Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] کتاب سے مراد یہی خاص سورة شعراء بھی ہوسکتی ہے اور پورا قرآن بھی۔ کیونکہ قرآن کی ہر سورة اپنی ذات میں جامع ہے، مکمل ہے اور مفصل کتاب ہے۔ جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اور مبین سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب اپنا مدعا صاف صاف بیان کر رہی ہے اس میں کچھ ابہام نہیں جس کی کسی کو سمجھ نہ آسکے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب کی آیات ہں۔ کسی انسان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی آیات پیش کرسکے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : یہ تمہیدی فقرہ اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو اس سورت میں آگے بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی نشانی (معجزہ) مانگتے تھے، تاکہ اسے دیکھ کر انھیں اطمینان ہوجائے کہ آپ واقعی یہ پیغام اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا، اگر کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں، مزید کسی معجزے کی ضرورت نہیں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ہر واقعہ کے آخر پر دہرایا ہے : (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ) [ الشعراء : ٨ ] ” بیشک اس میں یقیناً عظیم نشانی ہے۔ “ یعنی قرآن میں آنے والی ہر آیت اور ہر واقعہ ہی معجزہ ہے، جو قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ہے اور جس کا جواب لانے سے پوری مخلوق عاجز ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :1 یعنی یہ آیات جو اس سورے میں پیش کی جا رہی ہیں ، اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف کھول کر بیان کرتی ہے ۔ جسے پڑھ کر یا سن کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز کی طرف بلاتی ہے ، کس چیز سے روکتی ہے ، کسے حق کہتی ہے اور کسے باطل قرار دیتی ہے ۔ ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے ، مگر کوئی شخص یہ بہانہ کبھی نہیں بنا سکتا کہ اس کتاب کی تعلیم اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ اس سے یہ معلوم ہی نہ کر سکا کہ وہ اس کو کیا چیز چھوڑنے اور کیا اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے ۔ قرآن کو الکِتَابُ الْمُبِیْن کہنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اس کا کتاب الہیٰ ہونا ظاہر و باہر ہے ۔ اس کی زبان ، اس کا بیان ، اس کے مضامین ، اس کے پیش کردہ حقائق ، اور اس کے حالات نزول ، سب کے سب صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ یہ خداوند عالم ہی کی کتاب ہے ۔ اس لحاظ سے ہر فقرہ جو اس کتاب میں آیا ہے ایک نشانی اور ایک معجزہ ( آیت ) ہے ۔ کوئی شخص عقل و خرد سے کام لے تو اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کسی اور نشانی کی حاجت نہیں ، کتاب مبین کی یہی آیات ( نشانیاں ) اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ یہ مختصر تمہیدی فقرہ اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو آگے اس سورہ میں بیان ہوا ہے ۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ مانگتے تھے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہو کہ واقعی آپ یہ پیغام خدا کی طرف سے لائے ہیں ۔ فرمایا گیا کہ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں ۔ اسی طرح کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ آپ شاعر یا کاہن ہیں ۔ فرمایا گیا کہ یہ کتاب کوئی چیستاں اور معما تو نہیں ہے ۔ صاف صاف کھول کر اپنی تعلیم پیش کر رہی ہے ۔ خود ہی دیکھ لو کہ یہ تعلیم کسی شاعر یا کاہن کی ہو سکتی ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani