Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1021اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٩] مجرموں اور جہنمیوں کے اس قول اور اس آرزو کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار آیا ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی مذکور ہے۔ یعنی ان کو اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ وہی کام کریں گے جیسے پہلے کرتے رہے ہیں (١٦: ٢٨ ( کیونکہ انسان کی تو عادت ہی یہ ہے کہ مشکل کے وقت جب جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ ہی کو یاد کرتا ہے اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتا ہے۔ لیکن جب اللہ اسے مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو بعد میں وہ پھر اللہ کو بھول جاتا ہے اور اپنے معبودوں کو ہی پکارنے لگ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً ۔۔ : کفار کی اس تمنا کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ہے اور یہ بھی کہ ان کی یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦٧) ، انعام (٢٧، ٢٨) اور مؤمنون (١٠٦ تا ١٠٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٠٢- كر - الْكَرُّ : العطف علی الشیء بالذّات أو بالفعل، ويقال للحبل المفتول : كَرٌّ ، وهو في الأصل مصدر، وصار اسما، وجمعه : كُرُورٌ. قال تعالی: ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء 6] ، فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء 102] ، وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة 167] ، لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر 58] والْكِرْكِرَةُ : رحی زَوْرِ البعیر، ويعبّر بها عن الجماعة المجتمعة، والْكَرْكَرَةُ : تصریف الرّيحِ السّحابَ ، وذلک مُكَرَّرٌ من كَرَّ.- ( ک ر ر ) الکر۔ اس کے اصل معنی کسی چیز کو بالذات بالفعل پلٹا نا یا موڑ دینا کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو بھی کر کہاجاتا ہے ۔ یہ اصل میں مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ اس کی جمع کرور آتی ہے اسی سے الکرۃ ( دوسری بار ) ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء 6] پھر ہم نے دوسری بار تم کو ان پر غلبہ دیا ۔ فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء 102] کا ش ہمیں دنیا میں پھرجانا ہو تو ہم مومنوں میں ہوجائیں ۔ وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة 167]( یہ حال دیکھ کر ) پیروی کرنے والے ( حسرت سے ) کہیں گے کہ اسے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر 58] لو ان لی کرۃ ۔ اگر مجھے پھر ایک بار دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ الکرکرۃ ( مثل زبرجۃ ) شتر کے سینہ کی سخت جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور لوگوں کی مجتمع جماعت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ الکرکرۃ کے معنی ہوا کے بادل کو چلانا کے ہیں اور یہ کر سے فعل رباعی ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) سو کیا اچھا ہوتا کہ ہمیں دنیا میں پھر واپس جانا ملتا کہ ہم ایمان لا کر مسلمانوں کے زمرہ میں داخل ہوجاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :72 اس تمنا کا جواب بھی قرآن میں دے دیا گیا ہے کہ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہٗ ۔ ( الانعام ۔ آیت 28 ) اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔ رہا یہ سوال کہ انہیں واپسی کا موقع کیوں نہ دیا جائے گا ، اس کے وجوہ پر مفصل بحث ہم سورہ مؤمنون حواشی 90 تا 92 میں کر چکے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: یہ وہ تقریر تھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے فرمائی۔ باقی واقعہ یہاں بیان نہیں کیا گیا، اس کی تفصیل پیچھے سورۂ انبیاء : 51 میں گذر چکی ہے اور کچھ تفصیل سورۂ صافات : 83 میں بھی آنے والی ہے۔