11 0 1یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ : یہ آیت دوبارہ آئی ہے، اس کے تکرار میں حکمت یہ ہے کہ پہلی آیت میں رسول امین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اس کو جھٹلانے پر اللہ سے ڈرایا ہے اور اس آیت میں اس رسول کو جھٹلانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرایا ہے جو پیغامِ الٰہی پہنچانے میں کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا۔ فرمایا، ایسے بےلوث خیر خواہ کو جھٹلاتے ہوئے اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت کرو۔
فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ ١ ١٠ۭ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :80 اس فقرے کی تکرار بے وجہ نہیں ہے ۔ پہلے یہ ایک اور مناسبت سے فرمایا گیا تھا اور یہاں ایک دوسری مناسبت سے اس کو دہرایا گیا ہے ۔ اوپر اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ سے فَاتَّقُوا اللہَ کے فقرے کی مناسبت یہ تھی کہ جو شخص اللہ کی طرف سے ایک امانت دار رسول ہے ، جس کی صفت امانت سے تم لوگ خود بھی واقف ہو ، اسے جھٹلاتے ہوئے خدا سے ڈرو ۔ اور یہاں مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ سے اس فقرے کی مناسبت یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی ذاتی فائدے کے بغیر محض اصلاح خلق کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ کام کر رہا ہے اس کی نیت پر حملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو ۔ اس بات کو اتنا زور دے کر بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ قوم کے سردار حضرت نوح کی مخلصانہ دعوت حق میں کیڑے ڈالنے کے لیے ان پر یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ شخص دراصل یہ ساری دوڑ دھوپ اپنی بڑائی کے لیے کر رہا ہے : یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ( المؤمنون ، آیت 24 ) ۔ یہ چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت حاصل کرے ۔