Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو حکم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ۔ اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا اپنی نگاہ فورا ہٹا لو ۔ نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصدا معاف نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لئے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا نیچی نگاہ رکھنا کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا ، بری باتوں سے روکنا ۔ آپ فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ۔ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ، عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کے لئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ۔ محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ۔ اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے ۔ اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ۔ اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے کہ یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا ( اعاذنا اللہ من کل عذابہ ) فرماتے ہیں ۔ نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ زبان کا زنا بولنا ہے ۔ کانوں کا زنا سننا ہے ۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ۔ پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ ( رواہ البخاری تعلیقا ) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔ 302یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انھیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا ذکر کیا کیونکہ اس میں بےاحتیاطی ہی، غفلت کا سبب بنتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] نگاہیں پست رکھنے کا حکم جیسے مومن مردوں کو ہے ویسے ہی مومن عورتوں کو بھی ہے۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت مذکور ہے نگاہیں نیچی رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چلتے وقت راستہ بھی پوری نظر نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی کسی غیر عورت پر اور عورت کی کسی غیر مرد پر نگاہ نہ پڑنی چاہئے اور اگر اتفاق سے نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے۔ جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا کہ : پہلی بار کی نظر تجھے معاف ہے (یعنی اتفاقاً پڑجائے) لیکن بعد کی معاف نہیں (ترمذی۔ ابو اب الادب۔ باب نظر الفحائۃ) یعنی اتفقاً نظر پڑجانے کے بعد پھر دیکھتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے اور ایک بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا کہ نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے یا آنکھوں کا زنا نظر بازی ہے (بخاری۔ کتاب الاستیعذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج)- [٤٠] نظر بازی سے اجتناب کے ساتھ ہی متصلاً اللہ تعالیٰ نے فروچ کی حفاظت کا ذکر فرمایا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کے لئے نظربازی سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر زنا کے عوامل میں سے نظربازی ایک بہت بڑا عامل یا اس کا میں گیٹ ہے۔ اسی نظر باز کے نتیجہ میں بعد میں انسان کے دوسرے اعضاء بھی اس فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مندرجہ بالا پوری حدیث اس طرح ہے آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا کا زنا فحش کلامی ہے اور آدمی کا نفس زنا کی خواہش کرنا ہے۔ پھر شرمگاہ تو ان سب قسموں کے زنا کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ (بخاری۔ کتاب الاستیعذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج)- ٢۔ نیز سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دروازہ کے سوراخ میں سے آپ کے حجرے میں جھانکا اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک فارپشت تھا جس سے آپ اپنا سر کھجلا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ تو جھانگ رہا تو میں تیری آنکھ پر مار کر اسے پھوڑ دیتا۔ استیعذان کا حک کو تو نظر بازی کے فتنہ کے وجہ سے ہی ہوا ہے (بخاری۔ کتاب الاستیعذان)- ٣۔ اور طبرانی میں ایک روایت یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : نظر بازی، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے (بحوالہ تفہیم القرآن ج ٣ ص ٣٨٠)- التبہ اس میں استثناء کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی ہونے والی بیوی یعنی مخطوبہ کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ مغیرہ بن شعبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت سے منگنی کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس عور کی طرف دیکھ لو، کیونکہ تم دونوں میں موانست کا یہ بہتر طریقہ ہے (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب النظر الی المخطوبت) اسی طرح آپ کے پاس ایک آدمی جو کسی انصاری عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا : کیا تو نے اس مخوطبہ کی طرف دیکھ لیا ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا : جا اور اس کے طرف دیکھ لے کیونکہ انصاری کی عورتوں میں کچھ عیب ہوتا ہے (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب مذب من ارادالنکاح۔۔ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : ” غَضَّ طَرْفَہُ ، خَفَضَہُ “ ” اس نے اپنی آنکھ نیچی کرلی۔ “ دوسرا معنی ہے ” نَقَصَ وَ وَضَعَ مِنْ قَدْرِہِ “ ” اس نے فلاں کی قدر کم کی۔ “ (قاموس) زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں میں داخلے کے آداب بیان فرمانے کے بعد نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔ احمد شوقی نے کہا ہے : ” نَظْرَۃٌ فَابْتِسَامَۃٌ فَسَلَامٌ فَکَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ“ ” نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔ “ - 3 اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ”ۧيٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ کے ساتھ براہ راست مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ ” لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ “ اور ” لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ “ سے پہلے ہے، یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : ” مومن مردوں سے کہہ دے “ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نظر کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور اسے روکنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہنشاہانہ جلال کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ مومن مردوں سے کہہ دے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ (البقاعی) (واللہ اعلم)- ” قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔ “ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ نہیں کہ کسی چیز کو بھی نظر بھر کر نہ دیکھو، راستہ چلتے ہوئے بھی نگاہ مت اٹھاؤ، بلکہ حکم کچھ نگاہیں نیچی رکھنے کا ہے اور مراد ان چیزوں سے نگاہ نیچی رکھنا ہے جن کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، مثلاً اپنی بیوی اور محرم رشتوں کے سوا عورتوں کو دیکھنا، کسی ڈاڑھی کے بغیر لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا، یا کسی کا خط یا وہ چیز دیکھنا جسے وہ چھپانا چاہتا ہے وغیرہ۔- يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : بلا ارادہ پڑنے والی پہلی نظر معاف ہے، گناہ اس نظر پر ہے جو جان بوجھ کر ڈالی جائے۔ نظر کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، ورنہ زنا سارے حواس ہی سے ہوتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہُ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَھِيْ وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہُ وَ یُکَذِّبُہُ ) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ٦٢٤٣ ] ” اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چناچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کردیتی ہے۔ “ - جریر بن عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں : ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔ “ [ مسلم، الآداب، باب نظر الفجاءۃ : ٢١٥٩ ] البتہ ضرورت کے لیے غیر محرم عورت کو دیکھ سکتا ہے، مثلاً اس سے نکاح کا ارادہ ہو، یا طبی ضرورت ہو، یا کسی حادثہ کی وجہ سے ضرورت پڑجائے۔ اللہ نے فرمایا : (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) [ الأنعام : ١١٩ ] ” حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کردیے جاؤ۔ “- ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَۃُ إِلٰی عَوْرَۃِ الْمَرْأَۃِ وَ لَا یُفْضِي الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَۃُ إِلَی الْمَرْأَۃِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ) [ مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ٣٣٨ ] ” کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔ “ - 3 مرد کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اسی طرح بیوی کے لیے اپنے خاوند کے جسم کا اور لونڈی کے لیے اپنے مالک کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) [ البقرۃ : ١٨٧ ] ” وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ “ ظاہر ہے کہ لباس سے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ ابن ماجہ (٦٦٢) میں عائشہ (رض) سے مروی حدیث کہ میں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرم گاہ نہیں دیکھی، سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، کیونکہ عائشہ (رض) سے روایت کرنے والا راوی مجہول ہے۔ اس کے برعکس عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہمارے ہاتھ اس میں باری باری آتے جاتے تھے۔ “ ایک روایت میں ہے : ” ہم جنبی ہوتے تھے۔ “ [ بخاري، الغسل، باب ھل یدخل الجنب یدہ۔۔ : ٢٦١، ٢٦٣ ]- وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ : یہاں ” مِنْ “ استعمال نہیں فرمایا کہ اپنی کچھ شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بلکہ فرمایا، اپنی شرم گاہوں کی مکمل حفاظت کریں، کیونکہ نظر سے مکمل بچاؤ ممکن نہ تھا۔ - اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : وہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جزا دے گا اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے گا، خواہ ان کی نیکی یا بدی سے کوئی آگاہ ہو یا آگاہ نہ ہو، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ فرمایا : (يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ ) [ المؤمن : ١٩ ] ” وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - حکم ششم عورتوں کے پردہ کے احکام :- آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہے) یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے (اور اس کے خلاف میں آلودگی ہے زنا یا مقدمہ زنا میں) بیشک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں (پس خلاف کرنے والے سزا یابی کے مستحق ہوں گے) اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ (وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور سج کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا و سحاق سب داخل ہے) اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں (زینت سے مراد زیور جیسے کنگن، چوڑی، خلخال، بازو بند طوق، جھومر، پٹی، بالیاں وغیرہ اور ان کے مواقع سے مراد ہاتھ پنڈلی، بازو، گردن، سر، سینہ کان، یعنی ان سب مواقع کو سب سے چھپائے رکھیں بلحاظ دو استثناؤں کے جو آگے آتے ہیں اور جب ان مواقع کو اجانب سے پوشیدہ رکھنا واجب ہے جن کا ظاہر کرنا محارم کی روبرو جائز ہے جیسا آگے آتا ہے تو اور مواقع و اعضاء جو بدن کے رہ گئے جیسے پشت و شکم وغیرہ جن کا کھولنا محارم کے روبرو بھی جائز نہیں ان کا پوشیدہ رکھنا بدلالۃ النص واجب ہوگیا۔ حاصل یہ ہوا کہ سر سے پاؤں تک تمام بدن اپنا پوشیدہ رکھیں۔ دو استثناء جن کا ذکر اوپر آیا ہے ان میں سے پہلا استثناء مواقع ضرورت کے لحاظ سے ہے کہ روز مرہ کے کام کاج میں جن اعضاء کے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مستثنیٰ قرار دیا گیا اس کی تفصیل یہ ہے) مگر جو اس (موقع زینت) میں سے (غالباً ) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے مراد اس موقع زینت سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں اور اصح قول کے مطابق دونوں قدم بھی، کیونکہ چہرہ تو قدرتی طور پر مجمع زینت ہے اور بعض زینتیں قصداً بھی اس میں کی جاتی ہیں مثل سرمہ وغیرہ اور ہتھیلیاں اور انگلیاں انگوٹھی چھلے مہندی کا موقع ہے اور قدمین بھی چھلوں اور مہندی کا موقع ہے پس ان مواقع کو اس ضرورت سے مستثنیٰ فرمایا ہے کہ ان کو کھولے بغیر کام کاج نہیں ہوسکتا اور مَا ظَهَرَ کی تفسیر وجہ اور کفین کے ساتھ حدیث میں آئی ہے اور قدمین کو فقہاء نے اس پر قیاس کر کے اس حکم میں شامل قرار دیا ہے) اور (خصوصاً سر اور سینہ ڈھکنے کا بہت اہتمام کریں اور) اپنے دوپٹے (جو سر ڈھانکنے کے لئے ہیں) اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں (گو سینہ قمیض سے ڈھک جاتا ہے لیکن اکثر قمیض میں سامنے سے گریبان کھلا رہتا ہے اور سینہ کی ہئیت قمیض کے باوجود ظاہر ہوتی ہے اس لئے اہمتام کی ضرورت ہوئی آگے دوسرا استثناء بیان کیا جاتا ہے جن میں محرم مردوں وغیرہ کو پردہ کے حکم مذکور سے مستثنی کیا گیا ہے) اور اپنی زینت ( کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا (اپنے محارم پر یعنی) اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹیوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر اپنے (حقیقی و علاتی و اخیافی) بھائیوں پر (نہ کہ چچا زاد ماموں زاد وغیرہ بھائیوں پر) یا اپنے (مذکورہ) بھائیوں کے بیٹوں پر اپنی (حقیقی و علاتی و اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر (نہ کہ چچا زاد خالہ زاد بہنوں کی اولاد پر) یا اپنی (یعنی دین کی شریک) عورتوں پر (مطلب یہ کہ مسلمان عورتوں پر کیونکہ کافر عورتوں کا حکم مثل اجنبی مرد کے ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا اپنی لونڈیوں پر (مطلقاً گو وہ کافر ہی ہوں کیونکہ مرد غلام کا حکم ابوحنیفہ کے نزدیک مثل اجنبی مرد کے ہے اس سے بھی پردہ واجب ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا ان مردوں پر جو (محض کھانے پینے کے واسطے) طفیلی (کے طور پر رہتے) ہوں اور ان کو (بوجہ حواس درست نہ ہونے کے عورتوں کی طرف) ذرا توجہ نہ ہو (تابعین کی تخصیص اس لئے ہے کہ اس وقت ایسے ہی لوگ موجود تھے کذا فی الدر عن ابن عباس اور اسی حکم میں ہے ہر مسلوب العقل پس مدار حکم کا سلب حواس پر ہے نہ کہ تابع اور طفیلی ہونے پر مگر اس وقت وہ تابع ایسے ہی تھے اس لئے تابع کا ذکر کردیا گیا لقول ابن عباس، فی الدر مغفل فی عقلہ احمق لا بکترث للنساء اور جو سمجھ رکھتا ہو تو وہ بہرحال اجنبی مرد ہے گو بوڑھا یا خصی یا محبوب ہی کیوں نہ ہو اس سے پردہ واجب ہے) یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ( مراد وہ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب نہیں پہنچے اور انہیں شہوت کی کچھ خبر نہیں پس ان سب کے سامنے وجہ و کفین و قدمین کے علاوہ زینت کے مواقع مذکورہ کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے یعنی سر اور سینہ اور شوہر کے روبر کسی جگہ کا بھی اخفاء واجب نہیں گو خاص بدن کو دیکھنا خلاف اولی ہے قالت سیدتنا ام المومنین عائشہ ما محصلہ لم ار منہ ولم یرمنی ذلک الموضع اور دہ فی المشکوة وروی بقی بن مخلد و ابن عدی عن ابن عباس مرفوعا اذا جامع احدکم زوجتہ او جاریتہ فلا ینظر الی فرجھا فان ذلک یورث العمی قال ابن صلاح جید الاسناد کذا فی الجامع الصغیر) اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (یعنی زیور کی آواز غیر محرموں کے کان تک پہنچے) اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (ورنہ معصیت مانع فلاح کامل ہوجاتی ہے۔ )- معارف و مسائل - انسداد فواحش اور حفاظت عصمت کا ایک اہم باب پردہ نسواں :- عورتوں کے لئے حجاب اور پردہ کے احکام کی پہلی آیات وہ ہیں جو سورة احزاب میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد نکاح میں آنے کے وقت نازل ہوئیں جس کی تاریخ بعض حضرات نے ٠٣ ہجری اور بعض نے ٥ ھجری بتلائی ہے تفسیر ابن کثیر اور نیل الاوطار میں ٥ ہجری کو ترجیح دی ہے اور روح المعانی میں حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ ذی قعدہ ٥ ہجری میں یہ عقد ہوا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پہلی آیت حجاب اسی موقع پر نازل ہوئی اور سورة نور کی یہ آیات قصہ افک کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جو غزوہ بن المصطلق یا مریسیع سے واپسی میں پیش آیا یہ غزوہ ٦ ہجری میں ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کی آیات پردہ و حجاب نزول کے اعتبار سے بعد میں آئی ہیں سورة احزاب کی چار آیتیں متعلقہ حجاب نزول کے اعتبار سے مقدم ہیں اور شرعی پردہ کے احکام اسی وقت سے شروع ہوئے جبکہ سورة احزاب کی آیات نازل ہوئیں، اس لئے حجاب اور پردہ کی پوری بحث تو انشاء اللہ تعالیٰ سورة احزاب میں آوے گی یہاں صرف ان آیات کی تفسیر لکھی جاتی ہے جو سورة نور میں آئی ہیں۔- قُلْ لِّلْمُؤ ْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ، یغضوا، غض سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنے اور پست کرنے کے ہیں (راغب) نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ ابن کثیر ابن حبان نے یہی تفسیر فرمائی ہے اس میں غیر محرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کر اہتہ داخل ہے اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے (مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنی ہیں) کسی کا راز معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اس میں داخل ہیں۔- وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ، شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ نفس کی خواہش پورا کرنے کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں ان سب سے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں۔ اس میں زنا، لواطت اور دو عورتوں کا باہمی سحاق جس سے شہوت پوری ہوجائے، ہاتھ سے شہوت پوری کرنا یہ سب ناجائز و حرام چیزیں داخل ہیں۔ مراد اس آیت کی ناجائز حرام شہوت رانی اور اس کے تمام مقدمات کو ممنوع کرنا ہے جن میں سے ابتدا اور انتہا کو تصریحاً بیان فرما دیا باقی درمیانی مقدمات سب اس میں داخل ہوگئے۔ فتنہ شہوت کا سب سے پہلا سبب اور مقدمہ نگاہ ڈالنا اور دیکھنا ہے اور آخری نتیجہ زنا ہے ان دونوں کو صراحة ذکر کر کے حرام کردیا گیا ان کے درمیانی حرام مقدمات مثلاً باتیں سننا، ہاتھ لگانا وغیرہ یہ سب ضمناً آگئے۔- ابن کثیر نے حضرت عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ کل ما عصی اللہ بہ فھو کبیرة وقد ذکر الطرفین۔ یعنی جس چیز سے بھی اللہ کے حکم کی مخالفت ہوتی ہو سب کبیرہ ہی ہیں لیکن آیت میں ان کے دو طرف ابتداء و انتہاء کو ذکر کردیا گیا۔ ابتداء نظر اٹھا کر دیکھنا اور انتہا زنا ہے۔ طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجدہ حلاوتہ فی قلبہ (از ابن کثیر)- نظر ایک زہریلا تیر شیطان کے تیروں میں سے ہے جو شخص باوجود دل کے تقاضے کے اپنی نظر پھیر لے تو میں اس کے بدلے اس کو ایسا پختہ ایمان دوں گا جس کی لذت وہ اپنے قلب میں محسوس کرے گا۔