Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تعارف قرآن کریم پھر فرمان ہے کہ یہ آیتیں قرآن مبین کی ہیں جو بہت واضح بالکل صاف اور حق وباطل بھلائی برائی کے درمیان فیصلہ اور فرق کرنے والا ہے ۔ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ خاطر اور غمگین نہ ہوں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ Ď۝ ) 35- فاطر:8 ) تو ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت وافسوس نہ کر ۔ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا Č۝ ) 18- الكهف:6 ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تو ان کے پیچے اپنی جان گنوادے ۔ چونکہ ہماری یہ چاہت ہی نہیں کہ لوگوں کو ایمان پر زبردستی کریں اگر یہ چاہتے تو کوئی ایسی چیز آسمان سے اتارتے کہ یہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے مگر ہم کو تو ان کا اختیاری ایمان طلب کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 99؀ ) 10- یونس:99 ) اگر تیرا رب چاہے تو روئے زمین کے تمام لوگ مومن ہوجائیں کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا ؟ جب تک کہ وہ مومن نہ ہوجائیں ۔ اور آیت میں ہے اگر تیر رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنادیتا ۔ یہ اختلاف دین ومذہب بھی اس کا مقرر کیا ہوا ہے اور اسکی حکمت کو ظاہر کرنے والا ہے اس نے رسول بھیج دئیے کتابیں اتاردیں اپنی دلیل وحجت قائم کردی انسان کو ایمان لانے نہ لانے میں مختار کردیا ۔ اب جس راہ پر وہ چاہے لگ جائے جب کبھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی بہت سے لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا ۔ تیری پوری آرزو کے باوجود اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ۔ سورۃ یاسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے انکے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا ۔ اور آیت میں ہے ہم نے پے درپے پیغمبر بھیجے لیکن جس امت کے پاس ان کا رسول آیا اس نے اپنے رسول کو جھٹلانے میں کمی نہ کی ۔ یہاں بھی اس کے بعد ہی فرمایا کہ نبی آخرالزمان کی قوم نے بھی اسے جھٹلایا ہے انہیں بھی اس کا بدلہ عنقریب مل جائے گا ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ یہ کس راہ ڈالے گئے ہیں؟ پھر اپنی شان وشوکت قدرت وعظمت عزت ورفعت بیان فرماتا ہے کہ جس کے پیغام اور جس کے قاصد کو تم جھوٹا کہہ رہے ہو وہ اتنا بڑا قادر قیوم ہے کہ اسی ایک نے ساری زمین بنائی ہے اور اس میں جاندار اور بےجان چیزیں پیدا کی ہیں ۔ کھیت پھل باغ وبہار سب اسی کے پیدا کردہ ہیں ۔ شعبی رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں لوگ زمین کی پیداوار ہیں ان میں جو جنتی ہیں وہ کریم ہیں اور جو دوزخی ہیں وہ کنجوس ہیں ۔ اس میں قدرت خالق کی بہت سی نشانیاں ہیں یہ اس نے پھیلی ہوئی زمین کو اور اونچے آسمان کو پیدا کردیا ۔ باوجود اسکے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا اسکے نبیوں کو جھوٹاکہتے ہیں اسکی کتابوں کو نہیں مانتے اسکے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے منع کردہ کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ بیشک تیرا رب ہر چیز پر غالب ہے اس کے سامنے مخلوق عاجز ہے ۔ ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے نافرمانوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا تاخیر اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آجائیں لیکن پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انہیں سختی سے پکڑلیتا ہے اور ان سے پورا انتقام لیتا ہے ہاں جو توبہ کرے اور اسکی طرف جھکے اور اسکا فرمانبردار ہوجائے وہ اس پر اس کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم وکرم کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

طٰسۗمّۗ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - طسم (اس کے معنی تو اللہ کو معلوم ہیں) یہ (مضامین جو آپ پر نازل ہوتے ہیں) کتاب واضح (یعنی) کی آیتیں ہیں (اور یہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں لاتے تو آپ اتنا غم کیوں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ) شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر (تاسف کرتے کرتے) اپنی جان دے دیں گے (اصل یہ ہے کہ یہ عالم ابتلاء ہے اس میں حق کے اثبات پر وہی دلائل قائم کئے جاتے ہیں جن کے بعد بھی ایمان لانا بندہ کے اختیار میں رہتا ہے ورنہ) اگر ہم (جبراً و اضطراراً ان کو مومن کرنا) چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک (ایسی) بڑی نشانی نازل کردیں (کہ ان کا اختیار ہی بالکل سلب ہوجاوے) پھر ان کی گردنیں اس نشانی (کے آنے) سے پست ہوجاویں (ور بالاضطرار مومن بن جاویں لیکن ایسا کرنے سے آزمائش باقی نہ رہے گی اس لئے ایسا نہیں کیا جاتا اور معاملہ جبر و اختیار کے درمیان رہتا ہے اور (ان کی یہ حالت ہے کہ) ان کے پاس کوئی تازہ فہمائش (حضرت) رحمان (جل شانہ) کی طرف سے ایسی نہیں آتی جس سے یہ بےرخی نہ کرتے ہوں سو (اس بےرخی کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ) انہوں نے (دین حق کو) جھوٹا بتلا دیا (جو اعراض کا انتہائی درجہ ہے اور صرف اس کے ابتدائی درجہ یعنی بےالتفاتی پر اکتفا نہیں کیا اور پھر تکذیب بھی خالی نہیں بلکہ استہزاء کے ساتھ) سو اب عنقریب ان کو اس بات کی حقیقت معلوم ہوجاوے گی جس کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے تھے (یعنی جب عذاب الٰہی کا موت کے وقت یا قیامت میں معائنہ ہوگا، اس وقت قرآن کے اور مافی القرآن یعنی عذاب وغیرہ کے حق ہونے کا انکشاف ہوجاوے گا) کیا انہوں نے زمین کو نہیں دیکھا (جو ان سے بہت قریب اور ہر وقت پیش نظر ہے) کہ ہم نے اس میں کس قدر عمدہ عمدہ قسم قسم کی بوٹیاں اگائی ہیں (جو مثل جمیع مصنوعات کے اپنے بنانے والے کے وجود اور اس کی یکتائی اور کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں کہ) اس میں (توحید ذاتی و صفاتی و افعال کی) ایک بڑی نشانی (عقلی) ہے (اور یہ مسئلہ بھی عقلی ہے کہ خدائی کے لئے کمال ذاتی و صفاتی شرط ہے اور کمال مذکور کے لوازم میں سے ہے کہ وہ خدائی میں اکیلا ہو) اور (باوجود اس کے) ان میں کے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے (اور شرک کرتے ہیں، غرض شرک کرنا انکار نبوت سے بھی بڑھ کر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے عناد نے ان کی فطرت کو بالکل مختلف کردیا پھر ایسوں کے پیچھے کیوں جان کھوئی جاوے) اور (اگر ان کو شرک کے مذموم عند اللہ ہونے میں یہ شبہ ہو کہ ہم پر عذاب فوراً کیوں نہیں آجاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ آپ کا رب (باوجود اس کے کہ) غالب (ور کامل القدرت) ہے (مگر اس کے ساتھ ہی) رحیم (بھی) ہے (اور اس کی رحمت عامہ دنیا میں کفار سے بھی متعلق ہے اس کا اثر یہ ہے کہ ان کو مہلت دے رکھی ہے ورنہ کفر یقینا مذموم اور عذاب کا مقتضی ہے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

طٰسۗمّۗ۝ ١ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۝ ٢- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) طاء سے مراد اس کی بلندی اور قدرت اور سین سے مراد عمدگی اور میم سے مراد ملک اور بادشاہت ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک قسم کھائی ہے یعنی میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سورت اس قرآن کی آیات میں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں، انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، اور ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