Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دو قسم کے کافر یہ دو مثالیں ہیں اور دو قسم کے کافروں کی ہیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی شروع میں دو مثالیں دو قسم کی منافقوں کی بیان ہوئی ہیں ۔ ایک آگ کی ایک پانی کی ۔ اور جیسے کہ سورہ رعد میں ہدایت وعلم کی جو انسان کے دل میں جگہ پکڑ جائے ۔ ایسی ہی دو مثالیں ایک آگ کی ایک پانی کی بیان ہوئی ہیں ۔ دونوں سورتوں میں ان آیتوں کی تفسیر کامل گزر چکی ہے ۔ فالحمد للہ یہاں پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو کفر کی طرف دوسروں کو بھی بلاتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں ۔ ان کی تو ایسی مثال ہے جیسے کسی پیاسے کو جنگل میں دور سے ریت کا چمکتا ہوا تودہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے پانی کا موج دریا سمجھ بیٹھتا ہے ۔ قیعہ جمع ہے قاع کی جیسے جار کی جمع جیرہ اور قاع واحد بھی ہوتا ہے اور جمع قیعان ہوتی ہے جیسے جار کی جمع جیران ہے ۔ معنی اس کے چٹیل وسیع پھیلے ہوئے میدان کے ہیں ۔ ایسے ہی میدانوں میں سراب نظر آیا کرتے ہیں ۔ دوپہر کے وقت بالکل یہی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کا وسیع دریا لہریں لے رہا ہے ۔ جنگل میں جو پیاسا ہو ، پانی کی تلاش میں اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اسے پانی سمجھ کر جان توڑ کوشش کر کے وہاں تک پہنچتا ہے لیکن حیرت وحسرت سے اپنا منہ لپیٹ لیتا ہے ۔ دیکھتا ہے کہ وہاں پانی کا قطرہ چھوڑ نام ونشان بھی نہیں ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اعمال کئے ہیں ، بہت سی بھلائیاں جمع کر لی ہیں لیکن قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ایک نیکی بھی ان کے پاس نہیں یا تو ان کی بدنیتی سے وہ غارت ہوچکی ہے یا شرع کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے ۔ غرض ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ان کے کام جہنم رسید ہوچکے ہیں ، یہاں یہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ۔ حساب کے موقعہ پر اللہ خود موجود ہے اور ایک ایک عمل کا حساب لے رہا ہے اور کوئی عمل ان کا قابل ثواب نہیں نکلتا ۔ چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر کی ۔ کہا جائے گا کہ جھوٹے ہو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ۔ اچھا بتاؤ اب کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آرہا ہے ؟ تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اب انہیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے جس پر جاری پانی کا دھوکہ ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے ۔ یہ مثال تو تھی جہل مرکب والوں کی ۔ اب جہل بسیط والوں کی مثال سنئے جو کورے مقلد تھے ، اپنی گرہ کی عقل مطلق نہیں رکھتے تھے ۔ مندرجہ بالا مثال والے ائمہ کفر کی تقلید کرتے تھے اور آنکھیں بند کر کے ان کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ ان کی مثال گہرے سمندر کی تہہ کے اندھیروں جیسی ہے جسے اوپر سے تہہ بہ تہہ موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو اور پھر اوپر سے ابر ڈھانکے ہوئے ہوں ۔ یعنی اندھیرے پر اندھیرا ہو ۔ یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ۔ یہی حال ان سفلے جاہل کافروں کاہے کہ نرے مقلد ہیں ۔ یہاں تک کہ جس کی تقلید کر رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے ؟ چنانچہ مثالا کہا جاتا ہے کہ کسی جاہل سے پوچھا گیا کہاں جارہا ہے ؟ اس نے کہا ان کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا کہ یہ کہاں جار ہے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔ پس جیسے اس سمندر پر موجیں اٹھ رہی ہیں ، اسی طرح کافر کے دل پر ، اس کے کانوں پر ، اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے آیت ( اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَة 23؀ ) 45- الجاثية:23 ) ، تو نے انہیں دیکھا ؟ جنہوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے اور اللہ نے انہیں علم پر بہکا دیا ہے اور ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ابی بن کعب فرماتے ہیں ایسے لوگ پانچ اندھیروں میں ہوتے ہیں ( ١ ) کلام ( ٢ ) عمل ( ٣ ) جانا ( ٤ ) آنا ( ٥ ) اور انجام سب اندھیروں میں ہیں ۔ جسے اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت نہ کرے وہ نورانیت سے خالی رہ جاتا ہے ۔ جہالت میں مبتلا رہ کر ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٨٦؁ ) 7- الاعراف:186 ) جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا ۔ یہ اس کے مقابل ہے جو مومنوں کی مثال کے بیان میں فرمایا تھا کہ اللہ اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے جسے چاہے ۔ اللہ تعالیٰ عظیم وکریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں نور پیدا کردے اور ہمارے دائیں بائیں بھی نور عطا فرمائے اور ہمارے نور کو بڑھا دے اور اسے بہت بڑا اور زیادہ کرے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] سراب اور شراب کا لغوی فرق : عربی زبان میں ہر مشروب یعنی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور جو چیز بظاہر تو شراب نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو اسے سراب کہتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس تودہ ریت پر ہونے لگا جو دور سے ایک خاص زاویہ سے سورج کی روشنی میں ٹھاٹھیں مارتا پانی نطر آتا ہے مگر حقیقتاً وہاں پانی وانی کچھ نہیں ہوتا۔- عام کافروں اور منافقوں کی مثال : یہ مثال ایسے کافروں اور منافقوں سے تعلق رکھتی ہے جو فی الجملہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ خواہ وہ نمودو نمائش کے لئے ہوں پھر انھیں یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ آخرت میں انھیں ان کا اجر ملے گا۔ اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ جس طرح کسی ریگستان میں ایک پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے۔ وہ پیاس کا مارا جب گرم ریت کا میدان طے کرکے دوڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا۔ اور سخت مایوس اور درماندہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال ایسے کافروں کا ہے۔ موت کا وقت ان کے لئے سراب ہے۔ اور وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں کچھ بھی ان کے اعمال کا بدلہ نہ ملے گا۔ اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ ۔۔ : ” سَرَابٌ“ چٹیل میدان یا ریگستانی صحرا میں دوپہر کے وقت سورج کی روشنی کی وجہ سے دور سے ایسا نظر آتا ہے جیسے پانی لہریں مار رہا ہو، اسے ” سراب “ کہتے ہیں، جو محض نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ ” قِیْعَۃٌ“ اور ” قَاعٍ “ دونوں کا معنی چٹیل میدان ہے۔ ” الظَّمْاٰنُ “ ” فَعْلَانُ “ کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے، معنی ہے سخت پیاسا۔ اس سے پہلے اہل ایمان کے دل میں ہدایت کے نور کی مثال بیان فرمائی، اب کفار کے اعمال کے لیے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں، جیسا کہ سورة بقرہ میں منافقین کے لیے آگ اور پانی کی مثال بیان فرمائی اور سورة رعد میں اس ہدایت اور علم کی جو دلوں میں جاگزین ہوجاتے ہیں، دو مثالیں بیان فرمائیں، ایک پانی کی اور دوسری آگ کی۔ یہاں کفار کے اعمال کی دو مثالیں لفظ ” او “ کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ - بعض اہل علم نے سراب والی مثال کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ کافر دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو اپنے گمان کے مطابق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے، جیسا کہ بیت اللہ کی خدمت، حاجیوں کو پانی پلانا، صدقہ و خیرات وغیرہ کرنا، حالانکہ ان کا کوئی بھی کام، اگرچہ وہ بظاہر اچھا ہی ہو، پھر بھی کفر کی شامت سے اللہ کے ہاں قبول و معتبر نہیں۔ ان لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ) [ الأحقاف : ٢٠ ] ” تم اپنی نیکیاں اپنی دنیا کی زندگی میں لے جا چکے اور تم ان سے فائدہ اٹھا چکے۔ “ آخرت میں ان کے اعمال ” ھَبَاءً مَّنْثٗوْراً “ (بکھرا ہوا غبار) کردیے جائیں گے۔ (دیکھیے فرقان : ٢٣) دوسری جگہ ان کے اعمال کی مثال اس راکھ سے بیان فرمائی جس پر آندھی والے دن میں سخت ہوا چلی ہو۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١٨) ۔ - زیر تفسیر آیت میں فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی مثال اس طرح ہے جیسے دوپہر کے وقت ایک سخت پیاسے شخص کو دور سے پانی دکھائی دے، جو دراصل سراب ہو، وہ سخت پیاس کی وجہ سے اسے پانی سمجھ کر وہاں پہنچے، تو وہاں پانی وغیرہ کچھ نہ ہو، بلکہ وہاں اس سے حساب کا تقاضا کرنے والے ہوں جو اسے پکڑ کر اپنے حساب میں باندھ لیں۔ اسی طرح کافر اپنے گمان میں اپنے اچھے کاموں کو قیامت کے دن فائدہ پہنچانے والے گمان کرتا ہے، مگر قیامت کے دن وہ سراب کی طرح بےحقیقت ہوجائیں گے اور جزا ملنے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ سے سابقہ پیش آئے گا، جو اس سے اپنا حساب پورا لے گا۔ ” وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ “ یعنی اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں کو ہر چیز کا علم نہیں، نہ ان میں سے کوئی ایک وقت میں ایک سے زیادہ کا حساب لے سکتا ہے، اس لیے ان کے حساب میں تاخیر ہوجاتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کو پہلی پچھلی ہر چیز کا مکمل علم ہے، وہ کسی لکھنے پڑھنے کا محتاج نہیں اور وہ ایک لمحے میں ساری کائنات کا حساب بھی لے سکتا ہے، اس لیے وہ ” وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ “ ہے۔ اسے حساب میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ - دوسری قسم کے کافر وہ ہیں جنھیں آخرت کی فکر ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ کوئی اچھا کام کریں، وہ سر سے پاؤں تک دنیا کی لذتوں میں غرق ہیں اور کفر و ضلالت، ظلم و جہل، خواہش پرستی اور اللہ کی نافرمانی میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ان کی مثال آگے بیان فرمائی کہ ان کے پاس روشنی کی اتنی چمک بھی نہیں جتنی سراب پر دھوکا کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیروں اور تہ بہ تہ ظلمات میں بند ہیں، روشنی کی کوئی شعاع کسی طرف سے ان تک نہیں پہنچتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚبِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝ ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا وَّوَجَدَ اللہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ۝ ٠ۭ وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ٣٩ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سرب - السَّرَبُ : الذّهاب في حدور، والسَّرَبُ : الْمَكَانُ الْمُنْحَدِرُ ، قال تعالی: فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] ، يقال : سَرَبَ سَرَباً وسُرُوباً «2» ، نحو مرّ مرّا ومرورا، وانْسَرَبَ انْسِرَاباً كذلك، لکن سَرَبَ يقال علی تصوّر الفعل من فاعله، وانْسَرَبَ علی تصوّر الانفعال منه . وسَرَبَ الدّمع : سال، وانْسَرَبَتِ الحَيَّةُ إلى جُحْرِهَا، وسَرَبَ الماء من السّقاء، وماء سَرَبٌ ، وسَرِبٌ: متقطّر من سقائه، والسَّارِبُ : الذّاهب في سَرَبِهِ أيّ طریق کان، قال تعالی: وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] ، والسَّرْبُ : جمع سَارِبٍ ، نحو : رکب وراکب، وتعورف في الإبل حتی قيل : زُعِرَتْ سَرْبُهُ ، أي : إبله . وهو آمن في سِرْبِهِ ، أي : في نفسه، وقیل : في أهله ونسائه، فجعل السِّرْبُ كناية، وقیل : اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ «3» ، في الکناية عن الطّلاق، ومعناه : لا أردّ إبلک الذّاهبة في سربها، والسُّرْبَةُ : قطعة من الخیل نحو العشرة إلى العشرین . والْمَسْرَبَةُ : الشّعر المتدلّي من الصّدر، السَّرَابُ : اللامع في المفازة کالماء، وذلک لانسرابه في مرأى العین، وکان السّراب فيما لا حقیقة له کا لشّراب فيما له حقیقة، قال تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] ، وقال تعالی:- وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20]- ( س ر ب ) السرب - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں اور ( اسم کے طور پر ) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ؛فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنا لیا ۔ سرب ( ن ) سربا و سروبا ( جیسے مر مرا و مرورا ) اور انسرب ( انفعال ) کے ایک ہی معنی آتے ہیں لیکن سرب بالذات فاعل سے فعل صادر ہونے پر بولا جاتا ہے اور انسرب کبھی انفعالی معنی کے لحاظ سے بولا جاتا ہے یعنی وہ فعل جو دوسرے سے متاثر ہوکر کیا جائے ۔ سرب الدمع ( س) آنسو رواں ہونا ۔ انسرب الحیۃ الی حجرھا سانپ کا اپنے بل میں اتر جانا اسی طرح سرب ( س ) الماء من السقاء کے معنی مشکیزے سے پانی ٹپکنا کے ہیں اور وہ پانی جو مشکیزے سے ٹپک رہا ہو اسے ماء سرب و سرب کہتے ہیں ۔ السارب کسی راستہ پر ( اپنی مرضی سے ) چلا جانے والا ۔ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن ( کی روشنی ) میں کھلم کھلا چلے پھرے ۔ سارب کی جمع سرب آتی ہے ۔ جیسے رکب و راکب اور عرف میں اونٹوں کے گلہ کو سرب کہا جاتا ہے ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ زعرت سربہ اس کے اونٹ ڈر کر متفرق ہوگئے ( یعنی بد حال ہوگیا ) اور ھو آمن فی سربہ ( وہ خوش حال ہے ) میں سرب کے معنی نفس کے ہیں اور بعض نے کنایتہ اہل و عیال مراد لیا ہے ۔ اسی سے کنایہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ : جاؤ تجھے طلاق ہے اور اصل معنی یہ ہے کہ تمہارے اونٹ جدھر جانا چاہیں آزادی سے چلے جائیں میں انہیں نہیں روکونگا ۔ السربۃ : دس سے کے لے کر بیس تک گھوڑوں کی جماعت کو سربۃ ، ، کہا جاتا ہے ۔ المسربۃ ( بضمہ را ) سینہ کے درمیان کے بال جو نیچے پیٹ تک ایک خط کی صورت میں جلے جاتے ہیں ۔ السراب ( شدت گرما میں دوپہر کے وقت ) بیابان میں جو پانی کی طرح چمکتی ہوئی ریت نظر آتی ہے اسے ، ، سراب ، ، کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بظاہر دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے پانی بہہ رہا ہے پھر اس سے ہر بےحقیقت چیز کو تشبیہ کے طور پر سراب کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل جو چیز حقیقت رکھتی ہوا سے شراب کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے ۔ وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب ہو کر رہ جائیں گے ۔- قيع - قوله تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ [ النور 39] . والقِيعُ والْقَاعُ : المستوي من الأرض، جمعه قِيعَانٌ ، وتصغیره : قُوَيْعٌ ، واستعیر منه : قَاعَ الفحل الناقة : إذا ضربها .- ( ق ی ع ) القیعتہ - ۔ ہموار میدان ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ [ النور 39] جیسے میدان میں ریت ؛ القیح وا القاع کے معنی ہموار زمین کے ہیں ۔ اس کی جمع قیعان اور تصغیر توقع آتی ہے اور اسی سے قاع الفحل الناقتہ کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ناقہ کے ساتھ جفتی کرنے اور پوری طرح سوار ہوکر اس پر بیٹھ جانے کے ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - ظمأ - الظِّمْءُ : ما بين الشّربتین، والظَّمَأُ : العطش الذي يعرض من ذلك . يقال : ظَمِئَ يَظْمَأُ فهو ظَمْآَنُ. قال تعالی: لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، وقال : يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور 39] .- ( ظ م ء ) الظمئ - ۔ دو مرتبہ پانی پینے کے درمیان کا وقفہ اظلماء پیاس جو اس وقفہ میں عارض ہو دراصل یہ ظمئ یظماء فھو ظمآن کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیا سے رہو اور نہ دہوپ کھاؤ ۔ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور 39] کہ پیاسا اسے پانی سمجھ کر اس کیطرف جاتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) اور جن لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے ساتھ کفر کیا تو ان کے اعمال کی آخرت میں یہ حالت ہوگی کہ جیسے ایک چٹیل میدان میں چمکتی ہوئی ریت کہ پیاسا آدمی اس کو دور سے پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب دوڑتا ہوا اس کے پاس اپنے گناہوں کی سزا پائے گا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے عذاب کے لیے مستعد پائے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو پوری پوری سزا دے دی اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے یا یہ کہ جس کی میعاد آجاتی ہے تو پل بھر میں اس کے حساب کا فیصلہ کردیتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ” - یعنی اگر کسی شخص کا دل حقیقی ایمان سے محروم ہے تو خدمت خلق کے میدان میں اس کے کارناموں اور دوسرے نیک کاموں کی اللہ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ ایسی نیکیاں تو گویا سراب (دھوکہ ) ہیں۔ جیسے صحرا میں ایک پیاسا شخص سراب (چمکتی ہوئی ریت) کو پانی سمجھتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے اعمال کو نیکیوں کا ڈھیرسمجھتے ہیں ‘ لیکن روز حساب ان پر اچانک یہ حقیقت کھلے گی کہ ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں شرف قبولیت نہیں پاسکا۔ سورة ابراہیم کی آیت ١٨ میں ایسے لوگوں کے اعمال کو راکھ کے اس ڈھیر سے تشبیہہ دی گئی ہے جو تیز آندھی کی زد میں ہو۔ - اس سلسلے کی دوسری مثال ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کی زندگیاں ایسی جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں اور ان کے باطن سرا سر شہوات نفس اور دنیا پرستی کی گندگی سے بھرے پڑے ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :70 یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے ۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں ۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حلت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے ، یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں ، خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :71 اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں ، اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان ، اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے ۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہو ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے ۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھائے اس کی طرف پیاس بجھانے کی امید لیے ہوئے دوڑتا چلا جاتا ہے ، اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفر طے کرتے چلے جا رہے ہو ۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا ، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو ، بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا ، اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے ۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: ریگستان میں جو ریت چمکتا نظر آتا ہے، دور سے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی ہو، اسے ’’ سراب‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح سفر کرتے ہوئے آدمیوں کو سراب دھوکا دیتا ہے کہ وہ اسے پانی سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، اسی طرح کافر لوگ جو عبادت نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، وہ سراب کی طرح ایک دھوکا ہے۔ 36: یہ مثال ان کافروں کی ہے جو آخرت کو مانتے ہیں، لیکن توحید اور رسالت کے منکر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن اعمال کے بارے میں یہ کافر لوگ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ ان کو آخرت میں فائدہ پہنچائیں گے، مرنے کے بعد انہیں اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا پورا پورا حساب دنیا میں چکا کر انہٰیں سزا کا مستحق قرار دیا ہے، اور اس طرح ان سارے کاموں نے فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہے۔