Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1241ہود (علیہ السلام) کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انھیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء ورسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بیخبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولا ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ١٢٤ۚ- هود - الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة .- قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- ( ھ و د ) الھود - کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :89 حضرت ہود کی اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کے متعلق وہ معلومات ہماری نگاہ میں رہیں جو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ہمیں بہم پہنچائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ : قومِ نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہ تھی : وَاذْکُرُوْآ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ۔ ( الاعراف ۔ آیت 69 ) یاد کرو ( اللہ کے اس فضل و انعام کو کہ ) نوح کی قوم کے بعد اس نے تم کو خلیفہ بنایا ۔ جسمانی حیثیت سے یہ بڑے تنو مند اور زور آور لوگ تھے : وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً ( الاعراف ، آیت 69 ) اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا ۔ اپنے دور میں یہ بے نظیر قوم تھی ۔ کوئی دوسری قوم اس کی ٹکر کی نہ تھی: اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ( الفجر ، آیت 8 ) جس کے مانند ملکوں میں کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی ۔ اس کا تمدن بڑا شاندار تھا ، اونچے اونچے ستونوں کی بلند و بالا عمارتیں بنانا اس کی وہ خصوصیت تھی جس کے لیے وہ اس وقت کی دنیا میں مشہور تھی : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ( الفجر ، آیات 6 ۔ 7 ) تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ؟ اس مادی ترقی اور جسمانی زور آوری نے ان کو سخت متکبر بنا دیا تھا اور انہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا: فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ ۃً ۔ ( حٰم السجدہ ۔ آیت 15 ) رہے عاد ، تو انہوں نے زمین میں حق کی راہ سے ہٹ کر تکبر کی روش اختیار کی اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور ۔ ان کا سیاسی نظام چند بڑے بڑے جباروں کے ہاتھ میں تھا جن کے آگے کوئی دم نہ مار سکتا تھا : وَاتَّبَعُوْآ اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ( ہود ۔ آیت 59 ) اور انہوں نے ہر جبار دشمن حق کے حکم کی پیروی کی ۔ مذہبی حیثیت سے یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے ، بلکہ شرک میں مبتلا تھے ۔ ان کو اس بات سے انکار تھا کہ بندگی صرف اللہ کی ہونی چاہیے : قَالُوْآ اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤْنَا ۔ ( الاعراف آیت 70 ) انہوں نے ( ہود سے ) کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ ان خصوصیات کو نظر میں رکھنے سے حضرت ہود علیہ السلام کی یہ تقریر دعوت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani