1 2 1یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِذَآ اُلْقُوْا فِيْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِيْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ ۙ تَكَادُ تَمَــيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ) 67 ۔ الملک :8-7) جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔
[١٦] ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے استعمال کے لئے ہم نے جہنم کی بھڑکتی آگ کو پہلے سے ہی تیار کر رکھا ہے جب وہ اپنا شکار دیکھے گی تو فوراً جوش میں آجائے گی اور آگ کی لپٹوں کی تیزی و تندی کی وجہ سے اس میں سے کئی طرح غضبناک آوازیں اور پھنکاریں پیدا ہونے لگیں گی اور اس کی یہ آواز سن کر ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہی پتے پانی ہوجائیں گے۔- اس آیت میں جہنم کے لئے دیکھنے کا فعل یا تو مجازاً استعمال ہوا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا گھر تو ایک عرصہ سے آپ کی راہ تک رہا ہے یا حقیقی معنوں میں بھی ہوسکتا ہے جسکا مطلب یہ ہوتا کہ جہنم کی آگ میں شعور بھی ہوگا اور جو کوئی جتنا زیادہ مجرم ہوگا، اسی قدر وہ اس پر بپھرے گی اور اسی قدر تندی سے اسے جلائے گی۔
اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ۔۔ : جہنم جب ان کافروں کو بہت دور سے دیکھے گی تو وہ جہنم کی ایسی آواز سنیں گے جو شدید غصے والی اور گدھے کی آواز جیسی ہوگی۔ اس وقت جہنم کے غصے کا حال سورة ملک (٦ تا ٨) میں بیان ہوا ہے۔ اس سے جہنم کا صاحب شعور ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی آیات و احادیث سے جہنم کا صاحب شعور ہونا، غصے ہونا، گدھے جیسی آواز نکالنا، کلام کرنا سب کچھ ثابت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ ) [ ق : ٣٠ ] ” جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے ؟ “ اور صحیح بخاری میں جنت اور جہنم کے آپس میں جھگڑنے کا ذکر آیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے جہنم کے اندر قدم (پاؤں) رکھنے پر اس کے قط قط (بس بس) کہنے کا ذکر ہے۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و تقول ھل من مزید ) : ٤٨٤٨، ٤٨٤٩ ] اور بخاری ہی میں جہنم کے اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید گرمی کی شکایت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سال میں دو سانس نکالنے کی اجازت ملنے کی حدیث موجود ہے۔ [ دیکھیے بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنہا مخلوقۃ : ٣٢٦٠ ] جہنم کے شعور، اس کی تندی اور سرکشی کے لیے دیکھیے سورة فجر (٢٣) کی تفسیر۔ بعض عقل پرست حضرات ان تمام آیات و احادیث کو مجاز پر محمول کرتے ہیں، مگر اہل السنہ اسے حقیقت مانتے ہیں، کیونکہ مجاز اس وقت مانا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو۔ اللہ تعالیٰ کا جہنم کو شعور، رؤیت اور کلام عطا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر بےجان حنانہ (ستون) کے رونے کی آواز صحابہ کرام (رض) سن سکتے ہیں تو جہنمی جہنم کے غصے کی آواز کیوں نہیں سن سکتے اور جہنم انھیں دور سے کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟ اور اگر اللہ تعالیٰ گوشت کے ایک ٹکڑے (زبان) کو بولنے کی قوت عطا کرسکتا ہے تو وہ کسی بھی چیز میں یہ قوت کیوں پیدا نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ میں غرقد کے سوا ہر درخت اور پتھر مومن کو بول کر بتائے گا کہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ [ دیکھیے مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی۔۔ : ٢٩٢٢ ] اور ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِْنْسَ ، وَ حَتّٰی تُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَ شِرَاکُ نَعْلِہِ وَ تُخْبِرُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ٢١٨١، وقال الألباني صحیح ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا سرا اور جوتے کا تسمہ کلام کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے اہل نے اس کے بعد کیا گناہ کیا ہے۔ “ عقل پرست حضرات ان تمام مقامات پر تاویل کرتے جائیں تو اکثر آیات و احادیث کھلونا بن کر رہ جائیں گی، جن سے یہ لوگ جس طرح چاہیں گے کھیلیں گے اور جو مطلب چاہیں گے نکالتے رہیں گے۔
اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا ١٢- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔- زفر - قال : لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء 100] ، فَالزَّفِيرُ : تردّد النّفس حتی تنتفخ الضّلوع منه، وازْدَفَرَ فلان کذا : إذا تحمّله بمشقّة، فتردّد فيه نفسه، وقیل للإماء الحاملات للماء : زَوَافِرُ.- ( ز ف ر ) الزفیر - اس کے اصل معنی سانس کی اس قدر تیزی سے آمد وشد کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء 100] ان کے لئے اس میں چیخنا ہے ۔ ازد فر ( افتعال ) فلان کذا کسی چیز کو مشقت سے اٹھانا جس سے سانس پھول جائے ۔ اس لئے پانی لانے والی لونڈیوں کو زوافر کہا جاتا ہے ۔
(١٢) اور جب وہ دوزخ ان کو پانچ سو سال کی مسافت سے دیکھے گی تو یہ لوگ دور ہی سے اس کا جوش و خروش سنیں گے یعنی وہ غصہ میں انسان کی طرح غضب ناک ہوگی اور گدھے کی طرح چیخے گی ،
آیت ١٢ (اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا ) ” - جہنم جب دور سے ہی ایسے مجرموں کی صورت میں اپنے شکار کو آتے دیکھے گی تو غضبناک ہو کر جوش مارے گی اور اس کے دھاڑنے اور پھنکارنے کی خوفناک آوازوں کو مجرم لوگ بہت دور سے سن سکیں گے۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :22 آگ کا کسی کو دیکھنا ممکن ہے کہ استعارے کے طور پر ہو ، جیسے ہم کہتے ہیں ، وہ جامع مسجد کے مینار تم کو دیکھ رہے ہیں ، اور ممکن ہے ، حقیقی معنوں میں ہو ، یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہ ہو بلکہ دیکھ بھال کر جلانے والی ہو ۔