10 9 1میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو عطا فرمائے گا۔
[٧٤] دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ میں بالکل مخلص اور بےغرض ہو کر تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ نہ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد ہے اور نہ ہی تم سے کسی معاوضہ کا، اجرت کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں جو بات کہتا ہوں بالکل بےلوث ہو کر اور تمہاری بھلائی کی خاطر کہتا ہوں۔ پھر بھی تم میرے درپے آزار بنے ہوئے ہو۔ اس معاملہ میں بھی تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اور ایسے بےغرض اور بےلوگ آدمی کی بات مان لینا چاہئے۔
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ : اپنی رسالت کے ثبوت کے لیے دوسری چیز یہ پیش فرمائی کہ دین داری اور روحانیت کے دعوے داروں کا مقصود عموماً اپنی گدی جمانا، مال و زر جمع کرنا اور سرداری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خانقاہوں اور راہبوں کی کٹیاؤں کے تقدس کے پیچھے عموماً بدترین ہوس زر ہی چھپی ہوتی ہے، مگر مجھے اللہ کا پیغام پہنچانے میں نہ تم سے کسی مزدوری یا دنیاوی منفعت کی خواہش ہے نہ تم سے اس کا کوئی مطالبہ۔ ایسے بےغرض خیر خواہ کی بھی بات نہ مانو تو تم سے بڑا بدنصیب کون ہوگا۔ اس بات کا نوح (علیہ السلام) نے خاص طور پر اس لیے بھی ذکر کیا کہ ان کی قوم نے ان پر بہتان باندھا تھا کہ وہ رسالت کے ذریعے سے اپنی قوم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، سورة مؤمنون میں ہے : (مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ) [ المؤمنون : ٢٤ ] ” یہ نہیں ہے مگر تمہارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے۔ “ نوح (علیہ السلام) کی طرح ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی بھی اس کی شاہد عدل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے پیچھے نہ کوئی دینار چھوڑا، نہ درہم اور نہ کوئی اور چیز، جو کچھ تھا صدقہ کردیا۔ اللہ کے پیغمبر ایسے ہی بےلوث ہوتے ہیں اور وہ اس کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔- اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : اس میں قیامت کے عقیدے کی دعوت بھی ہے کہ میری تگ و دو اور محنت کی اجرت صرف اور صرف رب العالمین کے ذمے ہے اور ظاہر ہے کہ وہ قیامت کے دن ہی پوری پوری ملے گی۔
معارف و مسائل - طاعات پر اجرت لینے کا حکم :- وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ پر اجرت لینا درست نہیں ہے اس لئے سلف صالحین نے اجرت لینے کو حرام کہا ہے لیکن متاخرین نے اس کو بحالت مجبوری جائز قرار دیا ہے۔ اس کی پوری تفصیل آیت وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا کے تحت میں بیان ہوچکی ہے۔- فائدہ :- اس جگہ فاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ کی آیت دو دفعہ تاکید کے لئے اور یہ بتلانے کے لئے لائی گئی ہے کہ اطاعت رسول اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے لئے صرف رسول کی امانت و دیانت یا صرف تبلیغ وتعلیم پر اجرت نہ طلب کرنا ہی کافی تھا لیکن جس رسول میں یہ سب صفتیں پائی جائیں اس کی اطاعت اور اس کے خدا سے ڈرنا تو اور لازمی ہوجاتا ہے۔
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ ٠ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٠ ٩ۚ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(١٠٩۔ ١١٠) اور میں توحید کی تبلیغ پر تم سے کوئی دنیوی صلہ بھی نہیں مانگتا، میرا صلہ تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے لہذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات مانو۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :79 یہ اپنی صداقت پر حضرت نوح کی دوسری دلیل ہے ۔ پہلی دلیل یہ تھی کہ دعوائے نبوت سے پہلے میری ساری زندگی تمہارے درمیان گزری ہے اور آج تک تم مجھے ایک امین آدمی کی حیثیت سے جانتے رہے ہو ۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، تم کسی ایسے ذاتی فائدے کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس کام سے مجھے حاصل ہو رہا ہو یا جس کے حصول کی میں کوشش کر رہا ہوں ۔ اس بے غرضانہ طریقہ سے کسی ذاتی نفع کے بغیر جب میں اس دعوت حق کے کام میں شب و روز اپنی جان کھپا رہا ہوں ، اپنے اوقات اور اپنی محنتیں صرف کر رہا ہوں اور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا رہا ہوں ، تو تمہیں باور کرنا چاہیے کہ میں اس کام میں مخلص ہوں ، ایمانداری کے ساتھ جس چیز کو حق جانتا ہوں اور جس کی پیروی میں خلق خدا کی فلاح دیکھتا ہوں وہی پیش کر رہا ہوں ، کوئی نفسانی جذبہ اس کا محرک نہیں ہے کہ اس کی خاطر میں جھوٹ گھڑ کر لوگوں کو دھوکا دوں ۔ یہ دونوں دلیلیں ان اہم دلائل میں سے ہیں جو قرآن مجید نے بار بار انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی ہیں اور جن کو وہ نبوت کے پرکھنے کی کسوٹی قرار دیتا ہے ۔ نبوت سے پہلے جو شخص ایک معاشرے میں برسوں زندگی بسر کر چکا ہو اور لوگوں نے ہمیشہ ہر معاملہ میں اسے سچا اور راستباز آدمی پایا ہو ، اس کے متعلق کوئی غیر متعصب آدمی مشکل ہی سے یہ شک کر سکتا ہے کہ وہ یکایک خدا کے نام سے اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر اتر آئے گا کہ اسے نبی نہ بنایا گیا ہو اور وہ کہے کہ خدا نے مجھے نبی بنایا ہے ۔ پھر دوسری اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ ایسا سفید جھوٹ کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ تو نہیں گھڑا کرتا ۔ لا محالہ کوئی نفسانی غرض ہی اس فریب کاری کی محرک ہوتی ہے ۔ اور جب کوئی شخص اپنی اغراض کے لیے اس طرح کی فریب کاری کرتا ہے تو اخفا کی تمام کوششوں کے باوجود اس کے آثار نمایاں ہو کر رہتے ہیں ۔ اسے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں جن کے گھناؤنے پہلو گرد و پیش کے معاشرے میں چھپائے نہیں چھپ سکتے ۔ اور مزید برآں وہ اپنی پیری کی دکان چمکا کر کچھ نہ کچھ اپنا بھلا کرتا نظر آتا ہے ۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں ، لنگر جاری ہوتے ہیں ، جائدادیں بنتی ہیں ، زیور گھڑے جاتے ہیں ، اور فقیری کا آستانہ دیکھتے دیکھتے شاہی دربار بنتا چلا جاتا ہے ۔ لیکن جہاں اس کے بر عکس نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کی ذاتی زندگی ایسے فضائل اخلاق سے لبریز نظر آئے کہ اس میں کہیں ڈھونڈے سے بھی کسی فریب کارانہ ہتھکنڈے کا نشان نہ مل سکے ، اور اس کام سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا تو در کنار ، وہ اپنا سب کچھ اسی خدمت بے مزد کی نذر کر دے ، وہاں جھوٹ کا شبہ کرنا کسی معقول انسان کے لیے ممکن نہیں رہتا ۔ کوئی شخص جو عقل بھی رکھتا ہو اور بے انصاف بھی نہ ہو ، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آخر ایک اچھا بھلا آدمی ، جو اطمینان کی زندگی بسر کر رہا تھا ، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے جبکہ اسے کوئی فائدہ اس جھوٹ سے نہ ہو ، بلکہ وہ الٹا اپنا مال ، اپنا وقت اور اپنی ساری قوتیں اور محنتیں اس کام میں کھپا رہا ہو اور بدلے میں دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہا ہو ۔ ذاتی مفاد کی قربانی آدمی کے مخلص ہونے کی سب سے زیادہ نمایاں دلیل ہوتی ہے ۔ یہ قربانی کرتے جس کو سالوں بیت جائیں اسے بد نیت یا خود غرض سمجھنا خود اس شخص کی اپنی بد نیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المؤمنون ، حاشیہ 70 ) ۔