Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بت پرستی کا اغاز زمین پر سب سے پہلے جو بت پرستی شروع ہوئی اور لوگ شیطانی راہوں پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم رسولوں کے سلسلے کو حضرت نوح علیہ السلام سے شروع کیا جنہوں نے آکر لوگوں کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسکی سزاؤں سے انہیں آگاہ کیا لیکن وہ اپنے ناپاک کرتوتوں سے باز نہ آئے غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑی بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کو جھوٹا کہا ان کے دشمن بن گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہوگئے حضرت نوح علیہ السلام کا جھٹلانا گویا تمام پیغمبروں سے انکار کرنا تھا اس لئے آیت میں فرمایا گیا کہ قوم نوح نے نبیوں کو جھٹلایا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پہلے تو انہیں اللہ کا خوف کرنے کی نصیحت کی کہ تم جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اللہ کے عذاب کا تمہیں ڈر نہیں؟ اس طرح توحید کی تعلیم کے بعد اپنی رسالت کی تلقین کی اور فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں اس کا پیغام ہو بہو وہی ہے جو تمہیں سنارہا ہوں ۔ پس تمہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ڈر سے پرکھنا چاہئے اور میری تمام باتوں کو بلا چوں وچرا مان لینا چائیے ۔ اور سنو میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میر امقصد اس سے صرف یہی ہے کہ میرا رب مجھے اس کا بدلہ اور ثواب عطا فرمائے ۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میر اکہنا مانو میری سچائی میری خیر خواہی تم پر خوب روشن ہے ۔ ساتھ ہی میری دیانت داری اور امانت داری بھی تم پر واضح ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

051قوم نوح (علیہ السلام) نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح (علیہ السلام) نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] قوم نوح کی طرف مبعوث تو نوح (علیہ السلام) ہوئے تھے لیکن یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہذا ایک نبی کو جھٹلانا سب نبیوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس قوم کے پاس نوح (علیہ السلام) سے پہلے کچھ نبی آئے ہوں۔ جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ : سورت کا آغاز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلانے اور رسولوں کو جھٹلانے کے انجام بد کے ساتھ ہوا تھا، موسیٰ اور ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ذکر کے بعد اب قوم نوح کا ذکر ہوتا ہے۔ اس میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کے انجام بد کا ذکر ہے، اس کے بعد عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحاب الایکہ کے ذکر میں بھی یہ دونوں چیزیں نمایاں ہیں۔- 3 اگرچہ انھوں نے صرف ایک پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا، لیکن چونکہ تمام پیغمبروں کی دعوت ایک تھی اور ایک پیغمبر کو جھٹلانا اس دعوت کو جھٹلانا ہے جو تمام پیغمبر لے کر آئے، اس لیے فرمایا کہ انھوں نے تمام پیغمبروں کو جھٹلا دیا۔ تقابل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٩ تا ٦٤) ، یونس (٢٥ تا ٤٨) ، بنی اسرائیل (٣) ، انبیاء (٧٦، ٧٧) ، مؤمنون (٢٣ تا ٣٠) اور فرقان (٣٧) اس کے علاوہ نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی تفصیل کے لیے یہ مقامات بھی زیر نظر رکھیں، سورة عنکبوت (١٤، ١٥) ، صافات (٧٥ تا ٨٢) ، قمر (٩ تا ١٥) اور سورة نوح مکمل۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قوم نوح نے پیغمبروں کو جھٹلایا (کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب سے سب کی تکذیب لازم آتی ہے) جبکہ ان سے ان کی برادری کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم (خدا سے) نہیں ڈرتے ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں (کہ بعینہ پیغام خداوندی بلا کمی بیشی پہنچا دیتا ہوں) سو (اس کا مقتضی یہ ہے کہ) تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور (نیز) میں تم سے کوئی (دنیوی) صلہ (بھی) نہیں مانگتا میرا صلہ تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے سو (میری اس بےغرضی کا مقتضی بھی یہ ہے کہ) تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا ہم تم کو مانیں گے حالانکہ رذیل لوگ تمہارے ساتھ ہو لئے ہیں (جن کی موافقت سے شرفاء کو عار آتی ہے اور نیز اکثر ایسے کم حوصلہ لوگوں کا مقصد کسی کے ساتھ لگنے سے کچھ مال یا جاہ حاصل کرنا ہوتا ہے، ان کا دعوی ایمان بھی قابل اعتبار نہیں) نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے (پیشہ ورانہ) کام سے مجھ کو کیا بحث (خواہ شریف ہوں یا رذیل ہوں دین میں اس تفاوت کا کیا اثر رہا ؟ یہ احتمال کہ ان کا ایمان دل سے نہیں سو اس پر) ان سے حساب و کتاب لینا بس خدا کا کام ہے۔ کیا خوب ہو کہ تم اس کو سمجھو اور (رذالت پیشہ لوگوں کو اپنے ایمان کا مانع قرار دینے سے جو اشارةً یہ درخواست نکلتی ہے کہ میں ان کو اپنے پاس سے دور کروں تو) میں ایمانداروں کو دور کرنے والا نہیں ہوں (خواہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ میرا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) میں تو صاف طور پر ایک ڈرانے والا ہوں (اور تبلیغ سے میرا فرض منصبی پورا ہوجاتا ہے، آگے اپنا نفع و نقصان تم لوگ دیکھ لو) وہ لوگ کہنے لگے اگر تم (اس کہنے سننے سے) اے نوح باز نہ آؤ گے تو ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے (غرض جب سالہا سال اس طرح گزر گئے تب) نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میری قوم مجھ کو (برابر) جھٹلا رہی ہے سو آپ میرے اور ان کے درمیان ایک (عملی) فیصلہ کر دیجئے (یعنی ان کو ہلاک کر دیجئے) اور مجھ کو اور جو ایماندار میرے ساتھ ہیں ان کو (اس ہلاکت سے) نجات دیجئے تو ہم نے (ان کی دعا قبول کی اور) ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے ان کو نجات دی پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کردیا اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، بیشک آپ کا رب زبردست (اور) مہربان ہے (کہ باوجود عذاب پر قادر ہونے کے ان کو مہلت دیئے ہوئے ہے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١ ٠٥ۚۖ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٥) حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اور ان پیغمبروں کو جن کا حضرت نوح (علیہ السلام) نے ذکر کیا جھٹلایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب آگے انباء الرسل کا تذکرہ پھر اسی زمانی ترتیب سے ہو رہا ہے جس ترتیب سے پہلے سورة الاعراف اور سورة ہود میں ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں ہر رکوع کے آخر میں دو آیات ترجیعی کلمات کے طور پر بار بار دہرائی جائیں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :74 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 59 تا 64 ۔ یونس ، آیات 71 تا 73 ۔ ہود ، آیات 25 تا 48 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 3 ۔ الانبیاء ، آیات 76 ۔ 77 ۔ المؤمنون ، آیات 23 تا 30 ۔ الفرقان ، آیت 37 ۔ اس کے علاوہ قصہ نوح علیہ السلام کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : العنکبوت آیات 14 ۔ 15 ۔ الصّٰفّٰت ، 75 تا 82 ۔ القمر ، 9 ۔ 15 ۔ سورہ نوح مکمل ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :75 اگرچہ انہوں نے ایک ہی رسول کو جھٹلایا تھا ، لیکن چونکہ رسول کی تکذیب درحقیقت اس دعوت اور پیغام کی تکذیب ہے جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ، اس لیے جو شخص یا گروہ کسی ایک رسول کا بھی انکار کر دے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام رسولوں کا منکر ہے ۔ یہ ایک بڑی اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ۔ حتّیٰ کہ وہ لوگ بھی کافر ٹھہرائے گئے ہیں جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں ، باقی تمام انبیاء کو مانتے ہوں ۔ اس لیے کہ جو شخص اصل پیغام رسالت کا ماننے والا ہے وہ تو لازماً ہر رسول کو مانے گا ۔ مگر جو شخص کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے رسولوں کو مانتا بھی ہے تو کسی عصبیت یا تقلید آبائی کی بنا پر مانتا ہے ، نفس پیغام رسالت کو نہیں مانتا ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہی حق ایک پیش کرے تو یہ اسے مان لے اور وہی دوسرا پیش کرے تو یہ اس کا انکار کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani