5 7 1یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کرلو۔
[٧٠] انبیاء کی دعوت اور کفار کے انکار کے سلسلہ میں انبیاء کی طرف سے جواب کے طور پر یہ جملہ قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ اور اس جواب کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تمہیں میرا یہ دعوت الی اللہ کا کام پسند نہیں آتا تو میں تم سے کوئی معاوضہ یا تنخواہ تھوڑے لے رہا ہوں جو تم اسے بند کردو گے اور میں اپنا کام چھوڑ دوں گا اور نہ ہی تم سے میرا اس قسم کا مطالبہ ہے۔ لہذا تمہیں یہ کام پسند ہو یا نہ ہو یا میں اپنا کام کئے ہی جاؤں گا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں بالکل بےلوث اور بےغرض ہو کر تمہاری بھلائی کی خاطر تمہیں سیدھے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں اور میں تم سے لیتا بھی کچھ نہیں بلکہ الٹا تم سے مذاق اور استہزاء سنتا اور تکلیفیں اٹھا رہا ہوں پھر بھی تمہیں اتنا خیال تک نہیں آتا کہ کم از کم اس کی بات پر بھی کچھ غور و فکر تو کرلیں۔ اس آیت کا اگلا حصہ اسی پہلو یا اسی مطلب کی تائید کر رہا ہے۔ یعنی اگر اللہ نے چاہا اور تم میں سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت کی راہ پر آگیا تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت کا صلہ یا معاوضہ مجھے مل گیا۔
قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ : قرآن مجید میں یہ جملہ کئی جگہ آیا ہے، یہاں مطلب یہ ہے کہ کفار جو آپ کی عداوت پر تلے ہوئے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ میں اپنے رب کی طرف سے تمہارے پاس جو پیغام لے کر آیا ہوں، اسے پہنچانے میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا کہ تم اپنے اموال بچانے کی خاطر مجھ پر ایمان لانے سے گریز کرو۔ دوسری جگہ فرمایا : (اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي الَّذِيْ ) [ ھود : ٥١ ] ” میری مزدوری اللہ کے سوا کسی پر نہیں۔ “ اس سے بڑی نادانی کیا ہوگی کہ جو شخص تمہاری دین و دنیا کی بہتری کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے اور اس پر تم سے کسی مزدوری کا مطالبہ بھی نہیں کرتا، تم اسی کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو۔- اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا : مفسرین نے اس جملے کی دو تفسیریں فرمائی ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک یہ کہ میں اس دعوت پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، لیکن تم میں سے جو شخص چاہے کہ جہاد اور دوسرے خیر کے کاموں میں خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے اور اسے اس کی رحمت اور ثواب کے حصول کا ذریعہ بنائے تو وہ ایسا کرے، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ۭ اَلَآ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّھُمْ ۭ سَـيُدْخِلُھُمُ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) [ التوبۃ : ٩٩ ] ” اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں قربتوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو بیشک وہ ان کے لیے قرب کا ذریعہ ہے، عنقریب اللہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “ اس صورت میں ” اِلَّا “ بمعنی ” لٰکِنْ “ ہے اور استثنا منقطع ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ میں تم سے اس دعوت پر اس شخص کے سوا کوئی مزدوری نہیں مانگتا جو اپنے رب کے قرب کا راستہ اختیار کرنا چاہے۔ میری مزدوری بس ایسے لوگوں کا حصول ہے، اس کے سوا اللہ تم سے کسی مال یا جاہ یا کسی بھی مزدوری کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہاں، ایسے لوگوں کا حصول میرے لیے بہت بڑی مزدوری اور اجرت ہے، کیونکہ ایک شخص بھی ایمان لے آئے تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، پھر میری دعوت پر ایمان لانے والے جو بھی صالح عمل کریں گے سب کا اجر ان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ملے گا، میرے لیے یہی اجرت بہت ہے۔ اس صورت میں استثنا متصل ہے۔
قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا، یعنی تمہیں ایمان کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے اور دنیا وآخرت میں تمہارے لئے فلاح کی کوشش کرنے میں میرا کوئی دنیوی فائدہ نہیں۔ میں اپنی اس محنت کا تم سے کوئی اجر و معاوضہ نہیں مانگتا۔ میرا فائدہ اس کے سوا نہیں کہ جس کا جی چاہے اللہ کا راستہ اختیار کرلے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی شخص راہ پر آجاوے تو فائدہ اسی کا ہے اس کو اپنا فائدہ قرار دینا پیغمبرانہ شفقت کی طرف اشارہ ہے کہ میں تمہارے فائدہ ہی کو اپنا فائدہ سمجھتا ہوں۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی بوڑھا ضعیف باپ اولاد کو کہے کہ تم کھاؤ پیو اور خوش رہو، یہی میرا کھانا پینا اور خوش رہنا ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کو اپنا فائدہ اس لحاظ سے فرمایا ہو کہ اس کا ثواب آپ کو ملے گا جیسا کہ احادث صحیحہ میں آیا ہے کہ جو شخص کسی کو نیک کاموں کی ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے کہنے کے مطابق نیک عمل کرے تو اس کے عمل کا ثواب خود کرنے والے کو بھی پورا پورا ملے گا اور اتنا ہی ثواب ہدایت کرنے والے شخص کو بھی ملے گا۔ (مظہری)
قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًا ٥٧- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
(٥٧) آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ میں تبلیغ توحید وقرآن کریم پر تم سے کسی قسم کا کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتا البتہ جو چاہے وہ ایمان کا راستہ اختیار کرے یا یہ کہ جو چاہے وہ توحید کا قائل ہوجائے اور اس کے ذریعے سے اپنے رب تک پہنچنے کا رستہ اختیار کرے اور وہاں پہنچ کر اس ایمان و توحید پر ثواب حاصل کرے۔
آیت ٥٧ (قُلْ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ) ” - آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ میں تمہیں دعوت دینے اور قرآن سنانے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہوں ‘ لیکن میں نے اس کے عوض تم لوگوں سے کبھی کوئی اجرت نہیں مانگی ‘ کبھی کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔ تم لوگ مجھ پر شاعر ‘ کاہن اور جادوگر ہونے کا الزام تو دھرتے ہو ‘ مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ شاعر ‘ کاہن ‘ جادوگر وغیرہ سب تو ہر وقت معاوضے اور انعام کے لالچ میں رہتے ہیں ‘ جبکہ میں تو محض اخلاص اور تمہاری خیر خواہی کی بنیاد پر دعوت دین کی خدمت سر انجام دے رہا ہوں۔ اس میں میرا اجر یا معاوضہ ہے تو صرف اس قدر کہ تم میں سے کسی کو اپنے رب کے راستے پر آنے کی توفیق مل جائے ‘ اور اس میں بھی تمہارا ہی فائدہ ہے نہ کہ میری کوئی غرض یا منفعت
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :71 ( الف ) تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم المومنون ، حاشیہ ۷۰ ۔