Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1491فَارِھِیْنَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخرو غرور کا اظہار بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ، حضرت ابن عباس سے فارھین کی تفسیر بطرین منقول ہے یعنی اترانے اور تکبر کرنے والے، لیکن ابوصالح نے فرمایا اور یہی امام راغب نے تفسیر کی ہے کہ فارھین کے معنی حاذقین ہے یعنی ماہرین کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ نعمت فرمائی کہ تم کو ایسی صنعت کاری سکھلا دی کہ پہاڑوں کو مکانات بنانا تمہارے لئے آسان کردیا۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد کرو اور زمین پر فساد نہ کرو۔ - مفید پیشے خدائی انعامات ہیں بشرطیکہ ان کو برے کاموں میں استمال نہ کریں :- اس آیت سے ثابت ہوا کہ عمدہ پیشے اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں اور ان سے نفع اٹھانا جائز ہے لیکن اگر ان سے کوئی گناہ یا حرام فعل یا بلا ضرورت ان میں انہماک لازم آتا ہو تو پھر وہ پیشہ اختیار کرنا ناجائز ہے جیسے کہ ابھی اس سے پہلی آیتوں میں بلا ضرورت عمارت کی بلندی کی مذمت گزری ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِہِيْنَ۝ ١٤٩ۚ- نحت - نَحَتَ الخَشَبَ والحَجَرَ ونحوهما من الأجسام الصَّلْبَة . قال تعالی: وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] والنُّحَاتَةُ : ما يسقط من المَنْحُوتِ ، والنَّحِيتَة : الطّبيعة التي نُحِتَ عليها الإنسان کما أنّ الغریزة ما غُرِزَ عليها الإنسانُ- ( ن ح ت )- نحت ( ض ) کے معنی لکڑی پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] اور تکلیف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ نحاتۃ تراشہ ۔ وہ ریزے جو کاٹنے سے گریں اور انسانی فطرت کو اس لحاظ سے کہ انسان کی ساخت اس کے مطابق بنائی گئی ہے نحیتہ کہا جاتا ہے اور اس لحاظ سئ کہ وہ انسان کے اندر پیوست کی گئی ہے غریزہ کہلاتی ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - فره - الفَرِهُ : الأَشِرُ ، وناقة مُفْرِهٌ ومُفْرِهَةٌ: تنتج الفُرَّهَ وقوله : وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ- [ الشعراء 149] ، أي : حاذقین، وجمعه فُرَّهٌ ، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، وقرئ : فَرِهِينَ في معناه . وقیل : معناهما أشرین .- ( ف ر ہ ) الفرہ ( صفت مشبہ اترانے والا اور ناقۃ مفرھۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو چست اور پھر تیلے بچے دے اس اسم فاعل فارۃ ہے ) قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] اور تکلف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ میں فارھین کے معنی حاذقین ( یعنی ماہرا اور ہنر مند گے ہیں اور فرۃ کی جمع فرۃ کی جمع فرۃ ہے یہ انسان اور دیگر حیوانات کے لئے استعال ہوتا ہے ایک قرات میں فرھین ہے جو فارھین کے ہم معنی ہے اور بعض نے ( دونوں ) کے معنی اشرین ( اترانے والے ) بھی کئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٩۔ ١٥٠) اور کیا تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے ہوئے اور فخر کرتے ہوئے مکانات بناتے ہو سو اللہ سے ڈرو جن باتوں کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے اس میں اور میرا کہنا مانو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :99 جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت ، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے ۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد ( ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ، وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْراً ۔ ( الاعراف ۔ آیت 74 ) ۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی ، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا ، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی ۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے ۔ دوسری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں ۔ ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے ۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں ۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء ( جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا ) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے ۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں ۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے ۔ آبادی برائے نام ہے ۔ روئیدگی بہت کم ہے ۔ چند کنوئیں ہیں ۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی ۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے ( اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے ) ۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گئے ہیں ۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے ( ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں ) ۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30 ۔ 40 ۔ میل اندر تک ملتے چلے گئے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر ، اور اردن کی ریاست میں پٹرا ( ) کے مقام پر بھی ملیں ۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے ( ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں ) ۔ انگریز مستشرق ڈاٹی ( ) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ ، نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں ۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے ۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا ، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا ، اور پھر ایلورہ میں ( جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani