Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1061بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ : ” اَخُوْهُمْ “ کے لفظ سے ان کے ساتھ نوح (علیہ السلام) کا نسبی تعلق واضح کیا ہے اور اس خیر خواہی کی طرف اشارہ ہے جو نوح (علیہ السلام) کو اس قوم کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول بشر ہی ہوتے ہیں اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے، کیونکہ انسانوں کے لیے نمونہ انسان ہی بن سکتا ہے، فرشتہ یا کوئی اور نہیں، مگر اس وقت کفار نے بشر ہونے کی وجہ سے انھیں نبی نہیں مانا اور اب کئی جاہل ایسے ہیں جو نبی مانتے ہیں مگر نبی ہونے کی وجہ سے بشر نہیں مانتے۔ عقیدہ دونوں کا ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا۔ قرآن نے جا بجا اس عقیدے کی تردید کی ہے۔ - دوسرے مقامات پر مذکور نوح (علیہ السلام) کے خطاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے : (يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) [ المؤمنون : ٢٣ ] ” اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی بھی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟ “ اور فرمایا : (اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُ وَاَطِيْعُوْنِ ) [ نوح : ٣ ] ” کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ “ دعوت کے آغاز میں خوف دلانے میں حکمت یہ ہے کہ جب تک کسی شخص یا قوم کو اس کے غلط رویے کے برے انجام کا خطرہ محسوس نہ کرایا جائے وہ صحیح بات پر توجہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے قریبی رشتہ داروں کو جمع کرکے صفا پر کھڑے ہو کر یہی کہا تھا : ( فَإِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( و أنذر عشیرتک الأقربین۔۔ ) : ٤٧٧٠ ] ” میں تمہیں ایک بہت سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ١ ٠٦ ۚ- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٦ تا ١٠٨) جب کہ ان سے ان کے نبی اور ان کے برادری کے بھائی حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم غیر اللہ کی عبادت سے نہیں ڈرتے ہو اللہ کی طرف سے رسالت پر تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں یا یہ مطلب ہے کہ میں تمہارے اندر اس سے پہلے امانت دار تھا پھر آج کیسے مجھے متہم قرار دیتے ہو لہذا تم لوگ کفر سے توبہ کرکے اور ایمان لا کر اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے حکم اور میرے طریقہ کی پیروی کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :76 دوسرے مقامات پر حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے ابتدائی خطاب ان الفاظ میں آیا ہے : اُعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ( المؤمنون آیت 23 ) اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ، تو کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ اُعْبُدُوا االلہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ہ ( نوح آیت 3 ) ۔ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ اس لیے یہاں حضرت نوح علیہ السلام کے اس ارشاد کا مطلب محض خوف نہیں بلکہ اللہ کا خوف ہے ۔ یعنی کیا تم اللہ سے بے خوف ہو گئے ؟ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے تم کچھ نہیں سوچتے کہ اس باغیانہ روش کا انجام کیا ہو گا ؟ دعوت کے آغاز میں خوف دلانے کی حکمت یہ ہے کہ جب تک کسی شخص یا گروہ کو اس کے غلط رویے کی بد انجامی کا خطرہ نہ محسوس کرایا جائے ، وہ صحیح بات اور اس کے دلائل کی طرف توجہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ راہ راست کی تلاش آدمی کے دل میں پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس کو یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ کہیں میں کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں جا رہا ہوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani