شرعی آداب شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو ، جب اجازت ملے ، جاؤ پہلے سلام کرو ، اگر پہلی دفعہ کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو ۔ تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا دیکھو عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت مانگی ۔ فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ تو کہہ دیا لیکن ایسی آواز سے کہ آپ نہ سنیں ۔ چنانچہ تین بار یہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ۔ آپ جواب دیتے لیکن اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنیں نہیں ۔ اس کے بعد آپ وہاں سے واپس لوٹ چلے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے پیچھے لپکے ہوئے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تمام آوازیں میرے کانوں میں پہنچ رہی تھیں ۔ میں نے ہر سلام کا جواب بھی دیا لیکن اس خیال سے کہ آپ کی دعائیں بہت ساری لوں اور زیادہ برکت حاصل کروں کہ جواب اس طرح نہ دیا آپ کو سنائی دے اب آپ چلئے تشریف رکھئے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ۔ انہوں نے آپ کے سامنے کشمش لا کر رکھی آپ نے نوش فرمائیں اور فارغ ہو کر فرمانے لگے تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا ۔ فرشتے تم پر رحمت بھیج رہے ہیں ، تمہارے ہاں روزے داروں نے روزہ کھولا ۔ اور روایت میں ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آہستہ جواب دیا تو ان کے لڑکے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے فرمایا خاموش رہو دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کہیں گے ، ہمیں دوبارہ آپ کی دعا ملے گی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی ایک چادر پیش کی ، جسے آپ نے جسم مبارک پر لپیٹ لی ، پھر ہاتھ اٹھا کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا کی کہ اے اللہ سعد بن عبادہ کی آل پر اپنے درود ورحمت نازل فرما پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں کھانا تناول فرمایا جب واپس جانے کا ارادہ کیا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گدھے پر پالان کس لائے ۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے پیش کیا اور اپنے لڑکے قیس سے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ ۔ یہ ساتھ چلے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قیس آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا ۔ آپ نے فرمایا دو باتوں میں سے ایک تمہیں ضرور کرنی ہوگی یا تو میرے ساتھ اس جانور پر سوار ہوجاؤ یا واپس چلے جاؤ حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس جانا منظور کر لیا ۔ یہ یاد رہے کہ اجازت مانگنے والا گھر کے دروازے کے بالمقابل کھڑا نہ رہے بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کے کھڑا رہے ۔ کیونکہ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے کے سامنے ہی کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ نے اسے تعلیم دی کہ نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے ۔ پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی ؟ یا تو ذرا سا ادھر ہو جاؤ یا ادھر ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ حضرت جابر ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کے فکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دروازہ پر دستک دی تو آپ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ہوں ۔ آپ نے فرمایا میں میں گویا آپ نے ناپسند فرمایا کیونکہ میں کہنے سے یہ تو معلوم نہیں ہوسکتاکون ہے جب تک کے نام یا مشہور کنیت نہ بتائی جائے میں تو ہر شخص اپنے لئے کہہ سکتا ہے ۔ پس اجازت طلبی کا اصلی مقصود حاصل نہیں ہو سکتا ۔ استذان استناس ایک ہی بات ہے ۔ ابن عباس فرماتے تھے تستانسوا کاتبوں کی غلطی ہے ۔ تستاذنوا لکھنا چاہئے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہی قرأت تھی اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی ۔ لیکن یہ بہت غریب ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے مصحف میں حتی تسلموا علی اہلہا وتستاذنوا ہے ۔ صفوان بن امیہ جب مسلمان ہوگئے تو ایک مرتبہ کلدہ بن حنبل کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ آپ اس وقت وادی کے اونچے حصے میں تھے یہ سلام کئے بغیر اور اجازت لئے بغیر ہی آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ ۔ اور کہو السلام علیکم کیا میں آؤں ؟ اور حدیث میں ہے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص آپ کے گھر آیا اور کہنے لگا میں اندر آجاؤں ؟ آپ نے اپنے غلام سے فرمایا جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ پہلے تو سلام کرے پھر دریافت کرے ۔ اس شخص نے یہ سن لیا اور اسی طرح سلام کر کے اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی اور وہ اندر گئے ۔ ایک اور حدیث میں ہے آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا تھا ( ترمذی ) اور حدیث میں ہے کلام سے پہلے سلام ہونا چاہئے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ، ترمذی میں موجود ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضا حاجت سے فارغ ہو کر آرہے تھے لیکن دھوپ کی تاب نہ لا سکے تو ایک قریشی کی جھونپڑی کے پاس پہنچ کر فرمایا السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں اس نے کہا سلامتی سے آجاؤ آپ نے پھر یہی کہا اس نے پھر یہی جواب دیا ۔ آپ کے پاؤں جل رہے تھے کبھی اس قدم پر سہارا لیتے ، کبھی اس قدم پر ، فرمایا یوں کہو کہ آجاؤ ، اب آپ اندر تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ کے پاس چار عورتیں گئیں ۔ اجازت چاہی کہ کیا ہم آجائیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں تم میں جو اجازت کا طریقہ جانتی ہو اسے کہو کہ وہ اجازت لے ۔ تو ایک عورت نے پہلے سلام کیا ، پھر اجازت مانگی ، حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ۔ پھر یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو ۔ انصار ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بعض دفعہ گھر میں اس حالت میں ہوتی ہوں کہ اس وقت اگر میرے باپ بھی آجائیں یا میرا اپنا لڑکا بھی اس وقت آجائے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ اس وقت کسی کی بھی نگاہ مجھ پر پڑے تو میں ناخوش نہ ہوؤں ۔ اور گھر والوں میں سے کوئی آہی جاتا ہے اس وقت یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ تین آیتیں ہیں کہ لوگوں نے ان پر عمل چھوڑ رکھا ہے ایک تو یہ کہ اللہ فرماتا ہے تم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہو ۔ اور ادب کی آیتیں بھی لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔ حضرت عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لئے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو ، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے آپ نے فرمایا کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کروگے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا پھر ضرور اجازت مانگا کرو ۔ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ میں نے کہا ہاں مانوں گا ۔ آپ نے فرمایا پھر بغیر اطلاع ہرگز ان کے پاس بھی نہ جاؤ ۔ حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑجائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اپنی ماں کے پاس بھی گھر میں بغیر اطلاع کے نہ جاؤ ۔ عطار حمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ بیوی کے پاس بھی بغیر اجازت کے نہ جائے ؟ فرمایا یہاں اجازت کی ضرورت نہیں ۔ یہ قول بھی محمول ہے اس پر کہ اس سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن تاہم اطلاع ضرور ہونی چاہئے ممکن ہے وہ اس وقت ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہیں چاہتی کہ خاوند بھی اس حالت میں اسے دیکھے ۔ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ میرے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب میرے پاس گھر میں آتے تو کھنکار کر آتے ۔ کبھی بلند آواز سے دروازے کے باہر کسی سے باتیں کرنے لگتے تاکہ گھر والوں کو آپ کی اطلاع ہوجائے چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے تستانسوا کے معنی بھی یہی کئے ہیں کہ کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کا پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے ۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک سفر سے صبح کے وقت آئے تو حکم دیا کہ بستی کے پاس لوگ اتریں تاکہ مدینے میں خبر مشہور ہوجائے ، شام کو اپنے گھروں میں جانا ۔ اس لئے کہ اس اثناء میں عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کرلیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سلام تو ہم جانتے ہیں لیکن استیناس کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا اللہ اکبر بلند آواز سے کہہ دینا یا کھنکار دینا جس سے گھر والے معلوم کرلیں کہ فلاں آرہا ہے حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تین بار کی اجازت اس لئے مقرر ہے کی ہے کہ پہلی دفعہ میں تو گھروالے معلوم کرلیں کہ فلاں ہے ۔ دوسری دفعہ میں وہ سنبھل جائیں اور ہوشیار ہوجائیں ۔ تیسری مرتبہ میں اگر وہ چاہیں اجازت دیں چاہیں منع کردیں ۔ جب اجازت نہ ملے پھر دروازے پر ٹھہرا رہنا برا ہے ، لوگوں کو اپنے کام اور اشغال ایسے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت اجازت نہیں دے سکتے ۔ مقاتل میں حیان فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں دستور نہ تھا ، ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن سلام نہ کرتے تھے ۔ کسی کے ہاں جاتے تھے تو اجازت نہیں لیتے تھے یونہی جا دھمکے پھر کہہ دیا کہ میں آگیا ہوں ۔ تو بسا اوقات یہ گھر والے پر گراں گزرتا ۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر میں کبھی ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اسمیں اس کا آنا بہت برا لگتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام برے دستور اچھے آداب سکھا کر بدل دئیے ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اس میں مکان والے کو آنے والے کو دونوں کو راحت ہے ۔ یہ چیزیں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کی ہیں ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو بے اجازت اندر نہ جاؤ ۔ کیونکہ یہ دوسرے کی ملک میں تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے ۔ مالک مکان کو حق ہے اگر وہ چاہے اجازت دے ، چاہے روک دے ۔ اگر تمہیں کہا جائے ، لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلا جانا چاہے ۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے ۔ بعض مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر میں اس وقت آیت پر عمل کرنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے ماتحت وہاں سے واپس ہو جاتے ، اجازت نہ ملنے پر دروازے پر ٹھہرے رہنا بھی منع فرما دیا ۔ اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ۔ یہ آیت اگلی آیت سے مخصوص ہے اس میں ان گھروں میں بلا اجازت جانے کی رخصت ہے جہاں کوئی نہ ہو اور وہاں اس کا کوئی سامان وغیرہ ہو ۔ جیسے کہ مہمان خانہ وغیرہ ۔ یہاں جب پہلی مربتہ اجازت مل گئی پھر ہربار کی اجازت ضروری نہیں ۔ تو گویا یہ آیت پہلی آیت سے استثنا ہے ۔ اسی طرح کی ایسے تاجروں کے گودام مسافر خانے وغیرہ ۔ اور اول بات زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ زید کہتے ہیں مراد اس سے بیت الشعر ہے ۔
2 7 1گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اَسْتِیْنَاس کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہوجائے جس بےپردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں (البخاری) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں " میں "" میں " کہا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے (صحیح بخاری) 2 7 2یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔
[٣٢] اس سے پہلے سورة احزاب میں بھی گھروں میں اذن لے کر داخل ہونے کا حکم آچکا تھا۔ لیکن اس حکم کا دائرہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک محدود تھا۔ مگر اس حکم کے ذریعہ اسے تمام گھروں تک پھیلا دیا گیا۔ اس سے پہلے اس سورة میں ایسے احکام بیان ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق ایسے حالات سے تھا جب فحاشی کی بنا پر کوئی فتنہ رونما ہوچکا ہو۔ اب ایسے احکام دیئے جارہے ہیں جن پر عمل کرنے سے کسی فتنہ کے سر اٹھانے کے امکانات کم سے کم رہ جاتے ہیں۔ گویا یہ احکام فحاشی کے پھیلاؤ کے سلسلہ میں سد ذرائع کا حکم رکھتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں یہ عام دستور تھا۔ کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہوجاتے تھے۔ اس آیت کے ذریعہ ایسی آزادانہ آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی۔- [٣٣] اس آیت میں تستانسوا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ انس ہے جس کا عربی میں بھی وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے یعنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا۔ اور اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت چاہ رہا ہے۔ بعض دفعہ گھنگارنے سے ہی یہ مطلب حاصل ہوجاتا ہے۔ اور بعض دفعہ بولنے یا السلام علیکم کہنے سے۔ اس طرح صاحب خانہ کو اس کی کھانسی یا آواز سے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آواز فلاں شخص کی ہے۔ یعض دفعہ کوئی شخص برقی گھنٹی ہی اس انداز سے دباتا ہے جو اس میں اور صاحب خانہ میں متعارف ہوتی ہے۔ اور گھنٹی بجانے سے ہی صاحب خانہ کو علم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص آکر آواز دے رہا ہے۔ ایسی تمام صورتیں تستانسا کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی لئے اس کے قریبی مفہوم رضا حاصل کرنا سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ استنا میں السلام علیکم کہنے سے ہی کیا گیا ہے تو ٹھیک ہے۔ اور اگر کسی اور طریقہ سے کیا گیا ہے تو گھر میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہنا بھی ضروری ہے۔- یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے گھروں سے کیا مراد ہے ؟ اور اس کے مفہوم میں کون کون سے گھر شامل ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے گھر سے صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ یہی وہ گھر ہے جس میں شوہر ہر وقت بلاجھجک اور بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ اپنی ماں اور بیٹیوں تک کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے :- علاء بن سیار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ کیا میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں وہ بولا : میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں آپ نے فرمایا : پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو وہ کہنے لگا : میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں آپ نے فرمایا : پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو۔ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے ؟ وہ کہنے لگا : نہیں آپ نے فرفایا : تو پھر اذن لے کر جاؤ (موطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب الاستیذان)- اور اپنے گھر میں بلا اجازت داخل ہونے کی اجازت ضرور ہے۔ مگر بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں یکایک اور اچانک داخل نہ ہو۔ - [٣٤] یعنی یہ بات صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے کہ ملاقاتی صاحب خانہ سے پہلے اذن حاصل کرے۔ پھر گھر میں داخل ہو۔ اس لئے کہ اگر ملاقاتی گھر میں بلا اذن داخل ہو تو ممکن ہے اس وقت اہل خانہ اپنی کسی پرائیوٹ گفتگو میں مصروف ہوں، یا عورت بےحجاب پھر رہی ہوں۔ یا صاحب خانہ کسی اور مجبوری یا معذوری کی وجہ سے اس وقت ملاقات کرنا ہی نہ چاہتا ہو اور اس طرح ملاقاتی کو خواہ مخواہ خفت یا ندامت حاصل ہو۔ لہذا مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کی جائے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا ۔۔ : سورت کے شروع سے زنا اور بہتان کی حد اور ان کی مذمت کا بیان آ رہا ہے، اب ان احکام کا ذکر شروع ہوتا ہے جن سے مردوں اور عورتوں کے ایسے میل جول کی روک تھام ہوتی ہے جو زنا اور بہتان کا سبب بنتا ہے۔ ان احکام میں گھروں میں داخلے کی اجازت، نظر کی حفاظت، پردے اور نکاح کی تاکید اور قحبہ گری سے ممانعت جیسے آداب شامل ہیں۔ - غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : یعنی صرف اپنے گھروں میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، جہاں آدمی اکیلا رہتا ہو، یا بیوی کے ساتھ رہتا ہو۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ وہاں داخلے سے پہلے بھی کسی طرح گھر والوں کو اپنی آمد سے آگاہ کردیا جائے، ممکن ہے وہ ایسی حالت میں ہوں جس میں خاوند کا دیکھنا انھیں پسند نہ ہو۔ چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب بیان کرتی ہیں : ( کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَۃٍ فَانْتَھٰی إِلَی الْبَابِ تَنَحْنَحَ وَ بَزَقَ کَرَاھَۃَ أَنْ یَّھْجُمَ مِنَّا عَلٰی أَمْرٍ یَکْرَھُہُ ) [ ابن جریر : ٢٦١٣١ ] ” عبد اللہ ( ) جب کسی کام سے فارغ ہو کر گھر آتے تو دروازے پر آ کر کھانستے اور تھوکتے کہ کہیں ان کی نظر ہماری کسی ایسی چیز پر نہ پڑجائے جو انھیں ناپسند ہو۔ “ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا أَطَالَ أَحَدُکُمُ الْغَیْبَۃَ فَلَا یَطْرُقْ أَھْلَہُ لَیْلًا ) [ بخاري، النکاح، باب لا یطرق أھلہ۔۔ : ٥٢٤٤ ] ” جب تم میں سے کوئی شخص زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہے تو گھر والوں کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔ “ مسلم میں یہ الفاظ زائد ہیں : ( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ أَنْ یَّطْرُقَ الرَّجُلُ أَھْلَہُ لَیْلًا یَتَخَوَّنُھُمْ أَوْ یَلْتَمِسُ عَثَرَاتِھِمْ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب کراھیۃ الطروق۔۔ : ١٨٤؍٧١٥، قبل ح : ١٩٢٩ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہنے والے شخص کو) منع فرمایا کہ وہ گھر والوں کی خیانت یا ان کی غلطی کی تلاش کے لیے رات کو (اچانک) ان کے پاس آئے۔ “- ” حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا “ کا لفظی ترجمہ ہے ” یہاں تک کہ تم انس حاصل کرلو۔ “ اس لیے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کرلو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمہارا آنا ناگوار تو نہیں ہے ؟- 3 اجازت مانگنے کا طریقہ، بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، کہنے لگا : ” کیا میں اندر آجاؤں ؟ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خادم سے کہا : ” اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے : ( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَ أَدْخُلُ ؟ ) ” السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ “ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا : ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَ أَدْخُلُ ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہوگیا۔ “ [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ٥١٧٧ ]- کَلَدہ بن حنبل (رض) کہتے ہیں : ” میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی) ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ٥١٧٦، صححہ الألباني ] ” واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔ “- 3 اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے، اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ [ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ٦٢٤٥، عن أبي موسیٰ (رض) ]- 3 دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ( مَنْ ذَا ؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا )” کون ہے ؟ “ میں نے کہا : ” میں ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں، میں۔ “ گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ [ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا ؟ فقال أنا : ٦٢٥٠ ]- 3 ہزیل (رض) فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھٰکَذَا عَنْکَ أَوْ ھٰکَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِءْذَانُ مِنَ النَّظَرِ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ٥١٧٤، صححہ الألباني ] ” اس طرف ہوجاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔ “- 3 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَیْتِکَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَہُ خَذَفْتَہُ بِحَصَاۃٍ فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ مَا کَانَ عَلَیْکَ مِنْ جُنَاحٍ ) [ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ۔۔ : ٦٨٨٨ ] ” اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہوگا۔ “ ایسی صورت میں آنکھ پھوڑنے پر نہ قصاص ہے، نہ دیت۔- ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ ۔۔ : یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے، اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر) ” لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ “ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو کہ جس طرح تمہیں دوسروں کا بلا اجازت آ گھسنا برا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح دوسروں کو تمہارا بلا اجازت در آنا بھی برا محسوس ہوتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اجازت مانگنے کے حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ (الا ما شاء اللہ) رشتہ داروں، ہمسایوں بلکہ اجنبیوں تک کے گھروں میں آنے جانے کے لیے اجازت کی ضرورت ہی نہیں رہی، اس پر مزید عام بےپردگی اور بےلباسی سے بدتر لباس ہے، جس سے مسلم معاشرے میں بےحیائی کا سیلاب آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدکاری، بدگمانی، تہمت تراشی، رقابت، قتل و غارت اور دوسری برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود اور اپنے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )
خلاصہ تفسیر - حکم پنجم استیذان اور آداب ملاقات باہمی کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنا :- سورة نور کے شروع ہی سے فواحش اور بےحیائی کی روک تھام کے لئے ان سے متعلقہ جرائم کی سزاؤں کا ذکر اور بےدلیل کسی پر تہمت لگانے کی مذمت کا بیان تھا آگے انہی فواحش کے انسداد اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لئے ایسے احکام دیئے گئے ہیں جن سے ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں جہاں سے بےحیائی کو راستہ ملے انہی احکام میں سے استیذان کے مسائل و احکام ہیں کہ کسی شخص کے مکان میں بغیر اس کی اجازت کے داخل ہونا یا اندر جھانکنا ممنوع کردیا گیا جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر نہ پڑے۔ آیات مذکورہ میں مختلف قسم کے مکانات کے مختلف احکام بیان کئے گئے ہیں۔- مکانات کی چار قسمیں ہیں۔ ایک خاص اپنے رہنے کا مکان، جس میں کسی دوسرے کے آنے کا احتمال نہیں۔ دوسرے وہ مکان جس میں کوئی اور بھی رہتا ہو خواہ وہ اپنے محارم ہی کیوں نہ ہوں یا کسی اور کے اس میں آجانے کا احتمال ہو۔ تیسری قسم وہ مکان جس میں کسی کا بالفعل رہنا یا نہ رہنا دونوں کا احتمال ہو۔ چوتھی قسم وہ مکان جو کسی خاص شخص کی رہائش کے لئے مخصوص نہ ہو جیسے مسجد مدرسہ، خانقاہ وغیرہ عام لوگوں کے انتفاع اور آمد و رفت کی جگہیں۔ ان میں قسم اول کا حکم تو ظاہر تھا کہ اس میں جانے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اس لئے اس کا ذکر ان آیات میں صراحتہ نہیں کیا گیا باقی تین قسموں کے مکانات کے احکام اگلی آیتوں میں بیان فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو تم اپنے (خاص رہنے کے) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں (جن میں دوسرے لوگ رہتے ہوں خواہ وہ ان کی ملک ہو یا کسی سے عاریتہ رہنے کو لے لئے ہوں یا کرایہ پر لئے ہوں) داخل مت ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو (اور اجازت لینے سے پہلے) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (یعنی اول باہر سے سلام کر کے پھر ان سے پوچھو کہ کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے اور بغیر اجازت لئے ویسے ہی مت گھس جاؤ۔ اور اگرچہ بعض لوگ اجازت لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھیں لیکن واقع میں) یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے (کہ اجازت لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھیں لیکن واقع میں) یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے (کہ اجازت لے کر جاؤ اور یہ بات تم کو اس لئے بتائی) تاکہ تم خیال رکھو (اور اس پر عمل کرو کہ اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔ یہ حکم ہوا مکانات کی قسم دوم کا) پھر اگر ان گھروں میں تم کو کوئی آدمی معلوم نہ ہو (خواہ واقع میں وہاں کوئی ہو یا نہ ہو) تو (بھی) ان گھروں میں نہ جاؤ جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے (کیونکہ اول تو یہ احتمال ہے کہ اس پر کوئی آدمی موجود ہو اگرچہ تمہیں معلوم نہیں اور واقع میں کوئی موجود نہ ہو تو دوسرے کے خالی مکان میں بھی بلا اجازت گھس جانا، دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے۔ یہ حکم ہوا قسم سوم کا) اور اگر (اجازت طلب کرے کے وقت) تم سے یہ کہہ دیا جاوے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو تم لوٹ آیا کرو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے ( اس بات سے کہ وہیں جم جاؤ کہ کبھی تو باہر نکلیں گے کیونکہ اس میں اپنی ذلت اور دوسرے پر بلا وجہ دباؤ ڈال کر تکلیف پہنچانا ہے اور کسی مسلمان کو ایذاء دینا حرام ہے) اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہی (اگر خلاف حکم کرو گے سزا پاؤ گے اور یہی حکم اس صورت کا ہے کہ گھر والوں نے اگرچہ لوٹ جانے کو کہا نہیں مگر کوئی بولا بھی نہیں۔ ایسی حالت میں تین مرتبہ استیذان اس احتیاط پر کرلیا جاوے کہ شاید سنا نہ ہو۔ تین مرتبہ تک جب کوئی جواب نہ آوے تو لوٹ آنا چاہئے جیسا کہ حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے) اور تم کو ایسے مکانات میں (بغیر خاص اجازت کے) چلے جانے میں گناہ نہ ہوگا جن میں (گھر کے طور پر) کوئی نہ رہتا ہو (اور) ان میں تمہاری برت ہو (یعنی ان مکانات کے برتنے اور استعمال کرنے کا تمہیں حق ہو، یہ حکم ہے قسم چہارم کا جو رفاہ عام کے مکانات ہیں اور جن سے عام لوگوں کے منافع متعلق ہیں۔ تو وہاں جانے کے عادة عام اجازت ہوتی ہے) اور تم جو کچھ علانیہ کرتے ہو یا پوشیدہ کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ (اس لئے ہر حال میں تقوی اور خوف خدا لازم ہے۔ )- معارف ومسائل - قرآنی آداب معاشرت کا ایک اہم باب کسی کی ملاقات کو جاؤ تو پہلے اجازت لو بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہو :- افسوس ہے کہ شریعت اسلام نے جس قدر اس معاملے کا اہتمام فرمایا کہ قرآن حکیم میں اس کے مفصل احکام نازل ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے اس کی بڑی تاکید فرمائی، اتنا ہی آج کل مسلمان اس سے غافل ہوگئے۔ لکھے پڑھے نیک لوگ بھی نہ اس کو کوئی گناہ سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ دنیا کی دوسری مہذب قوموں نے اس کو اختیار کر کے اپنے معاشرہ کو درست کرلیا مگر مسلمان ہی اس میں سب سے پیچھے نظر آتے ہیں۔ اسلامی احکام میں سب سے پہلے سستی اسی حکم میں شروع ہوئی بہرحال استیذان قرآن کریم کا وہ واجب التعمیل حکم ہے کہ اس میں ذرا سی سستی اور تبدیلی کو بھی حضرت ابن عباس انکار آیت قرآن کے شدید الفاظ سے تعبیر فرما رہے ہیں اور اب تو لوگوں نے واقعی ان احکام کو ایسا نظر انداز کردیا ہے کہ گویا ان کے نزدیک یہ قرآن کے احکام ہی نہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون - استیذان کی حکمتیں اور مصالح مہمہ :- حق تعالیٰ جل شانہ نے ہر انسان کو جو اس کے رہنے کی جگہ عطا فرمائی خواہ مالکانہ ہو یا کرایہ غیرہ پر بہرحال اس کا گھر اس کا مسکن ہے اور مسکن کی اصل غرض سکون و راحت ہے قرآن عزیز نے جہاں اپنی اس نعمت گرانمایہ کا ذکر فرمایا ہے اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے فرمایا جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا، یعنی اللہ نے تمہارے گھروں سے تمہارے لئے سکون و راحت کا سامان دیا اور یہ سکون و راحت جبھی باقی رہ سکتا ہے کہ انسان دوسرے کسی شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے گھر میں اپنی ضرورت کے مطابق آزادی سے کام اور آرام کرسکے۔ اس کی آزادی میں خلل ڈالنا گھر کی اصل مصلحت کو فوت کرنا ہے جو بڑی ایذاء و تکلیف ہے۔ اسلام نے کسی کو بھی ناحق تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا ہے۔ استیذان کے احکام میں ایک بڑی مصلحت لوگوں کی آزادی میں خلل ڈالنے اور ان کی ایذا رسانی سے بچنا ہے جو ہر شریف انسان کا عقلی فریضہ بھی ہے۔ دوسری مصلحت خود اس شخص کی ہے جو کسی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا ہے کہ جب وہ اجازت لے کر شائستہ انسان کی طرح ملے گا تو مخاطب بھی اس کی بات قدر و منزلت سے سنے گا اور اگر اس کی کوئی حاجت ہے تو اس کے پورا کرنے کا داعیہ اس کے دل میں پیدا ہوگا۔ بخلاف اس کے کہ وحشیانہ طرز سے کسی شخص پر بغیر اس کی اجازت کے مسلط ہوگیا تو مخاطب اس کو ایک بلائے ناگہانی سمجھ کر دفع الوقتی سے کام لے گا خیر خواہی کا داعیہ اگر ہوا بھی تو مضحمل ہوجائے گا اور اس کو ایذاء مسلم کا گناہ الگ ہوگا۔