[٧٢] استوی علی العرش کی تفسیر کے لئے سورة طٰہ کی آیت نمبر ٥ کا حاشیہ نمبر ٣، سورة اعراف کی آیت نمبر ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤۔- [٧٣] استوی علی العرش کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور بعص مقامات پر رحمن کی طرف جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمن بھی اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اور اللہ کی باقی صفات بھی، جن کا سابقہ آیات میں ذکر ہوا ہے۔ رحمن کی طرف منسوب کی جاسکتی ہیں۔- [ ٧٤] یہاں خبیر سے مراد ایسا عالم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی کائنات میں بکھری ہوئی آیات میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم حاصل کیا ہو۔ ایسے ہی خبیر کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر لفظ عالم سے تعبیر فرمایا ہے جہاں ایسی۔۔ آیات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ 28) 35 ۔ فاطر :28) ( یعنی اللہ کے بندوں میں سے اللہ صرف عالم لوگ ہی ڈرتے ہیں تاہم اس سے نقلی علوم وحی کو جاننے والے حضرات بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور بعض انبیاء کو بھی تو اللہ تعالیٰ نے ملکوت السموات والارض کا مشاہدہ بھی کرایا تھا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بڑے عالم اور خبیر ہوئے اس کے بعد دوسرے انبیائ۔ پھر ان کے بعد اس صف میں وہ عالم دین بھی شامل ہوجاتے ہیں جو اپنے علم میں راسخ ہوں۔ خواہ وہ تورات کے عالم ہوں یا کسی اور الہامی کتاب کے۔
الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا ۔۔ : اس کی تفسیر سورة یونس، ہود اور طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں ان صفات کا ذکر اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین کے لیے بھی ہے اور اس میں نزول قرآن میں تدریج پر اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ بھی ہے۔ - فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِيْرًا :” پورے باخبر “ سے مراد خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور ” بِهٖ “ سے مراد ” عَنْہُ “ (اس کے متعلق) ہے۔ اس آیت میں مزید وہ افعال و اوصاف ذکر فرمائے ہیں جن کی وجہ سے اللہ پر توکل کرنا چاہیے، یعنی اس پر توکل کر جو ہمیشہ زندہ ہے، جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوگیا، جو بیحد رحم والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش، استواء علی العرش اور اس کی لا محدود رحمت کے بارے میں اہل کتاب یا مشرکین کیا جانیں، ان کی تفصیلات کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، لہٰذا اسی سے دریافت کیجیے۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ) [ فاطر : ١٤ ] ” اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ جیسا پورا باخبر۔
فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِيْرًا، یعنی آسمانوں زمینوں کو پیدا کرنا پھر اپنی شان کے مطابق ان پر جلوہ افروز ہونا سب اللہ رحمن کا کام ہے اس کی تصدیق و تحقیق مطلوب ہو تو کسی باخبر سے پوچھیے، باخبر سے مراد حق تعالیٰ یا جبریل امین ہیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد کتب سابقہ کے علماء ہوں جن کو اپنے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس معاملہ کی اطلاع ملی ہے۔ (مظہری)
الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ٠ۚۛ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِہٖ خَبِيْرًا ٥٩- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٥٩) اور وہ ایسا ہے کہ جس نے تمام مخلوقات اور تمام عجائبات کو چھ دن میں پیدا کیا یعنی دنیا کے اول دنوں میں کہ ہر ایک دن کی مقدار ہمارے حساب سے سال بھر کے برابر تھی اتوار سے شروع فرما کر جمعہ کو پورا کیا۔- پھر اللہ تعالیٰ تخت شاہی پر قائم ہوا سو اس کی شان کسی اللہ والے سے پوچھنی چاہیے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان اہل علم سے دریافت کرو وہ تمہیں بتا دیں گے۔
(اَلرَّحْمٰنُ فَسْءَلْ بِہٖ خَبِیْرًا ) ” - اللہ تعالیٰ کی صفات اور شان کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو کسی صاحب علم سے پوچھو جب کبھی انسان اپنے متعلق سوچتا ہے یا اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں غور کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ‘ اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔ چناچہ وہ اپنے خالق کے بارے میں جاننا چاہتا ہے ‘ اس تک رسائی چاہتا ہے ‘ اسے پانا چاہتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ تجسسّ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ انسانی فطرت کی اسی آواز کو کسی شاعر نے الفاظ کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے : - مجھ کو ہے تیری جستجو ‘ مجھ کو تری تلاش ہے - خالق مرے کہاں ہے تو ؟ مجھ کو تری تلاش ہے - انسانی فطرت کی اسی جستجو اور اسی تلاش کی راہنمائی کے لیے فرمایا گیا کہ اس کے بارے میں ایسے لوگوں سے پوچھو جو اس سے آشنائی رکھتے ہوں ‘ اسے پانے کے لیے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی اس کے ساتھ دوستی ہو : (وَکُوْنُوْا مَعَ الصّدِقین۔ ) (التوبۃ) کہ ایسے لوگوں کی صحبت سے ہی تمہیں اللہ کی معرفت حاصل ہوگی۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :72 اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ گر ہونے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 41 ۔ 42 ، یونس ، حاشیہ 4 ، ھود ، حاشیہ 7 ۔ زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کرنے کا مضمون متشابہات کے قبیل سے ہے جس کا مفہوم متعین کرنا مشکل ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک دن سے مراد ایک دور ہو ۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مراد وقت کی اتنی ہی مقدار ہو جس پر ہم دنیا میں لفظ دن کا اطلاق کرتے ہیں ۔ ( مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 11 تا 15 ) ۔
19:’’ استواء‘‘ کے لفظی معنی سیدھا ہوجانے اور مضبوطی سے بیٹھ جانے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء فرمانے کا کیا مطلب اور اس کی کیا کیفیت ہے؟ یہ بات ہماری محدود عقل سے ماورا ہے، اور ان متشابہات میں سے جن کا ذکر سورۂ آل عمران کے بالکل شروع میں آیا ہے۔ اس لیے اس پر جوں کا توں ایمان رکھنا چاہئے۔ اور اس کی کیفیت کی تحقیق و جستجو میں نہیں پڑنا چاہئے۔