Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہدایت طبقاتی عصبیت سے پاک ہے قوم نوح نے اللہ کے رسول کو جواب دیا کہ چند سفلے اور چھوٹے لوگوں نے تیری بات مانی ہے ۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ان رذیلوں کا ساتھ دیں اور تیری مان لیں ۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسول نے جواب دیا یہ میرا فرض نہیں کہ کوئی حق قبول کرنے کو آئے تو میں اس سے اس کی قوم اور پیشہ دریافت کرتا پھروں ۔ اندرونی حالات پر اطلاع رکھنا ، حساب لینا اللہ کا کام ہے ۔ افسوس تمہیں اتنی سمجھ بھی نہیں ۔ تمہاری اس چاہت کو پورا کرنا میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں ان مسکینوں سے اپنی محفل خالی کرالوں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے ایک آگاہ کردینے والا ہوں ۔ جو بھی مانے وہ میرا اور جو نہ مانے وہ خود ذمہ دار ۔ شریف ہو یا رذیل ہو امیر ہو یا غریب ہو جو میری مانے میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1111الارذلون، ارذل کی جمع ہے، جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جنہیں عموماً چودھری، اشراف یا شیوخ کہا جاتا ہے اور قرآن ان کا ذکر ملا اور مترفین کے الفاظ سے کرتا ہے۔ اور یہ لوگ انبیاء کی مخالفت محض اس لئے کرتے ہیں کہ انھیں نبی پر ایمان لانے کی صورت میں مطاع کے بجائے مطیع بننا پڑتا ہے۔ لہذا ابتداء میں نبیوں پر ایمان وہی لوگ لاتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور جنہیں یہ اشراف عموماً حقیر اور کمینہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ دوسری یہ بات کہ یہ اشراف اس بات میں اپنی ہتک اور توہین سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لا کر خود بھی اس حقیر اور کمینہ قسم کے لوگوں میں شامل ہو کر ان میں برابر کی سطح پر آجائیں۔ یعنی دوسری یہ چیز بھی ان کے ایمان لانے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ چونکہ قریش مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے لہذا اس سوال و جواب میں بھی گویا انہی کا ذکر ہے۔ بلکہ ان کا تو رسول اللہ سے یہ مطالبہ بھی ہوتا تھا کہ اس قسم کے لوگوں کو اگر آپ اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کی باتیں سننے کو تیار ہیں۔ ) تفصیل کے لئے سورة انعام کی آیت نمبر ٥٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے (

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ ۔۔ : ” الْاَرْذَلُوْنَ “ ” أَرْذَلُ “ (اسم تفضیل) کی جمع سالم ہے، سب سے کمتر، نیچ، ذلیل، جن کے پاس جاہ و مال نہ ہو، غریب، محتاج۔ ان میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بات کہنے والے نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سردار تھے۔ دیکھیے سورة ہود (٢٧) اس سے معلوم ہوا کہ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے بھی ایسے ہی لوگ تھے۔ حدیث ہرقل میں ہے کہ اس نے ابوسفیان سے سوال کیا : ( فَأَشْرَاف النَّاسِ یَتَّبِعُوْنَہُ أَمْ ضُعَفَاءُھُمْ ؟ ) ” اونچے لوگ اس کی پیروی اختیار کر رہے ہیں یا کمزور لوگ ؟ “ ابوسفیان نے جواب دیا : ” کمزور لوگ۔ “ تو ہرقل نے کہا : ” رسولوں کی پیروی کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔ “ [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي۔۔ : ٧ ] کیونکہ مال و جاہ والے لوگوں کو ایمان قبول کرنے میں ان کا مال و جاہ، اپنی عزت اور رتبے کا احساس اور دنیوی مفاد رکاوٹ بن جاتے ہیں، کیونکہ ایمان لانے کی صورت میں انھیں حکم منوانے کے بجائے حکم ماننا پڑتا ہے، جب کہ کمزور لوگ ان رکاوٹوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس مکالمے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی تسلی ہے، کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ بھی اللہ کے فضل کا مستحق مال داروں ہی کو سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے مکہ یا طائف کے کسی مال دار سردار کو نبوت ملنی چاہیے تھی، سورة زخرف میں ہے : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ) [ الزخرف : ٣١ ] ” اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟ “ واضح رہے کہ مومن کو رذیل یا ذلیل سمجھنا یا کہنا جائز نہیں، بلکہ ہر مومن کے متعلق یہی خیال رکھنا چاہیے کہ ہوسکتا ہے یہ مجھ سے بہتر ہو، جیسا کہ فرمایا : ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ ) [ الحجرات : ١١ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

شرافت و رذالت اعمال و اخلاق سے ہے نہ کہ خاندان اور جاہ و چشم سے :- قَالُـوْٓا اَنُؤ ْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ ، قَالَ وَمَا عِلْمِىْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، اس آیت میں اول مشرکین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ کے ماننے والے سارے رذیل لوگ ہیں ہم عزت دار شریف ان میں کیسے مل جائیں ؟ نوح (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ مجھے ان کے اعمال کا حال معلوم نہیں۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ تم لوگ جو خاندانی شرافت یا مال و دولت اور عزت و جاہ کو شرافت کی بنیاد سمجھتے ہو یہ غلط ہے بلکہ مدار عزت و ذلت یا شرافت و رذالت کا دراصل اعمال و اخلاق پر ہے۔ تم نے جن پر یہ حکم لگا دیا کہ یہ سب رذیل ہیں، یہ تمہاری جہالت ہے چونکہ ہم ہر شخص کے اعمال و اخلاق کی حقیقت سے واقف نہیں، اس لئے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کہ حقیقۃً کون رذیل ہے کون شریف۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝ ١١ ١ۭ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - رذل - الرَّذْلُ والرُّذَالُ : المرغوب عنه لرداء ته، قال تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] ، وقال : إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] ،- ( رذل ) الرذل والرذال - وہ چیز جس سے اس کے روی ہونے کی وجہ سے بےرغبتی کی جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] اور تم میں سے ایسے بھی ہیں جو بدترین حالت کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] مگر جو ہم میں رذاے ہیں اور پرو ہو بھی گئے ہیں تو لے سوچے سمجھے ) سر سری نظر سے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١١) وہ کہنے لگے اے نوح (علیہ السلام) کیا ہم تمہاری تصدیق کریں گے، حالانکہ رذیل اور کمزور آدمی تمہارے ساتھ ہوئے ہیں ان کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم تم پر ایمان لے آئیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ ) ” - حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سردار اور اشراف آپ ( علیہ السلام) کی دعوت حق کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم آپ کو کیسے مان لیں جبکہ آپ کی پیروی اختیار کرنے والے تو ہمارے کمیّ کمین ہیں ‘ ہمارے معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لوگ ہیں جنہیں حقیر اور رذیل سمجھا جاتا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :81 یہ لوگ جنہوں نے حضرت نوح کو دعوت حق کا یہ جواب دیا ، ان کی قوم کے سردار ، شیوخ اور اشراف تھے ، جیسا کہ دوسرے مقام پر اسی قصے کے سلسلے میں بیان ہوا ہے : فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَراً مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ ، وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ( ہود ، آیت 27 ) ۔ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہمیں تو تم اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتے کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے ، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ان لوگوں نے بے سمجھے بوجھے اختیار کر لی ہے جو ہمارے ہاں کے اراذل ہیں ، اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور لوگ ، یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی ۔ رہے اونچے طبقہ کے با اثر اور خوش حال لوگ ، تو وہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور وہی اپنی قوم کے عوام کو طرح طرح کے فریب دے دے کر اپنے پیچھے لگائے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں جو دلائل وہ حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف پیش کرتے تھے ان میں سے ایک استدلال یہ تھا کہ اگر نوح کی دعوت میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے امراء علماء ، مذہبی پیشوا ، معززین اور سمجھ دار لوگ اسے قبول کرتے ۔ لیکن ان میں سے تو کوئی بھی اس شخص پر ایمان نہیں لایا ہے ۔ اس کے پیچھے لگے ہیں ادنیٰ طبقوں کے چند نادان لوگ جو کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔ اب کیا ہم جیسے بلند پایہ لوگ ان بے شعور اور کمین لوگوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں ؟ بعینہ یہی بات قریش کے کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے پیرو یا تو غلام اور غریب لوگ ہیں یا چند نادان لڑکے ، قوم کے اکابر اور معززین میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے ۔ ابوسفیان نے ہرقل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ : تَبِعَہ مِنا الضعفآء والمَسَاکین ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہمارے غریب اور کمزور لوگوں نے قبول کی ہے ) گویا ان لوگوں کا طرز فکر یہ تھا کہ حق صرف وہ ہے جسے قوم کے بڑے لوگ حق مانیں کیونکہ وہی عقل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ، رہے چھوٹے لوگ ، تو ان کا چھوٹا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بے عقل اور ضعیف الرائے ہیں ، اس لیے ان کا کسی بات کو مان لینا اور بڑے لوگوں کا رد کر دینا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک بے وزن بات ہے ۔ بلکہ کفار مکہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لاتے تھے کہ پیغمبر بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا ، خدا کو اگر واقعی کوئی پیغمبر بھیجنا منظور ہوتا تو کسی بڑے رئیس کو بناتا ، وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ( الزخرف ، آیت 3 ) وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہمارے دونوں شہروں ( مکہ اور طائف ) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani