10 3 1یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ اللہ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 10 3 2بعض نے اس مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔
[٧٠] یعنی حضرت ابراہیم کے واقعات زندگی میں نشانی یہ ہے کہ شرک کے خلاف جہاد میں ان کے باپ اور ان کی قوم نے ان کو جس قدر تکلیفیں پہنچائیں۔ اللہ نہ انھیں اتنا ہی اعزاز بخشا۔ اسے تمام لوگوں کا امام اور پشیوا بنادیا۔ سب مذاہب کے لوگ ان کا انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں اور انھیں اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ رہتی دنیا تک لوگ ان کا ذکر خیر کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر اس مصیبت سے نجات بخشی جس میں ان کی قوم نے انھیں ڈالا۔ اور ان کے مقابلہ میں ان مشرکوں کو ہر ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا۔ یہ سب دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی کم ہی لوگ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے کلیتاً دستبردار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم شرک کی ہر قسم کے بیزار رہے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ۔۔ : یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے اپنی قوم کو دعوت کے ان واقعات میں بہت بڑی نشانی ہے، اس کے باوجود ان کے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ ہوئے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے کہ جب خلیل اللہ کی بیحد کوشش و محنت کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہ لائے، تو آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمگین کیوں ہوتے ہیں۔ ایک معنی اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان قریش میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں، سو آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمگین نہ ہوں۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً ٠ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٠٣- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(١٠٣) یہ جو ان کی حالت بیان کی گئی اس میں بڑی عبرت ہے، اور اگر ان کو دنیا میں پھر واپس کردیا جائے تو ان میں اکثر ایمان نہیں لائیں گے یا یہ کہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور یہ سب کے سب کفار ہی تھے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :73 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصے میں نشانی کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مشرکین عرب اور بالخصوص قریش کے لوگ ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کا دعویٰ اور ان کے ساتھ انتساب پر فخر کرتے ہیں مگر دوسری طرف اسی شرک میں مبتلا ہیں جس کے خلاف جدو جہد کرتے ان کی عمر بیت گئی تھی ، اور ان کے لائے ہوئے دین کی دعوت آج جو نبی پیش کر رہا ہے اس کے خلاف ٹھیک وہی کچھ کر رہے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے ان کے ساتھ کیا تھا ۔ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو شرک کے دشمن اور دعوت توحید کے علم بردار تھے ، تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ حضرت ممدوح مشرک نہ تھے ، مگر پھر بھی تم اپنی ضد پر قائم ہو ۔ دوسرا پہلو اس قصہ میں نشانی کا یہ ہے کہ قوم ابراہیم علیہ السلام دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مبارک فرزندوں ( اسماعیل علیہ السلام و اسحاق علیہ السلام ) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا ۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا ، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے ، : اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاءُ الَّذِیْنَ مِنْ قَٓبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْ تَفِکٰتِ ( التوبہ ۔ آیت 70 ) ۔