Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شکایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀ ) 41- فصلت:26 ) اس قرآن کو نہ سنو اور اسکے پڑھے جانے کے وقت شور وغل کرو ۔ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا ۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے ، نہ اسے سچا جانتے تھے نہ اس پر غورو فکر کرتے تھے ، نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے نہ اس پر عمل تھا ، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اسکے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے ، یہی اسے چھوڑ دینا تھا ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ومنان جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں ۔ وہ ہمیں اپنے کلام سمجھا دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے ، جس سے وہ خوش ہو ، وہ کریم وہاب ہے ۔ پھر فرمایا جس طرح اے نبی آپ کی قوم قرآن کو نظر انداز کردینے والے لوگ ہیں ۔ اسی طرح اگلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کرکے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ١١٢؁ ) 6- الانعام:112 ) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین وانسان بنادئیے ہیں پھر فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے ، کتاب اللہ پر ایمان لائے ، اللہ کی وحی پر یقین کرے اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی اس سے انکی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں ۔ اس لئے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے ۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا ۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

ّ [ ٤٠] مھجورا کا مادہ ھ ج م ہے اب اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ( سے مفعول تسلیم کیا جائے تو ھجورا کا معنی ایسی مہمل گفتگو ہے جو کوئی شخص بیماری یا خراب یا نیم خوابی یا بےہوشی کی حالت میں کرتا ہے یعنی بڑبڑاہٹ یا ہذیان۔ پھر چونکہ ایسی باتیں ہنسی مذاق کا باعث ہوتی ہیں لہذا اس کا مطلب قرآن کی آیات کا ہنسی استہزاء اور مذاق اڑانا ہوگا اور قرآن کو نشانہ تضحیک بنانا جیسا کہ کفار مکہ کا معمول تھا۔ اور اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ( سے مفعول تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی قرآن کو متروک العمل سمجھتا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہوگا۔ جیسا کہ آج کل کے مسلمان کیا عوام اور کیا علماء سب کے سب اس جرم کے مجرم ہیں۔ علماء کی قرآن سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں جو درس قطامی رائج ہے اس میں قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کی باری آخری سال ہی آتی ہے اور کبھی وہ بھی نہیں آتی۔ کسی مدرسہ میں چھ سالہ کو رس ہے، کسی میں سات کسی میں آٹھ اور کسی میں نو سال تک نصاب ہے۔ اور اس طویل مدت کا بیشتر حصہ قرآن کو سمھجنے کے لئے امدادی علوم کی تعلیم و تدریس پر صرف کردیا جاتا ہے۔ ابتدائی تین چار سال صرف و نحو، منطق وغیرہ یا اخلاقیات و بعد میں فقہ اور حدیث اور آخری سال میں قرآن، گویا ساری توجہ اور محنت بنیادی باتوں میں صرف کردی جاتی ہے اور طالب علموں کو قرآن پڑھنے کا اگر وقت مل جائے تو ان کی خوش قسمتی ہے ورنہ اکثر حالات میں نہیں ملتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے عوام کو یہ بات ذہین نشین کرا رکھی ہے کہ قرآن کریم ایک انتہائی مشکل کتاب ہے۔ اسی لئے اس کی تدریس سب سے آخری سال رکھی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کا دعویٰ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے اور تجربہ و مشاہد ہے کہ ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی کسی ترجمہ والے قرآن کے مطالعہ سے جو سادہ اور سیدھی سادی سمجھ حاصل کرتا ہے۔ وہ اس سمجھ سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جو فرقہ پرست اور مقلد حضرات کسی طالب علم پہلے اپنے مسلک کو فقہ پڑھا کر ذہین نشین کرانا چاہتے ہیں۔ یہ تو علماء کا قرآن پر ظلم ہوا اور عوام کا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن بس ایک عملیات کی کتاب ہے اور اس میں ہماری دینی اور دنیوی سب طرح کی تکلیفوں کا حل موجود ہے مگر ضرورت انھیں صرف دنیوی تکلیفیں کے دور کرنے کی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کچھ تجربے بھی کر رکھے ہیں مثلاً اس کی فلاں آیت کی تسبیحات نکالنے سے فلاں تکلیف دور ہوتی ہے اور فلاں سورت کی زکات نکالنے سے فلاں فلاں مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ پھر قرآن کو بطور تعظیم ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر مکان کے کسی اوپر والے طاقچے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یا پھر مرنے والے انسان پر۔۔ پڑھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی کبھی قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ نزول قرآن کی اصل غرض وغایت تو یہ تھی کہ انسان اس سے ہدایت حاصل کرے تو اس بنیادی مقصد کے لحاظ سے فی الحقیقت قرآن آج متروک العمل ہوچکا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حضور یہی شکایت کریں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ۔۔ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت دنیا میں کی، کیونکہ کفار نے کہا تھا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٢٦ ] ” اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ اور دوسرا یہ کہ قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شکایت کریں گے، کیونکہ قرآن مجید میں یقینی مستقبل کے لیے ماضی کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ” میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا “ کے الفاظ سے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرنے کا مفہوم واضح ہو رہا ہے، جو صرف ” چھوڑ رکھا تھا “ کے الفاظ سے واضح نہیں ہوتا۔ ” ھٰذَا الْقُرْاٰنَ “ میں ” ھٰذَا “ کے لفظ سے قرآن کی عظمت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی انھوں نے اتنی عظمت والے قرآن کو اس طرح بنا رکھا تھا جیسے کوئی ایسی چیز ہو جسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔ رہا یہ سوال کہ آیت میں مذکور ” میری قوم “ سے مراد کیا ہے ؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ” میری قوم “ کے لفظ سے سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں قرآن پر ایمان نہ لانے والے مراد ہیں، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے، کیونکہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت اور آپ کی قوم ہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی امت تھی، جو ایمان نہ لانے کے باوجود ان کی امت اور ان کی قوم تھی۔ ان کے قرآن کو چھوڑنے سے مراد اسے سننے، پڑھنے، اس پر غور و فکر کرنے سے اجتناب اور اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ اس کے بعد ” قَوْمِیْ “ میں وہ تمام ایمان لانے والے بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی طرح بھی قرآن کو چھوڑا۔ حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” قرآن کو سننے سے گریز، اس میں شور ڈالنا اور اس پر ایمان نہ لانا، اسے چھوڑنا ہے۔ اسی طرح بقدر ضرورت اس کا علم حاصل نہ کرنا اور اسے حفظ نہ کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز نہ آنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اختیار کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے، مثلاً گانے بجانے کو، عشقیہ اشعار کو، لوگوں کے اقوال و آراء کو اور ان کے بنائے ہوئے طریقوں کو قرآن پر ترجیح دینا اسے چھوڑنا ہے۔ “- حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ نے جس طرح جان بوجھ کر قرآن کو پس پشت پھینک رکھا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ پھینکا ہو۔ ان کے اکثر لوگ دنیا کمانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، تاجر اور صنعت کار بنائیں گے اور اس کام کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے، مگر انھیں قرآن کی تعلیم نہیں دلوائیں گے اور دلوائیں گے بھی تو صرف ناظرہ قرآن کی یا حفظ کی، جس سے انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ کتنا ستم ہے کہ دنیا کی کوئی زبان سیکھی جائے تو اس کا ایک لفظ بھی مطلب سمجھے بغیر نہیں پڑھا جاتا، جب کہ قرآن پورا ناظرہ پڑھ لیا جاتا ہے، بعض اوقات حفظ کرلیا جاتا ہے، اس سے آگے اس کی تجوید اور حسن قراءت بھی حاصل کرلی جاتی ہے، مگر اس کا مطلب سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ جب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھا گیا، تو اس پر غور و فکر کا اور اس پر عمل کا مرحلہ کب آئے گا ؟ پورا قرآن تو دور کی بات ہے روزانہ پانچ وقت جو نماز وہ پڑھتے ہیں انھیں اس کا مطلب معلوم نہیں، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنے مالک سے کلام کرتے ہوئے کیا عرض کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام ممالک میں (إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ ) قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے عملاً نکال باہر کردیا گیا ہے۔ ان کی سیاست کفار سے لی ہوئی جمہوریت ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی دخل نہیں، یا قرآن و سنت کے احکام کی پابندی سے آزاد استبدادی ملوکیت ہے، ان کی تجارت و صنعت کا دار و مدار سود پر ہے، ان کی عدالتوں میں کفار کے قوانین رائج ہیں اور ان کی وضع قطع اور تمدن و تہذیب یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کی سی ہے۔ ان کے ہاں قرآن صرف برکت کے لیے ہے، یا مجلس کے افتتاح کے لیے، یا دم درود اور پیری مریدی میں خود ساختہ وظائف کے لیے، یا محبت و عداوت اور تسخیر قلوب کے عملیات کے لیے، یا اچھے سے اچھے کاغذ اور اچھی جلد والا خرید کر جہیز میں دینے کے لیے ہے، یا خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اونچی سے اونچی جگہ رکھنے کے لیے۔ وہ اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، مگر بات اس کی ایک نہیں مانتے۔ ان کے دینی مدارس میں سالہا سال تک انسانوں کے مرتب کیے ہوئے مسائل پڑھائے جاتے ہیں، جب وہ دل و دماغ میں خوب راسخ ہوجاتے ہیں تو انھیں قرآن و حدیث سے دورے کی شکل میں سال دو سال میں فارغ کردیا جاتا ہے۔ (الا ما رحم ربی)- حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم قرآن کو چھوڑنے کی یہ روش ترک کرکے صحابہ و تابعین کی طرح قرآن کی طرف واپس نہیں آئیں گے، اسے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نہیں بنائیں گے، نصرتِ الٰہی اور باعزت زندگی سے محروم ہی رہیں گے۔ سچ فرمایا امام مالک (رض) نے : ” لَنْ یَّصْلُحَ آخِرُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہِ أَوَّلُھَا “ [ شرح سنن أبي داوٗد لعبد المحسن العباد : ٢؍٣٣٤ ] ” اس امت کا آخر بھی اسی کے ساتھ درست ہوگا جس کے ساتھ اس کا اول درست ہوا تھا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا یعنی کہیں گے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور و متروک کردیا ہے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت بارگاہ حق تعالیٰ میں قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں آپ نے یہ شکایت فرمائی ؟ ائمہ تفسیر اس میں مختلف ہیں، احتمال دونوں ہیں۔ اگلی آیت بظاہر قرینہ اس کا ہے کہ یہ شکایت آپ نے دنیا ہی میں پیش فرمائی تھی جس کے جواب میں آپ کو تسلی دینے کے لئے اگلی آیت میں فرمایا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝ ٣٠- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) اس روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے اے میرے پروردگار اس قوم نے اس قرآن کریم کو جو واجب العمل اور واجب الاعتقاد تھا، بالکل نظر انداز کر رکھا تھا کہ اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے تھے اس پر عمل تو درکنار۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا ) ” - تاویل خاص کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قریش مکہّ کے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے ‘ لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ‘ جبکہ اس آیت کی تاویل عام یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہوگی جو اس ” مہجوری “ کے مصداق ہیں ‘ کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع ” خوار از مہجورئ قرآں شدی “ کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔- اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش مکہّ نے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑلیا ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں ‘ مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے ‘ نہ اسے پڑھنا سیکھے ‘ نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔ چناچہ اس آیت کے حاشیے (ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن (رح ) میں مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ” آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ‘ اس میں تدبر نہ کرنا ‘ اس پر عمل نہ کرنا ‘ اس کی تلاوت نہ کرنا ‘ اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا ‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں۔ “ - مقام غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں ‘ تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟ چناچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے ‘ اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔ اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ ” مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق “ دستیاب ہے۔ اس کا انگلش ‘ عربی ‘ فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا ، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اگرچہ سیاق وسباق کی روشنی میں یہاں قوم سے مراد کافر لوگ ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے لئے بھی ڈر نے کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کہیں وہ بھی اس سنگین جملے کا مصداق نہ بن جائیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت کے بجائے شکایت پیش کریں، والعیاذ باللہ العلی العظیم۔