2 9 1اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔
[٣٧] یعنی ایسے گھر جس میں کوئی خاص آدمی نہ رہتے ہوں۔ جبکہ وہ ہر خاص و عام کے لئے کھلے ہوں۔ جیسے نمازوں کی ادائیگی کے لئے مساجد، کھانے پینے اور ہائش کے لئے ہوٹل اور سرائیں وغیرہ۔ ایسے مقامات میں داخل ہونے کے لئے کسی بھی اذن لینے کی ضرورت نہیں۔- اور اس کا دوسرا مطلب ایسے گھر بھی ہوسکتے ہیں جو بےآباد، ویران اور گھرے پڑے ہوں۔ ان کے مالک انھیں چھوڑ کر چلے گئے ہوں یا نہ معلوم ہوں۔ اور وہاں مثلاً گھاس وغیرہ اگ آئی ہو۔ اور کوئی شخص وہاں سے گھاس کاٹ لے۔ یا ایسا ہی دوسرا فائدہ وہاں سے ہر شخص اٹھا سکتا ہے۔- [٣٨] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لامحدود علم کی بنا پر اور تمام امور کی رعایت محفوظ رکھ کر یہ احکام دیئے ہیں جو تمارے تمام ظاہری اور باطنی اعمال و موال سے خوب واقف ہے۔ اور ان سے مقصود فحاشی اور فتنہ و فساد کے راستوں کو بند کرنا ہے۔ لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ اسی غرض کو مدنظر رکھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۭ ۔۔ : یعنی ایسے مکان جو کسی کے رہنے کی جگہیں نہ ہوں اور ان سے تمہارا کوئی فائدہ یا کوئی ضرورت وابستہ ہو اور وہ ہر خاص و عام کے لیے کھلے ہوں تو ان کے اندر بلا اجازت داخل ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، جیسے اسٹیشن، بسوں کے اڈے، مساجد، کھانے پینے اور رہائش کے ہوٹل، مسافر خانے، دکانیں اور وہ مہمان خانے جن میں جانے کی ایک دفعہ اجازت مل چکی ہو۔ اسی طرح وہ مکانات جو بےآباد، ویران اور اجڑے پڑے ہوں ان کے اندر آرام کرلینا، سایہ حاصل کرنا اور رات گزارنا وغیرہ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن مکانوں میں آدمی کا کوئی فائدہ، مقصد یا ضرورت نہ ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔- وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر اور پوشیدہ اعمال جانتا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ کسی جگہ جانے میں تمہاری نیت کیا ہے۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ، لفظ متاع کے لغوی معنی کسی چیز کے برتنے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ہیں اور جس چیز سے فائدہ اٹھایا جائے اس کو بھی متاع کہا جاتا ہے اس آیت میں متاع کے لغوی معنی ہی مراد ہیں جس کا ترجمہ برت سے کیا گیا ہے یعنی برتنے کا استحقاق، حضرت صدیق اکبر سے روایت ہے کہ جب استیذان کی آیات مذکورہ نازل ہوئیں جن میں بغیر اجازت کے کسی مکان میں داخل ہونے کی ممانعت ہے تو صدیق اکبر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس ممانعت کے بعد قریش کے تجارت پیشہ لوگ کیا کریں گے کیونکہ مکہ اور مدینہ سے ملک شام تک ان کے تجارتی سفر ہوتے ہیں اور اس راستہ میں جا بجا ان کے مسافر خانے بنے ہوتے ہیں جن میں دوران سفر وہ لوگ قیام کرتے ہیں ان میں کوئی مستقل رہنے والا نہیں ہوتا تو وہاں استیذان کی کیا صورت ہوگی اجازت کس سے حاصل کی جائے گی۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی (رواہ ابن ابی حاتم، مظہری) اس شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ آیت میں بیوت غیر مسکونہ سے مراد وہ مکانات اور مقامات ہیں جو کسی خاص فرد یا قوم کے لئے خصوصی طور پر رہائش گاہ نہیں بلکہ افراد قوم کو عام اجازت وہاں جانے ٹھہرنے اور استعمال کرنے کی ہے جیسے وہ مسافر خانے جو شہروں اور جنگلوں میں اسی غرض کے لئے بنائے گئے ہوں اور باشتراک علت عام مسجدیں، خانقاہیں، دینی مدارس، ہسپتال، ڈاکخانہ، ریلوے اسٹیشن، ہوائی جہازوں کے مستقر اور قومی تفریحات کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہوں غرض رفاہ عام کے سب ادارے اسی حکم میں ہیں کہ وہاں ہر شخص بلا اجازت جاسکتا ہے۔ - مسئلہ :۔ رفاہ عام کے اداروں میں جس مقام پر اس کے مالکان یا متولیان کی طرف سے داخلہ کے لئے کچھ شرائط اور پابندیاں ہوں اس کی پابندی شرعاً واجب ہے مثلاً ریلوے اسٹیشن پر اگر بغیر پلیٹ فارم کے جانے کی اجازت نہیں ہے تو پلیٹ فارم ٹکٹ حاصل کرنا ضروری ہے اس کی خلاف ورزی ناجائز ہے ایروڈرم (ہوائی اڈے) کے جس حصہ میں جانے کی محکمہ کی طرف سے اجازت نہ ہو وہاں بغیر اجازت کے جانا شرعاً جائز نہیں۔- مسئلہ :۔ اسی طرح مساجد، مدارس، خانقاہوں، ہسپتالوں وغیرہ میں جو کمرے وہاں کے منتظمین یا دوسرے لوگوں کی رہائش کے لئے مخصوص ہوں جیسے مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے خاص حجرے یا ریلوے، ایروڈروم اور ہسپتالوں کے دفاتر اور مخصوص کمرے جو مریضوں یا دوسروں لوگوں کی رہائش گاہ ہیں وہ بیوت غیر مسکونہ کے حکم میں نہیں، بلکہ مسکونہ کے حکم میں ہیں ان میں بغیر اجازت جانا شرعاً ممنوع اور گناہ ہے۔- استیذان سے متعلق چند دوسرے مسائل :- جبکہ یہ معلوم ہوچکا کہ استیذان کے احکام شرعیہ کا اصل مقصد لوگوں کی ایذا رسانی سے بچنا اور حسن معاشرت کے آداب سکھانا ہے تو اشتراک علت سے مسائل ذیل کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔- ٹیلیفون سے متعلق بعض مسائل :- مسئلہ :۔ کسی شخص کو ایسے وقت ٹیلیفون پر مخاطب کرنا جو عادة اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں کیونکہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔- مسئلہ :۔ جس شخص سے ٹیلیفون پر بات چیت اکثر کرنا ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ٹیلیفون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے پھر اس کی پابندی کرے۔ - مسئلہ :۔ ٹیلیفون پر اگر کوئی طویل بات کرنا ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ذرا سی فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی آنے پر آدمی طبعاً مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں اور اپنے ضروری کام میں ہو تو اس کو چھوڑ کر ٹییفون اٹھاتا ہے۔ کوئی بےرحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔- مسئلہ :۔ بعض لوگ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے کیا کہنا چاہتا ہے یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے جیسے حدیث میں آیا ہے ان لزورک علیک حقا یعنی جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو اسی طرح جو آدمی ٹیلیفون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔- مسئلہ :۔ کسی کے مکان پر ملاقات کے لئے جاؤ اور اجازت حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہو تو گھر کے اندر نہ جھانکو کیونکہ استیذان کی مصلحت تو یہی ہے کہ دوسرا آدمی جو چیز آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا آپ کو اس کی اطلاع نہ ہونی چاہئے اگر پہلے ہی گھر میں جھانک کر دیکھ لیا تو یہ مصلحت فوت ہوجاوے گی حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے ( رواہ البخاری و مسلم عن سہل بن سعد الساعدی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریف یہ تھی کہ کسی کے پاس جاتے اور اجازت حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو دروازے کے بالمقابل کھڑے ہونے کے بجائے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر استیذان فرماتے تھے دروازہ کے بالمقابل کھڑے ہونے سے اس لئے اجتناب فرماتے کہ اول تو اس زمانے میں دروازے پر پردے بہت کم تھے اور پردہ بھی ہو تو ہوا سے کھل جانے کا احتمال بہرحال ہے۔ (مظہری)- مسئلہ :۔ جن مکانوں میں داخل ہونا آیات مذکورہ میں بغیر اجازت کے ممنوع قرار دیا ہے یہ عام حالات میں ہے اگر اتفاقاً کوئی حادثہ آگ لگنے یا مکان منہدم ہونے کا پیش آجائے تو اجازت لئے بغیر اس میں جاسکتے ہیں اور امداد کے لئے جانا چاہئے۔ (مظہری)- مسئلہ :۔ جس شخص کو کسی نے بلا کر بھیجا ہے اگر وہ اس کے قاصد کے ساتھ ہی آ گیا تو اب اس کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں قاصد کا آنا ہی اجازت ہے۔ ہاں اگر اس وقت نہ آیا کچھ دیر کے بعد پہنچا تو اجازت لینا ضروری ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا دعی احدکم فجاء مع الرسول فان ذلک لہ اذن، یعنی جو آدمی بلایا جائے اور وہ قاصد کے ساتھ ہی آ جاوے تو یہی اس کے لئے اندر آنے کی اجازت ہے۔ (رواہ ابوداؤد مظہری)
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَۃٍ فِيْہَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ ٢٩- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے لا جُناحَ عَلَيْكُمْ پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] هو أن تنطق جو ارحهم .- ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔
کن مکانات میں بالا اجازت جانا جائز ہے - قول باری ہے : (لیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتا غیر مسکونۃ فیھا متاع لکم ) البتہ تمہارے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہوجائو جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہو اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو۔ محمد بن الخفیہ کا قول ہے کہ ان سے راستوں پر بنے ہوئے سرائے اور مسافر خانوں نیز بازاروں کے مکانات مراد ہیں۔ ضحاک سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حسن اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ لوگ بازاروں کے مکانات میں آتے اور داخل ہونے کی اجازت نہ لیتے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ ان سے وہ مکانات مراد ہیں جن میں لوگ اپنے سامان وغیرہ رکھتے تھے۔ ان مکانات میں انہیں اجازت کے بغیر داخل ہونے کا حکم دیا گیا۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ ان سے مراد وہ مکانات ہیں جن میں مسافر آکر ٹھہرا کرتے ہیں۔- ابوعبید الحاربی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی (رض) بازار میں تھے کہ بارش آگئی۔ آپ نے ایک ایرانی کے خیمے میں پناہ لی ۔ ایرانی آپ کو خیمے سے باہر دھکیلنے لگا۔ آپ نے اس سے کہا میں تو صرف بارش سے پناہ لے رہا ہوں۔ لیکن ایرانی انہیں دھکیلتا رہا۔ پھر جب اسے بتایا گیا کہ یہ حضرت علی (رض) ہیں تو اس نے ندامت سے سینہ کو بی شروع کردی۔ عکرمہ کا قول ہے کہ (بیوتا غیر مسکوتہ) غیر آباد مکانات مراد ہیں جن کی تمہیں کبھی ضرورت پیش آجائے۔ ابن جریج نے عطاء سے قول باری : (فیھا متاع لکم) کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس میں رفع حاجت وغیرہ مراد ہے۔ اگر یہ تمام توجہیات مراد لے لی جائیں تو اس کی گنجائش ہے کیونکہ استیذان کا تعلق ان گھروں سے ہوتا ہے جن میں لوگوں کی سکونت ہوتی ہے تاکہ ان گھروں میں اچانک داخل ہونے سے ان کی بےپردگی نہ ہوسکے۔ زیر بحش آیت میں مذکورہ گھروں کی یہ صورت نہیں ہوتی۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے گھروں میں اجازت کے بغیر آنے جانے کا رواج ہوتا ہے اس لئے جو بات مروج اور متعارف ہو وہ منطوق یعنی زبان سے کہی ہوئی بات کی طرح ہوتی ہے۔ ایسے گھروں میں آنے کی اجازت کا تعلق رواج سے ہوتا ہے اس لئے ان میں داخل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان گھروں کے مالکان لوگوں کو ان میں داخل ہونے سے روک دیں تو انہیں ایسا کرنے ا ختیار ہتا ہے اور اس صورت میں پھر کسی اذن کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی نظیر وہ چیزیں ہیں جنہیں اٹھا لینے کی عادۃً اباحت ہوتی ہے اور یہی اباحت اذن کے قائم مقام بن جاتی ہے مثلاً وہ گٹھلیاں جو لوگ باہر پھینک دیتے ہیں۔ اسی طرح راستوں پر پڑے ہوئے گوبر اور گھروں کا کوڑا کرکٹ وغیرہ، ہر شخص انہیں اٹھا کر ان کو اپنے کام میں لاسکتا ہے۔- ہمارے اصحاب نے بہت سے امور اسی اباحت کا اعتبار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ رواج اور عرف عام کی بنا پر جس چیز کی عام اجازت ہوتی ہے اس کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ گویا زبان سے اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔ درج بالا باتیں اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً ہمارے اصحاب بیع کے راس المال یعنی قیمت خرید میں نوکروں کے کھانے اور کپڑے نیز باربرداری کے اخراجات کو شامل کرکے بائع کو مجموعے پر منافع لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ بائع فروخت کرتے وقت یہ کہے گا کہ اس مال پر میری اتنی لاگت آئی ہے۔ لیکن جن اخراجات کی عادۃً گنجائش نہیں ہوتی بائع انہیں مبیع کی قیمت خرید میں شامل نہیں کرے گا۔ اس طرح عرف اور رواج، نطق کے قائم مقام بن جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال امام محمد کا وہ قول ہے جس کے مطابق اگر کسی نے درزی کو اپنا کپڑا سینے کے لئے یا دھوبی کو دھونے کے لئے دے دیا اور اجرت طے نہ کی تو اس صورت میں درزی یا دھوبی کی اجرت واجب ہوجائے گی بشرطیکہ انہوں نے ان کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کررکھا ہو اور پیشے کے طور پر وہ یہ کام کرتے ہوں ۔ یہاں عرف عام اور رواج کی بنا پر گویا درزی یا دھوبی نے زبان سے یہ کہہ دیا کہ وہ یہ کام اجرت پر کرے گا۔ سفیان نے عبداللہ بن دینار سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بازار کی دکانوں میں بھی اجازت لے کر داخل ہوتے تھے۔ عبداللہ بن دینار نے عکرمہ سے اس بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا۔” ابن عمر (رض) جس کام کی طاقت رکھتے تھے دوسرے آدمی کو اس کی استطاعت کہاں تھی۔ “ لیکن حضرت ابن عمر (رض) کے اس طریق کار میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ بازار کی دکانوں میں بغیر اجازت داخل ہونے ممنوع ہے۔ انہوں نے احتیاط کی بنا پر اپنے لئے یہ طریق کار وضع کیا تھا جس کی ہر ایک کو اجازت ہے۔
(٢٩) اب اللہ تعالیٰ اس قسم کے گھروں میں جن میں گھر کے طور پر کوئی نہیں رہتا ہے جیسا کہ مسافر خانہ اور راستوں پر سرائے وغیرہ جانے کی اجازت مرحمت فرماتا ہے، چناچہ فرماتا ہے کہ تمہیں اس قسم کے مکانات میں خاص اجازت کے بغیر چلے جانے میں کوئی گناہ نہ ہوگا جن میں گھر کے طور پر کوئی نہ رہتا ہو، جیسا کہ مسافر خانہ اور اس میں تمہارے لیے گرمی اور سردی سے بچاؤ کا سامان بھی ہو اور تمہارا اجازت لینا اور سلام کرنا ایسے ہی سلام و اجازت کا جواب دینا ان سب باتوں کو اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ لیس علیکم جناح ان تدخلوا “۔ (الخ)- اور ابن ابی حاتم (رح) نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر قریش کے ان تاجروں کے بارے میں کیا حکم ہے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور شام کے درمیان آتے جاتے رہتے ہیں اور راستوں پر ان کے متعین شدہ مکانات ہیں (یعنی مسافرخانے) تو وہ ان مکانوں میں کیسے اجازت طلب کریں اور کیوں کر وہاں سلام کریں جب کہ ان میں کوئی رہنے والا نہیں، تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی تمہیں اس قسم کے مکانات میں خاص اجازت کے بغیر چلے جانے میں کوئی گناہ نہ ہوگا۔
آیت ٢٩ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْہَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ط) ” - اس سے مراد دکانیں ‘ سٹور اور گودام وغیرہ ہیں۔- (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ) ” - قانون کی اصل روح کو سمجھنا اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ دراصل گھر میں بلا اجازت داخل ہونے سے منع کرنے کا مقصد گھر میں سکونت پذیر خاندان کی کے تقدس کو یقینی بنانا ہے۔ لہٰذا کسی دکان یا گودام پر اس قانون کے اطلاق کا کوئی جواز نہیں ہے کہ آدمی دکان کے دروازے پر اس لیے کھڑا رہے کہ جب تک مالک مجھے اجازت نہیں دے گا میں اندر نہیں جاؤں گا۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :28 اس سے مراد ہیں ہوٹل ، سرائے ، مہمان خانے ، دوکانیں ، مسافر خانے وغیرہ جہاں لوگوں کے لیے داخلہ کی اجازت ہو ۔
17: اس سے مراد وہ عوامی مقامات ہیں جو کسی ایک شخص یا اشخاص کی ملکیت نہیں ہوتے، بلکہ عوام کو ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے، مثلاً عوامی مسافر خانے، ہوٹل کے بیرونی حصے، ہسپتال، ڈاک خانے، پارک، مدرسے، وغیرہ۔ اجازت طلب کرنے کے مفصل احکام کے لیے ان آیات کے تحت معارف القرآن کی طرف رجوع کیا جائے جس میں یہ اہم احکام بڑے شرح و بسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