ہر ایک تسبیح خوان ہے کل کے کل انسان ، جنات ، فرشتے اور حیوان یہاں تک کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ایک اور جگہ ہے کہ ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان میں جو ہیں سب اللہ کی پاکیزگی کی بیان میں مشغول ہیں ۔ اپنے پروں سے اڑنے والے پرند بھی اپنے رب کی عبادت اور پاکیزگی کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ان سب کو جو جو تسبیح لائق تھی اللہ نے انہیں سکھا دی ہے ، سب کو اپنی عبادت کے مختلف جداگانہ طریقے سکھا دئے ہیں اور اللہ پر کوئی کام مخفی نہیں ، وہ عالم کل ہے ۔ حاکم ، متصرف ، مالک ، مختار کل ، معبود حقیقی ، آسمان وزمین کا بادشاہ صرف وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کے حکموں کو کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے ، وہ جو چاہے گا اپنی مخلوقات میں حکم فرمائے گا ۔ برے لوگ برا بدلہ پائیں گے ۔ نیک نیکیوں کا پھل حاصل کریں گے ۔ خالق مالک وہی ہے ، دنیا اور آخرت کا حاکم حقیقی وہی ہے اور اسی کی ذات لائق حمد وثنا ہے ۔
4 1 1یعنی اہل زمین و اہل آسمان، جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح وتحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقینا وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہوگی۔
[٦٨] کافروں کی دو مثالیں بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے کائنات سے کچھ اپنی ایسی نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت یا نور ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو فطری طور پر ایسا طریقہ سکھلا دیا کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان فضا میں اپنے پر کھولے ہوئے اور قافلہ کی صورت میں قطار در قطار اڑتے پھرتے ہیں۔ اور وہ زمین پر گر نہیں پڑتے۔ پھر بعض دفعہ وہ اڑتے اڑتے اپنے پروں کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ مگر گرتے پھر بھی نہیں۔ آکر ان پرندوں کو یہ طریقہ کس نے سکھلایا ؟ زمین کی کشش ثقل جو کاغذ کے ایک ہلکے سے پرزے کو اپنی طرح کھینچ لیتی ہے انھیں کیوں نہیں کھینچتی ؟- [٦٩] کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے قانون کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ جس کام پر اسے اللہ نے لگا دیا ہے بلاچون و چرا اس کو سرانجام دے رہی ہے۔ اور فطری قانون ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ ان سے سرمو تجاوز نہیں کرتی۔ ایسی اطاعت کو بھی ان کی نماز اور تسبیح کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ان اشیاء کی نماز اور تسبیح اس کے علاوہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ جسے ہم انسان یا جن جو مکلف مخلوق ہیں، جان نہیں سکتے۔ اور تسبیح کرنے والی اشیاء اپنی نماز اور تسبیح اور اس کے طریق کار کو خوب جانتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٤٤ میں بتلا دیا کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : اس سے پہلی آیات میں یہ بتایا کہ آسمانوں اور زمین کو حسی اور معنوی نور سے روشن کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، ساتھ ہی مومنوں کے دلوں کے نور ایمان سے منور ہونے اور کفار کے دلوں کے تاریکیوں میں غوطے کھانے کی مثالیں بیان فرمائیں، اب آسمانوں اور زمین میں پھیلے ہوئے اس نور (توحید) کی طرف رہنمائی کرنے والے چند دلائل بیان فرمائے۔- اَلَمْ تَرَ : یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے بھی نہیں دیکھا، اس لیے یہاں ” اَلَمْ تَرَ “ سے مراد یہ نہیں کہ ” کیا تو نے نہیں دیکھا “ بلکہ مراد ہے ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں ؟ جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ ) [ الفیل : ١ ] اس میں مخاطب اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو آپ پیدا ہی اس واقعہ کے بعد ہوئے ہیں، آپ کے اسے دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہر شخص اس کا مخاطب ہے تو ہر شخص کا اس واقعہ کو دیکھنا ممکن ہی نہیں، اس لیے وہاں بھی معنی ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ ہے۔ دراصل اس لفظ سے پوچھنا نہیں بلکہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں، اگر معلوم نہیں ہے تو اب جان لو، اور ” اَلَمْ تَرَ “ کا لفظ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہونے والا علم خود دیکھنے سے حاصل ہونے والے علم کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ یقینی ہے۔ (شعراوی)- 3 یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہیں، یعنی جن، انسان، فرشتے، جانور، اڑتے ہوئے پرندے، حتیٰ کہ نباتات اور جمادات سب شہادت دیتے ہیں کہ ہمیں پیدا کرنے والا اور ساری کائنات کو کسی خرابی کے بغیر نہایت حسن و خوبی سے چلانے والا ہر نقص اور ہر شریک سے پاک ہے۔ تو جب ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو انسان پر تو سب سے بڑھ کر اس کی تسبیح کرنا اور اس کی توحید کی شہادت دینا لازم ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی یہ تسبیح زبان حال ہی سے نہیں زبان قال سے یعنی بول کر بھی ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤٤) اور سورة رعد (١٣) ۔- وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ : زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کی تسبیح کے بعد پرندوں کی تسبیح کا الگ ذکر فرمایا، کیونکہ وہ اڑتے وقت نہ زمین پر ہوتے ہیں نہ آسمان میں، بلکہ ان کے درمیان معلق ہوتے ہیں، یہ پرندے بھی اللہ کے ہر نقص سے پاک ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة ملک (١٩) ۔- كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ : اس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ تسبیح اتفاقی طور پر بےسوچے سمجھے نہیں، بلکہ سمجھ کر اور علم کی بنا پر ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں سکھایا اور ان کی طرف الہام کیا ہے۔- وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ ان کی تسبیح اور بندگی کو اور ان کے ہر عمل کو خوب جاننے والا ہے۔
خلاصہ تفسیر - (اے مخاطب) کیا تجھ کو (دلائل اور مشاہدہ سے) معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں (خواہ قالاً جو بعض مخلوقات میں مشاہد بھی ہے خواہ حالاً جو کل مخلوقات میں بدلالت عقل معلوم ہے) اور (بالخصوص) پرند (بھی) جو پر پھیلاے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں (کہ ان کی دلالت علی وجود الصانع اور زیادہ عجیب ہے کہ باوجود ان کے ثقل اجسام کے پھر فضاء میں رکے ہوئے ہیں اور) سب (پرندوں) کو اپنی اپنی دعا (اور التجاء اللہ سے) اور اپنی تسبیح (و تقدیس کا طریقہ الہام سے) معلوم ہے اور (باوجود ان دلائل کے پھر بھی بعضے توحید کو نہیں مانتے تو) اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے (اس انکار و اعراض پر ان کو سزا دے گا) اور اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں (اب بھی) اور (انتہا میں) اللہ ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے (اس وقت بھی حاکمانہ تصرف اسی کا ہوگا چناچہ حکومت کا ایک اثر بیان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اے مخاطب) کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ (ایک) بادل کو (دوسرے بادل کی طرف) چلتا کرتا ہے (اور) پھر اس بادل (کے مجموعہ) کو باہم ملا دیتا ہے پھر اس کو تہ بہ تہ کرتا ہے پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس (بادل) کے بیچ میں سے نکل (نکل کر) آتی ہے اور اس بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے پھر ان کو جس (کی جان پر یا مال) پر چاہتا ہے گراتا ہے (کہ اس کا نقصان ہوجاتا ہے) اور جس سے چاہتا ہے اس کو ہٹا دیتا ہے (اور اس کے جان و مال کو بچا لیتا ہے اور) اس بادل ( میں سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایسی چمکدار کہ اس بادل) کی بجلی کی چمک کی یہ حالت ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس نے اب بینائی کو اچک لیا (یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے تصرفات میں سے ہے اور) اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے (یہ بھی منجملہ تصرفات الہیہ کے ہے) اس (سب مجموعہ) میں اہل دانش کے لئے استدلال (کا موقع) ہے (جس سے مضمون توحید اور مضمون لہ ملک السموت والارض پر استدلال کرتے ہیں) اور اللہ (ہی کا یہ تصرف بھی ہے کہ اس) نے ہر چلنے والے جاندار کو (بری ہو یا بحری) پانی سے پیدا کیا ہے پھر ان (جانوروں) میں بعضے تو وہ (جانور) ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں (جیسے سانپ مچھلی) اور بعضے ان میں وہ ہیں جو دو پیروں پر چلتے ہیں (جیسے انسان اور پرندے جبکہ ہوا میں نہ ہوں) اور بعضے ان میں وہ جو چارے (پیروں) پر چلتے ہیں (جیسے مواشی، اسی طرح بعضے زیادہ پر بھی اصل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے بناتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پورا قادر ہے (اس کو کچھ بھی مشکل نہیں۔ )- معارف ومسائل - كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ، شروع آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر مخلوق اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تبسح و تقدیس کرنے میں مشغول ہے۔ اس تسبیح کا مفہوم حضرت سفیان نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز آسمان، زمین، آفتاب و ماہتاب اور کل سیارے اور ستارے اور زمین کے عناصر آگ، پانی، مٹی، ہوا سب کو خاص خاص کاموں کے لئے پیدا فرمایا ہے اور جس کو جس کام کے لئے پیدا فرمایا ہے وہ برابر اس پر لگا ہوا ہے اس سے سر مو خلاف نہیں کرتا۔ اسی اطاعت وانقیاد کو ان چیزوں کی تسبیح فرمایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان کی تسبیح حالی ہے مقالی نہیں۔ ان کی زبان حال بول رہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پاک و برتر سمجھ کر اس کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔- زمحشری اور دوسرے مفسرین نے فرمایا کہ اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے اندر اتنا فہم و شعور رکھا ہو جس سے وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ ان کسی خاص قسم کی گویائی عطا فرمائی ہو اور خاص قسم کی تسبیح و عبادت ان کو سکھا دی ہو جس میں وہ مشغول رہتے ہیں آخری جملے كُلٌّ قَدْ عَلِمَ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور نماز میں ساری مخلوق لگی ہوئی ہے مگر ہر ایک کی نماز اور تسبیح کا طریقہ اور صورت مختلف ہے۔ فرشتوں کا اور طریقہ، انسان کا دوسرا، اور نباتات کسی اور طرح سے عبادت نماز و تسبیح ادا کرتے ہیں جمادات کسی اور طریق سے، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے بھی اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے (آیت) اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کو ہدایت دی۔ وہ ہدایت یہی ہے کہ وہ ہر وقت حق تعالیٰ کی اطاعت میں لگی ہوئی اپنی مفوضہ ڈیوٹی کو پورا کر رہی ہے اس کے علاوہ اس کی اپنی ضروریات زندگی کے متعلق بھی اس کو ایسی ہدایت دے دی ہے کہ بڑے بڑے عقلاء کی عقل حیران ہوجاتی ہے۔ اپنے رہنے بسنے کے لئے کیسے کیسے گھونسلے اور بل وغیرہ بناتے ہیں اور اپنی غذا وغیرہ حاصل کرنے کے لئے کیسی کیسی تدبیریں کرتے ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ٠ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ٤١- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ :- ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
قول باری ہے : (الم تران اللہ یسبح لہ من فی السموت والارض) کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کررہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں تسبیح اللہ کی ذات کو ان تمام صفات سے پاک کرنے کا نام ہے جو اس کی شایان شان نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات اس کی ذات پر دلالت کی جہت سے اس کی تنزیہہ کرتی ہیں۔ اور اللہ کے فرمانبردار ارباب عقول اعتقاد کی جہت سے نیز اس کی شایان شان صفات بیان کرکے اور ناپسندیدہ صفات کی نفی کرکے اس کی تنزیہ کرتے ہیں۔- قول باری ہے : (قل قد علم صلاتہ وتسبیحہ) ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نمازوں کو جانتا ہے جو ان میں سے نماز ادا کرتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ نماز انسان کے لئے ہے اور تسبیح دوسری تمام چیزوں کے لئے۔
(٤١۔ ٤٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو بذریعہ قرآن کریم یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ سب اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو آسمانوں میں فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے مومنین ہیں بالخصوص پرند بھی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے پھرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو جو بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے التجا کرے اور اس کی پاکی بیان کرے اپنی اپنی دعا اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے۔- یا یہ مطلب ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی دعا اور جو اس کی پاکی بیان کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی پاکی بیان کرنا معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان سب کے افعال کا خواہ اچھے ہوں پورا علم ہے۔- اور آسمانوں کے خزانے یعنی بارش وغیرہ اور زمین کے خزانے یعنی نباتات وغیرہ سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور مرنے کے بعد سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
آیت ٤١ (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) ” - نہ صرف آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں بلکہ ان دونوں (آسمان و زمین) کے مابین جو مخلوق ہے وہ بھی اس میں شامل ہیں۔- (وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ ط) ” - یہی مضمون سورة بنی اسرائیل کی آیت ٤٤ میں اس طرح آیا ہے : (وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ الاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ط) کہ کوئی چیز اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح وتحمید نہ کر رہی ہو ‘ لیکن تم لوگوں کو ان کے طریقہ تسبیح کا شعور نہیں ہوسکتا۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :74 اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف صالح اہل ایمان ہی کو نصیب ہوتی ہے ، باقی سب لوگ اس نور کامل و شامل کے محیط ہوتے ہوئے بھی اندھوں کی طرح تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ اب اس نور کی طرف رہنمائی کرنے والے بے شمار نشانات میں سے صرف چند کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر کوئی انہیں دیکھے تو ہر وقت ہر طرف اللہ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہے ۔ مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ اپنے سر کے دیدے پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھتے ہیں تو انہیں بیولوجی اور زولوجی اور طرح طرح کی دوسری لوجیاں تو اچھی خاصی کام کرتی نظر آتی ہیں مگر اللہ کہیں کام کرتا نظر نہیں آتا ۔
38: سورۂ بنی اسرائیل (١٧۔ ٤٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے ؛ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، یہاں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا ہے کہ ہر چیز کے تسبیح کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے مخصوص انداز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کررہی ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کے حاشیے میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں بے حس سمجھتے ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ حس موجود ہے، اور یہ بات اب رفتہ رفتہ موجودہ سائنس بھی تسلیم کررہی ہے۔