر عورتوں کے پردے کا۔ شریعت اسلام چونکہ ایک معتدل شریعت ہے اس کے احکام سب ہی اعتدال پر اور انسان کے فطری جذبات و خواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے نکلنے کی ممانعت کے اصول پر دائر ہیں۔ اس لئے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی کے ساتھ روکا گیا تو ضرروی تھا کہ فطری جذبات و خواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح طریقہ بھی بتلایا جائے۔ اس کے علاوہ بقاء نسل کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد و عورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے۔ اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔ آیت مذکورہ میں اس کے متعلق حرہ عورتوں کے اولیاء اور کنیزوں غلاموں کے آقاؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کا نکاح کردیا کریں۔ وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ الایة - اَيَامٰى، ایم کی جمع ہے جو ہر اس مرد عورت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو۔ خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو یا زوجین میں سے کسی ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہو۔ ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لئے ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں۔- آیت مذکورہ کے طرز خطاب سے اتنی بات تو باتفاق ائمہ فقہاء ثابت ہے کہ نکاح کا مسنون اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ خود اپنا نکاح کرنے کے لئے کوئی مرد یا عورت بلا واسطہ اقدام کے بجائے اپنے اولیاء کے واسطے سے یہ کام انجام دے۔ اس میں دین و دنیا کے بہت سے مصالح اور فوائد ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے معاملہ میں کہ لڑکیاں اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کریں، یہ ایک قسم کی بےحیائی بھی ہے اور اس میں فواحش کے راستے کھل جانے کا خطرہ بھی۔ اسی لئے بعض روایات حدیث میں عورتوں کو خود اپنا نکاح بلا واسطہ ولی کرنے سے روکا بھی گیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ حکم ایک خاص سنت اور شرعی ہدایت کی حیثیت میں ہے اگر کوئی بالغ لڑکی اپنا نکاح بغیر اجازت ولی کے اپنے کفو میں کرے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اگرچہ خلاف سنت کرنے کی وجہ سے وہ موجب ملامت ہوگی جبکہ اس نے کسی مجبوری سے اس پر اقدام نہ کیا ہو۔ - امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس کا نکاح ہی باطل کالعدم ہوگا جب تک ولی کے واسطہ سے نہ ہو۔ یہ جگہ اختلافی مسائل کی مکمل تحقیق اور دونوں فقہاء کے دلائل بیان کرنے کی نہیں لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ مذکورہ آیت سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہئے باقی یہ صورت کہ کوئی بلا واسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا یہ آیت قرآن اس سے ساکت ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ اَيَامٰى میں بالغان مرد و عورت دونوں داخل ہیں اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلا واسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہوجاتا ہے اس کو کوئی باطل نہیں کہتا۔ اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح اور منعقد ہوجائے۔ ہاں خلاف سنت کام کرنے پر ملامت دونوں کی کی جائے گی۔- نکاح واجب ہے یا سنت یا مختلف حالات میں حکم مختلف ہے :- اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ حدود شریعت پر قائم نہیں رہ سکے گا گناہ میں مبتلا ہوجائے گا اور نکاح کرنے پر اس کی قدرت بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے جب تک نکاح نہ کرے گا گنہگار رہے گا۔ ہاں اگر نکاح کے وسائل موجود نہیں کہ کوئی مناسب عورت میسر نہیں یا اس کے لئے مہر معجل وغیرہ کی حد تک ضروری خرچ اس کے پاس نہیں تو اس کا حکم اگلی آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کی کوشش کرتا رہے اور جب تک وہ میسر نہ ہوں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور صبر کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل روزے رکھے۔ اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا ہے۔- مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عکاف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا تمہاری زوجہ ہے انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر پوچھا کوئی شرعی لونڈی ہے کہا کہ نہیں پھر آپ نے دریافت کیا کہ تم صاحب وسعت ہو یا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ صاحب وسعت ہوں۔ مراد یہ تھی کہ کیا تم نکاح کے لئے ضروری نفقات کا انتظام کرسکتے ہو جس کے جواب میں انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور فرمایا کہ ہماری سنت نکاح کرنا ہے۔ تم میں بدترین آدمی وہ ہیں جو بےنکاح ہوں اور تہمارے مردوں میں سب سے رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مر گئے۔ (مظہری)- اس روایت کو بھی جمہور فقہاء نے اسی حالت پر محمول فرمایا ہے جبکہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو۔ عکاف کا حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور تبتُّل یعنی بےنکاح رہنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا (مظہری) اسی طرح کی اور بھی روایات حدیث ہیں۔ ان سب کا محمل جمہور فقہاء کے نزدیک وہی صورت ہے کہ نکاح نہ کرنے میں ابتلاء معصیت کا خطرہ غالب ہو۔ اسی طرح اس پر بھی تقریباً سبھی فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں اس پر ظلم کا مرتکب ہوگا یا اس کے لئے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے۔- اب اس شخص کا حکم باقی رہا جو حالت اعتدال میں ہے کہ نہ تو ترک نکاح سے گناہ کا خطرہ قوی ہے اور نہ نکاح کی صورت میں کسی گناہ کا اندیشہ غالب ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں کہ اس کو نکاح کرنا افضل ہے یا ترک نکاح کر کے نفلی عبادات میں مشغول ہونا افضل ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نفلی عبادات میں لگنے سے افضل نکاح کرنا ہے اور امام شافعی کے نزدیک اشتغال عبادت افضل ہے۔ وجہ اس اختلاف کی اصل میں یہ ہے کہ نکاح اپنی ذات کے اعتبار سے تو ایک مباح ہے جیسے کھانا پینا سونا وغیرہ ضروریات زندگی سب مباح ہیں اس میں عبادت کا پہلو اس نیت سے آجاتا ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچا سکے گا اور اولاد صالح پیدا ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ایسی نیک نیت سے جو مباح کام بھی انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے بالواسطہ عبادت بن جاتی ہے کھانا پینا اور سونا بھی اسی نیت سے عبادت ہوجاتا ہے اور اشتغال بالعبادت اپنی ذات میں عبادت ہے اس لئے امام شافعی عبادت کے لئے خلوت گزینی کو نکاح سے افضل قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح میں عبادت کا پہلو بہ نسبت دوسرے مباحات کے غالب ہے احادیث صحیحہ میں اس کو سنت المرسلین اور اپنی سنت قرار دے کر تاکیدات بکثرت آئی ہیں۔ ان روایات حدیث کے مجموعہ سے اتنا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نکاح عام مباحات کی طرح مباح نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے جس کی تاکیدات بھی حدیث میں آئی ہیں صرف نیت کی وجہ سے عبادت کی حیثیت اس میں نہیں بلکہ سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے بھی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو کھانا پینا سونا بھی سنت انبیاء ہے کہ سب نے ایسا کیا ہے مگر جواب واضح ہے کہ ان چیزوں پر سب انبیاء کا علم ہونے کے باوجود یہ کسی نے نہیں کہا نہ کسی حدیث میں آیا کہ کھانا پینا اور سونا سنت انبیاء ہے بلکہ اس کو عام انسانی عادت کے تابع انبیاء کا عمل قرار دیا ہے بخلاف نکاح کے اس کو صراحة سنت المرسلین اور اپنی سنت فرمایا ہے۔- تفسیر مظہری میں اس موقع پر ایک معتدل بات یہ کہی ہے کہ جو شخص حالت اعتدال میں ہو کہ نہ غلبہ شہوت سے مجبور و مغلوب ہو اور نہ نکاح کرنے سے کسی گناہ میں پڑنے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ یہ شخص اگر یہ محسوس کرے کہ نکاح کرنے کے باوجود نکاح اور اہل و عیال کی مشغولیت میرے لئے کثرت ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ سے مانع نہیں ہوگی تو اس کے لئے نکاح افضل ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء امت کا عام حال یہی تھا، اور اگر اس کا اندازہ یہ ہے کہ نکاح اور اہل و عیال کے مشاغل اس کو دینی ترقی، کثرت ذکر وغیرہ سے روک دیں گے تو بحالت اعتدال اس کے لئے عبادت کے لئے خلوت گزینی اور ترک نکاح افضل ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس کی تطبیق پر شاہد ہیں ان میں ایک یہ ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اس میں یہی ہدایت ہے کہ انسان کے مال و اولاد اس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے کا سبب نہ بننے چاہئیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔- وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ، یعنی اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کرا دیا کرو۔ یہ خطاب ان کے آقاؤں اور مالکوں کو ہے اس جگہ صالحین کا لفظ اپنے لغوی معنے میں آیا ہے یعنی ان میں جو شخص نکاح کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہو اس کا نکاح کرا دینے کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے مراد اس صالحیت سے وہی ہے کہ بیوی کے حقوق زوجیت اور نفقہ و مہر معجل ادا کرنے کے قابل ہوں اور اگر صالحین کو معروف یعنی نیک لوگوں کے معنے میں لیا جائے تو پھر ان کی تخصیص بالذکر اس وجہ سے ہوگی کہ نکاح کا اصل مقصد حرام سے بچنے کا وہ صالحین ہی میں ہوسکتا ہے۔- بہرحال اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صلاحیت نکاح کی رکھنے والے ہوں ان کے نکاح کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ اپنی نکاح کی ضرورت ظاہر کریں اور خواہش کریں کہ ان کا نکاح کردیا جائے تو آقاؤں پر بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہوگا کہ ان کے نکاح کردیں اور جمہور فقہاء کے نزدیک ان پر لازم ہے کہ ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالیں بلکہ اجازت دیدیں کیونکہ مملوک غلاموں اور کنیزوں کا نکاح بغیر مالکوں کی اجازت کے نہیں ہوسکتا تو یہ حکم ایسا ہی ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ یعنی عورتوں کے اولیاء پر لازم ہے کہ اپنی زیر ولایت عورتوں کو نکاح سے نہ روکیں اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص منگنی لے کر آوے اور اخلاق آپ کو پسند ہوں تو ضرور نکاح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور وسیع پیمانے کا فساد پیدا ہوجائے گا۔ (رواہ الترمذی)- خلاصہ یہ ہے کہ یہ حکم آقاؤں کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اجازت نکاح دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ خود نکاح کرانا ان کے ذمہ واجب ہو یہ ضروری نہیں۔ واللہ اعلم - اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اس میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لئے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے دین کی حفاظت اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ منگنی لے کر جائیں کہ وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں۔- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اس میں آزاد اور غلام سب کو داخل فرمایا ہے اور نکاح کرنے پر ان سے غنا کا وعدہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ غناء عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی۔ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم غنی ہونا چاہتے ہو تو نکاح کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ (رواہ ابن جریرو ذکر البغوی عن عمر نحواہ۔ کثیر) - تنبیہ :- تفسیر مظہری میں ہے کہ مگر یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جبکہ نکاح کرنے والے کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ہو اس کی دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ۝ ٠ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِہِمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٣٢- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- أيم - الأَيَامَى: جمع أَيِّم، وهي المرأة التي لا بعل لها، وقد قيل للرجل الذي لا زوج له، وذلک علی طریق التشبيه بالمرأة فيمن لا غناء عنه لا علی التحقیق . والمصدر : الأَيْمَة، وقد آمَ الرجل وآمَتِ المرأة، وتَأَيَّمَ وتَأَيَّمَتْ ، وامرأة أَيِّمَة ورجل أَيِّم، والحرب مَأْيَمَة، أي : يفرق بين الزوج والزوجة، والأَيِّم : الحيّة .- ( ا ی م ) الایامیٰ ۔ یہ الایم کی جمع ہے اور آم الرجل وتایم کے معنی ہیں مرد رنڈا ہوگیا اور عورت کے بیوہ ہونے کے لئے آمت المبرءۃ وتایمت کہا جاتا ہے ۔ امرءۃ ایمۃ ۔ بیو عورت رجل ایم ۔ رنڈوا مرد الحرب مایمۃ جنگ مرد کو عورت سے الگ کردیتی ہے الایم ۔ سانپ ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - عبد ( غلام)- والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً- [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» «1» ، وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى «2» ، وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك .- ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ قسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ- [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ- [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ- [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- 354-- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو .- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نکاح کی ترغیب کا بیان - قول باری ہے : (وانکحوا الایامی منکم والصالحین من عبادکم واما ئکم اور تم میں سے جو مجردہوں اور تمہاری لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو) تاآخر آیت ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ایجاب کا مقتضی ہے۔ تاہم سلف اور فقہائے امصار کے اجماع کی دلالت اس بات پر قائم ہوچکی ہے کہ یہاں ایجاب مراد نہیں ہے بلکہ استحیاب مراد ہے۔ اگر یہ بات واجب ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف سے اس کے متعلق روایات بہت وسیع پیمانے پر استفاضہ کی صورت میں منقول ہوتیں۔ کیونکہ عمومی طور پر اس کی ضرورت تھی۔ لیکن جب ہمحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے اور آپ کے بعد کے زمانوں میں بہت سے مردوں اور عورتوں کو نکاح کے بغیر پاتے ہیں اور ترک نکاح پر کسی نکیر کی مثال بھی نہیں ملتی تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آیت میں ایجاب مراد نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک ثیبہ عورت بےنکاحی ہو تو اس کے ولی کو اسے نکاح پر مجبور کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ نیز اس کی اجازت کے بغیر اس کے نکاح کا بھی اسے اختیار نہیں ہوتا۔ آیت میں نکاح کرانے کا حکم استحباب پر محمول ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ آقا کو اپنی لونڈی اور غلام کے نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ حکم ایامی یعنی مجرد مردوں اور عورتوں کے حکم پر معطوف ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مجرد مردوں عورتوں نیز لونڈیوں، غلاموں کے نکاح کے بارے میں آیت کا حکم استحباب پر محمول ہے۔- تاہم ایسے عقد نکاح کے انعقاد پر آیت کی دلالت واضح ہے جو اس نکاح کا اختیار رکھنے والے کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ آیت میں نکاح کرانے کا حکم صرف ولی اور سرپرست کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کو ان مجردد عورتوں اور مردوں کے نکاح کرانے کی ترغیب دی گئی ہے جنہیں نکاح کی ضرورت ہو۔ اس لئے اگر عقد نکاح کے طرفین یعنی مرد اور عورت کے حکم سے اس کا انعقاد ہوا ہو تو یہ نافذ العمل ہوجائے گا۔ اگر طرفین کا تعلق ایسے افراد سے ہو جن کے لئے دوسرے لوگ عقد نکاح کر اسکتے ہوں خواہ وہ ان کے ولی بھی نہ ہوں اور نہ ہی ان کی طرف سے انہیں عقد نکاح کا حکم دیا گیا ہو مثلاً بچہ اور دیوانہ وغیرہ تو ان کا یہ عقد اس شخص کی اجازت پر موقوف ہوگا جسے اس عقد کا اختیار ہوگا آیت ایسے شخص کی اجازت پر نکاح کے جواز کی مقتضی ہے۔- یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اوپر بیان کردہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح کا معاملہ اولیاء یعنی سرپرستوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے عورتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ نیز اگر عورتیں اپنے لئے عقد نکاح کریں تو ان کا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ آیت نے نکاح کرانے کے حکم کو اولیاء کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے بلکہ اس حکم میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ آیت کا عموم تمام لوگوں کو مجرد مردوں عورتوں کے نکاح کرانے ک ی ترغیب کا مقتضی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایامیٰ کا لفظ مجردد مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔ مجرد مردوں کے نکاح کرانے کی ترغیب میں صرف اولیاء مراد نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہیں اس لئے مجرد عورتوں کے بارے میں بھی ایٓت کا مفہوم یہی ہوگا۔- ترغیب نکاح کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات - نکاح کی ترغیب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ ابن عجلان نے المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاثۃ حق علی اللہ عونھم المجاھد فی سبیل اللہ والمکاتب الذی یریدالاداء والتاکع الذی یرید العفاف۔ تین افراد ایسے ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہیں ۔ ایک تو وہ جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔ دوسرے وہ مکاتب جو اپنی کتابت کی رقم اتارنا چاہتا ہے اور تیسرے وہ شخص جو نکاح کے ذریعے گناہ سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے) ابراہیم نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ہمیں مخاطب کرکے فرمایا تھا : یا معشرالشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطع نعلیہ الصوم فانہ لہ وجاء ) اے گروہ جواناں تم میں سے جو شخص نکاح کرسکتا ہو وہ نکاح کرلے، اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کردیتے ہیں۔ نیز آپ نے فرمایا (اذا جاء کم من ترضون دینہ وخلقہ فروجوہ الا تفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر ) جو تمہارے پاس ایسا شخص پیغام نکاح لے کر آئے جس کا دین اور اخلاق تمہاری نظروں میں پسندیدہ ہو تو اسے رشتہ دے دو ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اس سے زمین میں بڑا فتنہ اور زبردست فساد پھیلے گا۔- شداد بن اوس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” میرا نکاح کرادو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں کنوارا بن کر اللہ کے سامنے نو جائوں۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قائع نے روایت بیان کی ہے، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں خلاد نے سفیان سے، انہوں نے عبدالرحمن بن زیاد سے انہوں نے عبدالہل بن مزید سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (الدنیا متاع وخیر متاعھا المراۃ الصالحۃ) دنیا تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، نیک بیوی دنیا کی بہترین متاع ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، انہیں بشر نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں سفیان نے ابراہیم بن میسرہ سے، انہوں نے عبید بن سعید سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (من احب فطرتی فلیستن ومن سنتی النکاح) جس شخص کو میری فطرت سے محبت ہو اسے چاہیے کہ میری سنت پر عمل کرے اور نکاح کرنا میری سنت میں داخل ہے۔- نکاح کرنے والے پر عمر (رض) کا فتویٰ- ابراہیم بن میسرہ نے کہا کہ میں تم سے نہ ہی کہتا ہوں جو حضرت عمر (رض) نے ابوالزوائد سے کہا تھا کہ ” تمہیں نکاح کرنے سے دو باتوں میں سے ایک بات روک رہی ہے یا تو تمہارے اندر طاقت نہیں ہے یا تم فسق وفجور میں مبتلا ہو۔ “- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : (وانکحوالایامی منکم) کا عموم اس بات کا مقتضی ہے کہ باپ اپنی بالغ باکرہ بیٹی کا نکاح کرادے۔ اگر اس بات پر دلالت موجود نہ ہوتی کہ باپ اپنی بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کراسکتا ہے تو آیت کے عموم کی روشنی میں اپنی بالغ لڑکی کا نکاح کرادیتا اس کے لئے جائز ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات واضح ہے کہ قول باری (وانکحوا الایامی منکم) عورتوں کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ اس میں مرد بھی شامل ہیں کیونکہ مرد کو ایم اور عورت کو ایمہ کہا جاتا ہے۔ ایم اس مرد کے لئے اسم ہے جس کی بیوی نہ ہو اور ایمہ اس عورت کے لئے اسم ہے جس کا شوہر نہ ہو ۔ شاعر کا قول ہے۔- فان تنکحی انکح وان تتایمی - وان کنت افتی منکم اتایم - اگر تو نکاح کرے گا تو میں بھی نکاح کروں گا اور اگر تو بےنکاحی رہے گی تو میں بھی نکاح کے بغیر ہوں گا اگرچہ میں تم تمام لوگوں سے بڑھ کر جوان ہوں۔- ایک اور شاعر کا قول ہے۔- ذرینی علم ایم منکم وناکح - تو مجھے اپنے کسی بن بیا ہے یا بیا ہے مرد کے مقابلہ میں چھوڑ کر تو دیکھ - حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آیت (وانکحوا الایامی منکم) کے نزول کے بعد جو شخص نکاح کے بغیر بیٹھا رہے مجھے اس جیسا درماندہ انسان کوئی نظر نہیں آتا، نکاح کے اندر مالداری تلاش کرو۔ “ جب ایم کا اسم مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے اور مردوں کے سلسلے میں ان کی اجازت سے انہیں نکاح کرانے کی بات آیت میں پوشیدہ ہے تو پھر عورتوں کے سلسلے میں اسی ضمیر یعنی پوشیدہ بات پر عمل کرنا واجب ہے۔- کنواری عورت کے نکاح کے لئے رائے معلوم کی جائے - نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہے کہ کنواری عورت سے نکاح کے معاملے میں اس کی رائے معلوم کی جائے چناچہ آپ نے فرمایا : البکر تستامر فی نفسھا واذنھا صما تھا۔ کنواری عورت سے اس کی ذات یعنی نکاح کے متعلق اس کی رائے معلوم کی جائے گی، اس کی خاموشی اس کی طرف سے اجازت کی علامت ہے۔ یہ قول اگرچہ خبر کی صورت میں ہے لیکن معنوی طور پر یہ امر ہے اور امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے اس لئے باکرہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرادینا جائز نہیں ہوگا۔ نیز محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا تنکح الیتمۃ الا یاذنھا فان سکت فھواذنھا وان ابت فلا جواز علیھا) یتیمہ سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کیا جائے گا اگر وہ خاموش رہے تو اس کی رضامندی کی علامت ہے اور اگر انکار کردے تو اس پر جبر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ نے یتیمہ سے کنواری عورت مراد لی ہے کیونکہ کنواری عورت ہی کی خاموشی اس کی رضامندی کی علامت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے جس میں ایک کنواری عورت کا ذکر ہے جس کے باپ نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرادیا تھا۔ یہ جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے لڑکی سے فرمایا (اجیزی ماصنع ابوک ) تمہارے باپ نے جو کیا ہے اسے برقرار رہنے ک یاجازت دے دو ۔ ہم اس مسئلے پر پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں۔ - غلام اور لونڈی کے نکاح کی اجازت آقا دے گا - قول باری ہے (والصالحین من عبادکم واماء کم) بس یہ دلالت موجود ہے کہ آقا کو اپنے غلام اور لونڈی کا ان کی اجازت کے بغیر نکاح کرا دینے کا اختیار حاصل ہے نیز اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غلام اور لونڈی کو آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینے کی اجازت نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا وہ زانی قرار پائے گا :“ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ غلام اور لونڈی نکاح کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ ان کا یہ اختیار ان کے آقا کو حاصل ہو جس طرح دوسرے تمام عقود کی کیفیت ہے کہ غلام اور لونڈی اپنی جانب سے ان عقود کا اختیار نہیں رکھتے لیکن ان کی جانب سے آقا کو ان کا اختیار ہوتا ہے۔- قول باری ہے : (ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ من فضلہ ) اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ یہ خبر کی صورت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر کو لامحالہ اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے گا۔ اس لئے اس خبر کا تعلق یا تو بعض افراد کے ساتھ خاص تسلیم کیا جائے گا کیونکہ ہماری نظروں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نکاح کرلیتے ہیں لیکن ان میں خوشحالی اور دولتمندی نہیں آتی یا پھر اس سے عفاف اور پاکدامنی کی بنا پر حاصل ہونے والا استغناء مراد لیا جائے گا۔ اگر اس سے خاص افراد مراد ہیں تو پھر یہ خبر ان مجرد اور آزاد لوگوں کے متعلق ہوگی جنہیں ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس ملکیت کی بنا پر وہ غنی بن جاتے ہیں۔ اگر اسے عام تسلیم کیا جائے تو اس خبر کے معنی یہ ہوں گے کہ ملک بضع یعنی عورت سے جائز جنسی لطف اندوزی کا سلسلہ قائم ہونے کی صورت میں ممنوع اور حرام جنسی سرگرمی سے انسان مستغنی ہوجاتا ہے اور یہ یاس کی دولتمندی ہے اس لئے آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ غلام اپنے نکاح کا مالک ہوتا ہے ۔ ہم نے سورة نحل میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢) اور تمہاری لڑکیوں اور بہنوں میں سے یا کہ تمہارے بیٹوں اور بھائیوں میں سے جو غیر شادی شدہ ہوں ان کی تم شادی کردیا کرو اور اسی طرح تمہارے غلام اور باندیوں میں جو نکاح کے لائق ہوں ان کا بھی نکاح کردیا کرو اور اگر وہ آزاد آدمی مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ آزاد و غلام کو روزی میں بہت وسعت والا اور ان کی روزی کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ ) ” - یہ بہت اہم حکم ہے۔ خصوصی طور پر ہمارے اس معاشرے کے لیے اس میں بہت بڑی راہنمائی ہے جہاں ہندوانہ رسم و رواج کے اثرات کے باعث بیوہ کا نکاح کرنا معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ خوشی سے کوئی شخص بھی نکاح نہیں کرنا چاہتا ۔- (وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآءِکُمْ ط) ” - تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو سمجھ دار ہوں اور ان کے کردار کے بارے میں بھی تمہیں اعتماد ہو ان کے آپس میں نکاح کردیا کرو۔ غلاموں اور کنیزوں کے نکاح ان کے آقاؤں کی اجازت سے ہوں گے اور جب کسی کنیز کا نکاح ہوجائے گا تو پھر اس کے آقا کو اس کے ساتھ تمتعّ کی اجازت نہیں ہوگی۔- (اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط) ” - چنانچہ یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان میں مہر وغیرہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں تو نکاح کیونکر کریں - (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ” - وہ بہت کشادگی والا ہے اور اپنے بندوں کے احوال واقعی سے بخوبی واقف بھی ہے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ کوئی انسان اپنی تنگ دستی کو اپنے نکاح کے راستے کی رکاوٹ نہ سمجھے۔ اسے امید رکھنی چاہیے کہ اس کی بیوی اپنی قسمت اور اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آئے گی اور یہ کہ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اس کے لیے رزق کا کوئی نیا دروازہ کھول دے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :50 اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں ۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی ، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو ، اور ہر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :51 یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو ، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے ۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا ، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے ، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی ، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری درحقیقت ایک مشیر ، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے ۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے ۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :52 بظاہر یہاں صیغۂ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے ۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہ یہ حکم وجوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں ۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے ، یعنی اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پر یہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے نہ بیٹھے رہیں ۔ خاندان والے ، دوست ، ہمسائے سب اس معاملے میں دلچسپی لیں ، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :53 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں ۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں ۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے ۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں ۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے ۔ بسااوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں ۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے ۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے ۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا ۔ اچھے حالات برے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور برے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: اس سورت میں جہاں بے حیائی اور بدکاری کو روکنے کے لیے مختلف احکام دئیے گئے ہیں، وہاں انسان کی فطرت میں جو جنسی خواہش موجود ہے، اس کو حلال طریقے سے پورا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، چنانچہ اس آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو بالغ مرد و عورت نکاح کے قابل ہوں، تمام متعلقین کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان کا نکاح ہوجائے، اور یہ اندیشہ نہ کرنا چاہئے کہ اگرچہ اس وقت تو وسعت موجود ہے، لیکن نکاح کے نتیجے میں بیوی بچوں کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے کہیں مفلسی نہ ہوجائے، بلکہ جب اس وقت نکاح کی وسعت موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر نکاح کرلینا چاہئے۔ پاک دامنی کی نیت سے نکاح کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ آئندہ اخراجات کا بھی مناسب انتظام فرما دے گا۔ البتہ اگلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے پاس اس وقت بھی نکاح کی وسعت نہیں ہے۔ ان کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان میں وسعت پیدا کرے، اس وقت تک وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں۔