Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض و گریز کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہے یا انھیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] یعنی ان منافقوں کے رسول کے فیصلہ سے اعراض کی تین ہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سچے دل سے ایمان نہ لایا ہو بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر مسلمان ہوگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ ایمان کا دعوے کرنے کے باوجود اس شک و شبہ میں مبتلا ہو کر پتہ نہیں یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہے بھی یا نہیں ؟ یا یہ قرآن اللہ کا کلام ہے بھی یا نہیں ؟ یا آخرت کے دن کے قیام اور اس دن جز و سزا کا عقیدہ کچھ حقیقت بھی رکھتا ہے یا نہیں یا یہ سب باتیں محض افسانے اور من گھڑت باتیں ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اللہ اور رسول کو مان لینے کے بعد یہ اندیشہ رکھتا ہو کہ قرآن کے فلاں حکم نے تو ہمیں ذلیل کرکے رکھ دیا ہے اور مصیبت میں ڈال دیا ہے یارسول کا فلاں طریقہ یا حکم ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہے ان تینوں صورتوں میں سے جو بھی صورت ہو ان کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ایسا شخص خود بھی فریب میں مبتلا ہے اور فی الحقیقت بڑا دغاباز اور خائن ہے۔ جو ذاتی مفادات کی خاطر مسلمان بنا ہوا ہے۔ اور مسلمانوں کو بھی فریب دے رہا ہے۔ وہ اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہا ہے اور دوسرے مسلمانوں پر بھی۔ جو اس کے زبانی دعوے پر اعتماد کرکے اسے اپنی ملت میں شامل کرلیتے ہیں۔- ان کے ظالم ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا حق تو پورا پورا وصول کریں۔ خواہ اس میں دوسروں کی کتنی زیادہ حق تلفی ہو رہی ہو۔ اور اسی غرض کے تحت وہ اپنا فیصلہ وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں انھیں اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کی توقع ہو۔ اور یہ دونوں باتیں ان کے ظالم ہونے پر صریح دلیل ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا ۔۔ : ” حَافَ یَحِیْفُ حَیْفًا “ ظلم کرنا، یعنی آخر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں فیصلہ لے جانے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ آیا اس لیے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری ہے، یا اس لیے کہ انھیں پیغمبر کے سچا ہونے میں شک ہے، یا اس لیے کہ انھیں فکر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لے جائیں گے تو ہم پر ظلم کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ نہ تو انھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں شک ہے اور نہ انھیں یہ خوف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلط فیصلہ کرکے ان پر ظلم کریں گے (کیونکہ ایسا نہ پہلے کبھی ہوا نہ ہوگا) تو پھر بات یہی رہ جاتی ہے کہ ان کے دلوں ہی میں بیماری ہے، ظالم اور قصور وار یہ خود ہیں، یعنی جس شخص کا ان کے ذمے حق ہے اس کو دبانا چاہتے ہیں۔ (جامع البیان، فتح القدیر)- شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” دل میں روگ یہ کہ اللہ اور رسول کو سچ جانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں، جیسے بیمار چاہتا ہے کہ چلے مگر پاؤں نہیں اٹھتے۔ “ (موضح) اس سے معلوم ہوا کہ جو قاضی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اس کے سمن کو قبول کرنا واجب ہے اور اس سے کترانا اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے منہ موڑنا ہے، مگر جو قاضی کتاب و سنت سے بیخبر ہو اور اس نے کسی عالم و مجتہد کے آراء و اجتہادات کو جمع کر رکھا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو تو اس کے پاس مقدمہ لے جانا اور اس کے سمن کو قبول کرنا ضروری نہیں، اس لیے کہ اس رائے پر عمل کرنا اس مجتہد کے لیے جائز تھا جس کی طرف وہ رائے منسوب ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک اسے کتاب و سنت کا فیصلہ نہ پہنچا تھا، مگر کسی دوسرے کے لیے اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا اور اس کے مطابق لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرنا صحیح نہیں۔ (شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - یہ آیات ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہیں۔ طبری وغیرہ نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص بشر نامی تھا اس کے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کے متعلق جھگڑا اور خصومت تھی۔ یہودی نے اس کو کہا کہ چلو تمہارے ہی رسول سے ہم فیصلہ کرا لیں مگر بشر منافق ناحق پر تھا یہ جانتا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ گیا تو آپ حق کے موافق فیصلہ کریں گے اور میں ہار جاؤں گا اس نے اس سے انکار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کعب بن اشرف یہودی کے پاس مقدمہ لے جانے کو کہا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آیت اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ الآیتہ میں جو ان کے دلوں میں کفر یقینی کا مرض یا نبوت میں شک ہونے کی نفی کی گئی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ یہ کفر یقینی یا شک ان کے دربار نبوی میں مقدمہ لانے سے گریز کرنے کا سبب نہیں اگرچہ کفر و شک کا ہونا منافقین میں ثابت اور واضح ہے مگر مقدمہ نہ لانا اصل میں اس سبب سے ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حق کا فیصلہ ہوگا تو ہم ہار جائیں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٥٠ۧ- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حيف - الحَيْفُ : المیل في الحکم والجنوح إلى أحد الجانبین، قال اللہ تعالی: أَمْ يَخافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ النور 50] ، أي : يخافون أن يجور في حكمه . ويقال تَحَيَّفْتُ الشیء أخذته من جو انبه - ( ح ی ف ) الحیف ( ض ) فیصلہ کرنے میں ایک جانب کو جھک جانا انصاف نہ کرنا ۔ قرآن میں ہے أَمْ يَخافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ النور 50] یا ان کو خوف ہے کہ خدا اور اسکا رسول ان کے حق میں ظلم کرینگے ( نہیں ) بلکہ یہ خود ظالم ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ تحیفت الشئیء میں نے اسے کناروں سے پکڑا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) آیا اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں شک ونفاق کا مرض یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول فیصلہ میں ان پر ظلم نہ کرنے لگیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں اور اپنے ایمان میں یہ سچے نہیں بلکہ ان کے اندر نفاق کا مرض ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(بَلْ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) ” - چونکہ یہ لوگ حقیقی ایمان سے محروم ہیں ‘ اس لیے اس کھوٹ کا عکس ان کے کرداروں میں نمایاں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :80 یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہو گیا ہو ۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں ، اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں ، آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے ، بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے ۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے ، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے ، اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے ، وہ بہت بڑا دغا باز ، خائن اور جعل ساز ہے ۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے ۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی ، تمدنی ، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کر لیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani