Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہود علیہ السلام اور ان کی قوم حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا ۔ احقاف ملک یمن میں حضرموت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ سورۃ اعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی ۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا ۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہریں اور چشمے جابجادئیے ۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور آسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا ۔ یہ انہی میں سے تھے نبی نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا ۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعوت دی جیسے کہ نوح علیہ السلام نے دی تھی ۔ اپنا بےلاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا ۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر وریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لئے بلند وبالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام نے روکا کیونکہ اس میں بیکار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور ۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھے جس کے بارے میں ان کے نبی نے نصیحت کی کہ کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہوگے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلادی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بےسود ہے ۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو ۔ ایک قرأت میں کانکم خالدون ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضروت سے زیادہ شروع کردی تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو لوگ سب جمع ہوگئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کردیا جسے تم کھا نہیں سکتے ۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کردئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کردیں جو پوری ہونی محال ہیں ۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہوگئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑگئیں ۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ ہے کوئی ایسا بےوقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے انکے مال ومکانات کا بیان فرما کر ان کی قوت وطاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش ، بتکبر اور سخت لوگ تھے ۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے ۔ مثلا چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بےسود رہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1231عاد، ان کے جد اعلٰی کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑگیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے کَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٢] قوم نوح کے بعد جس قوم نے دنیا میں نامور اور سربلندی حاصل کی وہ یہی قوم عاد تپی جسے عاد اولیٰ بھی کہتے ہیں۔ یہ قوم اللہ تعالیٰ کی ہستی کی تو قائل تھی مگر شرک میں بری طرح مبتلا تھی۔ ان کا اصل وطن احقاف تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ اس قوم کا زمانہ عروج اڑھائی ہزارسال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد چاروں انبیاء ( علیہ السلام) کے قصوں میں خاص طور پر تقویٰ اور اطاعت کے حکم اور تبلیغ رسالت پر کسی قسم کے بدلے کی نفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی اطاعت کا حکم دینا ہے اور یہ کہ انبیاء ( علیہ السلام) دنیاوی طمع سے پاک ہوتے ہیں۔- 3 اس قصے کی اور نوح (علیہ السلام) کے قصے کی ابتدائی آیات ایک جیسی ہیں، اس لیے ان کی تفسیر دہرانے کی ضرورت نہیں۔ تقابل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٦٥ تا ٧٢) اور ہود (٥٠ تا ٦٠) مزید تفصیلات ان مقامات پر بھی ہیں، سورة حٰم السجدہ (١٣ تا ١٦) ، احقاف (٢١ تا ٢٦) ، ذاریات (٤١ تا ٤٥) ، قمر (١٨ تا ٢٢) اور سورة فجر (٦ تا ٨) قوم عاد کا مسکن حضر موت کے قریب اس جگہ تھا جسے اب ” الربع الخالی “ کہا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٦٥) ۔- اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ ۔۔ : ہود (علیہ السلام) کی تقریر سمجھنے کے لیے اس قوم کے متعلق وہ بنیادی معلومات نگاہ میں رہنا ضروری ہیں جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مذکور ہیں۔ ان کے مطابق قوم نوح کی تباہی کے بعد اس قوم کو عروج عطا ہوا۔ (اعراف : ٦٩) جسمانی لحاظ سے یہ لوگ بڑے تنو مند اور زور آور تھے۔ (اعراف : ٦٩۔ حاقہ : ٧) اس قوم جیسی کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی۔ (فجر : ٨) وہ نہایت ترقی یافتہ تھے، اونچے اونچے ستونوں والی بلند و بالا عمارتیں بنانے کی وجہ سے ان کی شہرت ہی ” ستونوں والے “ کے نام سے تھی۔ (فجر : ٦، ٧) مادی ترقی اور جسمانی قوت کی وجہ سے وہ سخت متکبر تھے اور کسی کو اپنے سے طاقتور نہیں مانتے تھے۔ (حٰم السجدہ : ١٥) ان کا سیاسی نظام بڑے بڑے سرکش جباروں کے ہاتھ میں تھا۔ (ہود : ٥٩) مذہبی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے منکر نہیں تھے بلکہ مشرک تھے، ایک اللہ کو معبود ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ (اعراف : ٧٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کی (برادری کے) بھائی ہود (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم (خدا سے) ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو، اور میری اطاعت کرو، اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی صلہ نہیں مانگتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے، کیا تم (علاوہ شرک کے تکبر و تفاخر میں بھی اس درجہ مصروف ہو کہ) ہر اونچے مقام پر ایک یادگار (کے طور پر عمارت) بناتے ہو (تاکہ خوب اونچی نظر آوے) جس کو محض فضول (بلاضرورت) بناتے ہو اور (اس کے علاوہ جو رہنے کے مکان ہیں جن کی ایک درجہ ضرورت بھی ہے ان میں بھی یہ غلو ہے) کہ بڑے بڑے محل بناتے ہو (حالانکہ اس سے کم میں آرام مل سکتا ہے) جیسے دنیا میں تم کو ہمیشہ رہنا ہے (یعنی توسیع مکانات اور ایسے بلند محل اور ایسی مضبوطی اور ایسی یادگار تعمیرات اس وقت مناسب تھیں جبکہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہوتا، تو یہ خیال ہوتا کہ فراخ مکان بناؤ تاکہ آئندہ نسل میں تنگی نہ ہو کیونکہ ہم بھی رہیں گے اور وہ بھی رہیں گے اور بلند بھی بناؤ تاکہ نیچے جگہ نہ رہے تو ادھر رہنے لگیں گے اور مضبوط بناؤ تاکہ ہماری عمر طویل کے لئے کافی ہو اور یادگاریں بناؤ تاکہ ہمارے زندہ رہنے سے ہمارا ذکر زندہ رہے اور اب تو سب فضول ہے۔ بڑی بڑی یادگاریں بنی ہیں اور بنانے والے کا نام تک نہیں۔ موت نے سب کا نام مٹا دیا کسی کا جلدی اور کسی کا دیر میں) اور (اس تکبر کے سبب طبیعت میں سختی اور بےرحمی اس درجہ رکھتے ہو کہ) جب کسی پر داروگیر کرنے لگتے ہو تو بالکل جابر (اور ظالم) بن کر داروگیر کرتے ہو (ان برے اخلاق کا اس لئے بیان کیا گیا کہ یہ برے اخلاق اکثر ایمان اور اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں) سو (چونکہ شرک اور گزشتہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناخوشی اور عذاب کا سبب ہیں اس لئے) تم (کو چاہئے کہ) اللہ سے ڈرو اور (چونکہ میں رسول ہوں اس لئے) میری اطاعت کرو اور اس (اللہ) سے ڈرو (یعنی جس سے ڈرنے کو میں کہتا ہوں وہ ایسا ہے) جس نے تمہاری ان چیزوں سے امداد کی جن کو تم جانتے ہو (یعنی) چوپائے اور بیٹوں اور باغوں اور چشموں سے تمہاری امداد کی (تو منعم ہونے کا مقتضا یہ ہے کہ اس کے احکام کی بالکل مخالفت نہ کی جاوے) مجھ کو تمہارے حق میں (اگر تم ان حرکات سے باز نہ آئے) ایک بڑے سخت دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (یہ ترہیب ہے اور اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ الخ میں ترغیب تھی) وہ لوگ بولے کہ ہمارے نزدیک تو دونوں باتیں برابر ہیں خواہ تم نصیحت کرو اور خواہ ناصح نہ بنو (یعنی ہم دونوں حالتوں میں اپنے کردار سے باز نہ آویں گے اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو) یہ تو بس اگلے لوگوں کی ایک (معمولی) عادت (ہے اور رسم) ہے (کہ ہر زمانہ میں لوگ مدعی نبوت ہو کر لوگوں کو یوں ہی کہتے سنتے رہے) اور (تم جو ہم کو عذاب سے ڈراتے ہو تو) ہم کو ہرگز عذاب نہ ہوگا غرض ان لوگوں نے ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو (سخت آندھی کے عذاب سے) ہلاک کردیا، بیشک اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے (کہ احکام کی مخالفت کا کیا انجام ہوا) اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب زبردست (اور مہربان ہے (کہ عذاب دینے پر قادر بھی ہے اور رحمت سے مہلت بھی دے رکھی ہے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٢٣ۚۖ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٣۔ ١٢٤) قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور تمام ان پیغمبروں کو جن کا ہود (علیہ السلام) نے ذکر کیا جھٹلایا جب کہ ان کے نبی نے فرمایا کیا تم غیر اللہ کی پرستش سے نہیں ڈرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :88 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 65 تا 72 ۔ ہود ، 50 تا 60 ۔ مزید براں اس قصے کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی نگاہ میں رہیں : حٰم السجدہ آیات 13 ۔ 16 ۔ الاحقاف ، 21 ۔ 26 الذاریات ، 41 ۔ 45 ۔ القمر 18 ۔ 22 ۔ الحاقہ 4 ۔ 8 ۔ الفجر 6 ۔ 8 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani