3 1نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔
[٢] آپ کی یہ انتہائی آرزو تھی کہ کفار مکہ ایمان لے آئیں اور جب وہ ایمان لانے کے بجائے معاندانہ روش اختیار کرتے تو آپ کو اتنا ہی شدید صدمہ ہوتا تھا۔ اس کی وجوہ کئی تھیں۔ ایک یہ کہ آپ خلق خدا کے لئے نہایت ہمدردانہ اور مشفقانہ جذبات رکھتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ میری مخالفت کرکے جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ لہذا آپ کو ان کی اس مخالفت سے شدید دکھ ہوتا تھا۔ تیسری وجہ فطری تھی۔ انسان جس کام میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر رہا ہو اگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نظر نہ آرہا ہو تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور اسے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ تیسری وجہ یہ تھی جس میں دوسرے مسلمان بھی شامل تھے۔ کہ اگر یہ لوگ اسلام قبول کرلیتے تو اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی تھی۔ بصورت دیگر مسلمانوں کی ایذاؤں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر آپ کفار کے انکار پر شدید افسردہ اور غمگین رہتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ انھیں راہ راست پر لانا آپ کے ذمہ نہیں اور جو کام آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کر ہی رہے ہیں۔ آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑیئے اس سے نپٹنا میرا کام ہے۔ آپ بس اپنا کام کرتے جائیے۔
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ۔۔ : اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان بدبختوں کے ایمان نہ لانے پر آپ اس قدر رنجیدہ نہ ہوں، قرآن سے بڑا معجزہ کوئی نہیں، وہ آپ نے انھیں دکھلا دیا، اب بھی ایمان نہیں لاتے تو ان پر اتنا غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ دیکھیے سورة کہف کی آیت (٦) اور سورة فاطر کی آیت (٨) کی تفسیر ۔
معارف و مسائل - لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ الآیتہ، باخع بخع سے مشتق ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ذبح کرتے کرتے بخاع تک پہنچ جائے جو گردن کی ایک رگ ہے۔ اور اس جگہ باخع سے مردا اپنے آپ کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنا ہے۔ علامہ عسکری نے فرمایا کہ اس جیسے مقامات میں اگرچہ صورت جملہ خبریہ کی ہے مگر حقیقۃً اس سے مراد نہی اور ممانعت کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر، اپنی قوم کے کفر اور اسلام سے انحراف کے سبب اتنا رنج نہ کیجئے کہ جان گھلنے لگے۔ اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کسی کافر کے بارے میں اگر یہ معلوم بھی ہوجائے کہ اس کی تقدیر میں ایمان لانا نہیں ہے تب بھی اس کو تبلیغ کرنے سے رکنا نہیں چاہئے، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ مشقت میں اعتدال چاہئے اور جو شخص ہدایت نہ پائے۔ اس پر زیادہ حزن وغم نہ کیا جائے۔
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ٣- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- بخع - البَخْعُ : قتل النفس غمّا، قال تعالی: فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف 6] حثّ علی ترک التأسف، نحو : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر 8] . قال الشاعر - ألا أيهذا الباخع الوجد نفسه وبَخَعَ فلان بالطاعة وبما عليه من الحق : إذا أقرّ به وأذعن مع کراهة شدیدة تجري مجری بَخَعَ نفسه في شدته .- ( ب خ ع ) البخع ( ف) کے معنی غم سے اپنے تیئں ہلاک ڈالنا کے ہیں ؟ اور آیت کریمہ : فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف 6] شاید تم عم وغصہ سے خود کو ہلاک کر ڈالو میں رنج وغم کے ترک کی ترغیب دی گئی ہے جیسا کہ آیت : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر 8] میں ہے کہ ان پر حسرتوں کے باعث تہماری جان نہ نکل جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 40 ) الا ایھا الباخع الواجد نفسہ اے غم کی وجہ سے خود کو ہلاک کرنے والے بخع فلان بالطاعۃ فلان نے طاعت میں مبالغہ کیا ۔ بخع فلان بما علیہ من الحق فلاں نے سخت بیزاری کے ساتھ اپنے اوپر دوسرے کے حق کا اقرار کیا گویا یہاں سخت کرامت اور بیزاری کو خود کو ہلاک کرنے کے قائم مقام کردیا کیا ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٣) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید آپ قریش کے ایمان نہ لانے پر غم کرتے کرتے اپنی جان دے دیں گے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :2 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلیٰٓ اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّم یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاً شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔ ( آیت 6 ) ۔ اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ( آیت 8 ) ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت ، اس کی اخلاقی پستی ، اس کی ہٹ دھرمی ، اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جاں گُسِل کیفیت میں گزارتے رہے ہیں ۔ بَخع کے اصل معنی پوری طرح ذبح کر ڈالنے کے ہیں ۔ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ کے لغوی معنی یہ ہوئے کہ تم اپنے آپ کو قتل کیے دے رہے ہو ۔