[٣٥] یعنی جب گھر والوں میں سے کوئی شخص بھی گھر میں موجود نہ ہو اس وقت ہرگز کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح ایک دوسرے کے متعلق کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ الزام تراشی سے بڑھ کر معاملہ تنازعہ شکل اختیار کرسکتا ہے اس سے استثناء کی صورت بہ صورت ہے کہ صاحب خانہ خود ہی کسی ملاقاتی کو اپنے کمرہ وغیرہ میں یہ کہہ کر بٹھلا جائے کہ تھوڑی دیر انتظار کرو۔ میں ابھی واپس آتا ہوں۔ اور اس طرح کی اجازت کی بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔- [٣٦] ایسی اجازت لینے کی حد تین بار ہے۔ ممکن ہے پہلی بار اور دوسری بار اجازت کی بات کو صاحب خانہ سن ہی نہ پائے۔ یا وہ اپنے کسی کام میں سخت مشغول ہو اور اتنی جلدی دروازہ تک آ ہی نہ سکتا ہو۔ لہذا تین بار اجازت کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ اجازت تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد طلب کرنا چاہئے اور اگر تین بار اجازت طلب کرنے پر بھی اندر سے کوئی جواب نہ ملے تو ملاقات یا داخلہ کے لئے مزید اصرار نہ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری آئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دوڑے ہوئے اور گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے : میں حضرت عمر (رض) کے ہاں گیا تھا میں نے تین بار اذن مانگا مگر مجھے اذن نہیں ملا آخر میں لوٹ گیا۔ پھر مجھے حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تم کھڑے کیوں نہ رہے ؟ (انتظار کیوں نہ کیا ؟ ) ابو موسیٰ اشعری کہنے لگے : میں نے تین بار اذن مانگا اور مجھے اذن نہ ملا تو میں لوٹ آیا۔ اور آپ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص تین بار اذن مانگنے پر اسے اذن نہ دیا جائے۔ تو لوٹ آئے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ : اللہ کی قسم تجھے اس حدیث پر کوئی گواہ لانا ہوگا اب بتلاؤ کیا تم سے کسی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کہنے لگے : اللہ کی قسم تمہارے ساتھ وہ آدمی شہادت دے گا جو ہم سب میں جھوٹا ہو اور ان سب میں جھوٹا میں ہی تھا۔ چناچہ میں ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ گیا اور حضرت عمر (رض) کو بتلایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعی ایسا فرمایا ہے امام بخاری کہتے ہیں کہ اس سے حضرت عمر (رض) کا ارادہ محض حدیث کا توثیق تھا۔ یہ نہیں کہ وہ خبر راہ کو درست نہ سمجھتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الا ستیعان۔ باب التعلیم والاستیذان ثلثاً )- اور اگر صاحب خانہ دروازہ وغیرہ کھٹکھٹانے پر پوچھے کہ کون ہے ؟ تو ایسے واضح الفاظ میں اپنا تعارف کرانا یا نام بتلانا چاہئے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ فلاں شخص داخلہ کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں واضح ہے۔- ١۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس اس قرضہ کے سلسلسہ میں بات کرنے کے لئے حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا۔ میں نے دروازے کھٹکھٹایا۔ آپ نے (اندر سے) پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا : میں ہوں، آپ نے فرمایا : میں تو میں بھی ہوں گویا آپ نے (نام بتلانے کے بجائے) میں ہوں کہنے کو برا سمجھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- ٢۔ اور اجازت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیرونی دروازہ کے بالکل سامنے نہ کھڑا ہو۔ جبکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہو تاکہ جب صاحب خانہ یا اس کا ملازم یا کوئی اور گھر کا فرد دروازہ کھولے تو اجازت ملنے سے پہلے ہی ملاقاتی کی نظر اندر تک نہ چلی جائے۔ چناچہ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ : جب نگاہ اندر چلی گئی تو پھر اذن کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی الاستیعذان)- ٣۔ نیز آپ نے فرمایا کہ : نظر بازی کی وجہ سے ہی تو اذن کا حکم دیا گیا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الاستیعذان باب تحریم النظر فی بیت غیرہ)- ٤۔ اور نظر بازی یا کسی کے گھر میں جھانکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا : اگر کوئی شخص تمہارے مکان میں جھانکے اور تم کنکر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الایات باب من اطلع فی بیت قوم)- یعنی اگر کوئی شخص ایسے بدنظر شخص کی آنکھ پھوڑ بھی دے تو اس کا قصاص وغیرہ کچھ نہ ہوگا۔
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا : یعنی اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو اس سے تمہارے لیے بغیر اجازت وہاں داخلہ جائز نہیں ہوجاتا۔ ہر آدمی جس طرح اپنی ذاتی حالتوں میں سے بعض حالتوں پر کسی کا مطلع ہونا پسند نہیں کرتا اسی طرح وہ اپنی بعض چیزوں پر بھی کسی کے مطلع ہونے کو پسند نہیں کرتا اور عین ممکن ہے کہ بلا اجازت گھس جانے سے تم پر چوری یا خیانت کا الزام لگ جائے اور جھگڑا پیدا ہوجائے۔ ہاں، اگر اس نے اجازت دے رکھی ہو کہ میں گھر میں نہ ہوں تو تم آجاؤ تو وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں۔- وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا : یعنی اگر تمہیں واپس جانے کے لیے کہا جائے تو واپس ہوجاؤ، نہ غصہ کرو، نہ کبر کی وجہ سے تنگی یا بےعزتی محسوس کرو، کیونکہ گھر والے نے تمہارا کوئی ایسا حق نہیں روکا جو اس پر واجب ہو، وہ اجازت کا اختیار رکھتا ہے، چاہے دے یا نہ دے، لوگوں کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں، کسی کو کیا خبر کہ کوئی کس حال میں ہے۔- هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ : یعنی تمہارا واپس آجانا تمہارے لیے زیادہ عزت اور پاکیزگی کا باعث ہے، کیونکہ اس طرح تم کسی کے دروازے پر کھڑے رہنے کی بےقدری سے بچ جاؤ گے، واپس چلے آنے سے صاحب خانہ کے دل میں تمہاری حیا ہوگی اور سب سے بڑھ کر اللہ کی طرف سے اجر ہے۔ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ : اس میں جاسوسی یا کسی بری نیت سے کسی گھر میں داخل ہونے پر وعید ہے۔ - 3 طبری نے بعض مہاجرین سے نقل کیا ہے کہ میری ساری عمر یہ آرزو رہی ہے کہ میں کسی کے گھر جاؤں اور اندر سے مجھے یہ جواب ملے کہ واپس چلے جاؤ اور میں واپس چلا آؤں، تاکہ مجھے اس آیت پر کم از کم ایک مرتبہ تو عمل کرنے کی سعادت نصیب ہوجائے۔
مسئلہ :۔ اگر کسی شخص نے کسی شخص سے استیذان کیا اور اس نے جواب میں کہہ دیا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی لوٹ جایئے تو اس سے برا نہ ماننا چاہئے کیونکہ ہر شخص کے حالات اور اس کے مقتضیات مختلف ہوتے ہیں بعض وقت وہ مجبور ہوتا ہے باہر نہیں آسکتا نہ آپ کو اندر بلا سکتا ہے تو ایسی حالت میں اس کے عذر کو قبول کرنا چاہئے۔ آیت مذکورہ میں یہی ہدایت ہے وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ یعنی جب آپ سے کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جائیں تو آپ کو خوشدلی سے لوٹ آنا چاہئے اس سے برا ماننا یا وہیں جم کر بیٹھ جانا دونوں چیزیں درست نہیں بعض حضرات سلف سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں عمر بھر اس تمنا میں رہا کہ کسی کے پاس جا کر استیذان کروں اور وہ مجھے یہ جواب دے کر لوٹ جاؤ تو میں اس حکم قرآن کی تعمیل کا ثواب حاصل کروں مگر عجیب اتفاق ہے کہ مجھے کبھی یہ نعمت نصیب نہ ہوئی۔- مسئلہ :۔ شریعت اسلام نے حسن معاشرت کے آداب سکھانے اور سب کو ایذاء و تکلیف سے بچانے کا دو طرفہ معتدل نظام قائم فرمایا ہے اس آیت میں جس طرح آنے والے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر استیذان کرنے پر آپ کو اجازت نہ ملے اور کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو کہنے والے کو معذور سمجھو اور خوشدلی کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ برا نہ مانو اسی طرح ایک حدیث میں اس کا دوسرا رخ اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان لزورک علیک حقا یعنی جو شخص آپ سے ملاقات کے لئے آئے اس کا بھی آپ پر حق ہے یعنی اس کا یہ حق ہے کہ اس کو اپنے پاس بلاؤ یا باہر آ کر اس سے ملو، اس کا اکرام کرو، بات سنو بلا کسی شدید مجبوری اور عذر کے ملاقات سے انکار نہ کرو۔ - مسئلہ :۔ اگر کسی کے دروازے پر جا کر استیذان کیا اور اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سنت یہ ہے کہ دوبارہ پھر استیذان کرے اور پھر بھی جواب نہ آوے تو تیسری مرتبہ کرے۔ اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آوے تو اس کا حکم وہی ہے جو ارجعوا کا ہے۔ یعنی لوٹ جانا چاہئے کیونکہ تین مرتبہ کہنے سے تقریباً یہ تو معتین ہوجاتا ہے کہ آواز سن لی مگر یا تو وہ شخص ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتا مثلاً نماز پڑھ رہا ہے یا بیت الخلاء میں ہے یا غسل کر رہا ہے اور یا پھر اس کو اس وقت ملنا منظور نہیں دونوں حالتوں میں وہیں جمے رہنا اور مسلسل دستک وغیر دیتے رہنا بھی موجب ایذا ہے جس سے بچنا واجب ہے اور استیذان کا اصل مقصد ہی ایذا سے بچنا ہے۔- حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا استاذن احدکم ثلاثاً فلم یوذن لہ فلیرجع یعنی جب کوئی آدمی تین مرتبہ استیذان کرے اور کوئی جواب نہ آوے تو اس کو لوٹ جانا چاہئے (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری) اور مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عبادہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور سنت کے مطابق باہر سے استیذان کے لئے سلام کیا السلام علیکم حضرت سعد بن عبادہ نے سلام کا جواب تو دیا مگر آہستہ کہ حضور نہ سنیں، آپ نے دوبارہ پھر سہ بارہ سلام کیا۔ حضرت سعد سنتے اور آہستہ جواب دیتے رہے تین مرتبہ ایسا کرنے کے بعد آپ لوٹ گئے جب سعد نے دیکھا کہ اب آواز نہیں آ رہی تو گھر سے نکل کر پیچھے دوڑے اور یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ میں نے ہر مرتبہ آپ کی آواز سنی اور جواب بھی دیا مگر آہستہ دیا تاکہ زبان مبارک سے زیادہ سے زیادہ سلام کے الفاظ میرے بارے میں نکلیں وہ میرے لئے موجب برکت ہوگا (آپ نے ان کو طریقہ سنت بتلا دیا کہ تین مرتبہ جواب نہ آنے پر لوٹ جانا چاہئے) اس کے بعد حضرت سعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گھر ساتھ لے گئے انہوں نے کچھ مہمانی کی آپ نے اس کو قبول فرمایا۔- حضرت سعد کا یہ عمل غلبہ عشق و محبت کا اثر تھا کہ اس وقت ذہن اس طرف نہ گیا کہ سردار دو عالم دروازے پر تشریف فرما ہیں مجھے فوراً جا کر ان کے قدم چوم لینے چاہئیں بلکہ ذہن اس طرف متوجہ ہوگیا کہ آپ کی زبان مبارک سے السلام علیکم جتنی مرتبہ زیادہ نکلے گا میرے لئے زیادہ مفید ہوگا۔ بہرحال اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ استیذان کے بعد جواب نہ آوے تو سنت یہ ہے کہ لوٹ جائے وہیں جم کر بیٹھ جانا خلاف سنت اور مخاطب کے لئے موجب ایذا ہے کہ اس کو دباؤ ڈال کر نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔- مسئلہ :۔ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ سلام یا دستک وغیرہ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش تین متربہ کرلی ہو کہ اب وہاں جم کر بیٹھ جانا موجب ایذا ہے لیکن اگر کوئی کسی عالم یا بزرگ کے دروازہ پر بغیر استیذان کئے ہوئے اور بغیر ان کو اطلاع دیئے ہوئے انتظار میں بیٹھ رہے کہ جب اپنی فرصت کے مطابق باہر تشریف لاویں گے تو ملاقات ہوجائے گی یہ اس میں داخل نہیں بلکہ عین ادب ہے خود قرآن کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر میں ہوں تو ان کو آواز دے کر بلانا ادب کے خلاف ہے بلکہ لوگوں کو چاہئے کہ انتظار کریں جس وقت آپ اپنی ضرورت کے مطابق باہر تشریف لاویں اس وقت ملاقات کریں۔ آیت یہ ہے وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں بعض اوقات کسی انصاری صحابی کے دروازہ پر پورے دوپہر انتظار کرتا رہتا ہوں کہ جب وہ باہر تشریف لاویں تو ان سے کسی حد کی تحقیق کروں اور اگر میں ان سے ملنے کے لئے اجازت مانگتا تو وہ ضرور مجھے اجازت دیدیتے مگر میں اس کو خلاف ادب سمجھتا تھا اس لئے انتظار کی مشقت گوارا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْہَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْہَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ٠ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ہُوَاَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ ٢٨- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
قول باری ہے : (فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم۔ اگر تم اس گھر میں کسی کو نہ پائو تو جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اس وقت تک اس گھر میں داخل نہ ہو) یہ آیت دو معنوں کو متضمن ہے ایک تو یہ ہے کہ ہم غیروں کے ھگروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ جب ہمیں اجازت مل جائے تو ہمارا وہاں داخل ہونا جائز ہوگا۔ یہ آیت اس امر کی بھی مقتضی ہے کہ اجازت دینے والے کی اجازت کو قبول کرلینا جائز ہے خواہ وہ بچہ ہو یا عورت ہو یا غلام یا ذمی ہو کیونکہ آیت نے ان میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ مذکورہ افراد سے معاملات کے متعلق خبر قبول کرلینے کے جواز کی یہی اصل ہے۔ نیز یہ کہ اس سلسلے میں صفت عدالت کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی گواہی کی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فقہاء نے ہدیہ اور وکالت وغیرہ کی صورتوں میں ان افراد کی دی ہوئی خبروں اور اطلاعات کو قبول کیا ہے۔- محرم خواتین سے اجازت طلب کرنے کا بیان - شعبہ نے ابو اسحاق سے انہوں نے مسلم یزید سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھا کہ آیا اپنی بہن کے پاس اندر آنے کی بھب اجازت لوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر اجازت لے کر اندر نہیں جائو گے تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری نظر کسی ایسی حالت پر پڑجائے جو تمہیں بری لگے۔ ابن عینیہ نے عمرو سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا تھا کہ آیا اپنی بہن کے پاس اندر آنے کی اجازت لوں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر میں نے ان سے مزیدکہا کہ میری بہن میرے ساتھ رہتی ہے اور میں اس کے اخراجات برداشت کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا : ” اس کے باوجود بھی اجازت طلب کرو۔ “ سفیان نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے عطاء بن یسار سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آیا میں اپنی ماں کے پاس اندر آنے کی اجازت طلب کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا :” کیا تمہیں اسے برہنہ حالت میں دیکھ لینا پسند ہوگا۔ “ عمرو نے عطاء سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آیا میں اپنی بہن سے اندر آنے کی اجازت لوں جب کہ میں اس کے اخراجات برداشت کرتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ” اجازت لے کر اندر جائو کیا تم اسے برہنہ حالت میں دیکھنا پسند کروگے ؟ “ ارشاد باری ہے : (یا یھا الذین امنوا لیتاذ نکم الذین ملکت ایمانکم۔ اے ایمان لانے والو تمہارے وہ لوگ جو تمہاری ملک یمین ہیں) (لونڈی اور غلام) انہیں چاہیے کہ تم سے (اندر آنے کی) اجازت لیں۔ اس میں لوگوں کو صرف تین اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر ارشاد ہے : (واذا بلغ الاطفال منکم الحکم فلیستاذنوا کما استاذن الذین من قبلھم) جب تمہارے بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو ہ بھی اجازت طلب کریں جس طرح ان سے پہلے لوگ اجازت طلب کرتے تھے۔ آیت نے ان کے سلسلے میں اجنبی اور محرم رشتہ دار میں کوئی فرق نہیں کیا تاہم محرم رشتہ داروں کا معاملہ نسبتاً آسان ہے کیونکہ ایسی صورت میں سینہ یاران اور بال وغیرہ پر نظر پڑجانے کا جواز ہوتا ہے۔- ملاقاتی کو صاحب خانہ اجازت نہ دے تو بخوشی واپس ہوجائے - قول باری ہے : (وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ھو ازکی لکم) اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو واپس چلے جائو یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے : اس سے پہلے فرمایا : (فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم) یہ دونوں آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کو اختیار ہے کہ وہ ہر ایسے شخص کو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہونے یا وہاں بیٹھنے سے روک سکتا ہے جس کا اس کے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ ارشاد باری ہے۔ (وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ھواز کی) لیکن اس سے یہ مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اذن کے بغیر داخل ہونے کی ممانعت ہے اس لئے کہ اس بات کی صراحت سے آیت میں ذکر پہلے ہی گزر چکا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ درج بالا آیت سے ایک نیا فائدہ اخذ کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کو گھر والا اپنے گھر کے دروازے سے ہٹ جانے کے لئے کہے تو اس پر وہاں سے ہٹ جانا لازم ہے تاکہ گھر کی خواتین ومستورات کو آنے جانے میں دقت نہ ہو نیز گھر کے اندر پیش آنے والی ان باتوں پر اس کی نظر نہ پڑے جن کا لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہنا ضروری ہے۔ ان چیزوں سے گھر والے کو خواہ مخواہ ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(٢٨) پھر اگر ان گروہوں میں تمہیں اجازت دینے والا معلوم نہ ہو تب بھی بغیر اجازت کے مت جاؤ جب تک کہ تمہیں گھر کے مالک کی طرف سے داخلہ کی اجازت نہ ملے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو تم فورا لوٹ آیا کرو اور دو دروازوں پر جمے نہ رہا کرو، یہ فورا لوٹ آنا تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم وہیں دروازوں پر کھڑے رہو اور تم جو اجازت طلب کرتے ہو اور نہیں طلب کرتے، اللہ تعالیٰ کو اس کی سب خبر ہے۔
آیت ٢٨ (فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْہَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْہَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ ج) ” - گویا خالی گھر میں بھی اس کے مالک کی اجازت کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔- (وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ) ” - آپ کسی سے ملاقات کا وقت طے کیے بغیر اس کے گھر پہنچ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کو وقت دینا اس کا فرض ہے ‘ حالانکہ ممکن ہے اس وقت وہ صاحب آرام کر رہے ہوں ‘ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں یا کسی مجبوری کے باعث آپ سے ملاقات کرنے سے معذور ہوں۔ چناچہ اگر اندر سے اطلاع دی جائے کہ صاحب خانہ کے لیے اس وقت آپ سے ملاقات کرنا ممکن نہیں اور یہ کہ آپ پھر کسی وقت تشریف لائیں تو ایسی صورت میں آپ بغیر برا مانے واپس چلے جائیں۔ آپ کو ایسے ریمارکس دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ بہت متکبر شخص ہے ‘ میں اس سے ملنے گیا تو اس نے ملاقات سے ہی انکار کردیا۔ البتہ ایسی کسی بھی صورت حال سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ پیشگی اطلاع دے کر اور وقت ملاقات طے کر کے کسی سے ملنے کے لیے جائیں۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :26 یعنی کسی کے خالی گھر میں داخل ہو جانا جائز نہیں ہے ، الا یہ کہ صاحب خانہ نے آدمی کو خود اس بات کی اجازت دی ہو ۔ مثلاً اس نے آپ سے کہہ دیا ہو کہ اگر میں موجود نہ ہوں تو آپ میرے کمرے میں بیٹھ جائیے گا ، یا وہ کسی اور جگہ پر ہو اور آپ کی اطلاع ملنے پر وہ کہلا بھیجے کہ آپ تشریف رکھیے ، میں ابھی آتا ہوں ۔ ورنہ محض یہ بات کہ مکان میں کوئی نہیں ہے ، یا اندر سے کوئی نہیں بولتا ، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کر دیتی کہ وہ بلا اجازت داخل ہو جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :27 یعنی اس پر برا نہ ماننا چاہیے ۔ ایک آدمی کو حق ہے کہ وہ کسی سے نہ ملنا چاہے تو انکار کر دے ، یا کوئی مشغولیت ملاقات میں مانع ہو تو معذرت کر دے ۔ اِرْجِعُوْا ( واپس ہو جاؤ ) کے حکم کا فقہاء نے یہ مطلب لیا ہے کہ اس صورت میں دروازے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ آدمی کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے ۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے کو ملاقات پر مجبور کرے ، یا اس کے دروازے پر ٹھر کر اسے تنگ کرنے کی کوشش کرے ۔
16: یعنی اگر کوئی گھر کسی اور کا ہے اور بظاہر خالی معلوم ہو رہا ہے، تب بھی اس میں بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں ہے، اول تو ممکن ہے کہ وہ اندر موجود ہو اور نظر نہ آ رہا ہو، اور اگر موجودہ نہ بھی ہو تو کسی اور کے گھر میں اس کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں ہے۔