- تیسری مصلحت فواحش اور بےحیائی کا انسداد ہے کہ بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہوجانے سے یہ بھی احتمال ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر پڑے اور شیطان دل میں کوئی مرض پیدا کر دے اور اسی مصلحت سے احکام استیذان کو قرآن کریم میں حد زنا، حد قذف وغیرہ احکام کے متصل لایا گیا ہے۔- چوتھی مصلحت یہ ہے کہ انسان بعض اوقات اپنے گھر کی تنہائی میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوتا ہے جس پر دوسروں کو اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے گھر میں آجائے تو وہ جس چیز کو دوسروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا اس پر مطلع ہوجائے گا۔ کسی کے پوشیدہ راز کو زبردستی معلوم کرنے کی فکر بھی گناہ اور دوسروں کے لئے موجب ایذا ہے۔ استیذان کے کچھ مسائل تو خود آیات مذکورہ میں آگئے ہیں پہلے ان کی تفصیل و تشریح دیکھئے باقی متفرق مسائل بعد میں لکھے جاویں گے۔- مسئلہ : ان آیات میں يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سے خطاب کیا گیا جو مردوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مگر عورتیں بھی اس حکم میں داخل ہیں جیسا کہ عام احکام قرآنیہ اسی طرح مردوں کو مخاطب کر کے آتے ہیں عورتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں بجز مخصوص مسائل کے جن کی خصوصیت مردوں کے ساتھ بیان کردی جاتی ہے۔ چناچہ نساء صحابہ کا بھی یہی معمول تھا کہ کسی کے گھر جاویں تو پہلے ان سے استیذان کریں۔ حضرت ام ایاس فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت صدیقہ عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے استیذان کرتی تھیں جب وہ اجازت دیتی تو اندر جاتی تھیں (ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم) - مسئلہ :۔ اسی آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں جانے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے مرد عورت محرم غیر محرم سب کو شامل ہے۔ عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مرد مرد کے پاس، سب کو استیذان کرنا واجب ہے اسی طرح ایک شخص اگر اپنی ماں اور بہن یا دوسری محرم عورتوں کے پاس جائے تو بھی استیذان کرنا چاہئے۔ امام مالک نے موطاء میں مرسلاً عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی استیذان کروں آپ نے فرمایا ہاں استیذان کرو۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ میں تو اپنی والدہ ہی کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لئے بغیر گھر میں نہ جاؤ اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ میں تو ہر وقت ان کی خدمت میں رہتا ہوں آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لئے بغیر گھر میں نہ جاؤ کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھو اس نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا اسی لئے استیذان کرنا چاہئے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ گھر میں کسی ضرورت سے ستر کھولے ہوئے ہوں۔ (مظہری)- اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آیت قرآن میں غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ آیا ہی اس میں بُيُوْتِكُمْ سے مراد وہ بیوت اور گھر ہیں جن میں انسان تنہا خود ہی رہتا ہو۔ والدین، بہن بھائی وغیرہ اس میں نہ ہوں۔- مسئلہ :۔ جس گھر میں صرف اپنی بیوی رہتی ہو اس میں داخل ہونے کے لئے اگرچہ استیذان واجب نہیں مگر مستحب اور طریق سنت یہ ہے کہ وہاں بھی اچانک بغیر کسی اطلاع کے اندر نہ جائے بلکہ داخل ہونے سے پہلے اپنے پاؤں کی آہٹ سے یا کھنکار سے کسی طرح پہلے باخبر کر دے پھر داخل ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ جب کبھی باہر سے گھر میں آتے تھے تو دروازہ میں کھنکار کر پہلے اپنے آنے سے باخبر کردیتے تھے تاکہ وہ ہمیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھیں جو ان کو پسند نہ ہو (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر وقال اسنادہ صحیح) اور اس صورت میں استیذان کا واجب نہ ہونا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جریج نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ کیا ایک شخص کو اپنی بیوی کے پاس جانے کے وقت بھی استیذان ضروری ہے انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ واجب نہیں لیکن مستحب اور اولی وہاں بھی ہے۔- استیذان کا مسنون طریقہ :۔ آیت میں جو طریقہ بتلایا گیا ہے وہ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا یعنی کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک دو کام نہ کرلو، اول استیناس، اس کے لفظی معنی طلب انس کے ہیں۔ مراد اس سے جمہور مفسرین کے نزدیک استیذان یعنی اجازت حاصل کرنا ہے استیذان کو بلفظ استیناس ذکر کرنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنے میں مخاطب مانوس ہوتا ہے اس کو وحشت نہیں ہوتی۔ دوسرا کام یہ ہے کہ گھر والوں کو سلام کرو۔ اس کا مفہوم بعض حضرات مفسرین نے تو یہ لیا کہ پہلے اجازت حاصل کرو اور جب گھر میں جاؤ تو سلام کرو۔ قرطبی نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے آیت میں کوئی تقدیم تاخیر نہیں پہلے استیذان کیا جائے جب اجازت مل جائے اور گھر میں جائیں تو سلام کریں اور اسی کو حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث کا مقتضی قرار دیا ہے اور ماوردی نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ اگر اجازت لینے سے پہلے گھر کے کسی آدمی پر نظر پڑجائے تو پہلے سلام کرے پھر اجازت طلب کرے ورنہ پہلے اجازت لے اور جب گھر میں جائے تو سلام کرے مگر عام روایات حدیث سے جو طریقہ مسنون معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پہلے باہر سے سلام کرے السلام علیکم اس کے بعد اپنا نام لے کر کہے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے۔- امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص سلام سے پہلے استیذان کرے اس کو اجازت نہ دو (کیونکہ اس نے مسنون طریقہ کو چھوڑ دیا) (روح المعانی) اور ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح استیذان کیا کہ باہر سے کہا أ الج کیا میں گھس جاؤں۔ آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ یہ شخص استیذان کا طریقہ نہیں جانتا باہر جا کر اس کو طریقہ سکھلاؤ کہ یوں کہے السلام علیکم أ ادخل یعنی کیا میں داخل ہوسکتا ہوں۔ ابھی یہ خادم باہر نہیں گیا تھا کہ اس نے خود حضور کے کلمات سن لئے اور اس طرح کہا السلام علیکم أ ادخل۔ تو آپ نے اندر آنے کی اجازت دے دی (ابن کثیر) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تاذنوا لمن لم بیدا بالسلام یعنی جو شخص پہلے سلام نہ کرے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دو (مظہری) اس واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو اصلاحیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ پہلے سلام کرنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ اس نے ادخل کے بجائے الج کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ نامناسب تھا کیونکہ الج ولوج سے مشتق ہے جس کے معنے کسی تنگ جگہ میں گھسنے کے ہیں یہ تہذیب الفاظ کے خلاف تھا۔ بہرحال ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آیت قرآن میں جو سلام کرنے کا ارشاد ہے یہ سلام استیذان ہے جو اجازت حاصل کرنے کے لئے باہر سے کیا جاتا ہے تاکہ اندر جو شخص ہے وہ متوجہ ہوجائے اور جو الفاظ اجازت طلب کرنے کے لئے کہے گا وہ سن لے۔ گھر میں داخل ہونے کے وقت حسب معمول دوبارہ سلام کرے۔- مسئلہ :۔ پہلے سلام اور پھر داخل ہونے کی اجازت لینے کا جو بیان اوپر احادیث سے ثابت ہوا اس میں بہتر یہ ہے کہ اجازت لینے والا خود اپنا نام لے کر اجازت طلب کرے جیسا کہ حضرت فاروق اعظم کا عمل تھا کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر آ کر یہ الفاظ کہے۔ السلام علی رسول اللہ السلام علیکم ایدخل عمر یعنی سلام کے بعد کہا کہ کیا عمر داخل ہوسکتا ہے (رواہ قاسم بن اصبغ و ابن عبدالبر فی التمہید عن ابن عباس عن عمر۔ ابن کثیر) اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت عمر کے پاس گئے تو استیذان کے لئے یہ الفاظ فرمائے۔ السلام علیکم ھذا ابو موسیٰ السلام علیکم ھذا الاشعری (قرطبی) اس میں بھی پہلے اپنا نام ابو موسیٰ بتلایا پھر مزید وضاحت کے لئے اشعری کا ذکر کیا اور یہ اس لئے کہ جب تک آدمی اجازت لینے والے کو پہچانے نہیں تو جواب دینے میں تشویش ہوگی۔ اس تشویش سے بھی مخاطب کو بچانا چاہئے۔- مسئلہ :۔ اور اس معاملہ میں سب سے برا وہ طریقہ ہے جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ باہر سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اندر سے مخاطب نے پوچھا کون صاحب ہیں۔ تو جواب میں یہ کہہ دیا کہ میں ہوں، کیونکہ یہ مخاطب کی بات کا جواب نہیں، جس نے اول آواز سے نہیں پہچانا وہ میں کے لفظ سے کیا پہچانے گا۔- خطیب بغدادی نے اپنے جامع میں علی بن عاصم واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ بصرہ گئے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کی ملاقات کو حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ حضرت مغیرہ نے اندر سے پوچھا کون ہے تو جواب دیا انا (یعنی میں ہوں) تو حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ میرے دوستوں میں تو کوئی بھی ایسا نہیں جس کا نام انا ہو پھر باہر تشریف لائے اور ان کو حدیث سنائی کہ ایک روز حضرت جابر بن عبداللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت لینے کے لئے دروازہ پر دستک دی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر سے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ تو جابر نے یہی لفظ کہہ دیا انا یعنی میں ہوں آپ نے بطور زجرو تنبیہ کے فرمایا انا انا یعنی انا انا کہنے سے کیا حاصل ہے اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا۔- مسئلہ :۔ اس سے بھی زیادہ برا یہ طریقہ ہے جو آج کل بہت سے لکھے پڑھے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں کہ دروازہ پر دستک دی جب اندر سے پوچھا گیا کہ کون صاحب ہیں تو خاموش کھڑے ہیں کوئی جواب ہی نہیں دیتے۔ یہ مخاطب کو تشویش میں ڈالنے اور ایذا پہنچانے کا بدترین طریقہ ہے جس سے استیذان کی مصلحت ہی فوت ہوجاتی ہے۔- مسئلہ :۔ روایات مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ استیذان کا یہ طریقہ بھی جائز ہے کہ دروازہ پر دستک دے دیجائے بشرطیکہ ساتھ ہی اپنا نام بھی ظاہر کر کے بتلا دیا جائے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے۔- مسئلہ :۔ لیکن اگر دستک ہو تو اتنی زور سے نہ دے کہ جس سے سننے والا گھبرا اٹھے بلکہ متوسط انداز سے دے جس سے اندر تک آواز تو چلی جائے لیکن کوئی سختی ظاہر نہ ہو۔ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درازہ پر دستک دیتے تھے تو ان کی عادت یہ تھی کہ ناخنوں سے دروازہ پر دستک دیتے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف نہ ہو (رواہ الخطیب فی جامعہ۔ قرطبی) جو شخص استیذان کے مقصد کو سمجھ لے کہ اصل اس سے اتیناس ہے یعنی مخاطب کو مانوس کر کے اجازت حاصل کرنا وہ خود بخود ان سب چیزوں کی رعایت کو ضروری سمجھے گا جن چیزوں سے مخاطب کو تکلیف ہو اس سے بچے گا۔ اپنا نام ظاہر کرے اور دستک دے تو متوسط انداز سے دے یہ سب چیزیں اس میں شامل ہیں۔- تنبیہ ضروروی : آج کل اکثر لوگوں کو تو استیذان کی طرف کوئی توجہ ہی باقی نہیں رہی جو صریح ترک واجب کا گناہ ہے اور جو لوگ استیذان کرنا چاہیں اور مسنون طریقہ کے مطابق باہر سے پہلے سلام کریں پھر اپنا نام بتلا کر اجازت لیں۔ ان کے لئے اس زمانے میں بعض دشواریاں یوں بھی پیش آتی ہیں کہ عموماً مخاطب جس سے اجازت لیتا ہے وہ دروازہ سے دور ہے۔ وہاں تک سلام کی آواز اور اجازت لینے کے الفاظ پہنچنا مشکل ہیں اس لئے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اصل واجب یہ بات ہے کہ بغیر اجازت کے گھر میں داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کے طریقے ہر زمانے اور ہر ملک میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ درواز پر دستک دینے کا تو خود روایات حدیث سے ثابت ہے اسی طرح جو لوگ اپنے دروازوں پر گھنٹی لگا لیتے ہیں اس گھنٹی کا بجا دینا بھی واجب استیذان کی ادائیگی کے لئے کافی ہے۔ بشرطیکہ گھنٹی کے بعد اپنا نام بھی ایسی آواز سے ظاہر کر دے جس کو مخاطب سن لے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ جو کسی جگہ رائج ہو اس کا استعمال کرلینا بھی جائز ہے آج کل جو شناختی کارڈ کا رواج یورپ سے چلا ہے یہ رسم اگرچہ اہل یورپ نے جاری کی مگر مقصد استیذان اس میں بہت اچھی طرح پورا ہوجاتا ہے کہ اجازت دینے والے کو اجازت چاہنے والے کا پورا نام و پتہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے بغیر کسی تکلیف کے معلوم ہوجاتا ہے اس لئے اس کو اختیار کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا ٠ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ٢٧- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔
گھروں میں داخلے پر اجازت طلب کرنے کا بیان - قول باری ہے : (یا ایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا) اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، ابراہیم نخعی اور قتادہ سے مروی ہے کہ استیناس کے معنی استئذان یعنی اجازت طلب کرنے کے ہیں اس صورت میں معنی یہ ہوں گے ” جب تک اجازت طلب کرکے گھر والوں کی رضا نہ لے لو۔ “ شعبہ نے ابو بشر سے ، انہوں سعیدبن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس لفظ کی قرات ” حتی تستاذنوا “ کرتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ اس لفظ کے لکھنے میں کاتب سے غلطی ہوگئی ہے قاسم بن نافع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کھنکارنے اور گلا صاف کرنے کی آواز کے ذریعے گھر والوں کی رضا حاصل کی جائے۔ “- نسق تلاوت میں ایسی بات موجود ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں استیذان یعنی اذن طلب کرنا مراد ہے۔ وہ یہ قول باری ہے : (واذا بلغ الاطفال منکم احلم فلیستاذنوا کما استاذن الذین من قبلھم) اور جب تمہارے بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ اس طرح اجازت طلب کریں جس طرح ان سے پہلے لوگ طلب کرتے تھے۔ استیناس کبھی گفتگو کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (ولا مستانسین لحدیث) اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھے رہا کرو۔ اور جس طرح حضرت عمر (رض) سے مروی روایت میں ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ازواج مطہرات سے کنارہ کشی کی تو پانی والے کمرے میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ ” میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا : ” کانوں میں تمہاری آواز پڑگئی ہے۔ “ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر بلالیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بیان کیا۔ میں نے عرض کیا ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بیٹھا باتیں کرتا رہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ یہاں حضرت عمر (رض) نے استیناس سے باتوں میں لگا رہنا مراد لیا ہے۔ یہ صورت کمرے میں داخل ہونے کے بعد پیش آئی تھی۔ جس استیناس کا ذکر آیت (حتیٰ تستانسوا) میں ہوا ہے اس سے گفتگو میں لگا رہنا مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ باتوں تک رسائی اذن دخول کے بعد ہوتی ہے بلکہ اس سے داخل ہونے کی اجازت طلب کرنا مراد ہے۔ استئذان کو استیناس کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جب آنے والا داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہوئے اہل خانہ کو اسلام علیکم کہے گا تو اس کی وجہ سے اہل خانہ میں آنے والے سے دل چسپی پیدا ہوجائے گی، اگر آنے والا اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہوجائے گا تو اس سے اہل خانہ پریشان ہوجائیں گے اور یہ چیز ان پر شاق گزرے گی۔ اجازت طلب کرنے کے ساتھ سلام کرنے کا بھی حکم دیا گیا کیونکہ سلام مسلمانوں کا طریقہ ہے جسے اپنانے کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ نیز سلام گویا آنے والے کی طرف سے گھر والوں کے لئے امان کا پیغام ہوتا ہے۔ یہ اہل جنت کی تحیت سے اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور حسد نیز کینہ دور ہوتا ہے۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں یوسف بن یعقوب نے، انہیں محمد بن بکر نے، انہیں صفوان بن عیسیٰ نے، انہیں الحارث بن عبدالرحمن بن ابی رباب نے سعید بن ابی سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق فرمائی اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی اور انہوں نے ” الحمد للہ “ کہا، اس طرح انہوں نے اللہ کے اذن سے اللہ کی تعریف کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : ” آدم تیرے رب نے تجھ پر رحم کیا، ان فرشتوں کے گروہ کی طرف جائو جو یہاں بیٹھا ہے اور انہیں السلام علیکم کہو۔ “ چناچہ حضرت آدم نے ان کے پاس جا کر انہیں سلام علیکم کہا اور پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تمہاری تحیت ہے تمہاری اولاد کی آپس کی بھی یہی تحیت ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی ابن قانع نے روایت بیان کی، انہیں علی بن اسحاق بن راحلیہ نے، انہیں ابراہیم بن سعید نے، انہیں یحییٰ بن نصر بن حاجب نے، انہیں ہلال بن حماد نے ذاذان سے، انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب اس سے اس کی ملاقات ہو تو وہ اسے السلام علیکم کہے۔ جب اسے کھانے پر بلائے تو اس کی دعوت قبول کرے اور غائبانہ طور پر اس کے لئے اپنے دل میں خیرخواہانہ جذبات رکھے جب اسے چھینک آئے تو جواب میں ” یرحمک اللہ (خدا تجھ پر رحم کرے) کہے، جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی بیمار پرسی کرے اور جب اس کی وفات ہوجائے تو جنازے کے ساتھ جائے۔ “- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن اسحق الحربی نے، انہیں ابوغسان النہدی نے انہیں زبیر نے، انہیں اعمش نے حضرت ابوبردہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہیں لاتے، اور ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے ، کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتائو جسے تم اگر اپنالو تو آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو رواج دو ۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں محمد حمید نے ، انہیں محمد بن معلی نے انہیں زیاد بن خیثمہ نے ابویحییٰ القتات سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا : (ان سرکم ان یخرج الغل من صدورکم فافشو ا السلام بینکم) اگر تمہیں یہ بات پسند آئے کہ تمہارے سینوں سے کینہ دور ہوجائے تو آپس میں سلام کو رواج دو ۔- استیذان کی تعداد اور اس کا طریقہ - دہیم بن قرآن نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے عمرو بن عثمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاستیذان ثلاث فالاولیٰ یستنصتون والثانیۃ یستصلحون والثالثۃ یاذنون اویردون۔ ) اجازت تین دفعہ طلب کی جانی ہے۔ پہلی بار پر گھر والے غور سے آواز سنتے ہیں دوسری بار پر صلاح کرتے ہیں اور تیسری بار پر اجازت دے دیتے یا واپس کردیتے ہیں۔ یونس بن عبید نے ولید بن مسلم سے اور انہوں نے حضرت جندب (رض) سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (اذا استاذن احدکم ثلاثا فلم یودن لہ فلیرجع) جب تم میں سے کوئی شخص تین دفعہ اجازت طلب کرے اور پھر بھی اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمدبن عبدہ نے، انہیں سفیان نے یزید بن خصیفہ سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرات انصار کے ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ابو موسیٰ گھبرائے ہوئے آئے، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجھے عمر (رض) نے طلب کیا گیا۔ میں ان کے پاس گیا۔ اندر آنے کے لئے تین دفعہ اجازت طلب کی لیکن اجازت نہ ملنے پر واپس ہوگیا، پھر جب دوبارہ ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے جواب طلبی کی۔ میں نے کہا کہ میں آیا تھا اور تین مرتبہ اجازت بھی مانگی تھی لیکن اجازت نہ ملنے پر واپس چلا گیا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : (اذا استاذن احد کو ثلاثاً فلم یوذن لہ فلیر جع۔ ) یہ حدیث سن کر انہوں نے مجھ سے ثبوت پیش کرنے کے لئے کہا۔ میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ اس حدیث کی گواہی دینے کے لئے اس مجمع کا سب سے کم انسان آپ کے ساتھ جائے گا۔ “ ان کا اشارہ اپنی طرف تھا۔ چناچہ حضرت ابوسعید (رض) ان کے ساتھ گئے اور اس حدیث کے سماع کی گواہی دی۔- ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) سے فرمایا تھا کہ ا س حدیث کے متعلق میں تم پر کذب بیانی کی تہمت نہیں لگاتا ہوں لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول حدیث کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ منقول ہیں۔” لیکن مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کرنا شروع کردیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) کی روایت کو اس وقت قبول کیا جب وہ ان کے نزدیک حد استفاضہ کہ پونچ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ استیذان کا معاملہ ایسا تھا جس سے ہر انسان کو سابقہ پڑتا تھا اور عمومی طور پر لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔ حضرت عمر (رض) کو یہ بات کچھ اوپری لگی کہ عمومی حاجت کے باوجود استیذان کی صرف تین مرتبہ اجازت ہے اور اجازت کے اس حکم کو نقل کرنے والے بھی چند افراد ہیں۔ یہ اس بات کی اصل ہے کہ جس حکم کی لوگوں کو عمومی طور پر ضرورت پیش آتی ہو اس کے متعلق وہی روایت قابل قبول ہوگی جو حد استفاضہ کو پہنچ چکی ہو۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائودنے، انہیں ہاروں بن عبداللہ نے انہیں ابودائود الحضری نے سفیان سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے طلحہ بن مصرف سے، انہوں نے ایک شخص سے اور انہوں نے حضرت سعد (رض) سے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا اور اس کی طرف رخ کرکے اجازت طلب کی۔ آپ نے اس سے فرمایا (ھکذا عنک او ھکذا فانما جعل الاستئذان للنظر) اس طرح کھڑے ہوکر……اجازت مانگو یعنی تمہارا رخ دروازے کی طرف نہیں ہونا چاہیے۔ اجازت طلب کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس کی نظر گھر کے اندر نہ پڑے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابن بشار نے، انہیں ابو عاصم نے، انہیں ابن جریج نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان نے کہ انہیں عمروبن عبداللہ بن صفوان نے کلاہ سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت صفوان (رض) بن امیہ نے انہیں کچھ دودھ ، ہرن کا ایک بچہ، اور کچھ لکڑیاں دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا تھا آپ اس وقت مکہ کے بالائی حصے میں مقیم تھے ۔ میں آپ کے گھر میں داخل ہوگیا لیکن میں نے سلام نہیں کیا، آپ نے مجھے واپس جانے اور سلام کرکے اندر داخل ہونے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ حضرت صفوان (رض) کے اسلام لانے کے بعد کا ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں ابوالاحوص نے منصور سے، انہوں نے ربعی سے ، انہیں بنو عامر کے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے، اس شخص نے پوچھا : ” میں اندر گھس آئوں ؟ “ یہ سن کر آب نے ایک خادم سے کہا کہ باہر جائو اور اس شخص کو اجازت طلب کرنے کا طریقہ بتائو۔ اس سے کہو کہ پہلے السلام علیکم کہے اور پھر پوچھے کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ اس شخص نے آپ کی یہ بات سن لی اور السلام علیکم کہنے کے بعد پوچھا کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ اس کی زبان سے یہ بات سن کر آپ نے اسے اجازت دے دی چناچہ وہ اندرچلا گیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں موئل بن فضل الحرانی نے دوسرے راویوں کے ساتھ، ان سب کو بقیہ نے ، انہیں محمد بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن یسر سے، انہوں نے کہا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کے دروازے پر تشریف لاتے تو اپنا چہرہ مبارک دروازے کی طرف نہ رکھتے بلکہ دروازے کے دائیں یا بائیں رکھتے اور فرماتے ” السلام علیکم “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لئے ایسا کرتے کہ ان دنوں گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکے نہ ہوتے تھے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری : (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا) اذن طلب کرنے کے بعد گھر میں داخل ہوجانے کے جواز کا مقتضی ہے خواہ گھر والے کی طرف سے اجازت نہ بھی ملے۔ اسی بنا پر مجاہد کا قول ہے کہ استیناس کے معنی کھنکھارنے اور گلا صاف کرنے کے ہیں۔ گویا مجاہد کی مراد یہ ہے کہ آنے والا گھر والوں کو اپنے داخل ہونے کے بارے میں آگاہ کردے۔ یہ حکم ان لوگوں کے لئے ثابت ہے جن کے اندر اذن کے بغیر داخل ہوجانے کا طریقہ مروج ہوتا ہم یہ بات واضح ہے کہ آیت سے اذن فی الدخول مراد ہے لیکن مخاطبین کو چونکہ اس مراد کا علم تھا اس لئے اسے حذف کردیا گیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد نے حبیب اور ہشام سے، انہوں نے محمد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رسول الرجل الی الرجل اذنہ۔ ایک آدمی کے پیغمبر کا دوسرا آدمی کی طرف پیغام لے کر جانا اس کی طرف سے اذن ہوتا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں حسین بن معاذ نے، انہیں عبدالاعلیٰ نے، انہیں سعید نے قتادہ سے، انہوں نے ابورافع سے اور ہاتھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذادعی احدکم الی طعام مجاء مع الرسول فان ذلک لہ اذن جب تم میں سے کسی کو کھانے پر مدعو کیا جائے اور وہ پیغام لانے والے کے ساتھ چلا آئے تو یہی اس کے لئے اذن ہوگا) یہ روایت دو معنوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ قول باری (حتی تستانسوا) میں لفظ اذن محذوف ہے لیکن آیت میں مراد ہے۔ دوم یہ کہ کسی کو بلوا بھیجنا اذن ہوتا ہے اگر مدعو شخص پیغام لانے والے کے ہمراہ آجائے تو اسے دوبارہ اذن طلب کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جن لوگوں میں گھر کے اندر داخل ہونے کی اباحت کا طریقہ مروج ہوا نہیں اذن طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔- ابوہریرہ (رض) کا واقعہ - اگرکہا جائے کہ ابونعیم نے عمر بن زر سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کیا کرتے تھے کہ بخدا میں بھوک کے مارے اپنے کلیجے کے سہار زمین پر ٹیک لگادیتا تھا کبھی میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن میں بھوکا تھا، میں آکر اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں سے صحابہ کرام (رض) کا گزر ہوتا تھا، حضرت ابوبکر (رض) آئے میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی حالانکہ میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ وہ میری بھوک کا احساس کرکے مجھے پیٹ بھر کھانا کھلادیں، لیکن وہ گزر گئے اور میری طرف دھیان نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) گزرے۔ میں نے ان سے بھی کتاب کی آیت پوچھی انہوں نے میری طرف دھیان نہیں کیا اور چلے گئے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا۔ آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میری حالت کا احساس کرلیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ” اے ابوہریرہ “ میں نے جواب دیا۔ لبیک یارسول اللہ فرمایا : ” میرے ساتھ چلو “ چناچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپ گھر میں داخل ہوگئے۔ میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت دے دی۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ میں نے ایک پیالے میں دودھ دیکھا، آپ نے گھر والوں سے پوچھا کہ دودھ کہاں سے آیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت نے آپ کو ہدیہ بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا : ” ابوہریرہ “ میں نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول لبیک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ نہ تو اہل وعیال والے تھے اور نہ مال والے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ان کی طرف بھیج دیتے اور خود نہ کھاتے لیکن جب کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو انہیں بلوالیتے اور ان کے ساتھ مل کر اسے تناول کرتے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل صفہ کو بلانے کے لئے کہا تو یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔ میں نے عرض کیا۔ ” اتنا سا دودھ اہل صفہ کے کیا کام آئے گا۔ “ میں دراصل یہ چاہتا تھا کہ یہ دودھ مجھے مل جائے تاکہ اسے پی کر میرے جسم میں کچھ توانائی آجائے، لیکن آپ نے میری یہ بات تسلیم نہ کی۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب وہ حضرات آجائیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے یہ دودھ انہیں بلانے کا حکم دیں گے، میں انہیں یہ دودھ دے دوں گا اور شاید ہی اس کا کچھ حصہ میرے لئے بچے گا۔- بہرحال میں ان کے پاس گیا اور انہیں بلالایا۔ وہ سب آگئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت دے دی، اور کمرے میں آکر بیٹھ گئے پھر آپ نے مجھے پکارا ” ابوہریرہ “ میں نے جواب میں لبیک کہا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ پیالہ پکڑو اور انہیں دودھ پلائو۔ “ میں نے پیالہ اٹھالیا۔ میں وہ پیالہ ایک شخص کو پکڑا دیتا یہاں تک کہ وہ دودھ پی کر سیر ہوجاتا۔ پھر دوسرے کو پکڑا دیتا اور وہ سیر ہونے کے بعد پیالہ مجھے واپس کردیتا۔ میں اسی طرح ایک ایک کو پلاتے پلاتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گیا، تمام اہل صفہ دودھ پی کر سیر ہوچکے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ لے کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے پھر فرمایا ” ابوہریرہ “ میں نے جواب میں لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا : ” اب صرف میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ “ میں نے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھیک فرماتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” اچھا بیٹھ جائو اور دودھ پیو۔ “ آپ کہتے جاتے ” اور پیو “ اور میں پیتا جاتا یہاں تک کہ میں بول اٹھا۔” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو دودھ کے لئے اندر جانے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ “ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے دکھائو “۔ میں نے پیالہ آپ کو پکڑا دیا۔ آپ نے الحمد للہ کہتے ہوئے بچا ہوا دودھ نوش جان کرلیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس روایت میں یہ بات بتائی کہ اصحاب صفہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تھی حالانکہ یہ حضرات آپ کو پیامبر کے ساتھ آئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف سے اجازت طلب کرنے کو برا نہیں جانا۔ یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس روایت کے خلاف ہے جس میں انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا تھا : ان رسول الرجل الی الرجل اذنہ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں روایتیں ایک دوسری کے خلاف نہیں ہیں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو پیغام لے جانے والے شخص کے ساتھ آنے والے کے لئے گھر میں داخل ہونے کی اباحت کو دی ہے لیکن اس میں اجازت طلب کرنے کی کراہت کی بات نہیں ہے بلکہ آنے والے شخص کو اس صورت میں یہ اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو اجازت طلب کرلے اور چاہے ت ایسانہ کرے لیکن اگر وہ پیغام لے جانے والے شخص کے ہمراہ نہ آئے تو اس صورت میں اذن طلب کرنا واجب ہوگا۔ قول باری (حتیٰ تستانسوا) میں اذن کی شرط ہے اس پر سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری : (فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم) اگر اس گھر میں کسی کو نہ پائو تو پھر جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اس میں داخل نہ ہو۔ دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اذن کے بغیر داخل ہونے کی ممانعت کردی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ پہلی آیت میں دخول کی اباحت کے اندر اذن کی شرط لگی ہوئی ہے۔ نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روایت میں جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں فمایا کہ استیذان حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ گھر کے اندر نظر نہ پڑے۔ “ یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی کے گھر کے اندر اس کی اجازت کے بغیر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔- اس بارے میں تغلیظ کی کئی صورتیں مروی ہیں۔ ایک حدیث تو وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن عبید نے، انہیں حماد عبیداللہ بن ابی بکر سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک حجرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ آپ فورا چوڑے پھل کا ایک یا کئی تیر لے کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے یوں نظر آرہا تھا کہ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو تیر چبھونے کے لئے موقعہ کی تلاش میں تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں الربیع بن سلیمان الموذن نے، انہیں ابن وہب نے سلیمان بن بلال سے، انہوں نے کثیر سے انہوں نے ولید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اذا دخل الیصرفلا اذن) جب گھر کے اندر نظر پڑجائے تو پھر اذن کی کیا ضرورت باقی رہے گی ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من اطلع فی دارقوم بغیر ذنھم ففقاء واعینہ فعدھدرت عینہ۔ جو شخص کسی قوم کی چار دیواری میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے اس کی آنکھیں پھوڑ دو ، اس کی آنکھیں رائیگاں ہوگئیں) یعنی اگر اس کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں تو اس سلسلے میں کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا مسلک اس حدیث کے ظاہری معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اسے اس کا تاوان بھرنا پڑے گا۔ یہ روایت بھی حضرت ابوہریرہ (رض) کی ان روایات میں سے ایک ہے جو قابل تسلیم نہیں ہیں کیونکہ ان میں اصول شریعت کی مخالفت موجود ہے۔ جس طرح ایک روایت یہ ہے کہ ” ولدزنا تین افراد (زانی، زانیہ، ولدزنا) میں سب سے برا ہوتا ہے۔ “ یا یہ کہ ” ولد زنا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ یا یہ کہ ” جو شخص وضو کرتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھے گا اس کا وضو نہیں ہوگا “ یا ” جو شخص کسی میت کو غسل دے اسے غسل کرلینا چاہیے “ یا ” جو شخص میت کو اٹھائے یعنی اس کے جنازے کو کندھا دے اسے وضو کرلینا چاہیے۔ “ یہ سب روایات شاذہ ہیں جن کے ظاہری معنوں کے خلاف فقہاء کا اتفاق ہے۔- امام شافعی کا خیال ہے کہ جو شخص کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا اس کی آنکھیں پھوڑ دے تو یہ ہدر ہوگا یعنی اس پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔ امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہر ی معنی سے استدلال کیا ہے۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوجائے اور گھر والا اس کی آنکھیں پھوڑ دے تو وہ ضامن ہوگا یعنی اگر اس نے عمداً یہ حرکت کی ہوگی تو اس پر قصاص واجب ہوگا اور اگر خطا ً ایسا کیا ہوگا تو اس پر ارش یعنی دیت واجب ہوگی۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ غیر کے گھر میں داخل ہونے والا شخص نہ صرف گھر میں جھانکنے کا مرتکب ہوا بلکہ اس نے اس سے زائد کام بھی کیا ہے یعنی دخول کا کام۔ ظاہر حدیث اس حکم کے خلاف ہے جس پر سب کا اتفاق ہوچکا ہے۔- اگر یہ روایت درست تسلیم کرلی جائے تو ہمارے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ جس شخص نے کسی قوم کی چاردیواری سے جھانک کر ان کی خواتین ومستورات پر نظر ڈال دی، پھر اسے روکا گیا لیکن وہ اس نظر بازی سے باز نہ آیا تو روکنے کے دوران اس کی آنکھ کے ضیاع کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی قوم کی چاردیواری میں داخل ہوگیا یا داخل ہونے کے ارادے سے گیا اور گھر والوں کی طرف سے اسے روکا گیا جس کے دوران اس کی آنکھ ضائع ہوگئی یا جسم کا کوئی عضو بےکار ہوگیا تو ایسی صورت میں اس نقصان کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں داخل ہوجانے والے اور دخول کے بغیر جھانکنے والے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر صورت ایسی ہو کہ صرف نظر اندر گئی ہو اور کسی نے اسے روکا بھی نہ ہو اور نہی بھی نہ کی ہو پھر کوئی شخص آکر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو وہ جنایت یعنی جسمانی نقصان پہنچانے کا مرتکب قرار پائے گا اور اس پر ظاہر قول باری : والعین بالعین آنکھ کے بدلے آنکھ تا قول باری (والجدوح قصاص اور تمام زخموں کے لئے برابر کا بدلہ) کے تحت جنایت کا حکم واجب وگا۔
(٢٧) اے ایمان والو تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم اپنے خاص گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل ہو جب تک کہ تم ان سے اجازت نہ لے لو اور اس سے پہلے ان کو سلام نہ کرلو اور یہ سلام کرنا اور اجازت لے کر جانا تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم اس کا خیال رکھو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے نہ داخل ہو۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ یایھا الذین امنوا لا تدخلوا “۔ (الخ)- فریابی (رح) اور ابن جریر (رح) نے عدی بن ثابت (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری عورت نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے گھر میں ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں چاہتی ہوں کہ اس حالت میں مجھے کوئی اور شخص نہ دیکھے اور میرے پاس میرے خاندان کے آدمی آتے رہتے ہیں اور میں اسی حالت میں ہوتی ہوں تو ایسی صورت میں، میں کیا کروں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اے ایمان والو تم اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو۔
ان آیات میں متعدد ایسے معاشرتی احکام دیے گئے ہیں جو ایک صاف ستھرا انسانی معاشرہ قائم کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں ‘ جس میں فحاشی اور بےحیائی کے لیے جگہ پانے کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو۔ اس سلسلے میں سورة بنی اسرائیل کا یہ حکم بڑا جامع اور بہت بنیادی نوعیت کا ہے : (وَلاَ تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَسَآءَ سَبِیْلاً ) ” تم زنا کے قریب بھی مت پھٹکو ‘ یہ کھلی بےحیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے “۔ اس سے اسلام کا مدعا و منشا واضح ہوتا ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں ہر اس فعل اور طریقے کاِ سد بابّ کرنا چاہتا ہے جو فواحش کے زمرے میں آتا ہے۔ - اس سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو الگ الگ جنسوں یعنی عورت اور مرد کی صورت میں پیدا کر کے ایک حکمت اور مقصد کے تحت ان میں سے ہر ایک کے لیے اپنی مخالف جنس میں بےپناہ کشش رکھی ہے۔ یہ کشش یعنی جنسی خواہش ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے جسے ہر وقت لگام دے کر قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ چناچہ اسلام نے ہر ایسا اقدام کیا ہے جو انسان کے جنسی جذبے کو ایک خاص ڈسپلن کا پابند رکھنے میں معاون ہو اور ہر وہ راستہ بند کرنا ضروری سمجھا ہے جس پر چل کر انسان کے لیے جنسی بےراہ روی کی طرف مائل ہونے کا ذرا سا بھی احتمال ہو۔ یہی فکر و فلسفہ اسلام کے معاشرتی نظام کا بنیادی ستون ہے اور اس ستون کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے قرآن میں ایسے جامع اور دو ررس قسم کے احکام جاری کیے گئے ہیں جو ایسے معاملات سے متعلق چھوٹی چھوٹی جزئیات تک کا احاطہ کیے نظر آتے ہیں۔ ان میں گھر کی چار دیواری کا تقدس ‘ شخصی تخلیے ( ) کا تحفظ ‘ ستر کا التزام ‘ پردے کا اہتمام ‘ غضِّ بصر سے متعلق ہدایات ‘ مخلوط محافل و مواقع کی حوصلہ شکنی جیسے احکام و اقدامات شامل ہیں۔- آیت ٢٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَآٰی اَہْلِہَا ط) ” - گھر کی چار دیواری کے تقدس اور اس کے مکینوں کے تخلیے ( ) کے آداب کو ملحوظ رکھنے کے لیے یہ تاکیدی حکم ہے ‘ یعنی کسی کو کسی دوسرے کے گھر میں اس کی رضامندی اور اجازت کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اجازت لینے اور رضامندی معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملاقات کے لیے آنے والا شخص دروازے کے باہر سے اونچی آواز میں ” السلام علیکم “ کہے اور پوچھنے پر اپنی پہچان کرائے تاکہ اہل خانہ اسے اندر آنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرسکیں۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ کوئی کسی کے گھر میں بےدھڑک چلا آئے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :23 سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے ۔ اب وہ احکام دیے جارہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کر دیا جائے جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں ۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں : اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا دراصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا ، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنا جانا بند کیا جائے ، اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے ، عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ داروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کر دیا جائے ، قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے ، مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے ، اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بے پر دگی ، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا ، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں ، ان کے کان ، ان کی زبانیں ، ان کے دل ، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے ( ) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی ، ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا ۔ دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کر دینے ، یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی ، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں ، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں ، یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں ۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم ، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے ، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے ۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پرٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں ۔ وہ صرف محتسب ( ) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد ، مصلح اور مددگار بھی ہے ، اس لیے وہ تمام تعلیمی ، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :24 اصل میں لفظ : حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے ، جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے ، لیکن درحقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے ۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا ، یا اپنے سے مانوس کرنا ۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو ، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے ، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اجازت لینے کے بجائے رضا لینے کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :25 جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حُیِّیتم صَبَاحاً ، حُیِّیتم مَسَاءً ( صبح بخیر ، شام بخیر ) کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو ۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں : ۱ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا ، باہر سے نگاہ ڈالنا ، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔ حضرت ثوبان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ) کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن ، جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا ( ابو داؤد ) ۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک ، فانما الا ستیذان من النظر ، پرے ہٹ کر کھڑے ہو ، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ( ابو داؤد ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے ، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہ لٹکائے جاتے تھے ۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں باہر سے جھانکا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظر فی النار ، جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ( ابو داؤد ) ۔ صحیحین میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح ، اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذنھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ ، جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤاخذہ نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں ۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پر وہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں ۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ( احکام القرآن جصاص ۔ ج3 ۔ ص 385 ) ۔ ۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے ۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی ، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے ۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے ۔ ۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے ۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ ، کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟ ( ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً ) ۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے ۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ آ رہے ہیں ۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں ( ابن جریر ) ۔ ٤ : اجازت طلب کرنے کے حکم سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جائے ، مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے ۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں ۔ ۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے ۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا :أ ألج ( کیا میں گھر میں گھس آؤں؟ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا ۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أ أدخل ( ابن جریر ۔ ابو داؤد ) ۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا ۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا میں ہوں ۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا: میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو ( ابو داؤد ) ۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے ۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ ( ابو داؤد ) ۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے السلام علیہ یا رسول اللہ ، ایدخل عمر ( ابو داؤد ) ۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ ( بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ) ۔ یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طریقہ بھی تھا ۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی ، مگر اندر سے جواب نہ آیا ۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گئے ۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا ، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے میرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے ، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا ( ابو داؤد ۔ احمد ) ۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے ، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے ۔ ٦ : اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے ، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد ۔ کوئی چھوٹا سا بچہ کہہ دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے ۔ ۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا ، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہو جانا جائز نہیں ہے ۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے ، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے ۔
15: یہاں سے معاشرے میں بے حیائی پھیلنے کے بنیادی اسباب پر پہرہ بٹھانے کے لیے کچھ احکام دئیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس میں ایک تو حکمت یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بے جا مداخلت نہ ہو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ دوسرے بلا اجازت کسی کے گھر میں چلے جانے سے بحیائی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور اجازت لینے کا طریقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ باہر سے السلام علیکم کہا جائے، یا اگر یہ خیال ہو کہ گھر والا سلام نہیں سن سکے گا، اور اجازت دستک دے کر یا گھنٹی بجا کرلی جا رہی ہے تو جب گھر والا سامنے آجائے اس وقت اسے سلام کیا جائے۔