مومنہ عورتوں کو تاکید یہاں اللہ تعالیٰ مومنہ عورتوں کو چند حکم دیتا ہے تاکہ ان کے باغیرت مردوں کو تسکین ہو اور جاہلیت کی بری رسمیں نکل جائیں ۔ مروی ہے کہ اسماء بنت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مکان بنوحارثہ کے محلے میں تھا ۔ ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے زیور ، سینے اور بال کھولے آیا کرتی تھیں ۔ حضرت اسماء نے کہا یہ کیسی بری بات ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں ۔ سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہئے ۔ اجنبی مردوں کی طرف تو دیکھنا ہی حرام ہے خواہ شہوت سے ہو خواہ بغیر شہوت کے ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے ۔ یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پردہ کر لو ۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ وہ تو نابینا ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے ، نہ پہچانیں گے ۔ آپ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو کہ اس کو نہ دیکھو ؟ ہاں بعض علماء نے بےشہوت نظر کرنا حرام نہیں کہا ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ عید والے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کئے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا آپ دیکھ ہی رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں ۔ عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہئے ، بدکاری سے دور رہیں ، اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں ۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کاچھپانا ممکن ہی نہ ہو ، اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں ، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کردی ہے ۔ جب کہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ ۔ فرماتے ہیں زینت دو طرح کی ہے ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن اور دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا ۔ زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہوجائیں تو پکڑ نہیں ۔ اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ما ظہر منہا کی تفیسر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو ۔ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں ۔ لیکن یہ مرسل ہے ۔ خالد بن دریک رحمۃاللہ علیہ اسے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المومنین سے ملاقات کرنا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے ۔ جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا ۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں ۔ ایک اور آیت میں ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں ۔ خمر خمار کی جمع ہے خمار کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے ۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے بھی خمار کہتے ہیں ۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے ۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں ، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے ، وہ بیشک قابل قدر ہے ۔ سورہ نور کی آیت ( ولیضربن بخمرھن ) جب نازل ہوئی اور ان کے مردوں نے گھر میں جاکر یہ آیت انہیں سنائی ، اسی وقت ان عورتوں نے اس پر عمل کر لیا اور صبح کی نماز میں وہ آئیں تو سب کے سروں پر دوپٹے موجود تھے ۔ گویا ڈول رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد ان مردوں کا بیان فرمایا جن کے سامنے عورت ہوسکتی ہے اور بغیر بناؤ سنگھار کے ان کے سامنے شرم وحیا کے ساتھ آجاسکتی ہے گو بعض ظاہری زینت کی چیزوں پر بھی ان کی نظر پڑ جائے ۔ سوائے خاوند کے کہ اس کے سامنے تو عورت اپنا پورا سنگھار زیب زینت کرے ۔ گو چچا اور ماموں بھی ذی محرم ہیں لیکن ان کا نام یہاں اس لئے نہیں لیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے محاسن بیان کریں ۔ اس لئے ان کے سامنے بغیر دوپٹے کے نہ آنا چاہئے ۔ پھر فرمایا تمہاری عورتیں یعنی مسلمان عورتوں کے سامنے بھی اس زینت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ۔ اہل ذمہ کی عورتوں کے سامنے اس لئے رخصت نہیں دی گئی کہ بہت ممکن ہے وہ اپنے مردوں میں ان کی خوبصورتی اور زینت کا ذکر کریں ۔ گو مومن عورتوں سے بھی یہ خوف ہے مگر شریعت نے چونکہ اسے حرام قرار دیا ہے اس لئے مسلمان عورتیں تو ایسا نہ کریں گی لیکن ذمی کافروں کی عورتوں کو اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے ؟ بخاری مسلم میں ہے کہ کسی عورت کو جائز نہیں کہ دوسری عورت سے مل کر اس کے اوصاف اپنے خاوند کے سامنے اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسلمان عورتیں حمام میں جاتی ہیں ، ان کے ساتھ مشرکہ عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ سنو کسی مسلمان عورت کو حلال نہیں کہ وہ اپناجسم کسی غیر مسلمہ عورت کو دکھائے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بھی آیت ( اونساءھن ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے مسلمان عورتیں ہیں تو ان کے سامنے وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو اپنے ذی محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ۔ یعنی گلابالیاں اور ہار ۔ پس مسلمان عورت کو ننگے سر کسی مشرکہ عورت کے سامنے ہونا جائز نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ بیت المقدس پہنچے تو ان کی بیویوں کے لئے دایہ یہودیہ اور نصرانیہ عورتیں ہی تھیں ۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے تو محمول ہوگا ضرورت پر یا ان عورتوں کی ذلت پر ۔ پھر اس میں غیر ضروری جسم کا کھلنا بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ہاں مشرکہ عورتوں میں جو لونڈیاں باندیاں ہوں وہ اس حکم سے خارج ہیں ۔ بعض کہتے ہیں غلاموں کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس انہیں دینے کے لیے ایک غلام لے کر آئے ۔ حضرت فاطمہ اسے دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے دو پٹے میں چھپانے لگیں ۔ لیکن چونکہ کپڑا چھوٹا تھا ، سر ڈھانپتی تھیں تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھانپتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا بیٹی کیوں تکلیف کرتی ہو میں تو تمہارا والد ہوں اور یہ تمہارا غلام ہے ۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اس غلام کا نام عبداللہ بن مسعدہ تھا ۔ یہ فزاری تھے ۔ سخت سیاہ فام ۔ حضرت فاطمۃالزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں پرورش کر کے آزاد کر دیا تھا ۔ صفین کی جنگ میں یہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت مخالف تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا ۔ تم میں سے جس کسی کا مکاتب غلام ہو جس سے یہ شرط ہوگئی ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تو آزاد ، پھر اس کے پاس اتنی رقم بھی جمع ہوگئی ہو تو چاہئے کہ اس سے پردہ کرے پھر بیان فرمایا کہ نوکر چاکر کام کاج کرنے والے ان مردوں کے سامنے جو مردانگی نہیں رکھتے عورتوں کی خواہش جنہیں نہیں ۔ اس مطلب کے ہی وہ نہیں ، ان کا حکم بھی ذی محرم مردوں کا ہے یعنی ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اظہار میں مضائقہ نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سست ہوگئے ہیں عورتوں کے کام کے ہی نہیں ۔ لیکن وہ مخنث اور ہیجڑے جو بد زبان اور برائی کے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا یہ حکم نہیں ۔ جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک ایسا ہی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آیا تھا چونکہ اسے اسی آیت کے ماتحت آپ کی ازواج مطہرات نے سمجھا اسے منع نہ کیا تھا ۔ اتفاق سے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ، اس وقت وہ حضرت ام سلمہ کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب طائف کو فتح کرائے گا تو میں تجھے غیلان کی لڑائی دکھاؤں گا کہ آتے ہوئے اس کے پیٹ پر چار شکنیں پڑتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے آٹھ نظر آتی ہیں ۔ اسے سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیا کرو ۔ اس سے پردہ کر لو ۔ چنانچہ اسے مدینے سے نکال دیا گیا ۔ بیداء میں یہ رہنے لگا وہاں سے جمعہ کے روز آجاتا اور لوگوں سے کھانے پینے کو کچھ لے جاتا ۔ چھوٹے بچوں کے سامنے ہونے کی اجازت ہے جو اب تک عورتوں کے مخصوص اوصاف سے واقف نہ ہوں ۔ عورتوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں نہ پڑتی ہوں ۔ ہاں جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان میں تمیز آجائے ۔ عورتوں کی خوبیاں ان کی نگاہوں میں جچنے لگیں ، خوبصورت بد صورت کا فرق معلوم کرلیں ۔ پھر ان سے بھی پردہ ہے گو وہ پورے جوان نہ بھی ہوئے ہوں ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو عورتوں کے پاس جانے سے بچو پوچھا گیا کہ یارسول اللہ دیور جیٹھ ؟ آپ نے فرمایا وہ تو موت ہے ۔ پھر فرمایا کہ عورتیں اپنے پیروں کو زمین پر زور زور سے مار مار کر نہ چلیں جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے ۔ اسلام نے اس سے منع فرما دیا ۔ پس عورت کو ہر ایک ایسی حرکت منع ہے جس سے اس کا کوئی چھپا ہوا سنگھار کھل سکے ۔ پس اسے گھر سے عطر اور خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی ممنوع ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک عورت خوشبو سے مہکتی ہوئی ملی ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ آپ نے فرمایا ۔ میں نے اپنے حبیب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اس مسجد میں آنے کے لئے خوشبو لگائے ، اس کی نماز نا مقبول ہے جب کہ وہ لوٹ کر جنابت کی طرح غسل نہ کر لے ۔ ترمذی میں ہے کہ اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں نور نہ ہو ۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں عورتوں کو راستے میں ملے جلے چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا عورتو تم ادھر ادھر ہو جاؤ ، تمہیں بیچ راہ میں نہ چلنا چاہئے ۔ یہ سن کر عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے مومنو میری بات پر عمل کرو ، ان نیک صفتوں کو لے لو ، جاہلیت کی بدخصلتوں سے رک جاؤ ۔ پوری فلاح اور نجات اور کامیابی اسی کے لئے ہے جو اللہ کا فرمانبردار ہو ، اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاتا ہو ، اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔
3 1 1یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی خلاف ورزی بھیتم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کرلیا تو لازمی کامیابی اور دنیا اور آخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے۔
[٤١] بعض علماء نے قرآن کریم کے الفاظ (اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا 31) 24 ۔ النور :31) سے یہ مراد لی ہے کہ حجاب سے چہرہ اور ہاتھ مستثنیٰ ہیں۔ یعنی عورتوں کو غیر مردوں سے بھی چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی ضرورت نہں۔ یہ توجیہہ درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے :- ١۔ اس آیت میں احکام حجاب کی رخصتوں کا ذکر ہے نہ کہ احکام حجاب کی پابندیوں کی۔ یعنی ذکر تو یہ چل رہا ہے کہ فلاں فلاں ابدی محرم رشتہ داروں سے بھی حجاب کی ضرورت نہیں، اپنی عورتوں سے بھی لونڈیوں سے بھی، خدام اور نابالغ بچوں سے بھی اظہار زینت اور حجاب پر کوئی پابندی نہیں۔ اب دیکھئے اس آیت میں کہیں عام لوگوں یا غیر مردوں کا ذکر آیا ہے کہ ان سے بھی اظہار زینت پر کوئی پابندی نہیں ؟ لہذا اگر ان حضرات کے مصداق ماظہر مہنا سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہی لے لئے جائیں تو بھی چنداں فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس آیت میں مذکور اشخاص کے سامنے ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہی کا تو ذکر ہے۔- ٢۔ اس بات کے باوجود بھی یہ توجیہہ غلط ہے کیونکہ ماظَھَرَ مِنْھَا سدھا کی ضمیر زِیْنَتَھُنَّ کی طرف راجع ہے جو کہ قریب ہی مذکور ہے، نہ کہ اعصائے بدن کی طرف جن کا یہاں ذکر ہی موجود نہیں۔ اور اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس زینت سے از خود ظاہر ہوجائے۔ گویا اللہ تعالیٰ عورتوں کو تکلیف مالا بطاق نہیں دینا چاہتے۔ یعنی اگر جلباب یا بڑی چادر یا برقعہ کسی وقت ہوا سے اٹھ جائے یا غفلت یا کسی دوسرے اتفاق کی بنا پر عورت کا زیور یا زینت یا اس کا کچھ حصہ ظاہر ہوجائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اکثر صحابہ اور تابعین نے ماظَھَرَ مِنْھَا سے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔- ٣۔ پیچھے واقعہ افک میں ایک طویل حدیث، جو حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے، گزر چکی ہے۔ اس میں وہ خود فرماتی ہیں کہ میں نے صفوان بن معطل سلمی کو جب بیدار ہو کر اپنے پاس کھڑا دیکھ تو میں نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ کیونکہ اس سے پہلے ( سورة احزاب میں) پردہ کا حکم نازل ہوچکا تھا۔ پھر بعد میں کیا یہ حکم منسوخ ہوگیا تھا ؟ کیا کچھ شواہد و آثار ایسے ملتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا تھا ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہو اور یقیناً نفی میں ہے تو پھر اس جملہ کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ چہرہ اور ہاتھ پردہ کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔- ٤۔ تمام بدن میں چہرہ ہی ایسا عضو ہے جس میں غیروں کے لئے دلکشی کا سب سے زیادہ سامان ہوتا ہے۔ پھر اگر اسے ہی پردہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو باقی احکام حجاب کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے ؟- اب اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام تر صحابہ کرام (رض) میں سے حضرت ابن عباس نے، پھر ان کے شاگردوں نے، پھر بعض فقہائے حنفیہ نے (اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا 31) 24 ۔ النور :31) سے یہ مراد لیا ہے کہ ہاتھ اور چہرہ حکم حجاب سے خارج ہیں اور یہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر منکرین حجاب اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ حالانکہ ان اصحاب کا یہ موقف بھی منکرین حجاب کے کام کی چیز نہیں وجہ یہ ہے کہ ابن عباس (رض) (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ 59) 33 ۔ الأحزاب :59) مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں۔- ابن عباس (رض) اور ابو عبیدہ نے فرمایا مومنوں کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ چادروں سے اپنے سر اور چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں مگر ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہیں تاکہ معلوم ہوسکتے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں (معالم التنزیل بحوالہ تفہیم القرآن ج ٣ ص ١٢٩)- اسی طرح کی ایک دوسری روایت یہ ہے کہ علی بن ابی طلحہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے کسی ضرورت کے تحت نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور (صرف) ایک آنکھ ظاہر کریں (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٣١٨، جامع البیان للطہری ص ٣٣ مطبوعہ مصر)- اور یہ تو ظاہر ہے کہ جلباب کا تعلق گھر کے باہر کی دنیا سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) گھر سے باہر مکمل پردہ (یعنی چہرہ سمیت کے قائل تھے، ان کے موقف میں اگر کچھ لچک ہے تو وہ گھر کے اندر کی دنیا سے ہے یعنی اگر گھر کے اندر ایسے رشتہ دار آجائیں جو محرم نہیں تو ان سے ہاتھ اور چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں لہذا آج کے مذہب اور پردہ کے مخالف طبقہ کے لئے ابن عباس (رض) کا یہ موقف بھی کچھ زیادہ سود مند نہیں۔- [٤٢] بدن کی قدرتی زیبائش میں سب سے زیادہ نمایاں چیز عورت کے سینہ کا ابھار یا اس کے پستان ہیں۔ جو مرد کے لئے خاصی کشش رکھتے ہیں۔ لہذا سینہ کو ڈھانپنے کی بطور خاص تاکید فرمائی۔ اور جاہلیت کی رسم کو ختم کرنے کی صورت بھی بتلا دی۔ جاہلیت میں عورتیں اپنے خماد (دوپٹے) سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر لٹا لیتی تھیں۔ اس طرح سینہ پر کوئی چیز نہ ہوتی تھی اور یہ بھی گویا حسن کا مظاہرہ یا نمائش تھی۔ اور آج کی مہذب سوسائٹی میں اول تو ہماری یہ مذہب عورتیں دوپٹہ لینا گوارا ہی نہیں کرتیں اور اگر لیں تو دوپٹہ کو گلے میں ڈال کر اس کے پہول پیچھے پشت پر ڈال دیتی ہیں۔ اس طرح سر اور سینہ دونوں ننگے رہتے ہیں۔ التبہ دوپٹہ کا نام ضرور بدنام کیا جاتا ہے۔ اور مقصود اس سے بھی سینہ کے ابھار کی نمائش اور مردوں کے لئے پرکشش بنے رہنا ہوتا ہے۔ گویا آج اس نئی روشنی اور ترقی میں پرانے دور جاہلیت سے بھی زیادہ جاہلیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے یہ طریقہ بتلایا کہ دوپٹہ کو سر پر سے لا کر گریبان پر ڈالنا چاہئے اس طرح سر، کان، گردن، سینہ سب اعضاء چھپے رہتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مدینہ کی عورتوں نے اپنے تہبند (یعنی موٹا کپڑا) پھاڑ کر اس کی اوڑھنیاں بنالیں (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا اس حکم پر انہوں نے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔- [٤٣] قرآن کریم میں اس مقام اور بعض دوسرے مقامات پر بارہ قسم کے لوگوں یا رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے۔ جن سے حجاب کی ضرورت نہیں۔ البتہ سزا کے احکام بدستور برقرار رہیں گے۔ بالفاظ دیگر ان مذکورہ بارہ قسم کے لوگوں یا رشتہ داروں کے سامنے عورتیں اپنی زیب وزینت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ ان میں آٹھ یہاں مذکور ہیں۔ اور یہ رشتہ دار ایسے ہیں جو ابدی طور پر محرم ہیں ہیں یعنی خاوند، باپ، سسر، حقیقی بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔ پھر ان میں وہ رشتہ دار بھی شامل ہوجاتے ہیں جو رضاعت کی بنا پر حرام ہوں مثلاً رضاعی باپ، رضاعی بھائی یا رضاعی بیٹے اور چچے وغیرہ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نساء کی آیت نمبر ٢٣ سے استسہاء کرکے نسب اور رضاعت کو ایک ہی سطح پر رکھ کر فرمایا کہ جو رشتے نسب کے لحاظ سے حرام ہیں وہی رضاعت کے لحاظ سے بھی حرام ہیں (بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب الشہادت علی الانساب والرضاعت)- [٤٤] قرآن کریم کے الفاظ میں اَوْنِسَا ئِھِنَّ (یا اپنی عورتوں سے بھی اظہار زیب وزینت میں بھی کوئی حرج نہیں) یہ نویں قسم ہوئی اور اپنی عورتوں سے مراد آپس میں میل ملاقات رکھنے والی مسلمان عورتیں ہیں جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی پہچانتی اور ایک دوسرے پر اعتبار رکھتی ہوں۔ وہی دوسری غیر مسلم، مشتبہ اور ان حالی عورتیں تو ایسی عورتوں سے اپنی زیب وزینت چھپانے اور حجاب کا ایسا ہی حکم ہے۔ جیسے غیر مردوں سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قحبہ گری کی دلالی بھی کرتی ہیں۔ نوخیز اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے دام تیز دیر میں پھنسا کر غلط راہوں پر ڈال کر شیطان کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔ اور ایک گھر کے بھید کی باتیں دوسرے گھر میں بیان کرکے فحاشی پھیلاتی اور اس کی راہوں ہموار کرتی ہیں۔ ایسی بدمعاشی قسم کی عورتوں سے پرہیز کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا تمام ان جانی اور غیر مسلم عورتوں یا غیر عورتوں سے بھی حجاب کا حکم دیا گیا۔ بلکہ ایسی عورتوں کو گھروں میں داخلہ پر بھی ایسے ہی پابندی لگانا ضروری ہے جیسے غیر مردوں کے لئے ضروری ہے۔- علاوہ ازیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہیجڑوں، مخنث، یا زنانہ وضع قطع رکھنے والے مردوں سے بھی حجاب کا حکم دیا ہے۔ دور نبوی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ حضرت ام سلمہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ گھر میں ایک ہیجڑا تھا۔ وہ حضرت سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی ربیعہ سے کہنے لگا : اگر اللہ نے کل طائف فتح کرا دیا تو میں تمہیں عیلان کی بیٹی کی نشاندہی کروں گا وہ اگر سامنے آتی ہے تو چار بٹیں لے کر اور پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ بٹیں لے کر (یعنی اس کا بدن خوب گتھا ہوا ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات سن لی تو فرمایا : یہ ہیجڑا آئندہ کبھی تمہارے ہاں نہ آیا کرے (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب مانیہئی من الدخول)- یہ مخنث (خسرا) ہیجڑا یا زنانہ) چونکہ عورتوں کے امور سے دلچسپی رکھتا تھا۔ لہذا آپ نے اس سے حجاب کا حکم دیا اور داخلہ پر پابندی لگا دی۔- [٤٥] دسویں قسم جن میں اپنی زیب وزینت چھپانے میں کوئی حرج نہیں وہ عورتوں کی اپنی کنیزیں ہیں۔ جن کی وہ خود یا ان کے خاوند مالک ہوں۔- [٤٦] تابعین سے مراد مطیع و عنقاء۔ نوکر چاکر اور شاگرد قسم کے لوگ ہیں۔ یہ گیارہویں قسم ہوئی۔ مگر ایسے لوگوں سے زیب وزینت کے اظہار کی رخصت صرف اس صورت میں ہے۔ کہ انھیں ہمبستری کی خواہش ہی نہ ہو۔ اور خواہش کا نہ ہونا یا شہوانی جذبات کا بیدار ہونا بچپن کا وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے بھی۔ بیماری یا نامردی کی وجہ سے بھی اور مالک کی عزت اور وقار کی وجہ سے بھی یعنی یہ خدام اپنی مالکہ سے ایسی بات کا تصور تک بھی نہ کرسکتے ہوں اور اپنے کام سے ہی غرض رکھیں اور اگر یہ خطرہ ہو کہ ایسے لوگوں کے شہوانی جذبات کسی وقت بھی بیدار ہوسکتے ہیں تو پھر ان سے یہ رخصت ختم ہوجاتی ہے۔ ان پر حجاب کے احکام لاگو ہوجاتے ہیں اور ان کے سامنے اظہار زیب وزینت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لہذا ایسے جوان ڈرائیور، خانسامے، اور بیرے وغیرہ سے حجاب کی رخصت کی کوئی گنجائش نہیں، بالخصوص اس صورت میں کہ ان کی شادی بھی ابھی نہ ہوئی ہو۔ - [٤٧] یعنی عورتیں اس انداز سے اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں یا رکھ کر نہ چلیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار سنائی دینے لگے اور یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے کیا کچھ زیور پہن رکھے ہیں۔ اگر وہ ایسے ہی چھن چھن کرتے ہوئے چلے گی تو کیا معلوم اس کا پاؤں زمین پر پڑنے کے ساتھ ساتھ کسی عاشق مزاج کے دل پر بھی جاپڑے۔ اس قسم کی آواز بسا اوقات صورت دیکھنے سے بھی زیادہ شہوانی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے۔- [٤٩] یعنی دور جاہلیت میں اور بالخصوص ان کے مشہور میلوں کے موقع پر جس قدر فحش حرکات تم سے سرزد ہوچکی ہیں۔ ان سے اللہ کے حضور توبہ کرو۔ مرد ہوں یا عورتیں سب کے سب لوگ ساتھ اطوار چھوڑ کر آئندہ ان باتوں اور ایسی حرکتوں سے کل اجتناب کرنا چاہئے اسی طرح تمہاری معاشرہ فواحش سے پاک ہوسکتا ہے اور تمہاری دین و دنیا میں کامیابی کا انحصار ان باتوں پر پوری طرح عمل پیرا ہوجانے پر ہے۔