- اور صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑجائے تو کیا کرنا چاہئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو (ابن کثیر) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ پہلی نظر تو معاف ہے دوسری گناہ ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پہلی نظر جو بلا ارادہ اچانک پڑجائے وہ غیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔- بے ریش لڑکوں کی طرف قصداً نظر کرنا بھی اسی حکم میں ہے :- ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بہت سے اسلاف امت کسی امرو (بےریش) لڑکے کی طرف دیکھتے رہنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے اور بہت سے علماء نے اس کو حرام قرار دیا ہے (غالباً یہ اس صورت میں ہے جبکہ بری نیت اور نفس کی خواہش کے ساتھ نظر کی جائے واللہ اعلم۔ ش)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝ ٣٠- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - غض - الغَضُّ : النّقصان من الطّرف، والصّوت، وما في الإناء . يقال : غَضَّ وأَغَضَّ. قال تعالی:- قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور 30] ، وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور 31] ، وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان 19] ، وقول الشاعر : فَغُضَّ الطّرفَ إنّك من نمیر فعلی سبیل التّهكّم، وغَضَضْتُ السّقاء : نقصت ممّا فيه، والْغَضُّ : الطّريّ الذي لم يطل مكثه .- ( ع ض ض ) الغض ( ن ) کے معنی کمی کرنے کے ہیں خواہ نظر اور صور میں ہو یا کسی برتن میں سے کچھ کم کرنے کی صورت میں ہو قرآن میں ہے : ۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور 30] مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور 31] اور مومن عورتوں سے بھی کہدو ( کہ اپنی نگاہیں ) نیچی رکھا کریں وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان 19] اور بولتے وقت ) آواز نیچی رکھنا ۔ اور شاعر کے قول ( 328 ) فغض الطرف انک من نمیر نگاہ نیچی رکھ تو بنی نمیر سے ہے ) میں غض کا لفظ بطور نہي کم استعمال ہوا ہے غضضت السقاء میں نے مشک سے پانی کم کردیا اور غض ایسی تر اور تازہ چیز کو کہتے ہیں جس پر ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- فرج - الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ- [ المؤمنون 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ- [ ق 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ- [ المرسلات 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ :- القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله .- ( ف ر ج ) الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

محرمات سے غض بصر کے وجوب کا بیان - قول باری ہے : (قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظو افرجھم) مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں ان تمام چیزوں سے نظریں بچا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جن پر نظر ڈالنا حرام ہے۔ آیت کی عبارت میں اسے مخذوف رکھا گیا ہے اور اس کی مراد سے مخاطبین کے علم پر اکتفا کرلیا گیا ہے۔ محمد بن اسحاق نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، انہوں نے سلمہ بن ابی الطفیل سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ” علی تمہارے لئے جنت میں ایک بڑا خزاہ ہے جس سے تمہیں ایک بڑا حصہ ملے گا۔ تم پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، کیونکہ پہلی نظر معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔ “ الربیع بن صبیح نے حسن سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابن آدم پہلی نظر معاف ہے لیکن دوسری نظر سے بچو۔ “ ابوزرعہ نے حضرت جریر (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق دریافت کیا تھا تو آپ نے انہیں فوراً اپنی نظر پھیر لینے کا حکم دیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں جس پہلی نظر کا ذکر ہے اس سے وہ نظر مراد ہے جو قصداً نہ ڈالی جائے۔ اگر قصداً ڈالی جائے گی تو اس پہلی نظر اور دوسری نظر دوں کی حیثیت یکساں ہوگی۔ حضرت جریر (رض) نے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو مسئلہ دریافت کیا تھا یہ بات اس پر محمول ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : (ان السمع والبصر والقود کل اولئک کان عنہ مسئولا) بیشک کان، آنکھ اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) اور آپ مسلمان مردوں سے فرما دیجیے کہ وہ حرام چیزوں کے دیکھنے سے اپنی نگاہیں روکے رکھیں اور حرام کام سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ آنکھ اور شرم گاہ کی حفاظت ان کے لیے زیادہ درستگی اور نیکی کا باعث ہے اور نیکی اور بدی جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :29 اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے ۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے ۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے ۔ یہ مفہوم نظر بچانے سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے ۔ مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے ۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے ۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا ، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا ، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا ۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : 1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے ۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے ۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے ۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے ۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے ۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے ۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں ( بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ) ۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک الاٰخرۃ ، اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی ) ۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں ۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو ( مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموم ، من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا ( طبرانی ) ۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من مسلم ینظر الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا ، جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ( مسند احمد ) ۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ( جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا ( ابو داؤد ) ۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا ۔ ( بخاری ، ابو داؤد ، ترمذی ) ۔ 2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا ، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال ۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی ۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے ۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے ۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی ۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے ۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے ۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی ۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا ۔ فعرفنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باسترجاعہ حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی ، وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا ۔ ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام ) ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا ۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا ، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو ۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی ۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درخواست دی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا ؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے ۔ فرمایا عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے ۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے ۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ( ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا ) ۔ 3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو ۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو ۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے ۔ مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے ۔ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بینکما ، اسے دیکھ لو ۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) ۔ ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصار شیئاً ، لڑکی کو دیکھ لو ، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ( مسلم ، نسائی ، احمد ) ۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا خطب احدکم المرأۃ فَقَدَ رَاَن یریٰ منھا بعض ما یدعوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل ، تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو ( احمد ، ابو داؤد ) ۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا ، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔ مثلاً تفتیش جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا ، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ۔ 4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المرأۃ الیٰ عورۃ المرأۃ ، کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ) ۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذ حی ولا میت ، کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani