Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

771دعا والتجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔ 772اس میں کافروں سے خطاب ہے کہ تم نے اللہ کو جھٹلا دیا، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چناچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انھیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انھیں دو چار ہونا پڑے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٥] یعنی اگر تم اللہ کو پکارو گے اس کی عبادت کرو گے اس کے حضور توبہ استغفار کرو گے اس سے اپنی حاجتیں طلب کرو گے تو اس میں تمہارا اپنا ہی بھلا ہے۔ اور اگر تم ان باتوں میں بےنیازی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ کی کوئی ضرورت تمہاری پکار اور دعا یا عبادت نہ کرنے کی وجہ سے اٹکی ہوئی نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیے۔- حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے میرے بندو تم نہ میرا کچھ نقصان کرسکتے ہوں اور نہ مجھے کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہو۔ اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار بخش ہے تو اس سے میری سلطنت میں کچھ افزائش نہ ہوگی۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں کوئی سب سے زیادہ بدکردار ہے تو بھی میری سلطنت میں کچھ کمی واقع نہ ہوگی۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایک میدان میں جمع ہو کر مجھ سے مانگنا شروع کردیں اور میں ہر ایک کو وہی کچھ دیتا جاؤں جو کچھ اس نے مانگا ہے تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ مگر اتنا جیسے سمندر میں سوئی کو ڈبو کر نکال لیا جاتا ہے۔ اے میرے بندو یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں۔ پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جس کو اچھا بدلہ ملا اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنا چاہئے اور جسے بڑا بدلہ ملے تو اسے اپنے آپ ہی کو ملامت کرنا چاہئے ( مسلم۔ کتاب البرو الصلہ ن باب تحریم التکلم)] ٩٦] اس آیت کے مخاطب قریش مکہ ہیں۔ جنہوں نے اللہ کے رسول کو بھی جھٹلایا اور اس کی آیات کو بھی۔ اس تکذیب کا انجام ان کے گلے کا ہار بن گیا۔ ان پر اللہ کی گرفت کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا۔ اور اس گرفت میں دم بدم اضافہ ہی ہوتا گیا حتیٰ کہ جب مکہ فتح ہوا تو انھیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ اور جزیرہ عرب سے کفر و شرک یا کافروں اور مشرکوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور ان میں سے وہی زندہ رہے جنہوں نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔- اس آیت سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کے لئے جزا و سزا کے جو قانون مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ لابدی ہیں اور ان میں کسی طرح کا تخلف نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں ان کی گمراہی یہ نہیں کہ انہوں نے اس آیت سے غلط نتیجہ نکالا ہے بلکہ گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے صرف اس آیت یا اس جیسی ہی دوسری آیات کو مدنظر رکھا ہے۔ اور وہ آیات جن میں اللہ کی مغفرت اور رحمت کا ذکر ہے۔ ان کو پس انداز کردیا ہے۔ اللہ کے عدل کا تقاضا صرف یہ ہے کہ کسی ظالم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہ دے اور کسی محسن کو اس کی نیکی کے برابر جزا ضرور دے۔ اس سے کم نہ دے۔ اور اللہ کا غفور اور رحیم ہونا عدل کے منافی نہیں بلکہ اس سے بلند تر صفت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محسن کو اس کی نیکی کے تناسب سے بہت زیادہ بدلہ دے دے یا کسی ظالم کو کسی مصلحت کی بنا پر معاف کردے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ :” مَا “ یہاں نافیہ بھی ہوسکتا ہے اور استفہامیہ بھی، یعنی میرا رب تمہاری پروا نہیں کرتا، یا میرا رب تمہاری کیا پروا کرے گا ؟ ” میرا رب “ اس لیے فرمایا کہ خطاب کفار سے ہے، جو کما حقہ اسے رب نہیں مانتے۔- لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ : یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ آگے فرمایا ہے : ( فَقَدْ كَذَّبْتُمْ ) ” سو بیشک تم نے جھٹلا دیا۔ “ ” دُعَاۗؤُكُمْ “ کا معنی ابن عباس (رض) نے ”إِیْمَانُکُمْ “ کیا ہے۔ [ طبري بطریق علي بن أبي طلحۃ و ذکرہ البخاري ] یعنی میرا رب تمہیں مہلت اس لیے دے رہا ہے کہ تم اس پر ایمان لے آؤ، اس کی عبادت کرو اور اس سے دعا کرو، کیونکہ اس نے جنّ و انس کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے، سو اگر تم ایمان لا کر اس کی عبادت نہ کرو اور اس کے حضور دعائیں نہ کرو تو اسے تمہاری کچھ پروا نہیں ہے۔ - ایک تفسیر اس کی یہ بھی ہے کہ کفار بھی شدید مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان کی التجا سن کر مصیبت دور بھی کردیتا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٤٠، ٤١) ، یونس (٢٢) ، عنکبوت (٦٥) ، روم (٣٣) اور لقمان (٣٢) فرمایا، اللہ تعالیٰ جو تمہیں مہلت دے رہا ہے اور تمہاری پکار پر مشکلات بھی دور کردیتا ہے، یہ صرف تمہارے اس کو پکارنے کی وجہ سے ہے، اس کے باوجود تم نے جھٹلا دیا ہے تو سن لو کہ اس کا عذاب تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ چناچہ دنیا ہی میں جنگ بدر اور دوسرے موقعوں پر انھوں نے وہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور قیامت بھی کچھ دور نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قُلْ مَا يَعْبَؤ ُ ا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤ ُ كُمْ ، اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں زیادہ واضح اور سہل وہ ہے جس کو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک تمہاری کوئی وقعت و حیثیت نہ ہوتی اگر تمہاری طرف سے اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا نہ ہوتا۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا منشاء ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے جیسے دوسری آیت میں ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ، یعنی میں نے انسان اور جن کو اور کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا بجز اس کے کہ وہ میری عبادت کریں۔ یہ تو ایک عام ضابطہ بیان ہوا کہ بغیر عبادت کے انسان کی کوئی قدر و قیمت اور وقعت و حیثیت نہیں ہے اس کے بعد کفار و مشرکین جو رسالت اور عبادت ہی کے منکر ہیں ان کو خطاب ہے فَقَدْ كَذَّبْتُمْ ، یعنی تم نے تو سب چیزوں کو جھٹلا ہی دیا ہے اب تمہاری کوئی وقعت اللہ کے نزدیک نہیں فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا یعنی اب یہ تکذیب و کفر تمہارے گلے کا ہار بن چکے ہیں اور تمہارے ساتھ لگے رہیں گے یہاں تک کہ جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا کر کے چھوڑیں گے۔ ونعوذ باللہ من حال اہل النار۔- تم بحمد اللہ سبحانہ تفسیر سورة الفرقان یوم الاحد الثالث عشر من صفر المظفر 1391 ھ وباتمامہ تم بعون اللہ وکرمہ الحزب الرابع من الاحزاب السبعۃ القرانیہ واللہ سبحانہ وتعالی ارجو و اسال اتمام الباقی وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ۝ ٠ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا۝ ٧٧ۧ- عبأ - ما عَبَأْتُ به، أي : لم أبال به، وأصله من العَبْءِ ، أي : الثّقل، كأنه قال : ما أرى له وزنا وقدرا . قال تعالی: قُلْ ما يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي[ الفرقان 77] ، وقیل أصله من : عَبَأْتُ الطّيبَ ، كأنه قيل : ما يبقيكم لولا دعاؤكم، وقیل : عَبَأْتُ الجیشُ ، وعَبَّأْتُهُ : هيّئته، وعَبْأَةُ الجاهليّةِ : ما هي مدّخرة في أنفسهم من حميّتهم المذکورة في قوله : فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح 26] - ( ع ب آ) ماعبات بہ ۔ مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں اصل میں العب کے معنی ثقل اور بوجھ کے ہیں لہذا ماعبات بہ کے معنی ہوں گے میرے نزدیک اس کا کوئی وزن نہیں یا میری نگاہ میں اس کی کچھ بھی قدروقیمت نہیں قرآن پاک میں ہے : قُلْ ما يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي[ الفرقان 77] کہہ دو کہ میرے پروردگار گی نگاہوں میں تمہاری کچھ بھی قدر و قیمت نہیں ۔ بعض کے نزدیک آیت کریمہ میں یعبوآ کا لفظ عبات الطیب کے محاورہ ہے مشتق ہے جس کے معنی ہیں میں نے خوشبو کو باقی رکھا ، پس آیت کے معنی یہ ہیں ۔ اگر تم اللہ کو پکارتے نہ ہوتے تو اللہ تمہیں باقی نہ چھوڑتا۔ ، ، عبات الجیش عباتہ میں نے لشکر کو تیار کیا عباۃ الجاھلیۃ زمانہ جاہلیت کی نخوت جوان کے دلوں میں رچ چکی تھی اور جسے قرآن نے آیت : فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح 26] ان کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کی سی حمیت ہی۔ میں زمانہ جاہلیت کی سی حمیت سے تعبیر کیا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - لزم - لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ،- والْإِلْزَامُ ضربان :- إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28]- ( ل ز م ) لزمہ - یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔- اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے - ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (قل ما یعبو بکم ربی لولا دعاء کم) ان سے کہو ” میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔ “ مجاہد کا قول ہے : ” میرے رب کو تمہاری کیا ضرورت ہے جبکہ وہ تمہارا محتاج نہیں ہے “۔ اگر اس کی طرف سے تمہیں اس کی اطاعت کی دعوت نہ دی جاتی تو اس کا فائدہ تم ضرور حاصل کرتے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ اگر تم اس کی عبادت نہیں کرو گے تو میرا پروردگار تمہارے جسموں اور صورتوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرے گا جب کہ اس نے تمہیں توحید و عبادت کا حکم دیا ہے تو تم تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو جھوٹا سمجھتے ہو تو عنقریب یہ چیز تمہارے لیے وبال جان ہو کر رہے گی، چناچہ غزوہ بدر میں ضرب قتل اور قید کا عذاب نازل ہوا یعنی تم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا تو یہ عذاب تم پر لازم ہو کر رہے گا یہ اللہ کی طرف سے وعید ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ ج) ” - بنی نوع انسان کو راہ ہدایت دکھانے اور اس سلسلے میں ان پر اتمام حجت کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس قانون کی وضاحت سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) کہ ہم کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان کے درمیان رسول مبعوث نہ کردیں۔ اسی حوالے سے یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور حق کی دعوت دینا مشیت الٰہی کے تحت ضروری نہ ہوتا تو میرے رب کو تم لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ضرورت اور قانون کے تحت تمہاری طرف مبعوث فرما کر مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ میں اس کا پیغام تم لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس کے لیے میں سالہا سال سے تمہارے پیچھے خود کو ہلکان کر رہا ہوں۔ گلیوں اور بازاروں میں تمہارے پیچھے پیچھے پھرتا ہوں ‘ تمہارے گھروں میں جا کر تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہوں۔ خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے تم لوگوں کو سمجھاتا ہوں۔ تم لوگ اس سے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ اس میں میری کوئی ذاتی غرض ہے یا تمہارے بغیر میرے رب کا کوئی کام ادھورا پڑا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے رب کے حضور تمہاری حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ اگر اللہ کو تمہیں راہ ہدایت دکھا کر اتمام حجت کرنا منظور نہ ہوتا ‘ اور اس کے لیے میرا تمہیں مخاطب کرنا نا گزیر نہ ہوتا تو میں ہرگز تمہارے پیچھے پیچھے نہ پھرتا۔- (فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا ) ” - یعنی تمہارے اس انکار کی پاداش میں تم لوگوں کو سزا مل کر رہے گی۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :96 یعنی اگر تم اللہ سے دعائیں نہ مانگو ، اور اس کی عبادت نہ کرو ، اور اپنی حاجات کے لیے اس کو مدد کے لیے نہ پکارو ، تو پھر تمہارا کوئی وزن بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ پر کاہ کے برابر بھی تمہاری پروا کرے ۔ محض مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پتھروں میں کوئی فرق نہیں ۔ تم سے اللہ کی کوئی حاجت اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ تم بندگی نہ کرو گے تو اس کا کوئی کام رکا رہ جائے گا ۔ اس کی نگاہ التفات کو جو چیز تمہاری طرف مائل کرتی ہے وہ تمہارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے دعائیں مانگنا ہی ہے ۔ یہ کام نہ کرو گے تو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیے جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے رجوع نہ کرتے، اور اس کی عبادت سے روگردانی کرتے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں تھی، لیکن جو لوگ اس کی عبادت کرتے ہیں اور جن کے نیک کاموں کا اوپر بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے بہتر انجام کا کفیل ہے، پھر آگے کافروں سے خطاب ہے کہ جب تمہیں یہ اصول معلوم ہوگیا، اور تم نے حق کو جھٹلانے کی روش اختیار کر رکھی ہے تو تمہارا وہ انجام نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا ہوتا ہے۔ تمہارا یہ طرز عمل تمہارے گلے پڑے گا، اور آخرت کے عذاب کی شکل میں تم سے اس طرح چمٹ جائے گا کہ اس سے خلاصی ممکن نہیں ہوگی۔