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ۔۔ : عورتوں کو بھی اسی طرح اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا جیسے مردوں کو یہ حکم دیا، مگر عورتوں پر مردوں کو نہ دیکھنے کی اتنی سختی نہیں جتنی مردوں پر عورتوں کے دیکھنے کے بارے میں ہے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنی چادر کے ساتھ مجھے پردے میں لیے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی، وہ (برچھوں کے ساتھ) کھیل رہے تھے، یہاں تک کہ میں ہی اکتا جاتی، تو ایک نو عمر لڑکی کا اندازہ کرلو جو کھیل دیکھنے کی شوقین ہو۔ “ [ بخاري، النکاح، باب نظر المرأۃ إلی الحبش۔۔ : ٥٢٣٦ ] یعنی اندازہ لگا لو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لیے کتنی دیر کھڑے رہے ہوں گے۔ فاطمہ بنت قیس (رض) کو ان کے خاوند نے تیسری طلاق دے دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں فرمایا : ” ام شریک کے گھر رہ کر عدت گزارو۔ “ پھر فرمایا : ” اس عورت کے پاس میرے صحابہ کثرت سے آتے ہیں (کیونکہ وہ مال دار اور بہت مہمان نواز خاتون تھی) ، اس لیے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، تم اپنے کپڑے بھی نیچے رکھ سکو گی۔ “ [ مسلم، الطلاق، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا : ٣٨؍١٤٨٠ ] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر شہوانی خیال نہ ہو تو عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ پردے کا حکم عورتوں کو ہے، تاکہ مرد انھیں نہ دیکھیں، مردوں کو نہیں کہ عورتیں انھیں نہ دیکھیں۔ البتہ اگر شہوت کے ساتھ ہو تو عورتوں کو بھی مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے، جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔ - 3 سنن ابی داؤد اور بعض دوسری کتب احادیث میں ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس میمونہ (رض) بھی تھیں تو ابن ام مکتوم (رض) آئے اور یہ واقعہ ہمیں حجاب کا حکم ہونے کے بعد کا ہے۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس سے حجاب کرو۔ “ ہم نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں کہ نہ ہمیں دیکھتا ہے، نہ ہمیں پہچانتا ہے ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَ فَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا ؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب في قولہ عزوجل : ( و قل للمؤمنات ۔۔ ) : ٤١١٢ ] ” تو کیا تم بھی اندھی ہو ؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتیں “ اس حدیث سے عورتوں کا آنکھوں والے مردوں کو ہی نہیں نابینا مردوں کو دیکھنا بھی منع ثابت ہوتا ہے، مگر امام ابوداؤد (رض) نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کی خصوصیت ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ بنت قیس (رض) کو ابن ام مکتوم (رض) کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ ہمارے ایک شیخ اس کی یہ توجیہ فرماتے تھے کہ نابینا آدمی اپنے ستر کا خیال نہیں رکھ سکتا، نہ اسے اپنا ستر کھلنے کا پتا چل سکتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کا حکم دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں، چناچہ شیخ البانی (رض) نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں ایک راوی نبہان مولیٰ ام سلمہ ہے، اسے تقریب میں ” مقبول “ کہا گیا ہے اور حافظ ابن حجر (رض) نے تقریب کے مقدمہ میں خود فرمایا ہے کہ جس راوی کے متعلق وہ مقبول کہیں، اگر کسی حدیث میں اس کی متابعت ہو تو وہ مقبول ہے، ورنہ ” لین الحدیث “ ہے۔ اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر بتخریج ابن کثیر ]- وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا : چونکہ مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) [ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ۔۔ : ٥٠٩٦، عن أسامۃ بن زید ] ” میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔ “ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے علاوہ اپنی زینت چھپانے کا بھی حکم دیا، چناچہ فرمایا کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ (ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ) اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے۔ زینت کا معنی جمال اور حسن ہے۔ یہ دو قسم کی ہے، ایک فطری حسن و جمال اور دوسری جو بناؤ سنگار، زیبائش و آرائش اور زیور وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ لباس بھی زینت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ) [ الأعراف : ٣١ ] ” ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔ “ اس میں زینت کا معنی لباس ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں اپنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہوجائے، یعنی انھیں اپنے بدن اور اس کے بناؤ سنگار میں سے کوئی چیز ظاہر کرنا جائز نہیں مگر وہ کپڑے جنھیں چھپایا جا ہی نہیں سکتا، یا وہ زینت جو کسی کام یا حرکت کی وجہ سے بےاختیار ظاہر ہوجائے۔ ” الصحیح المسبور من التفسیر بالمأثور “ میں ہے : ” طبری نے صحیح اسانید کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”(وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ ) قَالَ ھِيَ الثِّیَابُ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ” وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے “ اس سے مراد کپڑے ہیں۔ “ حاکم نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ (مستدرک حاکم : ٢؍٣٩٧، ح : ٣٤٩٩) اور طبرانی (٩١١٦) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (٧؍٨٢) میں فرمایا : ” طبرانی نے اسے کئی اسانید کے ساتھ مطول اور مختصر روایت کیا ہے، جن میں سے ایک سند کے راوی صحیحین (بخاری و مسلم) کے راوی ہیں۔ “ - بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ بالیاں، کنگن، انگوٹھی، سرمہ اور منہدی بھی شامل کردی ہے اور یہ کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور ہتھیلیاں مع زیور و آرائش وہ زینت ہے جو عورتوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ابن عباس (رض) کا قول پیش کرتے ہیں کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ابن عباس (رض) کا قول پورا پیش کرتے ہیں اور نہ پردے کے متعلق ان کے دوسرے اقوال پیش نظر رکھتے ہیں۔ چہرے کے پردے کے متعلق ابن عباس (رض) کا موقف طبری نے مشہور حسن سند (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) کے ساتھ بیان کیا ہے، لطف یہ ہے کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر جو چہرے کے پردے کے منکر ابن عباس (رض) سے نا مکمل بیان کرتے ہیں، وہ بھی اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔ ابن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) [ الأحزاب : ٥٩ ] (اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : ( أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ فِيْ حَاجَۃٍ أَنْ یُّغَطِّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ مِنْ فَوْقِ رُءُ وْسِھِنَّ بالْجَلَابِیْبِ وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً ) [ طبري : ٢٨٨٨٠]” اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ “ ایسا شخص جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے مومن عورتوں کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کو اللہ کا حکم قرار دیتا ہے وہ عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو اپنوں اور بیگانوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟ - حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود اور ابن عباس (رض) کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں۔ عبداللہ بن مسعود نے ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر اجنبیوں کے اعتبار سے فرمائی ہے اور ابن عباس (رض) نے ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر اپنے لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے۔ ابن مسعود (رض) کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں کے سامنے ظاہری کپڑوں کے سوا کوئی زینت ظاہر نہ کریں اور ابن عباس (رض) کا مطلب یہ ہے کہ ” زینت ظاہرہ “ (چہرہ اور ہاتھ) خاوند کے علاوہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ظاہر کرسکتی ہیں، جس میں سرمہ، منہدی، بالیاں، کنگن، ہار سب کچھ شامل ہے۔ ان محرموں کا بیان آگے فرما دیا : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ) [ النور : ٣١ ] البتہ زینت باطنہ (پیٹ، سینہ، ران اور مخفی حصے) صرف خاوند کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں۔ اب آپ ابن عباس (رض) کی ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی مکمل تفسیر پڑھیں، جس کا صرف شروع کا حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ طبری نے (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس سے) حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آیت : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) کے متعلق ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( وَالزِّیْنَۃُ الظَّاھِرَۃُ : الْوَجْہُ وَ کُحْلُ الْعَیْنِ وَ خِضَابُ الْکَفِّ وَ الْخَاتَمُ ، فَھٰذِہِ تَظْھَرُ فِيْ بَیْتِھَا لِمَنْ دَخَلَ مِنَ النَّاسِ عَلَیْھَا ) [ طبري : ٢٦١٧٠ ]” زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ، آنکھ کا سرمہ، ہتھیلی کی منہدی اور انگوٹھی ہے، چناچہ وہ یہ چیزیں اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے جو اس کے پاس اندر آتے ہیں۔ “ ابن عباس (رض) پر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ وہ یہ زینت گھر کے اندر اپنے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ حضرات سرمہ و منہدی، گلے کے ہار اور کنگن اور انگوٹھی سمیت چہرے اور ہتھیلیوں کو اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے کھلا رکھنے کو ابن عباس (رض) کا قول قرار دے رہے ہیں۔ [ فَیَا لِلْعَجَبِ وَلِضَیْعَۃِ الْأَدَبِ ]- 3 اب قرآن مجید اور احادیث و آثار سے چہرے کے پردے کے چند دلائل بیان کیے جاتے ہیں :- 1 سب سے پہلے زیر تفسیر آیت ہی کو دیکھیں، اس میں ” وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ ) ” اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں “ گریبان پر پہلے ہی قمیص کا کپڑا موجود ہوتا ہے، اس کے باوجود اس پر اوڑھنی کا حکم دیا ہے، اب چہرے کے پردے کے منکر خود ہی غور فرمائیں کہ عورت کے حسن و جمال کے اصل مرکز چہرے کو مع سرمہ و زیور تو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو مرد کے لیے سراسر فتنہ ہے اور سینہ جس پر قمیص بھی تھی اسے مزید اوڑھنی کے ساتھ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا۔ - 2 طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس (رض) کا ایک قول نقل کیا ہے جو اللہ کے فرمان ” اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ “ کے متعلق ہے، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ( فَھٰذَا الرَّجُلُ یَتْبَعُ الْقَوْمَ وَھُوَ مُغَفَّلٌ فِيْ عَقْلِہِ لَا یَکْتَرِثُ للنِّسَاءِ وَلَا یَشْتَھِیْھِنَّ فَالزِّیْنَۃُ الَّتِيْ تُبْدِیْھَا لِھٰؤُلَاءِ قُرْطَاھَا وَ قِلَادَتُھَا وَ سِوَارُھَا وَ أَمَّا خَلْخَالُھَا وَ مِعْضَدَاھَا وَ نَحْرُھَا وَ شَعْرُھَا فَإِنَّھَا لَا تُبْدِیْہِ إِلَّا لِزَوْجِھَا ) [ طبري : ٢٦١٩٤ ] ” تو یہ وہ آدمی ہے جو کچھ لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ عقل کا بدھو ہے، نہ اسے عورتوں کی پروا ہے نہ ان سے کوئی جنسی حاجت، تو وہ زینت جو ان لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہے وہ اس کی بالیاں، ہار اور کنگن ہیں، رہی اس کی پازیب، بازو، سینہ اور بال تو وہ صرف خاوند کے سامنے کھول سکتی ہے۔ “ - ” وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ “ میں پاؤں کو زور سے زمین پر مارنے سے منع کیا کہ مردوں کو ان کے زیور کی آواز سے شہوانی خیال پیدا نہ ہو۔ اب ایک عورت جو معلوم نہیں جوان ہے یا بوڑھی، خوبصورت ہے یا بدصورت، اس کی پازیب کی آواز دلوں میں خرابی پیدا کرتی ہے اور اسے چھپائے رکھنے کا حکم ہے، تو چہرہ جس پر کسی عورت کے خوبصورت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہوگیا ؟- (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ) [ الأحزاب : ٥٩ ] ” اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ “ اس آیت کی تفسیر ابن عباس (رض) سے اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں ( اگر راستہ وغیرہ دیکھنے کی ضرورت ہو، ورنہ وہ بھی نہیں) ۔ اس آیت سے استدلال کی مزید تفصیل کے لیے سورة احزاب ملاحظہ فرمائیں۔ - (وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ) [ النور : ٦٠ ] ” اور عورتوں میں سے بیٹھ رہنے والیاں، جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار دیں، جب کہ وہ کسی قسم کی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں اور یہ بات کہ (اس سے بھی) بچیں ان کے لیے زیادہ اچھی ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ استدلال کی تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر دیکھیے۔- 6 (لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَاۗىِٕـهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّـقِيْنَ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا ) [ الأحزاب : ٥٥ ] ” ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو ) اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔ “ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اجنبیوں سے حجاب کا حکم دیا تو وضاحت فرما دی کہ ان اقارب سے حجاب نہیں، جیسا کہ سورة نور کی آیت (٣١) : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ ) میں وضاحت فرمائی ہے، جب ان اقارب سے پردہ نہ کرنے میں گناہ نہیں تو معلوم ہوا کہ اجنبیوں سے پردہ نہ کرنے میں گناہ ہے۔ “ - 7 احادیث سے بھی عورتوں کے لیے پردے کا حکم ثابت ہے، یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں، اس سے پہلے صحیح بخاری میں سے عائشہ (رض) کی لمبی حدیث بیان ہوچکی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ صفوان بن معطل (رض) لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے جہاں میں لیٹی ہوئی تھی، تو اس نے ایک سویا ہوا انسان دیکھا، پھر جب وہ میرے پاس آئے، تو اس نے مجھے پہچان لیا، کیونکہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے، تو میں نے اپنی بڑی چادر کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ [ بخاري : ٢٦٦١ ] یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ اگر حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے ام المومنین کو نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچان سکتے، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد انھیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ - 8 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِحْدَانَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا ) [ بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب : ٣٥١ ] ” یا رسول اللہ ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔ “ اگر پردہ فرض نہ ہوتا تو ان کے سوال کا جواب تھا کہ دوپٹا ہی کافی ہے، بڑی چادر کی ضرورت نہیں۔ - 9 عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” اونٹوں کے سوار ہمارے پاس سے گزرتے، جب کہ ہم احرام کی حالت میں ہوتیں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی بڑی چادر سر سے چہرے پر لٹکا لیتی، جب گزر جاتے تو ہم اسے ہٹا دیتیں۔ “ [ أبوداوٗد، المناسک، باب في المحرمۃ تغطي وجھھا : ١٨٣٣ ] عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا : ” اس حدیث میں ایک راوی پر کلام کیا گیا ہے، اسی لیے البانی (رض) نے اسے ضعیف ابی داؤد میں ذکر کیا ہے، لیکن انھوں نے ” مشکوٰۃ “ میں اسے ” حسن “ کہا ہے اور ” حجاب المرأۃ المسلمۃ “ میں بھی حسن کہا ہے اور اسماء (رض) سے ایک صحیح سند کے ساتھ اس کا شاہد بھی ہے، چناچہ یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ “ تو احرام کی حالت میں، جب نقاب پہننا منع ہے، اگر پردہ واجب نہ ہوتا تو وہ چہرے پر چادریں کیوں لٹکاتیں ؟- 3 اب ان لوگوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں جو چہرے اور ہتھیلیوں کے پردے کو واجب نہیں مانتے، ان کی سب سے بڑی دلیل قرآن مجید کے الفاظ ” وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی ابن عباس (رض) سے مروی تفسیر ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور صحابی کی تفسیر حجت ہے۔ ابن عباس (رض) کا پورا قول اور اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے، ابن عباس (رض) نے محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی بات فرمائی ہے نہ کہ اجنبیوں کے سامنے اور اگر کسی کو اصرار ہو کہ ابن عباس (رض) سب لوگوں کے سامنے عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رکھنے کے قائل ہیں، تو یاد رہے کہ کسی صحابی کی تفسیر اسی وقت حجت ہوگی جب دوسرے کسی صحابی نے اس کے خلاف تفسیر نہ کی ہو۔ یہاں ابن مسعود (رض) نے اجنبیوں کے سامنے صرف کپڑوں کا ظاہر ہوجانا جائز رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ) [ النساء : ٥٩ ] ” پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔ “ یعنی تنازع کے وقت کسی کی بات بھی حجت نہیں رہتی، اس وقت صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات حجت ہوتی ہے اور قرآن و سنت کی رو سے غیر محرم مردوں سے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ واجب ہے، جیسا کہ آپ اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں۔ - ان حضرات کی دوسری دلیل عائشہ (رض) سے مروی سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سالی اسماء بنت ابی بکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے رخ پھیرلیا اور فرمایا : ( یَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ یَصْلُحْ لَھَا أَنْ یُّرَی مِنْھَا إِلَّا ھٰذَا وَ ھٰذَا ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب فیما تبدي المرأۃ من زینتھا : ٤١٠٤ ] ” اسماء عورت جب بلوغت کو پہنچ جائے تو ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) اس کے سوا اور اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آنا درست نہیں۔ “ اس حدیث سے عورت کا غیر محرم کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں ظاہر کرنا جائز ثابت ہوا۔ اس دلیل کے متعلق عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے : ” یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں انقطاع ہے ( خود امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ خالد بن دریک نے عائشہ (رض) سے نہیں سنا) اور اس میں سعید بن بشیر ضعیف ہے، پھر اس میں ولید کی تدلیس ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے، کیونکہ یہ بات بہت بعید ہے کہ اسماء بڑی عمر میں باریک کپڑوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئیں، کیونکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی۔ “ محمد بن صالح بن عثیمین نے بھی ” رسالۃ الحجاب “ میں انھی وجوہ سے حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے تو اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ احتمال کے ہوتے ہوئے استدلال ممکن نہیں ہوتا۔ اردو تفسیر کے ایک مصنف نے اس حدیث سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ اجنبیوں کے سامنے تو نہیں البتہ عورت محرم رشتہ داروں کے علاوہ ان رشتہ داروں کے سامنے بھی چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہے جو محرم نہ ہوں، مگر جب روایت ہی ثابت نہیں تو اس سے استدلال کیسے ہوسکتا ہے۔ انھی بزرگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چچا زاد بہن ام ہانی (رض) آخر وقت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آتی رہیں اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انھوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے ابوداؤد سے ایک روایت کا حوالہ دیا ہے، جس میں ہے کہ ام ہانی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچا ہوا پانی پیا، اس میں چہرہ کھلا ہونے کا ذکر ہی نہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ کئی بزرگ کس طرح اپنے پاس سے بات بنا کر اسے کتب احادیث کے ذمے لگا دیتے ہیں اور کسی دلیل کے بغیر یہ دعویٰ کردیتے ہیں کہ فلاں عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چہرے کا پردہ کبھی نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل بےدلیل ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھولنے جائز ہیں اور یہ بات فتنے کا بہت بڑا دروازہ کھولنے کا باعث ہے ۔- تیسری دلیل ان حضرات کی صحیح بخاری میں مروی عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ فضل بن عباس (رض) سواری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھے، تو خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فضل کا منہ دوسری طرف پھیرنے لگے۔ [ بخاري، الحج، باب وجوب الحج۔۔ : ١٥١٣ ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں پردہ نہیں کیا، اگر پردہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پردے کا حکم دیتے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ عورت بےپردہ تھی، اگر فرض کیا جائے کہ وہ بےپردہ تھی تو اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پردے کا حکم نہیں دیا۔ پردے کا حکم جب اس سے پہلے آیات و احادیث کے ذریعے امت تک پہنچ چکا تھا تو اگر کسی موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی تاکید نقل نہ بھی ہوئی ہو تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ - وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ : ” خُمُرٌ“ ” خِمَارٌ“ کی جمع ہے ” اوڑھنی۔ “ ” جُیُوْبٌ“ ” جَیْبٌ“ کی جمع ہے ” گریبان۔ “ یعنی عورتوں کو چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں سر سے لا کر گریبان پر ڈالیں، تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے۔ اسلام سے پہلے کی جاہلیت میں عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتی تھیں، بلکہ وہ دوپٹے کے دونوں کنارے پیچھے کی طرف لٹکا لیتیں، جس سے بسا اوقات ان کی گردن، بال، چوٹی، زیور اور چھاتی صاف نظر آتی تھیں، موجودہ زمانے کی جاہلیت کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔ سورة احزاب کی آیت (٥٨) میں بھی عورتوں کو بڑی چادریں نیچے لٹکا کر رکھنے کا حکم دیا۔ عائشہ (رض) نے فرمایا : ( یَرْحَمُ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُھَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ ) شَقَقْنَ أَکْنَفَ مُرُوْطِھِنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِھَا ) [ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللہ تعالیٰ : ( و لیضربن بخمرھن علی جیوبھن ) : ٤١٠٢ ]” اللہ تعالیٰ پہلی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ ) تو انھوں نے اپنی سب سے موٹی چادریں پھاڑیں اور انھیں اوڑھ لیا۔ “ - وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ ۔۔ : یعنی بےاختیار ظاہر ہونے والی زینت یعنی لباس تو خود ہی ظاہر ہوجاتا ہے، گھر کے اندر یا گھر سے باہر کسی جگہ لباس کے ظاہر ہونے میں کوئی گناہ نہیں، البتہ اس کے علاوہ زینت ظاہرہ یعنی چہرہ اور ہاتھ صرف ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ کل بارہ (١٢) ہیں۔ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔ ان میں سب سے پہلے خاوند ہے، اس کے سامنے تو عورت اپنی ظاہر و باطن ہر زینت ظاہر کرسکتی ہے، کیونکہ اس کی ساری زینت خاوند ہی کی امانت ہے۔ البتہ اس کے بعد جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے سامنے صرف چہرہ اور ہاتھ کھول سکتی ہیں۔ - ” اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ “ آباء میں دادا و پڑدادا اور نانا و پڑنانا بھی شامل ہیں۔ رضاعی باپ دادا کا بھی یہی حکم ہے۔ آیت میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ اگر وہ اپنی بھتیجی یا بھانجی کو دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے حسن و جمال کا ذکر کریں، اس لیے ان کے بقول چچا اور ماموں سے بھی پردہ ہے، مگر یہ بات غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چچا اور ماموں بھی باپ کے حکم میں ہیں، انھیں بھی مجازاً باپ کہہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں نے کہا تھا : (نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ) [ البقرۃ : ١٣٣ ] ” ہم تیرے معبود اور تیرے باپ داد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی پیروی کریں گے جو ایک ہی معبود ہے۔ “ اس میں اسماعیل (علیہ السلام) کو یعقوب (علیہ السلام) کا باپ کہا ہے، حالانکہ وہ ان کے چچا تھے۔ رضاعی چچا اور رضاعی ماموں سے بھی پردہ نہیں۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھے بغیر اجازت دینے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور میں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّہُ عَمُّکِ فَأْذَنِيْ لَہُ ، قَالَتْ ، فَقُْلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَۃُ وَلَمْ یُرْضِعْنِي الرَّجُلُ ، قَالَتْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَمُّکِ فَلْیَلِجْ عَلَیْکِ قَالَتْ عَاءِشَۃُ وَ ذٰلِکَ بَعْدَ أَنْ ضُرِبَ عَلَیْنَا الْحِجَابُ ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَۃِ ) [ بخاري، النکاح، ما یحل من الدخول۔۔ : ٥٢٣٩ ]” وہ تمہارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو ۔ “ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا : ” یا رسول اللہ مجھے دودھ عورت نے پلایا ہے، مرد نے نہیں۔ “ کہتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ تمہارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو ۔ “ عائشہ (رض) کہتی ہیں : ” اور یہ حجاب فرض ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ “ عائشہ (رض) نے فرمایا : ” رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔ “ - ” اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ “ بیٹوں میں ساری اولاد شامل ہے، بیٹے، پوتے، نواسے اور ان سے بھی نیچے تک سب بیٹے ہیں۔ ” اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ “ بھائیوں اور بہنوں میں عینی بھی شامل ہیں، جو ماں باپ دونوں کی طرف سے ہوں، علاتی بھی، جو صرف باپ کی طرف سے ہوں اور اخیافی بھی، جو صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں۔ ایسے بھائی، بھتیجے، بھانجے اور ان کے بیٹے، پوتے اور نواسے نیچے تک کسی سے بھی پردہ نہیں، بلکہ وہ تمام مرد جن سے نکاح حرام ہے کسی سے بھی پردہ نہیں، مثلاً داماد اور ساس وغیرہ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَحِلُّ لامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ لَیْسَ مَعَھَا حُرْمَۃٌ ) [ بخاري، التقصیر، باب في کم یقصر الصلاۃ ؟: ١٠٨٨ ] ” کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔ “ ” اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ “ اپنی عورتوں سے پردہ نہ ہونے سے ظاہر ہے کہ جو اپنی نہ ہوں ان سے پردہ ہے۔ عبد الرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” اپنی عورتوں سے مراد آپس میں میل ملاقات رکھنے والی مسلمان عورتیں ہیں، جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی پہچانتی اور ایک دوسرے پر اعتبار رکھتی ہوں۔ رہی دوسری غیر مسلم، مشتبہ اور اَن جانی عورتیں تو ایسی عورتوں سے اپنی زیب و زینت چھپانے اور حجاب کا ایسا ہی حکم ہے جیسے غیر مردوں سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قحبہ گری کی دلالی بھی کرتی ہیں، نو خیز اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر غلط راہوں پر ڈال دیتی ہیں اور شیطان کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک گھر کے بھید کی باتیں دوسرے گھر میں بیان کرکے فحاشی پھیلاتی اور اس کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ ایسی بدمعاش قسم کی عورتوں سے پرہیز کی سخت ضرورت ہے۔ لہٰذا تمام اَن جانی اور غیر مسلم عورتوں یا غیر عورتوں سے بھی حجاب کا حکم دیا گیا، بلکہ ایسی عورتوں کو گھروں میں داخلہ پر بھی ایسے ہی پابندی لگانا ضروری ہے جیسے غیر مردوں کے لیے ضروری ہے۔ “ (تیسیر القرآن) - ” اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ “ عورت اپنے غلام کے سامنے بھی اپنی وہ زینت ظاہر کرسکتی ہے جو دوسرے محرموں کے سامنے ظاہر کرتی ہے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غلام لے کر فاطمہ (رض) کے پاس آئے، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ہبہ کیا تھا، فاطمہ (رض) پر ایک کپڑا تھا، وہ اس کے ساتھ سر ڈھانپتیں تو پاؤں تک نہ پہنچتا اور جب اس کے ساتھ پاؤں ڈھانپتیں تو سر پر نہ پہنچتا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مشکل دیکھی تو فرمایا : ( إِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکِ بَأْسٌ إِنَّمَا ھُوَ أَبُوْکِ وَ غُلَامُکِ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب فی العبد ینظر إلی شعر مولاتہ : ٤١٠٦، قال الألباني صحیح ]” تم پر کوئی حرج نہیں، یہاں صرف تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ہے۔ “ اس حدیث سے اجنبیوں کے سامنے سر اور پاؤں چھپانے کا حکم بھی ثابت ہوا۔ ” اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ “ اس کی تفسیر ابن عباس (رض) سے زیر تفسیر آیت کے فائدہ نمبر (٤) کے تحت دیکھیے۔ - ” اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ “ سے مراد وہ بچے ہیں جو نابالغ ہوں اور انھیں میاں بیوی کے معاملے کی خبر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان نابالغ بچوں سے پردہ کرنا چاہیے جنھیں ایسے معاملات کی خبر ہو اور وہ عورت کی خوبصورتی اور بدصورتی کا ادراک رکھتے ہوں، اس اندازے کے لیے اس حدیث میں اشارہ ملتا ہے جو عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَ ھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَ فَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ٤٩٥، قال الألباني حسن صحیح ] ” اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور انھیں بستروں میں ایک دوسرے سے الگ کر دو ۔ “ - ”۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ ۔۔ “ طبری نے حسن سند کے ساتھ (عن علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس (رض) بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں ایک پازیب کو دوسری کے ساتھ کھڑکائے۔ اس کے پاؤں میں پازیبیں ہوں، جنھیں وہ مردوں کے پاس حرکت دے تو اللہ سبحانہ نے اس سے منع کردیا، کیونکہ یہ شیطان کا عمل ہے۔ [ طبري : ٢٦٢١٧ ] یہاں چہرے کے پردے کو واجب نہ ماننے والے حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ جب عورتوں کو زور سے پاؤں مار کر پازیبوں کی آواز نکالنا منع ہے کہ کہیں مردوں کو ان کی مخفی زینت معلوم نہ ہوجائے، جس سے ان کے دلوں میں کوئی غلط خیال پیدا ہو، تو یہ آواز مردوں کے دلوں میں زیادہ کشش اور فتنے کا باعث ہے، یا چہرہ جو عورت کے حسن و جمال کا آئینہ ہے ؟ فیصلہ کرتے وقت انصاف شرط ہے۔- 3 اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتے ہیں جس سے فحاشی کے در آنے کا امکان ہو۔ اس لیے جس طرح پاؤں مار کر زینت کا اظہار منع ہے اسی طرح کوئی بھی ایسی حرکت جس سے پوشیدہ زینت کا اظہار ہو، منع ہے۔ چناچہ عورت کو خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا منع ہے، اسے راستے کے درمیان چلنے سے منع کیا گیا ہے اور راستے کے کنارے پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفصیل ابن کثیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ زینت کے اظہار کے علاوہ اسے غیر مردوں کے ساتھ نرم اور لوچدار لہجے میں بات کرنا منع ہے، جس سے ان کے دل میں طمع پیدا ہو۔ [ دیکھیے الأحزاب : ٣٢ ] حتیٰ کہ اسے نماز میں ” سبحان اللہ “ کہنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر امام کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کا حکم ہے۔ (دیکھیے بخاری : ١٢٠٣) البتہ جب کسی قسم کا غلط خیال پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو عورت پردے میں رہ کر مردوں کو نصیحت کرسکتی ہے، انھیں علم پڑھا سکتی ہے، جیسا کہ امہات المومنین اور قرون خیر کی عورتیں مردوں کو احادیث بیان کیا کرتی تھیں۔- عورت کو محرم یا خاوند کے بغیر سفر کرنا منع ہے، کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت منع ہے، حتیٰ کہ خاوند کے بھائی کے ساتھ بھی تنہائی میں بیٹھنا منع ہے، بلکہ دیور اور جیٹھ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موت قرار دیا۔ (دیکھیے بخاری : ٥٢٣٢) اگرچہ اسے مسجد میں نماز اور جمعہ کے لیے جانے کی اجازت ہے، مگر گھر میں اس کی نماز کو افضل قرار دیا گیا ہے مگر چونکہ مسجد میں قرآن کی تلاوت اور خطبہ وغیرہ سن کر علم حاصل ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَکُمُ امْرَأَتُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا یَمْنَعْھَا ) [ مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد۔۔ : ٤٤٢۔ بخاري : ٨٧٣ ] ” جب تم میں سے کسی کی بیوی اس سے مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔ “ - عورتوں کو خاوندوں کے لیے زیبائش و آرائش کی اجازت ہے، بلکہ اس کا حکم ہے، مگر اس میں جعل سازی کی اجازت نہیں، جس سے اس کی فطری شکل و صورت تبدیل ہوجائے۔ عورتیں عموماً ایسے کام غیر مردوں کو مائل کرنے کے لیے اختیار کرتی ہیں، مثلاً ابروؤں کو باریک کرنا، چہرے کے بال اکھاڑنا، سر کے بالوں میں بال ملانا، اللہ کی پیدائش کو بدلنا، ان سب پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔ (دیکھیے بخاری : ٤٨٨٦)- اسی طرح اونچی ایڑی کے ساتھ قد لمبا کرکے دکھانا بنی اسرائیل کے فساد کے زمانے میں ان کی عورتوں کا شیوہ تھا۔ افسوس اب مسلم عورتوں نے کفار کی تقلید میں ہر وہ طریقہ اختیار کرلیا ہے جس سے وہ غیروں کی نظر میں خوش نما معلوم ہوں اور ان کے مردوں کی غیرت و حمیت بھی ایسی ختم ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے برداشت کرتے ہیں، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ - وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا : سورت کی ابتدا سے لے کر یہاں تک جو احکام بیان ہوئے ہیں، چونکہ ان کی پابندی میں کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، بلکہ ہر کام ہی میں خطا ہوجاتی ہے، اس لیے ” اے مومنو “ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا، یعنی تمہارے مومن ہونے کا تقاضا ہے کہ جو گناہ تم کرچکے یا آئندہ تم سے سرزد ہوں گے ان سے اللہ کی طرف توبہ کرو اور آئندہ بھی کرتے رہو۔ ” جَمِيْعًا “ کہہ کر مردوں اور عورتوں سب کو توبہ کا حکم دیا اور توبہ کے نتیجے میں فلاح و کامیابی کی بشارت دی۔- توبہ کے تین فرائض ہیں : 1 اس بات پر ندامت کہ میں نے اس گناہ کے ساتھ اللہ ذوالجلال والاکرام کی نافرمانی کی، اس پر نہیں کہ اس سے مجھے جسمانی یا مالی نقصان ہوا۔ 2 کسی تاخیر کے بغیر جتنی جلدی ممکن ہو اس گناہ سے باز آجانا۔ 3 اس بات کا عزم کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کروں گا۔ اگر نفس کی شامت سے پھر گناہ ہوجائے تو پھر توبہ کرے۔ - توبہ کے تین آداب ہیں : 1 گناہ کا نہایت عاجزی کے ساتھ اعتراف۔ 2 زیادہ سے زیادہ گڑ گڑا کر بخشش کی دعا کرنا۔ 3 گزشتہ گناہوں کو مٹانے کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکی کرنا۔ (التسہیل)
غیر محرم کی طرف نظر کرنا حرام ہے اس کی تفصیل :- وَقُلْ لِّلْمُؤ ْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ الایة اس طویل آیت کے ابتدائی حصہ میں تو وہی حکم ہے جو اس سے پہلی آیت میں مردوں کو دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں یعنی نگاہ پھیر لیں۔ مردوں کے حکم میں عورتیں بھی داخل تھیں مگر ان کا ذکر علیحدہ تاکید کے لئے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو اپنے محارم کے سوا کسی مرد کو دیکھنا حرام ہے بہت سے علماء کا قول یہ ہے کہ غیر محرم مرد کو دیکھنا عورت کے لئے مطلقاً حرام ہے خواہ شہوت اور بری نیت سے دیکھے یا بغیر کسی نیت و شہوت کے، دونوں صورتیں حرام ہیں اور اس پر حضرات ام سلمہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک روز ام سلمہ اور میمونہ دونوں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھیں اچانک عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحابی آگئے اور یہ واقعہ احکام حجاب نازل ہونے کے بعد پیش آیا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ ان سے پردہ کرو۔ ام مسلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، وہ تو نابینا ہیں نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں نہ ہمیں پہچانتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو ان کو دیکھ رہی ہو (رواہ ابو داؤد والترمذی وقال الترمذی حدیث حسن صحیح) اور دوسرے بعض فقہاء نے کہا کہ بغیر شہوت کے غیر مرد کو دیکھنے میں عورت کے لئے مضائقہ نہیں۔ ان کا استدلال صدیقہ عائشہ کی اس حدیث سے ہے جس میں مذکور ہے کہ مسجد نبوی کے احاطہ میں کچھ حبشی نوجوان عید کے روز اپنا سپاہیانہ کھیل دکھا رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو دیکھنے لگے اور صدیقہ عائشہ نے آپ کی آڑ میں کھڑے ہو کر ان کا کھیل دیکھا اور اس وقت تک دیکھتی رہیں جب تک کہ خود ہی اس سے اکتا گئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے نہیں روکا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نظر شہوت تو حرام ہے اور بلا شہوت نظر کرنا بھی خلاف اولی ہے اور ایک عورت کو دوسری عورت کے مواضع ستر کو دیکھنا بغیر خاص ضرورتوں کے یہ بھی اسی آیت کے الفاظ سے حرام ہے کیونکہ جیسا اوپر بیان ہوچکا ہے کہ موضع ستر یعنی مردوں کا ناف سے گھٹنوں تک اور عورتوں کا کل بدن بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے، یہ مواضع ستر ہیں ان کا چھپانا سب سے فرض ہے نہ کوئی مرد دوسرے مرد کا ستر دیکھ سکتا ہے نہ کوئی عورت دوسری عورت کا ستر دیکھ سکتی ہے اور مرد کسی عورت کا یا عورت کسی مرد کا ستر دیکھے یہ بدرجہ اولی حرام ہے اور آیت مذکورہ کے حکم غض بصر کے خلاف ہے کیونکہ آیت کا مطلب جو اوپر بیان ہوچکا ہے اس میں ہر ایسی چیز سے نظر پست رکھنا اور ہٹا لینا مراد ہے جس کی طرف دیکھنے کو شرع میں ممنوع کیا گیا ہے اس میں عورت کے لئے عورت کا ستر دیکھنا بھی داخل ہے۔- وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ الایة، زینت لغوی معنے کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان اپنے آپ کو مزین اور خوش منظر بنائے۔ وہ عمدہ کپڑے بھی ہو سکتے ہیں، زیور بھی۔ یہ چیزیں جبکہ کسی عورت کے بدن پر نہ ہوں علیحد ہوں تو باتفاق امت ان کا دیکھنا مردوں کے لئے حلال ہے جیسے بازار میں بکنے والے زنانہ کپڑے اور زیور کہ ان کے دیکھنے میں کوئی مضائضہ نہیں اس لئے جمہور مفسرین نے اس آیت میں زینت سے مراد محل زینت یعنی وہ اعضاء جن میں زینت کی چیزیں زیور وغیرہ پہنی جاتی ہیں وہ مراد لئے ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی زینت یعنی مواقع زینت کو ظاہر نہ کرے (کذا فی الروح) اس آیت میں جو عورت کے لئے اظہار زینت کو حرام قرار دیا ہے آگے اس حکم سے دو اسثناء بیان فرمائے گئے۔ ایک منظور کے اعتبار سے ہے یعنی جس کی طرف دیکھا جائے دوسرا ناظر یعنی دیکھنے والوں کے اعتبار سے۔- احکام پردہ سے استثناء :- پہلا استثناء مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا ہے یعنی عورت کے لئے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں یعنی کام کاج اور نقل و حرکت کے وقت جو چیزیں عادةً کھل ہی جاتی ہیں اور عادةً ان کا چھپانا مشکل ہے وہ مستثنیٰ ہیں ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں (ابن کثیر) مراد اس سے کیا ہے اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کی تفسیریں مختف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں جس چیز کو مستثنی کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ یہ کپڑے زینت کے کپڑوں کو چھپانے کے لئے اسعتمال کئے جاتے ہیں تو مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ زینت کی کسی چیز کو ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان اوپر کے کپڑوں کے جن کا چھپانا بضرورت باہر نکلنے کے وقت ممکن نہیں جیسے برقع وغیرہ اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں کیونکہ جب عورت کسی ضرورت سے باہر نکلنے پر مجبور ہو تو نقل و حرکت اور لین دین کے وقت چہرے اور ہتھیلیوں کو چھپانا مشکل ہے۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن مسعود کی تفسیر کے مطابق تو غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کو چہرہ اور ہاتھ کھولنا بھی جائز نہیں صرف اوپر کے کپڑے برقع وغیرہ کا اظہار بضرورت مستثنی ہے اور حضرت ابن عباس کی تفسیر کے مطابق چہرہ اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھی غیر محرموں کے سامنے کھولنا جائز ہے اس لئے فقہاء امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں پردے سے مستثنیٰ اور ان کا غیر محرموں کے سامنے کھولنا جائز ہے یا نہیں ؟ مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا بھی جائز نہیں اور عورت کو ان کا کھولنا بھی جائز نہیں اسی طرح اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ ستر عورت جو نماز میں اجماعاً اور خارج نماز علی الاصح فرض ہے اس سے چہرہ اور ہتھیلیاں مستثنیٰ ہیں اگر ان کو کھول کر نماز پڑھی تو نماز باتفاق صحیح و درست ہوجائے گی۔- قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے اصل حکم یہ ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادةً کھل ہی جاتی ہیں ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی کہ جب عورت کسی مجبوری اور ضرورت سے باہر نکلتی ہے تو برقع چادر وغیرہ کا ظاہر ہونا تو معتین ہی ہے لیکن دین کی ضرورت میں بعض اوقات چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں بھی کھل جاتی ہیں تو وہ بھی معاف ہیں گناہ نہیں۔ لیکن اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں کہ مردوں کو چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنا بھی بلا ضرورت جائز ہے بلکہ مردوں کا تو وہی حکم ہے کہ نگاہ پست رکھیں اگر عورت کہیں چہرہ اور ہاتھ کھولنے پر مجبور ہوجائے تو مردوں کو لازم ہے کہ بلا عذر شرعی اور بلا ضرورت کے اس کی طرف نہ دیکھیں اس توجیہ میں دونوں روایتیں اور تفسیریں جمع ہوجاتی ہیں۔ امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ غیر محرم عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر کرنا بھی غیر ضرروت مبیحہ کے جائز نہیں اور زواجر میں ابن حجر مکی شافعی نے امام شافعی کا بھی یہی مذہب نقل کیا ہے کہ اگرچہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر عورت کے فرض میں داخل نہیں ان کو کھول کر بھی نماز ہوجاتی ہے مگر غیر محرم مردوں کو ان کا دیکھنا بلا ضرورت شرعیہ جائز نہیں اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ جن فقہاء نے چہرہ اور ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز اور یہ ظاہر ہے کہ حسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہوٰی اور غفلت کا ہے اس لئے بجز مخصوص ضرورتوں کے مثلاً علاج معالجہ یا کوئی خطرہ شدیدہ وغیرہ عورت کو غیر محارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے اور مردوں کو اس کی طرف قصداً نظر کرنا بھی غیر ضرورت شرعیہ کے جائز نہیں۔- آیت مذکورہ میں زینت ظاہرہ کے استثناء کے بعد ارشاد ہے وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ یعنی آنچل مار لیا کریں اپنے دوپٹوں کا اپنے سینوں پر خُمُر، خمار کی جمع ہے اس کپڑے کو کہتے ہیں جو عورت سر پر استعمال کرے اور اس سے گلا اور سینہ بھی چھپ جائے۔ جیوب جیب کی جمع ہے جس کے معنی ہیں گریبان۔ چونکہ زمانہ قدیم سے گریبان سینہ ہی پر ہونے کا معمول ہے اس لئے عیوب کے چھپانے سے مراد سینہ کا چھپانا ہے شروع آیت میں اظہار زینت کی ممانعت تھی اس جملہ میں اخفاء زینت کی تاکید اور اس کی ایک صورت کا بیان ہے جس کی اصل وجہ ایک رسم جاہلیت کا مٹانا ہے زمانہ جاہلیت میں عورتیں دوپٹہ سر پر ڈال کر اس کے دونوں کنارے پشت پر چھوڑ دیتی تھیں جس سے گریبان اور گلا اور سینہ اور کان کھلے رہتے تھے اس لئے مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ دوپٹے کے دونوں پلے ایک دوسرے پر الٹ لیں تاکہ یہ سب اعضاء چھپ جائیں (رواہ ابن ابی حاتم عن ابی جبیر روح) آگے دوسرا استثناء ان مردوں کا بیان کیا گیا ہے جن سے شرعاً پردہ نہیں جس کے دو سبب ہیں اول تو جن مردوں کو مستثنی کیا گیا ہے ان سے کسی فتنہ کا خطرہ نہیں وہ محارم ہیں جن کی طبائع کو حق تعالیٰ نے خلقۃً ایسا بنایا ہے کہ وہ ان عورتوں کی عصمت کے محافظ ہوتے ہیں ان سے خود کوئی فتنہ کا احتمال نہیں۔ دوسرے ہر وقت ایک جگہ رہنے سہنے کی ضرورت بھی سہولت پیدا کرنے کی مقتضی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ شوہر کے سوا دوسرے محارم کو جو مستثنی کیا گیا ہے وہ احکام حجاب و پردہ سے استثناء ہے، ستر عورت سے استثناء نہیں عورت کا جو بدن ستر میں داخل ہے جس کا کھولنا نماز میں جائز نہیں اس کا دیکھنا محارم کے لئے بھی جائز نہیں۔- اس آیت میں آٹھ قسم کے محرم مردوں کا اور چار دوسری اقسام کا پردہ سے استثناء کیا گیا ہے اور سورة احزاب کی آیت جو نزول میں اس سے مقدم ہے اس میں صرف سات اقسام کا ذکر ہے پانچ کا اضافہ سورة نور کی آیت میں کیا گیا ہے جو اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔- تنبیہ :- یاد رہے کہ اس جگہ لفظ محرم عام معنی میں استعمال ہوا ہے جو شوہر پر بھی مشتمل ہے فقہاء کی اصطلاح میں محرم کی جو خاص تفسیر ہے کہ جس سے کبھی نکاح جائز نہ ہو وہ یہاں مراد نہیں۔ تفصیل ان بارہ متشنیات کی جو سورة نور کی مذکورہ آیت میں ہے یہ ہے۔ سب سے پہلے شوہر ہے جس سے بیوی کے کسی عضو کا پردہ نہیں اگرچہ اعضاء مخصوصہ کو بلاضرروت دیکھنا خلاف اولی ہے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا ما رای منی ولا رایت منہ یعنی نہ آپ نے میرے خاص عضو کو دیکھا نہ میں نے آپ کے۔- دوسرے اپنے باپ ہیں، جس میں دادا، پردادا سب داخل ہیں۔ تیسرے شوہر کا باپ ہے اس میں بھی دادا، پردادا سب داخل ہیں۔ چوتھے اپنے لڑکے جو اپنی اولاد میں ہیں۔ پانچویں شوہر کے لڑکے جو کسی دوسری بیوی سے ہوں چھٹے اپنے بھائی، اس میں حقیقی بھی داخل ہیں اور باپ شریک یعنی علاتی اور ماں شریک یعنی اخیافی بھی لیکن ماموں، خالہ یا چچا، تایا اور پھوپھی کے لڑکے جن کو عام عرف میں بھائی کہا جاتا ہے وہ اس میں داخل نہیں وہ غیر محرم ہیں۔ ساتویں بھائیوں کے لڑکے یہاں بھی صرف حقیقی یا علاتی یا اخیافی بھائی کے لڑکے مراد ہیں دوسرے عرفی بھائیوں کے لڑکے شامل نہیں۔ آٹھویں بہنوں کے لڑکے۔ اس میں بھی بہنوں سے حقیقی اور علاتی اخیافی بہنیں مراد ہیں۔ ماموں زاد چچا زاد بہنیں داخل نہیں یہ آٹھ قسمیں تو محارم کی ہیں۔- نویں قسم اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ یعنی اپنی عورتیں جس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں کہ ان کے سامنے بھی وہ تمام اعضاء کھولنا جائز ہے جو اپنے باپ بیٹوں کے سامنے کھولے جاسکتے ہیں اور یہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ یہ استثناء احکام حجاب و پردہ سے ہے۔ احکام ستر سے نہیں۔ اس لئے جو اعضاء ایک عورت اپنے محرم مردوں کے سامنے نہیں کھول سکتی ان کا کھولنا کسی مسلمان عورت کے سامنے بھی جائز نہیں۔ علاج معالجہ وغیرہ کی ضرورتیں مستثنیٰ ہیں۔- نِسَاۗىِٕهِنَّ مسلمان عورتوں کی قید سے یہ معلوم ہوا کہ کافر مشرک عورتوں سے بھی پردہ واجب ہے وہ غیر محرم مردوں کے حکم میں ہیں۔ ابن کثیر نے حضرت مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں کہ کسی کافر عورت کے سامنے اپنے اعضاء کھولے لیکن احادیث صحیحہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں کافر عورتوں کا ازواج مطہرات کے پاس جانا ثابت ہے اس لئے اس مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے بعض نے کافر عورتوں کو مثل غیر محرم مردوں کے قرار دیا ہے بعض نے اس معاملہ میں مسلمان اور کافر دونوں قسم کی عورتوں کا ایک ہی حکم رکھا ہے کہ ان سے پردہ نہیں۔ امام رازی نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ لفظ نِسَاۗىِٕهِنَّ میں تو سبھی عورتیں مسلم اور کافر داخل ہیں اور سلف صالحین سے جو کافر عورتوں سے پردہ کرنے کی روایات منقول ہیں وہ استحباب پر مبنی ہیں۔ روح المعانی میں مفتی بغداد علامہ آلوسی نے اسی قول کو اختیار فرما کر کہا ہے۔- ھذا القول اوفق بالناس الیوم فانہ لا یکاد یمکن احتجاب المسلمات عن الذمیات (روح المعانی)- یہی قول آج کل لوگوں کے مناسب حال ہے کیونکہ اس زمانے میں مسلمان عورتوں کا کافر عورتوں سے پردہ تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔- دسویں قسم اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ہے یعنی وہ جو ان عورتوں کے مملوک ہوں۔ ان الفاظ کے عموم میں تو غلام اور لونڈیاں دونوں داخل ہیں لیکن اکثر ائمہ فقہاء کے نزدیک اس سے مراد صرف لونڈیاں ہیں، غلام مرد اس میں داخل نہیں۔ ان سے عام محارم کی طرح پردہ واجب ہے۔ حضرت سعید بن مسیب نے اپنے آخری قول میں فرمایا لا یغرنکم ایة النور فانہ فی لاناث دون الذکور یعنی تم لوگ کہیں سورة نور کی اس آیت سے مغالطہ میں نہ پڑجاؤ کہ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ کے الفاظ عام ہیں۔ مرد غلاموں کو بھی شامل ہیں لیکن واقعہ ایسا نہیں یہ آیت صرف عورتوں یعنی کنیزوں کے حق میں ہے مرد غلام اس میں داخل نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بصری، ابن سیرین نے فرمایا کہ غلام مرد کے لئے اپنی آقا عورت کے بال دیکھنا جائز نہیں (روح المعانی) باقی رہا یہ سوال کہ جب لفظ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ سے صرف عورتیں لونڈیاں ہی مراد ہیں تو وہ اس سے پہلے لفظ نسائھن میں یہ داخل ہیں ان کو علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی اس کا جواب جصاص نے یہ دیا ہے کہ لفظ نسائھن اپنے ظاہر کے اعتبار سے صرف مسلمان عورتوں کے لئے ہے۔ اور مملوکہ باندیوں میں اگر کافی بھی ہوں تو ان کو مستثنی کرنے کے لئے یہ لفظ علیحدہ لایا گیا ہے۔- گیارہویں قسم اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ مغفل اور بد حواس قسم کے لوگ ہیں جن کو عورتوں کی طرف کوئی رغبت و دلچسپی ہی نہ ہو (ابن کثیر) اور یہی مضمون ابن جریر نے ابوعبداللہ، ابن مجبیر، ابن عطیہ وغیرہ سے نقل کیا ہے اس لئے اس سے مراد وہ مرد ہیں جو عورتوں کی طرف نہ کوئی رغبت و شہوت رکھتے ہوں، نہ ان کے اوصاف حسن اور حالات سے کوئی دلچسپی رکھتے ہوں کہ دوسرے لوگوں سے بیان کردیں۔ بخلاف مخنث قسم کے لوگوں کے جو عورتوں کے اوصاف خاص سے تعلق رکھتے ہوں ان سے بھی پردہ واجب ہے جیسا کہ صدیقہ عائشہ کی حدیث میں ہے کہ ایک مخنث ازواج مطہرات کے پاس آیا کرتا تھا اور امہات المومنین اس کو غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ جو اس آیت میں مذکور ہے داخل سمجھ کر اس کے سامنے آجاتی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس کو دیکھا اور اس کی باتیں سنیں تو گھروں میں داخل ہونے سے اس کو روک دیا۔ (روح المعانی)- اسی لئے ابن حجر مکی نے شرح منہاج میں فرمایا ہے کہ مرد اگرچہ عنین (نامرد) یا مجبوب (مقطوع العضو) یا بہت بوڑھا ہو وہ اس غیر اولی الاربة کے لفظ میں داخل نہیں ان سب سے پردہ واجب ہے۔ اس میں غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ کے لفظ کے ساتھ جو التّٰبِعِيْنَ کا لفظ مذکور ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے مغفل بدحواس لوگ جو طفیلی بن کر کھانے پینے کے لئے گھروں میں چلے جائیں وہ مستثنی ہیں۔ اس کا ذکر صرف اس لئے کیا گیا کہ اس وقت ایسے مغفل قسم کے کچھ مرد ایسے ہی تھے جو طفیلی بن کر کھانے پینے کے لئے گھروں میں جاتے تھے اصل مدار حکم کا ان کے مغفل بدحواس ہونے پر ہے تابع اور طفیلی ہونے پر نہیں۔ واللہ اعلم - بارہویں قسم اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ ہے۔ اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات اور حرکات و سکنات سے بالکل بیخبر ہوں اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے اس سے پردہ واجب ہے (ابن کثیر) امام جصاص نے فرمایا کہ یہاں طفل سے مراد وہ بچے ہیں جو مخصوص معاملات کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی امتیاز نہ کرتے ہوں (ذکرہ عن المجاہد) پردہ سے مسثنیات کا بیان ختم ہوا۔- وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ یعنی عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے پاؤں اتنی زور سے نہ رکھیں جس سے زیور کی آواز نکلے اور ان کی مخفی زینت مردوں پر ظاہر ہو۔ - زیور کی آواز غیر محرموں کو سنانا جائز نہیں :- شروع آیت میں عورتوں کو اپنی زینت غیر مردوں پر ظاہر کرنے سے منع فرمایا تھا، آخر میں اس کی مزید تاکید ہے کہ مواضع زینت سر اور سینہ وغیرہ کا چھپانا تو واجب تھا ہی۔ اپنے مخفی زینت کا اظہار خواہ کسی ذریعہ سے ہو وہ بھی جائز نہیں۔ زیور کے اندر خود کوئی چیز ایسی ڈالی جائے جس سے وہ بچنے لگے یا ایک زیور دوسرے زیور سے ٹکرا کر بجے یا پاؤں زمین پر اس طرح مارے جس سے زیور کی آواز نکلے اور غیر محرم مرد سنیں یہ سب چیزیں اس آیت کی رو سے ناجائز ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے فقہاء نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز غیر محرموں کو سنانا اس آیت سے ناجائز ثابت ہوا تو خود عورت کی آواز کا سنانا اس سے بھی زیادہ سخت اور بدرجہ اولی ناجائز ہوگا اس لئے عورت کی آواز کو بھی ان حضرات نے ستر میں داخل قرار دیا ہے اور اسی بناء پر نوازل میں فرمایا کہ عورتوں کو جہاں تک ممکن ہو قرآن کی تعیلم بھی عورتوں ہی سے لینا چاہئے۔ مردوں سے تعیلم لینا بدرجہ مجبوری جائز ہے۔- صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نماز میں اگر کوئی سامنے سے گزرنے لگے تو مرد کو چاہئے کہ بلند آواز سے سبحان اللہ کہہ کر گزرنے والے کو متنبہ کر دے مگر عورت آواز نہ نکالے بلکہ اپنی ایک ہتھیلی کی پشت پر دوسرا ہاتھ مار کر اس کو متنبہ کرے۔- عورت کی آواز کا مسئلہ :- کیا عورت کی آواز فی نفسہ ستر میں داخل ہے اور غیر محرم کو آواز سنانا جائز ہے ؟ اس معاملے میں حضرات ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کی کتب میں عورت کی آواز کو ستر میں داخل نہیں کیا گیا۔ حنفیہ کے نزدیک بھی مختلف اقوال ہیں۔ ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بناء پر ستر میں داخل قرار دیا ہے۔ اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی اذان مکروہ ہے لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات نزول حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیر محارم سے بات کرتی تھیں اس مجموعہ سے راجح اور صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس موقع اور جس محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں ممنوع ہے جہاں یہ نہ ہو جائز ہے (جصاص) اور احتیاط اسی میں ہے کہ بلا ضروت عورتیں پس پردہ بھی غیر محرموں سے گفتگو نہ کریں۔ واللہ اعلم - خوشبو لگا کر باہر نکلنا :- اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ عورت جب بضرورت گھر سے باہر نکلے تو خوشبو لگا کر نہ نکلے کیونکہ وہ بھی اس کی مخفی زینت ہے غیر محرم تک یہ خوشبو پہنچے تو ناجائز ہے ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ہے جس میں خوشبو لگا کر باہر جانے والی عورت کو برا کہا گیا ہے۔- مزین برقع پہن کر نکلنا بھی ناجائز ہے :- امام جصاص نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کا مدار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا اور اسی سے یہ بھی معلمو ہوا کہ عورت کا چہرہ اگرچہ ستر میں داخل نہیں مگر وہ زینت کا سب سے بڑا مرکز ہے اس لئے اس کا بھی غیر محرموں سے چھپانا واجب ہے الا بضرورت (جصاص)- وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی توبہ کرو اللہ سے تم سب کے سب اے مومن بندو۔ اس آیت میں اول مردوں کو نظریں پست رکھنے کا حکم پھر عورتوں کو ایسا ہی حکم پھر عورتوں کو غیر محرموں سے پر دوہ کرنے کا حکم الگ الگ دینے کے بعد اس جملے میں سب مرد و عورت کو شامل کر کے ہدایت کی گئی ہے کہ شہوت نفسانی کا معاملہ دقیق ہے دوسروں کو اس پر اطلاع ہونا مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ہر ہر چھپا ہوا اور کھلا ہوا یکساں ظاہر ہے اس لئے اگر کسی سے احکام مذکورہ میں کسی وقت کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس سے توبہ کرے گزشتہ پر ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت مانگے اور آئندہ اس کے پاس نہ جانے کا عزم مصمم کرے۔
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ ٠۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕہِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ٠۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ ٠ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ٣١- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- خمر - أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی:- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» - ( خ م ر ) الخمر - ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ - جيب - قال اللہ تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور 31] ، جمع جَيْب . ( ج ی ب ) الجیب کے معنی گریباں کے ہیں ( مجازا سینہ ) اسکی جمع الجبوب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور 31] ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھا کریں ۔- بعل - البَعْلُ هو الذکر من الزوجین، قال اللہ عزّ وجل : وَهذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وجمعه بُعُولَة، نحو : فحل وفحولة . - ( ب ع ل البعل - کے معنی شوہر کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا ( سورة هود 72) اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں اس کی جمع بعولۃ آتی ہے جیسے فحل وفحولۃ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- التبعین۔ طفیلیوں کے طور پر رہنے والے مرد۔ جس سے وہ لوگ مراد ہیں جو بچا کچھا کھانے کو پیچھے ہولیں۔ ( خدمت گار، کمیرے، غلام وغیرہ) ۔- أرب - الأرب : فرط الحاجة المقتضي للاحتیال في دفعه، فكلّ أربٍ حاجة، ولیس کلّ حاجة أرباً ، ثم يستعمل تارة في الحاجة المفردة، وتارة في الاحتیال وإن لم يكن حاجة، کقولهم : فلان ذو أربٍ ، وأريب، أي : ذو احتیال، وقد أَرِبَ إلى كذا، أي : احتاج إليه حاجةً شدیدة «2» ، وقد أَرِبَ إلى كذا أَرَباً وأُرْبَةً وإِرْبَةً ومَأْرَبَةً ، قال تعالی: وَلِيَ فِيها مَآرِبُ أُخْرى[ طه 18] ، ولا أرب لي في كذا، أي : ليس بي شدة حاجة إليه، وقوله : أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ- [ النور 31] كناية عن الحاجة إلى النکاح، وهي الأُرْبَى «3» ، للداهية المقتضية للاحتیال، وتسمّى الأعضاء التي تشتد الحاجة إليها آراباً ، الواحد :- إِرْب، وذلک أنّ الأعضاء ضربان :- ضرب أوجد لحاجة الحیوان إليه، کالید والرجل والعین .- وضرب للزینة، کالحاجب واللحية .- ثم التي للحاجة ضربان :- ضرب لا تشتد الحاجة إليه .- وضرب تشتد الحاجة إليه، حتی لو توهّم مرتفعاً لاختلّ البدن به اختلالًا عظیماً ، وهي التي تسمی آراباً. وروي أنّه عليه الصلاة والسلام قال : «إذا سجد العبد سجد معه سبعة آرابٍ : وجهه وكفّاه ورکبتاه وقدماه»ويقال : أَرَّب نصیبه، أي : عظّمه، وذلک إذا جعله قدراً يكون له فيه أرب، ومنه : أرّب ماله أي : كثّر «2» ، وأرّبت العقدة : أحكمتها - ( ار ب ) الارب - کے معنی سخت احتیاج کے ہیں جیسے دور کرنے کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنی پڑے پس ارب خاص اور حاجۃ عام ہے پھر کبھی ارب کا لفظ صرف حاجت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے اور کبھی محض حیلہ اور تدبیر کرنے کے لئے آتا ہے گو حاجت نہ ہو ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ فلان ذو ارب واریب فلاں صاحب حیلہ اور چالاک ہے ۔ ارب الی ٰ کذا ، اربا و اربۃ واربۃ وماربۃ کے معنی ہیں وہ کسی چیز کا سخت محتاج ہوا ۔ ( ماربۃ ۔ سخت حاجت ج مآرب ) قرآن میں ہے ۔ وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى ( سورة طه 18) اور اس میں میرے لئے اور بھی فائدے ہیں ۔ ولاارب لی فی کذا ۔ مجھے اس کی کوئی شدید ضرورت نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ( سورة النور 31) نیز وہ خدمت گزار مرد جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں ۔ میں اربۃ سے بطور کنایہ حاجت نکاح مراد ہے ۔ الاربٰی بڑی مصیبت جس کے دور کرنے کیلئے تدبیر اور حیلہ کرنا پڑے ۔ الاراب ( واحد ارب ) وہ اعضا جن کی انسان کو سخت ضرورت رہتی ہے کیونکہ اعضا دو قسم کے ہیں ایک وہ جنکے ذریعہ ہر جاندار چیز اپنی ضروریات پورا کرتی ہے جیسے ہاتھ ، پاؤں اور آنکھ اور دوسرے وہ جو محض زینت کے لئے بنائے گئے ہیں جیسے بھویں ، داڑھی وغیرہ پھر وہ اعضاء جو حوائج کو پورا کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں دو قسم پر ہیں ایک وہ جن کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرے وہ ہیں جن کی سخت احتیاج رہتی ہے اور ان کے بغیر جسم انسانی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس دوسری قسم کے اعضاء کو اراب کہا جاتا ہے حدیث میں ہے (9) اذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ اراب کو جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، دو ہتھلیاں ، دو گھٹنے اور دو پاؤں اور جب کوئی شخص اپنی ضرورت کے مطابق ( وافر ) حصہ لے تو کہا جاتا ہے ارب نصیبہ اس نے بڑا حصہ لیا اور وافر ۔ اسی سے محارہ ہے :۔ ارب مالہ اس نے اپنا مال پڑھالیا اربت العقدۃ میں نے مضبوط گرہ لگائی ۔- طفل - الطِّفْلُ : الولدُ ما دام ناعما، وقد يقع علی الجمع، قال تعالی: ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا - [ غافر 67] ، أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور 31] ، وقد يجمع علی أَطْفَالٍ. قال :- وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور 59] ، وباعتبار النّعومة قيل : امرأة طِفْلَةٌ ، وقد طَفِلَتْ طُفُولَةً وطَفَالَةً ، والمِطْفَلُ من الظبية : التي معها طِفْلُهَا، وطَفَلَتِ الشمسُ : إذا همَّت بالدَّوْرِ ، ولمّا يستمکن الضَّحُّ من الأرضِ قال : وعلی الأرض غياياتُ الطَّفَلِ وأما طَفَّلَ : إذا أتى طعاما لم يدع إليه، فقیل، إنما هو من : طَفَلَ النهارُ ، وهو إتيانه في ذلک الوقت، وقیل : هو أن يفعل فِعْلَ طُفَيْلِ العرائسِ ، وکان رجلا معروفا بحضور الدّعوات يسمّى طُفَيْلًا - ( ط ف ل) الطفل جب تک بچہ نرم و نازک رہے اس وقت تک اسے طفل کہاجاتا ہے یہ اصل میں مفرد ہے مگر کبھی بمعنی جمع بھی آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا[ غافر 67] پھر تم کو نکالتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور 31] یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ طفل کی جمع اطفال آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ۔ اور نرمونازک ہونے کے معنی کی مناسبت سے گداز بدن عورت کو طفلۃ کہاجاتا ہے ۔ اور طفلت طفولۃ وطفالۃ کے نرم ونازک ہونے کے ہیں ۔ اور جس ہرنی کے ساتھ اس کا بچہ ہوا سے مطفل کہاجاتا ہے طفلت الشمس اس وقت بولا جاتا ہے جس آفتاب نکلنے کو ہو اور ابھی تک اس کی دھوپ اچھی طرح زمین پر نہ پھیلی ہو ۔ شاعرنے کہا ہے ۔ ( الرمل) (293) وعلی الارض غیایات الطفل اور زمین پر تاحال صبح کا سوجھا کا موجود تھا ۔ اور طفل جس کے معنی ایسے کھانا میں شریک ہونا کے ہیں جس پر اسے ملایا نہ گیا ہو ، کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ طفل النھار سے ماخوذ ہے یعنی اس وقت آنا اور بعض نے کہا ہے کہ طفیل العرس ایک مشہور آدمی کا نام ہے جو بلا دعوت تقریبات میں شریک ہوجاتا تھا ۔ اور اسی سے طفل ہے جس کے معنی طفیلی بن کر جانے کے ہیں ۔- عور - العَوْرَةُ سوأة الإنسان، وذلک کناية، وأصلها من العارِ وذلک لما يلحق في ظهوره من العار أي : المذمّة، ولذلک سمّي النساء عَوْرَةً ، ومن ذلک : العَوْرَاءُ للکلمة القبیحة، وعَوِرَتْ عينه عَوَراً وعَارَتْ عينه عَوَراً وعَوَّرَتْهَا، وعنه اسْتُعِيرَ : عَوَّرْتُ البئر، وقیل للغراب : الْأَعْوَرُ ، لحدّة نظره، وذلک علی عکس المعنی ولذلک قال الشاعر : وصحاح العیون يدعون عوراً- والعَوارُ والعَوْرَةُ : شقّ في الشیء کا لثّوب والبیت ونحوه . قال تعالی: إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب 13] ، أي : متخرّقة ممكنة لمن أرادها، ومنه قيل : فلان يحفظ عَوْرَتَهُ ، أي : خلله، وقوله : ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58] ، أي : نصف النهار وآخر اللیل، وبعد العشاء الآخرة، وقوله : الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور 31] ، أي : لم يبلغوا الحلم . وسهم عَائِرٌ: لا يدری من أين جاء، ولفلان عَائِرَةُ عين من المال «4» . أي :- ما يعور العین ويحيّرها لکثرته، والْمُعَاوَرَةُ قيل في معنی الاستعارة . والعَارِيَّةُ فعليّة من ذلك، ولهذا يقال : تَعَاوَرَهُ العواري، وقال بعضهم : هو من العارِ ، لأنّ دفعها يورث المذمّة والعَارَ ، كما قيل في المثل : (إنه قيل لِلْعَارِيَّةِ أين تذهبين ؟ فقالت : أجلب إلى أهلي مذمّة وعَاراً ) ، وقیل : هذا لا يصحّ من حيث الاشتقاق، فإنّ العَارِيَّةَ من الواو بدلالة : تَعَاوَرْنَا، والعار من الیاء لقولهم : عيّرته بکذا .- ( ع و ر ) العورۃ انسان کے مقام ستر کو کہتے ہیں مگر اس کے معنی کنائی ہیں اصل میں یہ عار سے مشتق ہے اور مقام ستر کے کھلنے سے بھی چونکہ عار محسوس ہوتی ہے اس لئے اسے عودۃ کہا جاتا ہے اور عورت کو بھی عورت اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کے بےستر رہنے کو باعث عار سمجھا جاتا ہے اسی سے بری بات کو اعوراء کہا جاتا ہے ۔ عورت عینہ عورا و عادت عینہ عورا اسکی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی عور تھا میں نے اسے بھینگا کردیا ۔ اسی سے بطور استعارہ عورت البئر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں مٹی ڈال کر کنوئیں کا پانی خشک کردینا اور مجازا نظر کی تیزی کی وجہ سے کوے کو الا عور کہا جاتا ہے جیسے کسی لفظ کو اس کی ضد میں استعمال کرلیتے ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 324 ) وصحاب العیون یدعین عورا تندرست آنکھوں والے آدمیوں کو بھینگا کہا جاتا ہے ۔ العوار والعوارۃ کے معنی کپڑے یا مکان وغیرہ میں شگاف کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب 13] کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے ۔ یعنی ان میں جگہ جگہ رخنے پڑے ہوئے ہیں جن میں سے جو چاہے ان کے ندر گھس سکتا ہے اسی سے محاورہ ہے فلان یحفظ عورتہ کہ فلاں اپنے خلیل کی حفاظت کرتے ہے اور آیت کریمہ : ۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58]( یہ تین ( وقت ) تمہارے پردے کے ہیں ۔ ن میں ثلاث عورات سے پردہ کے تین اوقات مراد ہیں یعنی دوپہر کے وقت عشا کی نماز کے بعد اور صبح کی نماز سے پہلے اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور 31] ( یا ایسے لڑکوں سے ) جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہو ۔ سے مراد نابالغ لڑکے ہیں جن میں ہننوز جنسیات کے متعلق یا توں کا شعور پیدا نہ ہوا ہو سھم عائر وہ تیر جو نامعلوم طرف سے آئے لفلان عائرۃ من المال فلاں کے پاس اتنا زیادہ مال ہے کہ اس کی فردانی آنکھ کو حیرت زدہ اور خیرہ کردیتی ہے المع اور ۃ بعض نے کہا ہے اس کے معنی مستعار لینے کے ہیں اور اسی سے عاریۃ بر وزن فعلیۃ ہے اسی سے کہا جاتا ہے تع اور العواری استعمال کی چیزیں باہم لینا دینا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عار سے مشتق ہے چونکہ کوئی چیز مستعار دیکر اسکا واپس لینا بھی موجب عار سمجھا جاتا ہے اس لئے اسے عاریۃ کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے کہ عاریۃ ( مستعار لی ہوئی چیز ) سے کسی نے دریافت کیا کہ کدھر جارہی ہو تو اس نے کہا میں اپنے اہل کے لئے مذمت اور عار لینے جارہی ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ عاریۃ کا مادہ وادی ہے جیسا کہ تع اور نا کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اور عار کا مادہ پائی ہے ۔ جیسا کہ عیرے ہ بکذا کے محاورہ سے معلوم ہوتا ہے ۔- رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی:- وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي - بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔
خواتین بھی نظر بچا کر رکھیں - قول باری ہے : (وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ان چیزوں سے اپنی نظریں بچا کر رکھیں جن پر نظر ڈالنا حرام ہے۔ عورتوں کو بھی نظر ڈالنے کے سلسلے میں یہی حکم ہے۔ قول باری : (و یحفظوا فروجھم) نیز (ویحفظن فروجھن) کی تفسیر میں ابوالعالیہ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ قرآن مجید میں جس جگہ بھی یہ حکم مذکور ہے اس سے مراد زنا سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت ہے۔ سوائے سورة نور کے درج بالا آیتوں کے، یہاں ایسی حفاظت مراد ہے کہ کوئی شخص ان شرمگاہوں پر نظر نہ ڈال سکے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابو العالیہ کا یہ قول آیت کی بلا دلیل تخصیص کے مترادف ہے۔ ظاہر آیتجس امر کی مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ شرمگاہوں کو ان تمام باتوں سے محفوظ رکھا جائے جو ایک انسان کے لئے حرام قرار دی گئی ہیں یعنی زنا، لمس اور نظر بازی وغیرہ اسی طرح اس مقام کے علاوہ قرآن میں دوسرے مقامات پر شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم پر مشتمل آیات میں مذکورہ بالا باتوں سے شرمگاہوں کو بچانا مراد ہے اور یہ آیات ان تمام باتوں پر محمول ہیں البتہ یہ کہ کوئی دلالت ایسی قائم ہوجائے جو یہ نشاندہی کردے کہ ان میں بعض مراد ہیں اور بعض نہیں ہیں۔- ابوالعالیہ نے غض بصر کے حکم سے شرمگاہ پر نظر ڈالنے کی ممانعت نیز دوسری آیا میں شرمگاہوں کی حفاظت کے امر سے زنا کاری کی نہی مراد لے کر جو تخصیص کی ہے شاید الفاظ اس تخصیص کا ساتھ نہ دے سکیں اس لئے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ غض بصر اور حفظہ فروج کے حکم کے تحت مسلمانوں کو غلط نظر باری اور زنا کاری نیز ان تمام امور سے روکا گیا ہے جن کی شریعت کے ہاں ممانعت ہے۔ علاوہ ازیں اگر آیت میں بدنظری کی ممانعت مراد ہے تو پھر لا محالہ لمس اور وطی بھی آیت میں مراد ہوں گے کیونکہ یہ دونوں قبیح افعال نظر بازی سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ آیت کے ذریعے صرف نظر بازی کی ممانعت پر نص کردیتا تو خطاب باری کے مفہوم میں ایسی بات بھی ضرور شامل ہوتی جو لمس اور وطی کی ممانعت کی موجب بن جاتی جس طرح قول باری (ولا تقل تھما اف ولا تنھر ھما اور ماں باپ کو اف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو) ان دونوں باتوں سے زیادہ سنگین باتوں مثلاً گالی اور ضرب وغیرہ کی ممانعت بھی موجود ہے۔- سنگھار کے اظہار کی ممانعت - قول باری ہے : (ولا ییدین زینتھن الا ما ظھر منھا) اور اپنا سنگھار ظاہر نہ ہونے دیں ہاں جو اس سے کھلا ہی رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور عطا سے (الا ما ظھر منھا) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس ہتھیلی پر لگی ہوئی مہندی اور آنکھوں میں پڑا ہوا سرمہ مراد ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے اور حضرت انس (رض) سے بھی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس سے کف دست ، چہرہ اور انگوٹھی وغیرہ مراد ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ ظاہری زینت کنگن اور فتخہ ہیں۔ ابوعبید نے کہا ہے کہ فتحہ، انگوٹھی کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے اس سے عورت کا چہرہ اور اس کا ظاہری لباس مراد ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ عورت کا چہرہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ زینت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو باطنی زینت ہے جس پر صرف شوہر کی نظر پڑتی ہے۔ مثلاً گلے کا ہار، انگوٹھی اور کنگن وغیرہ، دوسری ظاہری زینت یعنی اس کا لباس ہے۔ ابراہیم نخعی کا بھی قول ہے کہ ظاہری زینت لباس کا نام ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا) میں اجنبی مرد مراد ہیں شوہر مراد نہیں ہے۔ اسی طرح محرم رشتہ دار بھی مراد نہیں ہیں کیونکہ سلسلہ آیات میں اس بارے میں محرم رشتہ داروں کا حکم بیان ہوچکا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس سے چہرہ اور دونوں کف دست مراد ہیں اس لئے کہ سرمہ چہ رہے کی زینت ہے اور مہندی نیز انگوٹھی ہتھیلی کی زینت ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چہرے اور ہتھیلی کی زینت پر نظر ڈالنے کی اجازت دے دی تو یہ بات اس امر کی بھی مقتضی ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی بھی اباحت ہے۔ چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عورت کھلے چہرے اور کھلی ہتھیلیوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اگر یہ دونوں عضو ستر میں داخل ہوتے تو نماز میں دیگر اعضاء کی طرح انہیں چھپانا بھی ضروری ہوتا جب یہ بات اس طرح ہے تو اجنبی مرد کے لئے عورت کے چہ رہے اور ہتھیلیوں پر شہوت کے بغیر نظر ڈالنا جائز ہوگا۔- ضرورت کے تحت عورت کو دیکھنے کی استثنائی صورتیں - اگر اس پر نظر پڑتے ہی اس کے حصول کی خواہش شہوت کی صورت میں پیدا ہوجائے تو بھی عذر اور ضرورت کے تحت اس پر نظر ڈالنا جائز ہوگا مثلاً مرد اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو، یا اس پر اسے گواہی دینی ہو یا حاکم اس کا اقرار سننا چاہتا ہو، یا اس قسم کی کوئی اور صورت ہو۔- پہلی نظر معاف ہے دوسری نہیں - شہوت کے تحت عورت کے چہرے کو نہ دیکھنے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد دلالت کرتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو فرمایا تھا۔” پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر معاف لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔ “ اسی طرح حضرت جریر (رض) نے اچانک پڑجانے والی نظر کے متعلق حضرت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی نظر ہٹالینے کا حکم دیتا تھا۔ آپ نے اس حکم میں چہرے اور دوسرے اعضاء کے درمیان فرق نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نظر سے وہ نظر مراد ہے جو شہوت کے تحت ڈالی جائے۔ آپ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا کہ پہلی نظر معاف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ضرورت کے تحت بےاختیار ایسا ہوجاتا ہے لیکن دوسری نظرانسان اپنے ارادے اور اختیار سے ڈالتا ہے۔- ہمارے اصحاب نے چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی اباحت کردی ہے خواہ اس صورت میں شہوت پیدا ہوجانے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو تو اس اباحت کی وجہ وہ ضرورتیں اور اعذار ہیں جن کے متعلق روایات منقول ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے ایک انصاریہ سے نکاح کرنا چاہا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پہلے دیکھ لینے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ ” انصار کی آنکھوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ “ یعنی ان کی آنکھیں نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں۔ حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو پیغام نکاح بھیجے اور اس کے لئے اس پر نظر ڈالنے کی گنجائش ہو جس سے اس کے دل میں کشش پیدا ہو اور ان کی نظروں میں وہ بھلی لگے تو اسے ایسا کرلینا چاہیے۔ “ یعنی اس پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ موسیٰ بن عبداللہ بن یزید نے ابو حمید سے جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوگئی تھی، روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اس پر نظر ڈال لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ “ یعنی بشرطیکہ وہ صرف پیغام نکاح کے تحت ہی اس پر نظر ڈال رہا ہو۔ سلیمان بن ابی حثمہ نے محمد سلمہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ عاصم الاحول بکیر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے۔ حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ ” آیا تم نے اس پر نظر بھی ڈال لی ہے ؟ “ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : ” اس پر ایک نظر ڈال لو کیونکہ یہ بات تمہارے رشتہ ازدواج کے دوام کے لئے زیادہ مناسب ہے۔- چہرے کا پردہ - یہ تمام روایات نکاح کے ارادے کے تحت عورت کے چہ رہے اور ہتھیلیوں پر شہوت کے ساتھ نظر ڈالنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (لا یحل لک النسآء من بعدو لا ان تبدل من ازواج ولم اعجبک حسنھن۔ ) ان عورتوں کے بعد تمہارے لئے کوئی جائز نہیں اور نہ یہی کہ تم ان بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کرلو چاہے تمہیں ان کا حسن بھلا ہی کیوں نہ لگے۔ ظاہر ہے کہ حسن کے بھلا لگنے کا مرحلہ چہرہ دیکھنے کے بعد ہی آئے گا۔ عورت کے چہرے پر شہوت کے تحت نظر ڈالنا ممنوع ہے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (العینان تزئیان والیدان تزنیان والوجلان تزنیان ویصدق ذلک کلہ الفوج اویکذبہ) دونوں آنکھیں، دونوں ہاتھ اور دونوں پیر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ آیت زیر بحث کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود (رض) کا قول کہ (الا ماظھر منھا) لباس مراد ہے تو یہ بےمعنی سی بات ہے اس لئے کہ یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زینت کا ذکر فرمایا ہے لیکن اس سے درحقیقت وہ عضو مراد ہے جس پر زینت یعنی سنگھار ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک عورت اپنے تمام زیورات مثلاً کنگن، پازیب، ہار وغیرہ غیر مرد کو دکھا سکتی ہے۔ لیکن انہیں پہن کر غیر مرد کے سامنے نہیں آسکتی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ زینت سے وہ عضو مراد ہے جس کے سنگھار کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت کے بعدہی سلسلہ تلاوت میں فرمایا : (ولا یبدین زینتھن الا لیعولتھن) اور وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے۔ یہاں زینت کی جگہ یعنی اعضائے زینت مراد ہیں۔ اس لئے زینت کی تفسیر لباس سے کرنا ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اس لئے کہ عورت کے جسم پر موجود لباس کو دیکھ لینا جبکہ اس کے جسم کے کسی حصے پر نظر نہ پڑے اسی طرح ہے جس طرح ان کپڑوں پر اس وقت نظر پڑجائے جب عورت نے انہیں پہنا نہ ہو۔- عورت کا گلا اور سینہ ستر میں شامل ہے - قول باری ہے : (ولیضربن بخموھن علی جیوبھن) اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ صنصیہ بنت شعبہ نے حضرت عائشہ (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انصار کی عورتیں بہت ہی اچھی عورتیں ہیں۔ ان کی حیا داری نے انہیں دین میں سمجھ حاصل کرنے اور دینی مسئلے دریافت کرنے سے نہیں روکا۔ جب سورة نور کا نزول ہوا تو انہوں نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اس کا دوپٹہ بنالیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق جیوب سے قمیصوں کے گریبان مراد ہیں کیونکہ عورتیں ایسی قمیصیں پہنتی تھیں جن کے گریبان ہوتے تھے۔ جس طرح زرہ کا گریبان ہوتا ہے۔ اس طرح قمیص پہن کر گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جسم کے ان حصوں کو چھپانے کا حکم دیا۔ چناچہ ارشاد ہوا : (ولیضربن بخموھن علی جیوبھن) اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ عورت کا گلا اور سینہ ستر میں داخل ہیں اور اجنبی مرد کے لئے ان پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔- بنائو سنگھار خاوند کے علاوہ ظاہر نہ کریں - قول باری ہے : (ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن ) وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر شوہر کے سامنے۔ تاآخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ شوہر کے سامنے نیز باپ وغیرہ دوسرے محرم مردوں کے سامنے جن کا ذکر آیت میں شوہر کے ساتھ ہوا ہے اپنا بنائو سنگھار ظاہر کرنا مباح ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس سے موضع زینت مراد ہے۔ یہ چہرہ، ہاتھ اور بازو ہے ۔ اس لئے کہ ہاتھ میں کنگن ، بازو میں بازو بند، گلے نیزسینے کے بالائی حصے میں ہار اور پنڈلی میں پازیب ہوتی ہے۔ آیت ان لوگوں کے لئے جن کا ذکر زیر بحث قول باری میں ہے، عورت کے جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنے کی اباحت کی مقتضی ہے۔ یہ حصے باطنی زینت کے مواضع ہیں اس لئے کہ آیت کے اول حصے میں اجنبی مردوں کے لئے ظاہری زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت تھی اور یہاں شوہر نیز ذوی المحارم کے لئے باطنی زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت کردی۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت زبیر (رض) سے مروی ہے کہ زینت سے کان کی بالیاں، ہار، کنگن اور پازیب مراد ہیں۔- سفیان نے منصور سے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے : (او ابناء بعولتھن ۔ شوہروں کے بیٹے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ سوتیلا بیٹا بازو کے بالائی حصہ یعنی کان اور سر پر نظر ڈال سکتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری کے ذریعے کان اور سر کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زینت کے مواضع کے اندر کسی چیز کی تخصیص نہیں کی ہے اور اس معاملے میں شوہر اور ذوی المحارم کو یکساں درجے پر رکھا ہے۔ اس لئے کہ آیت کا عموم مذکورہ ذوی المحارم کے لئے مواضع زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت کا اسی طرح مقتضی ہے جس طرح شوہر کے لئے اب کی اباحت کا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جب آباء کے ساتھ ان ذومی المحارم کا ذکر کیا جن کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ایسے رشتہ دار جو تحریم نکاح میں ذوی المحارم کی طرح ہوں ان کا حکم بھی یہی ہے۔ مثلاً داماد، ساس اور رضاعت کی بنا پر محرم خواتین وغیرہ۔- اجنبی عورت کے بالوں کو دیکھنا بھی مکروہ ہے - سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ان سے اجنبی عورت کے بالوں پر نظر ڈالنے کے متعلق پوچھا گیا انہوں نے اسے مکرو خیال کیا اور کہا کہ آیت کے اندر اس کا ذکر نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگرچہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن آیت کے اندر اس کا ذکر نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگرچہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن آیت میں مذکورہ چیزوں کے معنوں میں بال بھی داخل ہیں۔ اس چیز کو اس تفسیر کی روشنی میں دیکھا جائے جو ہم نے بیان کی ہے۔- لونڈیوں کے پردے کی حد - آیت زیر بحث میں شوہر اور ذوی المحارم کے سوا دوسروں کے لئے نظر ڈالنے کی تحریم کے جس حکم کا ذکر ہوا ہے اس کا دائرہ صرف آزاد عورتوں تک محدود ہے لونڈیاں اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ نظر ڈالنے کی حلت کے سلسلے میں اجنبی مردوں کے لئے لونڈیوں کی وہی حیثیت ہے جو ذوی المحارم کے لئے آزاد عورتوں کی ہے۔ اس بنا پر اجنبی مرد کے لئے لونڈی کے بالوں، بازوئوں ، پنڈلیوں نیز سینہ اور پستان پر نظر ڈالنا جائز ہے جس طرح ذوی المحارم کے محرم عورت پر نظر ڈالنا جائز ہے۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجنبی مرد لونڈی کے بالوں پر نظر ڈال سکتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ لونڈیوں کو اپنے سر کھلا رکھنے اور آزاد عورتوں کی مشابہت اختیار نہ کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے تھے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لونڈیوں کی حیثیت نظر ڈالنے کے لحاظ سے محرم عورتوں جیسی ہے۔- اسی طرح اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لونڈی محرم کے بغیر سفر کرسکتی ہے اس بنا پر اس کے حق میں تمام مردوں کی حیثیت وہی ہوگی جو ذوی المحارم کی آزاد عورتوں کے حق میں ہوتی ہے یعنی آزاد عورتیں ذوی المحارم کے ساتھ سفر کرسکتی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔” کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو محرم یا شوہر کے بغیر تین دن سے زائد کا سفر حلال نہیں ہے۔ “ جب لونڈی کے لئے محرم کے بغیر سفر کرنا جائز ہوگیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نظر ڈالنے کی اباحت کے سلسلے میں لونڈی کی حیثیت وہی ہے جو آزاد عورت کی اس کے ذوی المحارم کے لئے ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درج بالاارشاد اس امر پر دال ہے کہ محرم مرد کو عورت کے جسم کے جن حصوں پر نظر ڈالنے کی اجازت ہے وہ صرف اس کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اجنبی مرد کے لئے اس کی حلت نہیں ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کردیا تھا۔- والدہ، بہن، خالہ اور پھوپھی کے بالوں کو دیکھنے کی اباحت - منذر الثوری نے روایت کی ہے کہ محمد بن الحنفیہ اپنی والدہ کے بالوں میں کنگھی کردیا کرتے تھے۔ ابو البختری نے روایت کی ہے کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) اپنی ہمشیرہ ام کلثوم کے پاس اس وقت بھی چلے جاتے تھے جب وہ اپنے بالوں میں کنگھی کررہی ہوتی تھیں۔ حضرت عبدالہل بن الزبیر (رض) کے متعلق بھی اپنی محرم خواتین کے سلسلے میں اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابراہیم نخعی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ مرد کے لئے اپنی ماں، بہن، خالہ اور پھوپھی کے بالوں پر نظر ڈالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ پنڈلی پر نظر ڈالنا ممنوع ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے مقتضیٰ میں بال اور پنڈلی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ ہشام نے حسن سے روایت کی ہے اگر عورت اپنے بھائی کے سامنے دوپٹہ اتاردے تو اس کے متعلق انہوں نے کہا۔” بخدا اسے ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ “ سفیان نے لیث سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی اور بہن کے بالوں پر نظر ڈالنا مکروہ سمجھا ہے۔ جریر (رض) نے مغیرہ سے اور انہوں نے سعبی سے روایت کی ہے کہ مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اپنی مال اور بہن کے بالوں پر اپنی نظریں گاڑ دے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ بات اس صورت پر محمول ہے جس میں شہوت پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہوا اگر ایسا ہو تو یہ آیت اور سنت کے خلاف ہوگا اور پھر ذوی المحارم اور اجنبی مردوں کا حکم یکساں ہوجائے گا۔ آیت کا حکم مردوں کے نظر ڈالنے کی صورت کے ساتھ مخصوص ہے۔- عورتوں کے لئے عورتوں کا ستر - عورتوں پر عورتوں کا نظر ڈالنا اس میں داخل نہیں ہے اس لئے کہ عورت کے لئے دوسری عورت کی جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنا جائز ہے جن حصوں پر ایک مرد کے لئے دوسرے مرد پر نظر ڈالنا جائز ہے اور وہ ناف سے اوپر کا حصہ اور گھٹنے سے نیچے کا حصہ ہے۔ عورتوں کے لئے دوسری عورتوں کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے پر نظر ڈالنا ممنوع ہے۔- قول باری ہے : (اونسائھن) اپنے میل جول کی عورتوں کے سامنے ایک روایت کے مطابق اس سے مومن عورتوں کے ساتھ میل جول رکھنے والی مسلمان عورتیں مراد ہیں۔- غلاموں کے سامنے عورتوں کے پردے کی کیفیت - قول باری ہے : (اوما ملکت ایمانھن) اور اپنے مملوک کے سامنے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ غلام اپنی مالکن کے بالوں پر نظر ڈال سکتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک وہ دوسری عورتوں کے بالوں پر بھی نظر ڈال سکتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ (رض) غلام کے سامنے کنگھی کرلیا کرتی تھیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، مجاہد، حسن، ابن سیرین اور ابن المسیب کا قول ہے کہ غلام اپنی مالکن کے بالوں پر نظر نہیں ڈال سکتا۔ ہمارے اصحاب کا مسلک بھی یہی ہے الا یہ کہ غلام محرم ہو۔ انہوں نے درج بالا قول باری سے لونڈیاں مراد لی ہیں اس لئے کہ غلام اور آزاددونوں تحریم کے مسئلے میں یکساں ہیں۔ مالکن کے لئے اگرچہ اپنے غلام سے نکاح کرلینا جائز نہیں ہوتا لیکن یہ عارضی تحریم ہے۔- جیسا کہ اس شخص کا معاملہ ہے جس کے عقد میں کوئی عورت ہو اس کی بہن اس پر حرام ہوگی لیکن یہ چیز اس مرد کے لئے اپنی سالی کے بالوں پر نظر ڈالنے کی اباحت نہیں کرے گی یا اس شخص کی طرح جس کے عقد میں چار بیویاں ہوں، ظاہر ہے کہ باقی ماندہ عورتیں اس پر فی الحال حرام ہوں گی لیکن یہ بات باقی ماندہ عورتوں کے بالوں پر نظر ڈالنے کی اباحت نہیں کردے گی۔ جب مالکن کے لئے اپنے غلام سے نکاح فی الحال حرام ہو لیکن یہ تحریم عارضی ہو ہمیشہ کے لئے نہ ہو تو پھر غلام کی حیثیت وہی ہوگی جو دوسرے تمام اجنبی مردوں کی ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لا تحل لامراۃ تو من باللہ والیوم الاخران تسافر سفرا فوق ثلاث الامع ذی محرم) غلام، مالکن کا ذی محرم نہیں ہوتا اس لئے غلام کے ہمراہ سفر کرنا مالکن کے لئے جائز نہیں ہوگا جب اس کے ہمراہ سفر جائز نہیں ہوگا تو اس کے بالوں پر نظر ڈالنا بھی جائز نہیں ہوگا جس طرح ایک آزاد اجنبی مرد کے لئے یہ جائز نہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی درج بالا وضاحت سے آیت میں ملک یمین کے ذکر کا فائدہ باطل ہوجاتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں (اونساء من) کے ذریعے عورتوں کا ذکر فرمایا اور اس سے آزاد مسلمان عورتیں مراد لیں۔ اس مقام پر کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ لونڈیوں کو اپنی مالکن کے بالوں اور جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنے کی اجازت نہیں ہے جن پر آزاد عورت نظر ڈال سکتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اس معاملے میں لونڈیاں اور آزاد عورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں خصوصیت کے ساتھ عورتوں کا ذکر فرمایا کیونکہ اس سے قبل جن افراد کا ذکر ہوچکا تھا وہ سب کے سب مرد تھے جیسا کہ اس قول باری سے واضح ہے : (ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن) تا آخر آیت۔- اس بنا پر کوئی شخص یہ گمان کرسکتا تھا کہ یہ بات صرف مردوں کے لئے خاص ہے بشرطیکہ وہ ذوی المحارم ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دور فرماتے ہوئے واضح کردیا کہ عورتوں کے لئے بھی دوسری عورتوں کے جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنا جائز ہے خواہ یہ عورتیں محرمات ہوں یا غیر محرمات۔ اس پر لونڈیوں کے حکم کو عطف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اوماملکت ایمانھن) تاکہ یہ گمان پیدا نہ ہوسکے کہ یہ حکم صرف آزاد عورتوں تک محدود ہے کیونکہ ظاہر قول باری (اونساء ھن) آزاد عورتوں کے مفہومکا مقتضی تھا۔ لونڈیاں اس میں شامل ہیں تھیں جس طرح قول باری (وانکحو الایامی منکم۔ اپنی بےنکاحی عورتوں کا نکاح کرائو) آزاد عورتوں کے مفہوم پر مشتمل تھا، لونڈیوں کے مفہوم پر نہیں یا اسی طرح قول باری (شھیدین من رجالکم۔ اپنے مردوں میں سے دو گواہ) آزاد مردوں کا مفہوم ادا کررہا تھا کیونکہ اس میں اضافت ہماری طرف (آزاد مردوں کی طرف) کی گئی ہے۔ ان آیات کی طرح قول باری (اونساء ھن) سے آزاد عورتیں مراد تھیں اس لئے ان پر لونڈیوں کو عطف کرکے یہ واضح فرما دیا کہ اس سلسلے میں لونڈیوں کے لئے بھی ان امور کی اباحت ہے جن کی آزاد عورتوں کے لئے ہے۔- خواتین سے بےغرض مردوں کے لئے پردے کی تخفیف - قول باری ہے : (اولتابعین غیراولی الاربۃ من الرجال) یا ان زیر دست مردوں کے سامنے جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے وہ مرد، مراد ہے جو تمہارے ساتھ صرف اس غرض سے رہتا ہو کہ اسے بھی تمہارے کھانے میں سے کوئی حصہ مل جائے اور اسے عورتوں کی ضرورت نہ ہو۔ عکرمہ کے قول کے مطابق یہ عنین یعنی قوت مردمی سے محروم شخص ہے۔ مجاہد، طائوس، عطاء اور حسن کا قول ہے کہ یہ ایلہ یعنی ضعیف العقل شخص ہے ۔ بعض کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ احمق شخص ہے جسے عورتوں کے ساتھ کوئی دل چسپی نہ ہو۔- مخنث (ہیجڑا) سے پردہ - زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مخنث یعنی ہیجڑا ازواج مطہرات کے پاس آتا جاتا تھا۔ لوگ اس کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ اسے عورتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر آئے تو وہ اس وقت بیٹھا ایک عورت پر تبصرہ کررہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” میرے خیال میں اسے جنسی امور کا علم ہے۔ آئندہ یہ تمہارے پاس ہرگز نہ آئے۔ “ چناچہ اس کا داخلہ روک دیا گیا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کی بیٹی زینب سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ (رض) کے بھائی یعنی اپنے سالے سے مخاطب ہوکر فرمایا : عبداللہ اگر اللہ تعالیٰ کل تم لوگوں کو طائف پر فتح عطا کردے تو میں تمہیں وہاں غیلان کی بیٹی کا پتہ بتادوں گا جس کے آگے چار آدمی ہوتے ہیں اور پیچھے آٹھ آدمی۔ “ پھر فرمایا ” میں نہیں سمجھتا کہ اسے جنسی باتوں کا پتہ نہیں، اس کا داخلہ روک دو ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کے پاس اس مخنث کی آمدورفت کی اس صورت میں اجازت دی تھی جب آپ کا خیال یہ تھا کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن آپ نے اسے عورتوں کے احوال وکیفیات بیان کرتے دیکھا تو آپ کو یہ علم ہوگیا کہ اسے عورتوں سے دلچسپی ہے تو آپ نے اسے اندر آنے سے روک دیا۔- نابالغوں سے پردے کی تخفیف - قول باری ہے : (الذین لم یظھروا علی عورات النساء) اور ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ مجاہد کا قول ہے کہ وہ اتنے چھوٹے ہوں کہ عورتوں کی جنس کے متعلق انہیں کچھ خبر نہ ہو۔ قتادہ کے قول کے مطابق وہ بچے مراد ہیں جو ابھی بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں۔ ابوبکر حبصاص کی رائے میں مجاہدکا قول زیادہ واقع ہے۔ اس لئے کہ (لم یظھروا علی عورات النسآء) کا مفہوم ہے کہ انہیں مردوں اور عورتوں کی پوشیدہ باتوں کے درمیان کوئی امتیاز نہ ہو جس کی وجہ اس کی کم سنی اور اس بارے میں ان کی معلومات کی کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو جسے عورتوں کی پوشیدہ باتوں کی خبر ہے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد ہے : (لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث موات) تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں۔ اس سے وہ بچہ مراد ہے جو جنسی امور سے واقف ہو نیز اسے عورتوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہو۔ اب وہ بچہ جسے اجازت حاصل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے وہ لازماً مذکور بچے سے چھوٹا ہوگا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (مروھم بالصلوٰۃ بسبع واضربوھم علیھا لعشر وفرقوا بینھم فی المضاجع) انہیں سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم کرو، دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔ آپ نے دس سال کی عمر سے پہلے بستر الگ الگ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ دس سال ہونے پر اس کا حکم دیا کیونکہ دس سال کے لڑکے کو اکثر احوال میں جنسی نیز پوشیدہ نسوانی باتوں کی کچھ نہ کچھ شدھ بدھ ہوجاتی ہے۔- زیورات کا اظہار نہ ہو - قول باری ہے : (ولا یضربن بار جلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن) وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجانے۔ ابوالاحوص نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد پازیب ہے۔ مجاہدکا بھی یہی قول ہے۔ زمین پر پائوں مار کر چلنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے تاکہ پازیب کی جھنکار کی آواز لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچے۔ قول باری (لیعلم ما یخفین من زینتھن) کے یہی معنی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ زینت کی آواز سنانے کی نہی کے سلسلے میں نص وارد ہوا ہے، کیونکہ اظہار زینت کی نہی اس چیز کے متعلق اولیٰ ہے جس کے ذریعے دوسروں کو اس کا علم ہوجائے۔ جب زینت کا اظہار اس طریقے کے ذریعے جائز نہیں جو زیادہ پوشیدہ ہے تو اس طریقے کے ساتھ بھی جائز نہیں ہوگا۔ جو زیادہ ظاہر ہے۔ یہ بات ان معانی کے ذریعہ قیاس کی صحت کے قول پر دلالت کرتی ہے جن کے ساتھ احکام کو معلق کردیا جاتا ہے۔ یہ معانی کبھی چلی ہوتے ہیں کیونکہ خطاب کا مضمون ان پر دلالت کرتا ہے۔ اور کبھی یہ معانی خفی ہوتے ہیں جن پر دوسرے اصولوں کے ذریعے استدلال کی ضرورت پڑتی ہے۔ آیت میں اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ عورت کو اتنی اونچی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی ممانعت ہے جس سے اس کی آواز غیر مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے۔ کیونکہ عورت کی آواز اس کی پازیب کی بہ نسبت فتنہ پیدا کرنے کے لئے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے عورت کی اذان کو مکروہ سمجھا ہے کیونکہ اذان میں آواز بلند کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس سے عورت کو منع کیا گیا ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شہوت کے تحت عورت کے چہرے کو دیکھنے کی بھی ممانعت ہے کیونکہ یہ چیز آوارگی پیدا کرنے اور فتنہ میں مبتلا کرنے کے اقرب ہوتی ہے۔
