6 1یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقینا نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
[٩] اس کے بعد اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ قرآن کسی ایسی باخبر اور حکیم ہستی کی طرف نازل شدہ ہو۔ جو ماضی کے حالات سے خوب واقف اور ان یہود و نصاریٰ کی کارستانیوں سے بھی باخبر ہو۔ زمانہ حال کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہو اور موقع و محل اور احوال و ظروف کے مطابق ایسے احکام نازل کردہ ہو جو سراسر عدل اور حکمت پر مبنی ہوں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات بھی اس کے سامنے ہوں۔ پھر اس کا انداز خطاب بڑا دل نشین اور اثر کے لحاظ سے دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ہو۔ اور اس کے مقابلہ میں کلام پیش کرنا ناممکنات سے ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔
قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کو تو دیکھو اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقیناً نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل سچی اور صحیح ہے، اس لیے کہ اس کو اتارنے والی وہ ذات ہے جس کے پاس زمین و آسمان کی ظاہر باتوں ہی کا نہیں تمام پوشیدہ باتوں کا بھی پورا علم ہے۔ وہ ماضی کو جانتا ہے، حال اور مستقبل کو بھی۔ اس لیے اس کی نازل کردہ کتاب میں گزشتہ زبانوں کی باتیں ہیں، حال کی بھی اور آئندہ زمانے کی بھی اور ان میں سے کوئی بات غلط ثابت ہوئی ہے نہ ہوگی۔ جو شخص آسمانوں اور زمین کے تمام راز نہ جانتا ہو وہ اس جیسی کتاب تو کجا اس جیسی ایک سورت بھی نہیں بنا سکتا، اگر تمہیں اصرار ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ بندے کی تصنیف ہے، تو تم بھی مقابلے میں کوئی سورت لے آؤ۔ - اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جو سب چیزوں کا علم رکھتا ہو وہ ہر چیز پر قادر بھی ہوتا ہے، پھر وہ ان لوگوں کے انکار، تکبر اور استہزا پر فوری گرفت کیوں نہیں کرتا۔ فرمایا وجہ یہ ہے کہ ” اِنَّهٗ كَانَ “ یعنی وہ ہمیشہ سے بندوں کے گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا ہے، دائمی رحم والا ہے، وہ چاہتا تو اس گستاخی پر انھیں سخت سزا دیتا، مگر وہ غفور و رحیم ہے، اس لیے تم سے درگزر کر رہا ہے۔ اس میں انھیں توبہ وانابت اور اسلام و ہدایت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی (آسمان و زمین کی چھپی ہوئی باتیں جاننے والے نے) اپنی بخشش اور مہربانی سے ہی اسے اتارا ہے۔ “ (موضح) یعنی اس کی مغفرت و رحمت یہ قرآن اتارنے کا باعث ہے۔
معارف ومسائل - کفار و مشرکین جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن پر اعتراضات کیا کرتے تھے یہاں سے ان کے اعتراضات اور پھر جوابات کا سلسلہ شروع ہو کر کچھ دور تک چلا ہے۔- پہلا اعتراض یہ تھا کہ قرآن کوئی اللہ کی طرف سے نازل کیا ہوا کلام نہیں بلکہ آپ نے اس کو خود ہی جھوٹ گھڑ لیا ہے یا پچھلے لوگوں کے قصے یہود و نصاری وغیرہ سے سن کر اپنے صحابہ سے لکھوا لیتے ہیں اور چونکہ خود امی ہیں، نہ لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا اس لئے ان لکھے ہوئے قصوں کو صبح شام سنتے رہتے ہیں تاکہ وہ یاد ہوجاویں پھر لوگوں کے سامنے جا کر یہ کہہ دیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ - اس اعتراض کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ کلام خود اس کا شاہد ہے کہ اس کی نازل کرنے والی وہ ذات پاک حق تعالیٰ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب خفیہ رازوں سے واقف و باخبر ہے۔ اسی لئے قرآن کو ایک کلام معجز بنایا اور ساری دنیا کو چیلنج کیا کہ اگر اس کو تم خدا کا کلام نہیں مانتے کسی انسان کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی انسان ہو اس جیسا کلام زیادہ نہیں تو ایک سورة بلکہ ایک آیت ہی بنا کر دکھلا دو ۔ یہ چیلنج جس کا جواب دینا عرب کے فصیح وبلیغ لوگوں کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں مگر انہوں نے اس سے راہ فرار اختیار کی۔ کسی کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ قرآن کی ایک آیت کے مقابلہ میں اس جیسی دوسری آیت لکھ لائے۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اپنا مال و متاع بلکہ اپنی اولاد اور اپنی جان تک خرچ کرنے کو تیار ہوگئے۔ یہ مختصر سی بات نہ کرسکے کہ قرآن کی مثل ایک سورت لکھ لاتے یہ دلیل واضح اس امر کی ہے کہ یہ کلام کسی انسان کا نہیں، ورنہ دوسرے انسان بھی ایسا کلام لکھ سکتے، صرف اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہی کا ہے۔ علاوہ فصاحت و بلاغت کے اس کے تمام معانی و مضامین بھی ایسے علوم پر مشتمل ہیں جو اس ذات کی طرف سے ہوسکتے ہیں جو ہر ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے (اس مضمون کی پوری تفصیل سورة بقرہ میں اعجاز قرآن پر مکمل بحث کی صورت میں بیان ہوچکی ہے اس کو معارف القرآن جلد اول میں دیکھ سکتے ہیں)
قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٦- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سرر - الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] ، وقال تعالی:- وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ- [ الملک 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ- [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4]( کہ ) جو کچھ - یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ قرآن کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اس ذات نے نازل کیا ہے جس کو ہر ایک پوشیدہ بات کی خواہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں خبر ہے اور وہ توبہ کرنے والے کی مغفرت فرمانے والا اور جو توبہ پر مرے اس پر رحم کرنے والا ہے۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :12 یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا ۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی ۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیرا سے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جبکہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا ، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا ، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا ۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں سے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سناتا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عداس ( حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام ) یَسَار ( علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام ) اور جَبرْ ( عامر بن ربیعہ کا آزاد کردہ غلام ) ۔ بظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے ۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذِ علم کی نشان دہی کر دینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہو سکتا ہے ۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو ، صریح بے انصافی کی بات کہہ رہے ہو ، سخت جھوٹ کا طوفان اٹھا رہے ہو ، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کر دیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بے وزن اعتراض تھا ، کہ اس کے جواب میں بس جھوٹ اور ظلم کہہ دینا کافی تھا ؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا ، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا ، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو ، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟ ۔ اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا: پہلی بات یہ تھی کہ مکے کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے ، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرایا کرتے ہیں ، ان کے گھروں پر اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا ۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جبکہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو ، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ بلال رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا ، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے ۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا ۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے ، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا ، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے ، کس شان کی زبان ہے ، کس مرتبے کا ادب ہے ، کیا زور کلام ہے ، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں ، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے ۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا ؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟ تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص ، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا ، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کر دیا تھا ۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقتور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا ۔ آزاد ہو جانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سِلاء ( سرپرستی ) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی ۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی بدولت ، معاذ اللہ ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے ۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا ہی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی ۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کر سکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کر لیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں ۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے جو صحابہ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس سے رکھتے تھے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں خود حصہ لیا ہو؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو اہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یَسار اور جبر کے بل بوتے پر ، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ ۔ اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ ، علی بن ابی طالب ، ابو بکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ کی حمایت میں ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرتے؟ یہ وجوہ تھے جن کیبنا پر ہر سننے والے کی نگاہ میں یہ اعتراض آپ ہی بے وزن تھا ۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے ، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو ، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گئے ہیں ، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آئے ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :13 اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی ، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو ، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آ جاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہو سکتا ہے ۔