وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ : یعنی اتنے بڑے کام کے لیے جاتے ہوئے مجھے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔- وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ : یعنی میں پوری روانی سے تقریر نہیں کرسکتا۔ - فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ : تاکہ ان سے مجھے تقویت اور پشت پناہی حاصل ہو اور یوں بھی وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٣١۔ قصص : ٣٤) موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کا تعاون حاصل کرنے کے لیے درخواست کی نہ کہ رسالت سے سبکدوشی کے لیے۔ (شوکانی)
معارف و مسائل - اطاعت کے لئے معاون اسباب کی طلب بہانہ جوئی نہیں :- قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ ، وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ ، وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ، ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کسی حکم کے بجا لانے میں کچھ ایسی چیزوں کی درخواست کرنا جو تعمیل حکم میں مددگار ثابت ہوں کوئی بہانہ جوئی نہیں بلکہ جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی پاکر اس کی بجا آوری کو سہل اور مفید کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال سے درخواست کی۔ لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی کو بلا توقف بسر و چشم قبول کیوں نہ کیا ؟ اور توقف کیوں فرمایا ؟ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ تعمیل حکم ہی کے سلسلہ میں کیا۔
قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ ١٢ۭ- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(١٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میری رسالت کو جھٹلا دیں گے۔