2 8 1اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لئے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے و اضع کیا گیا ہے۔
[٣٨] جب کافر مومنوں سے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھے گا وہی مومن جنہیں وہ حقیر مخلوق سمجھ کر ایذائیں پہنچایا کرتا تھا تو حسرت و ندامت سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل جائیں کہ کاش میں نے بھی اللہ کے رسول کا ساتھ دیا ہوتا تو یہ سخت وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ کاش میں نے کچھ اپنی بصرت سے کام لیا ہوتا اور محض دوسروں کا آلہ کار بن کر رسول کی مخالفت نہ کی ہوتی۔
يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ ۔۔ : ” یویلتی “ اصل میں ” یَا وَیْلَتِيْ “ ہے، جس میں لفظ ” وَیْلَۃٌ“ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے، جسے الف سے بدل دیا گیا ہے، معنی ہے میری ہلاکت، میری بربادی۔ یعنی کافر اپنی ہلاکت کو پکارے گا اور ان لوگوں کا نام لے کر کہے گا جنھوں نے اسے گمراہ کیا تھا کہ کاش میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کا نام لینے کے بجائے ہر شخص کے دلی دوست کے لیے ” خَلِیْلاً “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کفار کی اس ندامت کا ذکر سورة بقرہ - (١٦٧) اور سورة احزاب (٦٦ تا ٦٨) میں بھی دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوا آدمی کو خوب سوچ سمجھ کر دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلرَّجُلُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہِ فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلُ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب من یؤمر أن یجالس : ٤٨٣٣، عن أبي ہریرہ (رض) و حسنہ الألباني ] ” آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے دلی دوست بنا رہا ہے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَ نَافِخِ الْکِیْرِ ، فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُّحْذِیَکَ وَ إِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً ، وَ نَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّا أَنْ یُحْرِقَ ثِیَابَکَ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًا خَبِیْثَۃً ) [ بخاري، الذبائح و الصید، باب المسک : ٥٥٣٤، عن أبي موسیٰ ] ” نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی ہے، کستوری رکھنے والا یا تو تجھے عطیہ دے دے گا، یا تو اس سے خرید لے گا، یا اس سے عمدہ خوشبو پاتا رہے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا، یا تو اس سے گندی بو پاتا رہے گا۔ “
يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا، یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے مگر حکم عام ہے واقعہ یہ تھا کہ عقبہ ابن ابی معیط مکہ کے مشرک سرداروں میں سے تھا اس کی عادت تھی کہ جب کسی سفر سے واپس آتا تو شہر کے معزز لوگوں کی دعوت کرتا تھا اور اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ملا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ حسب عادت اس نے معززین شہر کی دعوت کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بلایا۔ جب اس نے آپ کے سامنے کھانا رکھا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا کھانا اس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک تم اس کی گواہی نہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک عبادت میں نہیں ہے اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ عقبہ نے یہ کلمہ پڑھ لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط کے مطابق کھانا تناول فرمایا۔- عقبہ کا ایک گہرا دوست ابی بن خلف تھا جب اس کو خبر لگی کہ عقبہ مسلمان ہوگیا تو یہ بہت برہم ہوا۔ عقبہ نے عذر کیا کہ قریش کے معزز مہمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر پر آئے ہوئے تھے اگر وہ بغیر کھانا کھائے میرے گھر سے چلے جاتے تو میرے لئے بڑی رسوائی تھی اس لئے میں نے ان کی خاطر سے یہ کلمہ کہہ لیا۔ ابی بن خلف نے کہا کہ میں تیری ایسی باتوں کو قبول نہیں کروں گا جب تک تو جا کر ان کے منہ پر نہ تھوکے۔ یہ کمخبت بدنصیب دوست کے کہنے سے اس گستاخی پر آمادہ ہوگیا اور کر گزرا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی ان دونوں کو ذلیل کیا کہ غزوہ بدر میں دونوں مارے گئے (بغوی) اور آخرت میں ان کے عذاب کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ جب آخرت کا عذاب سامنے دیکھے گا تو اس وقت ندامت و افسوس سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو دوست نہ بناتا۔ (مظہری و قرطبی)- غلط کار اور بےدین دوستوں کی دوستی قیامت کے روز حسرت و ندامت کا باعث ہوگی :- تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ آیات اگرچہ خاص عقبہ کے واقعہ میں نازل ہوئی تھیں لیکن جیسا کہ الفاظ آیت کے عام ہیں حکم بھی عام ہے اور شاید اس جگہ اس دوست کے نام کی بجائے قرآن میں فلانا کا لفظ اسی عموما کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ ان آیات نے یہ بتلایا ہے کہ جو دو دوست کسی مصیبت اور گناہ پر جمع ہوں اور خلاف شرع امور میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہوں ان سب کا یہی حکم ہے کہ قیامت کے روز اس گہرے دوست کی دوستی پر روئیں گے۔ مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لا تصاحب الا مومنا ولا یا کل مالک الا تقی (مظہری) کسی غیر مسلم کو اپنا ساتھی نہ بناؤ، اور تمہارا مال (بطور دوستی کے) صرف متقی آدمی کھائے، یعنی غیر متقی سے دوستی نہ کرو، اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- المرء علی دین خلیلہ فلینظر من یخالل (رواہ البخاری)- " ہر انسان (عادةً ) اپنے دوست کے دین اور طریقہ پر چلا کرتا ہے اس لئے دوست بنانے سے پہلے خوب غور کرلیا کرو کہ کس کو دوست بنا رہے ہو "۔- حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے مجلسی دوستوں میں کون لوگ بہتر ہیں تو آپ نے فرمایا :- من ذکر کم باللہ رویتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالاخرة عملہ رواہ البزار (قرطبی)- " وہ شخص جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کو دیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو "۔
يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا ٢٨- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2]- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔- ليت - يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت - «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ.- أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل .- ( ل ی ت ) لا تہ - ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔- فلن - فُلَانٌ وفُلَانَةُ : کنایتان عن الإنسان، والفُلَانُ والفُلَانَةُ : کنایتان عن الحیوانات، قال : يا وَيْلَتى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا[ الفرقان 28] ، تنبيها أنّ كلّ إنسان يندم علی من خالَّه وصاحَبَهُ في تحرّي باطل، فيقول : ليتني لم أخالّه، وذلک إشارة إلى ما قال :- الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ [ الزخرف 67] .- ( ف ل ن ) فلان دفلانتہ انسانوں کے ناموں کے لئے بطور کنایہ بولا جاتا ہے اور الفلان والفلا ( یعنی الف لام کے ساتھ ) انسان کے علاوہ دوسرے حیوانات کے لئے بطور کنایہ استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يا وَيْلَتى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا[ الفرقان 28] ہائے شامت کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا ۔ آیت میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص باطل پرستی میں اپنے دوستوں اور آشناؤں کا ساتھ دینے پر اظہار ندامت کریگا اور کہنے گا کاش میں میں فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا لہذا یہ اس آیت کے ہم معنی ہے ۔ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ [ الزخرف 67] جو آپس میں دوست ہیں اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیز گار ( کہ باہم دوست ہی رہیں گے ۔- خلیل - : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله :- قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا - ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ- [إبراهيم 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل .- الخلتہ - دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔
آیت ٢٨ (یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ) ” - کہ میری زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ میرے دل پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی سچائی منکشف ہونا شروع ہوگئی تھی ‘ لیکن میرے فلاں دوست نے مجھے ورغلا کر پھر اس رستے سے بھٹکا دیا۔ کاش میں نے ایسے شخص کی دوستی اختیار نہ کی ہوتی