(٣١) اور اسی طرح آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں حرام مردوں اور مردوں کے دیکھنے سے نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع اور زیورات وغیرہ کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس کے کپڑوں میں سے غالبا کھلا رہتا ہے (جیسا کہ پیر) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں اور پٹیوں پر ڈالے رکھا کریں اور ان کو باندھ لیا کریں اور اپنی زینت کے مواقع مذکورہ کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ پر خواہ نسبی ہوں یا رضاعی یا اپنے شوہروں کے باپ پر یا اپنا بیٹوں پر خواہ نسبی ہوں یا رضاعی یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر جو دوسری بیوی سے ہوں یا اپنے نسبی یا رضاعی بھائیوں پر یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر خواہ نسبی ہوں یا رضاعی یا اپنی نسبی یا رضاعی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی مسلمان عورتوں پر کیونکہ یہودیہ، نصرانیہ، مجوسیہ، کافرہ عورتوں کے سامنے زینت کے مقامات کھولنا جائز نہیں یا ان باندیوں پر جو کہ تمہاری ملکیت میں داخل ہیں یا ان مردوں اور عورتوں پر جو کہ ان کے خاوندوں کے پاس محض طفیلی طور پر رہتے ہیں اور ان کو عورتوں کی طرف ذرا توجہ نہ ہو جیسا کہ خصی اور بہت بوڑھا آدمی یا ایسے کمسن لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ابھی تک واقف نہیں ہوئے ہیں یعنی کمسنی کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ صحبت نہیں کرسکتے اور نہ عورتیں ان کے ساتھ اپنی خواہش پوری کرسکتی ہیں تو ان کے سامنے زیورات ہاتھ پیر کے کھلے رہنے میں کوئی حرج نہیں اور پردے کا اہتمام یہاں تک رکھیں کہ ایک پیر کو دوسرے پیر پر مت ماریں کہ ان کا مخفی زیور مثلاا پازیب معلوم ہوجائے۔- اور اے مسلمانو تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے تمام گناہوں سے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے توبہ کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے غصہ اور اس کی ناراضگی سے نجات پاؤ۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وقل للمؤمنت یغضضن “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے مقاتل سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جابربن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اسماء بن مرثد اپنے کھجوروں کے باغ میں تھیں تو ان کے پاس عورتیں چادریں اچھی طرح اوڑھ کر نہیں آتی تھیں جس سے ان کے پیروں کے زیورات یعنی پازیب اور ان کے سینے اور مینڈھیاں کھل جاتی تھیں تو اس پر حضرت اسماء (رض) نے فرمایا کہ یہ کس قدر بڑی چیز ہے تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔- اور ابن جریر (رح) نے حضرمی سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے چاندی کے پازیب بنوائے تھے اور پاؤں کے کڑے بھی تو اس کا ایک قوم پر سے گزر ہوا۔ اس سے اپنا پیر زور سے رکھا تو پازیب کڑوں پر گر پڑے جس کی وجہ سے آواز پیدا ہوئی تب آیت کریمہ نازل ہوئی، ( آیت) ” ولا یضربن بارجلھن “۔ (الخ) یعنی اپنے پیر زور سے نہ رکھیں۔
(وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّص) ” - اپنے معمول کے لباس کے اوپر وہ اپنی اوڑھنیوں کو اس طرح لپیٹے رکھیں کہ ان کے گریبان اور سینے ڈھکے رہیں۔ خُمُر جمع ہے ‘ اس کا واحد خمار ہے اور اس کے معنی اوڑھنی (دوپٹہ) کے ہیں۔ سورة الاحزاب ‘ آیت ٥٩ میں خواتین کے لباس کے حوالے سے جلابِیب کا لفظ آیا ہے جس کی واحد جلباب ہے۔ ہمارے ہاں ” جلباب “ کا مترادف لفظ چادر ہے۔ چناچہ یوں سمجھئے کہ دوپٹہ اور چادر دونوں ہی عورت کے لباس کا لازمی حصہ ہیں۔ عرب تمدن میں اسلام سے پہلے اگرچہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ رائج نہیں تھا مگر چادر اور اوڑھنی اس دور میں بھی عورت کے لباس کا لازمی حصہ تھیں۔ اوڑھنی وہ ہر وقت اوڑھے رہتی تھی (گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی) جبکہ گھر سے باہر نکلنا ہوتا تو چادر اوڑھ کر نکلتی تھی۔ البتہ وہ اوڑھنی اس انداز سے لیتی تھیں کہ گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے ُ بکلّ مار لیا کریں تاکہ ان کے گریبان اور سینے اچھی طرح ڈھکے رہیں۔ زمانہ قبل از اسلام میں عربوں کے ہاں چادر نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لباس کا بھی لازمی حصہ تھی۔ چادر مرد کی عزت کی علامت سمجھی جاتی اور چادر کے معیار سے کسی شخص کے مقام و مرتبے کا تعین بھی ہوتا تھا۔ معمولی چادر والے شخص کو ایک عام آدمی جبکہ قیمتی دوشالہ اوڑھنے والے کو معزز اور اہم آدمی سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کسی کے کاندھے سے اس کی چادر کا کھینچنا یا گھسیٹنا اس کو بےعزت و بےتوقیر کرنے کی علامت تھی۔ چادر کا یہی تصور اس حدیث قدسی میں بھی ملتا ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے : (اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ ) (١) ” تکبر میری چادر ہے “۔ یعنی جو شخص تکبر کرتا ہے وہ گویا میری چادر گھسیٹ رہا ہے۔- (وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ ) ” - آگے اس حکم سے استثناء کے طور پر مردوں کی ایک طویل فہرست دی جا رہی ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب ‘ کھلے چہرے کے ساتھ آسکتی ہے۔ مقام غور ہے کہ اگر عورت کے چہرے کا پردہ لازمی نہیں ہے تو محرم مردوں کی یہ طویل فہرست بیان فرمانا (معاذ اللہ ) کیا ایک بےمقصد مشق ( ) ہے ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں عورت کے چہرے کا پردہ لازمی ہے اور اس حکم سے جن مردوں کو استثناء حاصل ہے وہ یہ ہیں :- (اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ ) ” - باپ کے مفہوم میں چچا ‘ ماموں ‘ دادا اور نانا بھی شامل ہیں۔- (اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ ) ” - یعنی شوہر کا وہ بیٹا جو اس کی دوسری بیوی سے ہے وہ بھی نا محرم نہیں ہے۔- (اَوْ نِسَآءِہِنَّ ) ” - یعنی عام عورتیں بھی نا محرم تصور کی جائیں گی۔ البتہ اپنے میل جول اور جان پہچان کی عورتیں اس استثنائی فہرست میں شامل ہیں۔- (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ ) ” - یعنی غلام اور لونڈیاں۔ لیکن اکثر اہل سنت علماء کے نزدیک یہ حکم صرف لونڈیوں کے لیے ہے اور غلام اس میں شامل نہیں ہیں۔- (اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ ) ” - یعنی ایسے زیردست لوگ جو صرف خدمت گار ہوں اور اپنی عمر یا زیردستی و محکومی کی بنا پر خواتین خانہ کے متعلق کوئی بری نیت دل میں نہ لاسکیں۔ اس شرط پر پورا اترنے والے مرد بھی اس استثنائی فہرست میں شمار ہوں گے۔ مثلاً ایسے خاندانی ملازمین جو کئی پشتوں سے گھریلو خدمت پر مامور ہوں۔ پہلے باپ ملازم تھا ‘ پھر اس کا بیٹا بھی اسی گھر میں پلا بڑھا اور بچپن سے ہی گھر کی خواتین کی خدمت میں رہا۔ ایسے لڑکے یا مرد سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ گھر کی خواتین کے بارے میں برا خیال ذہن میں لائے۔- (اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِص) ” - یعنی وہ نا بالغ لڑکے جن میں عورتوں کے لیے فطری رغبت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ان محرم لوگوں کی فہرست ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب کے آسکتی ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں مزید ذہن نشین کر لیجیے : - پہلی یہ کہ اس آیت میں اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہوجائے) کے الفاظ سے بعض لوگ چہرہ مراد لیتے ہیں ‘ جو بالبداہت بالکل غلط ہے۔ سورة الاحزاب میں وارد احکام حجاب اور احادیث نبویہ کی رو سے عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے۔ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں۔ میرے نزدیک ان قرآنی الفاظ سے مراد نسوانی جسم کی ساخت یا اس کی ایسی کوئی کیفیت ہے جسے عورت چھپانا چاہے بھی تو نہیں چھپا سکتی۔ مثلاً کسی خاتون نے برقعہ پہن رکھا ہے ‘ چہرے کے پردے کا اہتمام بھی کیا ہے مگر اس کے لمبے قد کی کشش یا متناسب جسم کی خوبصورتی اس سب کچھ کے باوجود بھی اپنی جگہ موجود ہے ‘ جو بہرحال چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ - دوسری اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ محرموں کے سامنے عورت کو صرف چہرے کے پردے کے بغیر آنے کی اجازت ہے۔ ستر کے کسی حصے کو ان کے سامنے بھی کھولنے کی اسے اجازت نہیں (اس میں صرف اس کے خاوند کو استثناء حاصل ہے) ۔ واضح رہے کہ عورت کے چہرے ‘ پہنچوں سے نیچے ہاتھوں اور ٹخنوں سے نیچے پیروں کے سوا اس کا تمام جسم اس کے ستر میں شامل ہے۔ چناچہ کسی عورت کو کھلے بالوں کے ساتھ یا مذکورہ تین اعضاء کے علاوہ جسم کے کسی حصے کو کھلا چھوڑ کر اپنے والد ‘ بھائی یا بیٹے کے سامنے بھی آنے کی اجازت نہیں۔- (وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ط) ” - عورت کی چال ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے چادر یا برقعے کے باوجود اس کے بناؤ سنگھار ‘ زیورات وغیرہ میں سے کسی قسم کی زینت کے اظہار کا امکان ہو۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :30 شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے ۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّتہ الیٰ رکبتہ ، مرد کا ستر اس کی ناف سے گھٹنے تک ہے ( دارقطنی بیہقی ) ۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے ۔ حضرت جَرھَدِ اَسْلمی ، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ ، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے کے قابل چیز ہے ؟ ( ترمذی ، ابو داؤد ، مؤطا ) ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تُبرِز ( یا لا تکشف ) فخذک ، اپنی ران کبھی نہ کھولو ۔ ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) ۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے ۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولا تعری فان معکم من لا یفارقکم الا عند الغائط وحین یفضی الرجل الیٰ اھلہ فاستحیوھم و اکرموھم ، خبردار ، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے ( یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سوائے اس وقات کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو ، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو ( ترمذی ) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظ عورتک الا من زوجتک او ما ملکت یمینک ، اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو ۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستحیا منہ ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے ، ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :31 عورتوں کے لئے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لئے ہیں ، یعنی انہیں قصدا غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہئے ، نگاہ پڑ جاءے تو ہٹا لینی ثاہئے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے ، لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کو مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں ۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا احتجبا منہ ان سے پردہ کرو ، بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ الیس اعمی لا یبصرنا و لا یعرفنا ، یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ، فرمایا افعمیا وان انتما ، الستما تبصرانہ ، کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تما نہیں دیکھتیں؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ ذلک بعد ان امر بالجاب ، یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا ۔ ( احمد ابو داؤد ، ترمذی ) اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک نابینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا ، کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں؟ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا ۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا لکنی انظر الیہ ، میں تو اسے دیکھتی ہوں ۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ ۷ہجری میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عائشہ کو یہ تماشا دکھایا ۔ ( بخاری ، مسلم ، احمد ) تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں ، پہلے حضور نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو ، پھر فرمایا ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں ( کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ) لہذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو ، وہ اندھے آدمی ہیں ، تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکو گی ( مسلم ، ابوداؤد ) ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے ۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے ، راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے ۔ اور کوءی حقیقی ضرورت پیش آجاءے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ امام غزالی اور ابن جر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے ۔ سوکانی نیل الاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جوزا کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے ۔ مسجدوں میں ، بازاروں میں ، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں ، مگر مردوں کو کبھی یہ حخم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ۔ ( جلد ٦ ، صفحہ ۱۰۱ ) تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتیں اطمینان سے مردوں کو گھوریں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :32 یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں ، اور اپنا ستر دونوں کے سامنے کھونے سے بھی ، اس معاملے میں عورتوں کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں ، لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں ، نیز عورت کا ستر مردوں کے لئے الگ ہے اور عورتوں کے لئے الگ ۔ مردوں کے لئے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد حتی کہ باپ اور بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہئے ، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہئے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو ۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ۔ حضور نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا یا اسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا انیری منھا الا ھذا و ھذا و اسار الی وجھہ وکفیہ ، اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ۔ ( ابوداؤد ) اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نےحضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں اکے اخیافی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے ۔ آپ نے فرمایا اذا عرکت المرأۃ لم یحل لھا ان تظھر الا وجھھا و الا مادون ھذا و قبض علی ذراع نفسہ وترک بین قبضتہ و بین الکف مثل قبضۃ اخری ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا ، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی ۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں ( مثلا باپ بھائی وغیرہ ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا ، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پانچے کچھ اوپر کرلینا ۔ اور عورت کے لئے عوعرت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لئے مرد کے ستر کے ہیں ، یعنی ناف اور گھٹنے کےدرمیان کا حصہ ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے ۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :33 یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے ، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا ، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :34 بناؤ سنگھار ہم نے زینت کا ترجمہ کیا ہے ، جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے ۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے ، زیور ، اور سر ، منہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتیں دنیا میں کرتی ہیں ، جن کے لیے موجودہ زمانے میں ( ) کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے ، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :35 اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے ، ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے ۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ : لا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ، وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں ۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مِنْھَا ، جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو ، یا ظاہر ہو جائے ۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے ، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے ( جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا ) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو ( جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے ، کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے ، اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے ) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے ۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے : مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ ( جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے ) ، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے ، اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے ۔ یہ مطلب ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے ( احکام القرآن جصاص ، جلد 3 ، صفحہ 388 ۔ 389 ) ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ : مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں ۔ ظاہر ہونے اور ظاہر کرنے میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ظاہر کرنے سے روک کر ظاہر ہونے کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے ۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں ، اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا ، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا ۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں ۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی نا جائز ہے ۔ رہا حجاب ، تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے ، اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :36 زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی ۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا ۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی ۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں ( تفسیر کشاف جلد 2 ، صفحہ 90 ۔ ابن کثیر جلد 3 ، صفحہ 283 ۔ 284 ) ۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا ، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے ، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر ، کمر ، سینہ ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں ۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں ، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں ۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا ۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں ۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے ( ابن کثیر ، ج 3 ، ص 284 ۔ ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے ، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے ، چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے ۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی ۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ ( قَبَاطِی ) آئی ۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دو ، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا ، اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے ۔ ( ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :37 یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں ، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی ، بہرحال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے ۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں ، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے ، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جائے ، یا جس کا چھپانا ممکن نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پردادا اور نانا پرنانا بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال ، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آ سکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آ سکتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :39 بیٹیوں میں پوتے پرپوتے اور نواسے پرنواسے سب شامل ہیں ۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کر سکتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :40 بھائیوں میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :41 بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے ، یعنی ان کے پوتے پرپوتے اور نواسے پرنواسے سب اس میں شامل ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :42 یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے ، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے ، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں : پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے ، باقی سب لوگوں کو ، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے ۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے ۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی ۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو ، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو ۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو ۔ اور باقی سب سے ہو ۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں ، مثلاً چچا ، ماموں ، داماد اور رضاعی رشتہ دار ۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ، اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے ( ج ۔ 3 ، ص ۔ 390 ) ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو ( یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو ) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیں ، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے ، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا ۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے ، ان کی عمر ، عورت کی عمر ، خاندانی تعلقات و روابط ، اور فریقین کے حالات ( مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا ) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں ۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے ۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں ، آپ کے سامنے ہوتی تھیں ، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا ۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی ( ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الحج ، باب المحرم یؤدِّب غلامہ ) ۔ اسی طرح حضرت ام ہانی ، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں ، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں ، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا ۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے ( ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الصوم ، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ ) ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو ، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی ) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گئے ہو ، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں ، لہٰذا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو ۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں ۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے ۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حضور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں ( ابو داؤد ، کتاب الخراج ) ۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں ۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جائے وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے ۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا ( یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا ، کیونکہ وہ دراصل میرے نطفے سے ہے ۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر ۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا ( احتجبی منہ ) ، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :43 اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ان کی عورتیں ۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں ، یہ بحث تو بعد کی ہے ۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض عورتوں ( النسآء ) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بے پردہ ہونا اور اظہار زینت کرنا جائز ہو جاتا ، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہرحال ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے ، اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآءِھِنَّ کا اطلاق ہوتا ہے ، اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں ۔ غیر مسلم عورتیں خواہ وہ ذمی ہوں یا کسی اور قسم کی ، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے ۔ ابن عباس ، مجاہد اور ابن جریج کی یہی رائے ہے ، اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عُبیدہ کو لکھا میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں ۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے ۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے اس کا منہ آخرت میں کالا ہو جائے ۔ ( ابن جریر ، بیہقی ، ابن کثیر ) ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں ۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا ۔ تیسری رائے یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے دراصل ان کے میل جول کی عورتیں ، ان کی جانی بوجھی عورتیں ، ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں ، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو ، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جا سکے ۔ اس رائے کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے ۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے ۔ شریف ، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں ، ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہو سکتی ہیں ، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن بے حیا ، آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں ، خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے ، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے ۔ رہیں اَن جانی عورتیں ، جن کی حالت معلوم نہیں ہے ، تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے ، یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے ، باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :44 اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں ۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے ، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام ، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو ، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے ۔ یہ عبد اللہ بن مسعود ، مجاہد ، حسن بصری ، ابن سیرین ، سعید بن مُسَیَّب ، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے ۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے ۔ اگر وہ آزاد ہو جائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے ۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں ، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے ۔ پہلے نِسَآءِھِنَّ فرمایا ، پھر ما ملکت ایمانھن ارشاد ہوا ۔ نِسَآءِھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں ۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں ۔ اس لیے ما ملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں ۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے ۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوئے حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے ۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا : لیس علیک باسٌ ، انماھو ابوک و غلامک ۔ کوئی حرج نہیں ، یہاں بس تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ( ابو داؤد ، احمد ، بیہقی بروایت انس بن مالک ۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا ، انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کر دیا ، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس نے دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امیر معاویہ کا پر جوش حامی تھا ) ۔ اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ : اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤدی فلتحتجب منہ ، جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کر لے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بروایت ام سلمہ ) سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :45 اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جبکہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع ، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو ، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت ، یا عقلی کمزوری ، یا فقر و مسکنت ، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی ، بیٹی ، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے ۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے ، نہ کہ نافرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے ، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے بیرے خانسامے ، شوفر اور دوسرے جوان جوان نوکر تو بہرحال اس تعریف میں نہیں آتے ۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں : ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بدھو ( مُغَفَّل ) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو ۔ قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے ۔ مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے ۔ شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تابع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے ۔ ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے ، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا بڑہا ہو ۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو ، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو ۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے ۔ طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت ۔ ( ابن جریر ، ج 18 ۔ ص 95 ۔ 96 ۔ ابن کثیر ، ج3 ص 285 ) ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور احمد وغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے ۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں ۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا ۔ پھر اس نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشیدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا خدا کے دشمن ، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو ، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا ، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولی الاربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے ۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہرحال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے ۔ سوْرَةُ النُّوْر حاشیہ نمبر :46 یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں ۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے ۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہوں ، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :47 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے ، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سوا دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَاجد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات ، اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو ، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ۔ ( ابو داؤد ، احمد ) ۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے ۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا اے خدائے جبار کی بندی ، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ بولے میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ، احمد ، نسائی ) ۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجدوا ریحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدیدا ، جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے ۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ( ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو ( ابو داؤد ) ۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں ۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے ، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں ۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں ۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں ، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں ۔ التسبیح للرجال والتصفیق للنساء ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :48 یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو ، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کر لو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :49 اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں : 1: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو ( خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجوا علی المغیبات فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم ، جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ( ترمذی ) ۔ انہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ والیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان ، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو ، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ( احمد ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے ۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے ۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے ۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ ، یا رسول اللہ ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے ( ابو داؤد ، کتاب الصوم ) ۔ 2 : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے ۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے ، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا ۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جب وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے ، جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی ( ابو داؤد ، کتاب الخراج ) ۔ 3 : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا ذو محرم ، ولا تسافر المرأۃ لا مع ذی محرم ، ’ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو ، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو ۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک ، اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ
18: سجاوت سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں جن پر زیور پہنا جاتا ہے، یا خوشنما کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ لہذا اس آیت کریمہ نے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے اپنا پورا جسم کسی ایسی چادر یا برقع سے چھپائیں جو ان کے سجاوٹ کے مقامات کو چھپالے۔ البتہ ان مقامات میں سے کوئی حصہ کام کاج کے دوران بے اختیار کھل جائے، یا کسی ضرورت کی وجہ سے کھولنا پڑے تو اسے یہ کہہ کر مستثنی کردیا گیا ہے کہ سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے۔ تفسیر ابن جریر کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ چادر ہے جو عورت نے اوڑھی ہوئی ہو کہ اس کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ضرورت کے وقت عورت کو اگر اپنا چہرہ اور ہتھیلیوں تک ہاتھ کھولنے پڑیں تو اس آیت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن چونکہ چہرہ ہی عورت کے حسن کا اصل مرکز ہوتا ہے۔ اس لیے عام حالات میں اس کو بھی چھپانے کا حکم ہے جیسا کہ سورۃ احزاب : 59 میں بیان فرمایا گیا ہے البتہ صرف ضرورت کے مواقع پر اسے کھولنے کی اجازت ہے، اور اس حالت میں بھی مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، جیسا کہ پھچلی آیت میں گذرا۔ 19: یہاں سے ان افراد کی فہرست دی جا رہی ہے جن سے عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے 20: بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں، لہذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے، لیکن چونکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لیے امام رازی اور علامہ آلوسی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنی عورتوں سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں تو چاہے مسلمان ہوں یا کافر۔ ان سے پردہ واجب نہیں ہے (معارف القرآن) 21: اس سے مراد باندیاں ہیں، چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ اور بعض فقہاء نے اپنے غلاموں کو بھی اس میں شامل قرار دیا ہے، یعنی ان سے پردہ نہیں ہے۔ 22: قرآن کریم میں اصل لفظ ’’ تابعین‘‘ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی ایسے لوگ ہیں جو کسی دوسرے کے تابع ہوں۔ اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اس زمانے میں کچھ بے عقل قسم کے لوگ ایسے ہوتے تھے جو کسی گھر والے کے اس لیے پیچھے لگ جاتے تھے کہ وہ انہیں کھانا کھلا دے، یا کسی مہمان کے طفیلی بن کر کسی کے گھر میں چلے جاتے تھے اور کھانے کے سوا انہیں کسی سے سروکار نہیں ہوتا تھا، اور نہ ان میں کوئی جنسی خواہش ہوتی تھی۔ البتہ امام شعبی نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ نوکر چاکر ہیں جو اتنے بوڑھے ہوچکے ہوں کہ ان کے دل میں عورتوں کی طرف کوئی میلان باقی نہ رہا ہو۔ (تفسیر ابن جریر) 23: یعنی وہ نابالغ بچے جن کو ابھی مرد و عورت کے جنسی تعلقات کا کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ 24: یعنی اگر پاؤں میں پازیب پہنی ہوئی ہے تو اس طرح نہ چلیں کہ پازیب کی آواز سنائی دے، یا زیوروں کے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجنے کی آواز غیر محرم مرد سنیں۔